(594) ظلمات کا ترجمہ
ظلمات جمع ہے، اس کا واحد ظلمۃ ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی ظلمات کا واحد نہیں آیا ہے۔ اسی طرح قرآن میں نور ہمیشہ واحد آیا ہے، اس کی جمع نہیں آئی ہے۔ ترجمے میں بھی اس کا لحاظ عام طور سے رکھا گیا ہے۔ البتہ کہیں کہیں کچھ لوگوں سے تساہل بھی ہوگیا ہے۔ بعض مثالیں ملاحظہ ہوں:
(۱) وَتَرَکَہُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لَا یُبْصِرُونَ۔ (البقرۃ: 17)
’’اور ان کوایسی تاریکی میں چھوڑدیا جس میں ان کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا ترجمہ میں تاریکی کی جگہ تاریکیوں ہونا چاہیے۔ ’ایسی‘ کا بھی یہ محل نہیں ہے۔ صرف ’تاریکیوں‘ کہیں گے۔
درج ذیل ترجموں میں بھی کچھ کسر رہ گئی ہے:
’’اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا‘‘۔ (سید مودودی)
تاریکیوں میں چھوڑا نہ کہ اس حال میں کہ تاریکیوں میں نظر نہ آئے۔
’’ اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا، جو نہیں دیکھتے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
یہاں ’جو‘ کا محل نہیں ہے۔
’’اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
یہاں ’اب‘ کا محل نہیں ہے۔
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(۲) أَوْ کَصَیِّبٍ مِنَ السَّمَائِ فِیہِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ۔ (البقرۃ: 19)
’’یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’ان کی دوسری مثال آسمان کی اس بارش کی ہے جس میں تاریکی اور گرج چمک سب کچھ ہو‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’یا ایسی ہے جیسے آسمان سے بارش ہورہی ہو۔ اس میں تاریکی ہو، کڑک اور چمک ہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجموں میں تاریکی واحد آیا ہے، جمع آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ رعد کا صحیح ترجمہ کڑک نہیں بلکہ گرج ہے۔ درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’یا جیسے آسمان سے اترتا پانی کہ ان میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک‘‘۔ (احمد رضا خان)
(۳) اللَّہُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُمْ مِنَ النُّورِ إِلَی الظُّلُمَاتِ۔ (البقرۃ: 257)
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست خدا ہے کہ اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
اس ترجمے میں ظلمات کی رعایت سے اندھیرے کے بجائے اندھیروں ہونا چاہیے تھا۔
(۴) یَہْدِی بِہِ اللَّہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلَامِ وَیُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ۔ (المائدۃ: 16)
’’جس سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھیرے میں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
اس ترجمے میں ظلمات کی رعایت سے اندھیرے کے بجائے اندھیروں ہونا چاہیے تھا۔
(۵) وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ۔ (الانعام: 1)
’’اور اندھیرا اوراجالا بنایا‘‘۔ (احمد علی)
’’اور اندھیرا اور روشنی بنائی‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ غلطی یہاں بھی ہے۔
(۶) أَمْ ہَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ۔ (الرعد: 16)
’’ یا کہیں اندھیرا اور روشنی برابر ہو سکتے ہیں‘‘۔ (احمد علی)
’’یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’یا نورو ظلمت برابر ہوسکتے ہیں‘‘۔ (ذیشان جوادی)
مذکورہ غلطی یہاں بھی ہے۔
(۷) فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ۔ (الانبیاء: 87)
’’آخر اندھیرے میں (خدا کو) پکارنے لگے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ غلطی یہاں بھی ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمے میں دوسری غلطی ہے۔ وہ یہ کہ تاریکیوں میں آواز دی نہ کہ تاریکیوں میں جاکر آواز دی۔
’’اور پھر تاریکیوں میں جاکر آواز دی‘‘۔ (ذیشان جوادی)
(595) الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا ترجمہ
بر کا اطلاق خشکی پر ہوتا ہے، جس میں جنگل صحرا میدان سب شامل ہیں۔ اسی طرح بحر تری کو کہتے ہیں جس میں سمندر دریا سب شامل ہیں۔ خاص طور سے جب بحر اور بر ایک دوسرے کے مقابلے میں بولے جاتے ہیں تو خشکی اور تری ہی مراد ہوتے ہیں۔ درج ذیل آیتوں میں بحر اور بر کا ترجمہ خشکی اور تری ہونا چاہیے۔
درج ذیل آیت میں سبھی لوگوں نے بحر اور بر کا ترجمہ خشکی اور تری کیا ہے:
(۱) ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (الروم: 41)
’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
البتہ درج ذیل آیتوں کے تحت بر کا ترجمہ کسی نے جنگل کیا ہے تو کسی نے صحرا، اسی طرح بحر کا ترجمہ کسی نے سمندر تو کسی نے دریا۔ لیکن ان تمام ہی آیتوں میں بحر اور بر سے خشکی اور تری مراد ہیں:
(۲) قُلْ مَنْ یُنَجِّیکُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (الانعام: 63)
’’تم فرماؤ وہ کون ہے جو تمہیں نجات دیتا ہے جنگل اور دریا کی آفتوں سے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’کہہ دو تمہیں جنگل اور دریا کے اندھیروں سے کون بچا تا ہے‘‘۔ (احمد علی)
’’اے محمدؐ! ا ن سے پوچھو، صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟‘‘۔ (سید مودودی)
’’کہو بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے کون مخلصی دیتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’ان سے پوچھو: خشکی اورتری کی تاریکیوں سے تم کو کون نجات دیتا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۳) وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النُّجُومَ لِتَہْتَدُوا بِہَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (الاانعام: 97)
’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں میں ان سے رستے معلوم کرو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کو پیدا کیا، تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں، خشکی میں اور دریا میں بھی راستہ معلوم کرسکو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تارے بنائے کہ ان سے راہ پاؤ خشکی اور تری کے اندھیروں میں‘‘۔ (احمد رضا خان)
(۴) أَمَّنْ یَہْدِیکُمْ فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (النمل: 63)
’’اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’بھلا کون ہے جو تمہیں جنگل اور دریا کے اندھیروں میں راستہ بتاتاہے‘‘۔ (احمد علی)
’’بھلا کون تم کو جنگل اور دریا کے اندھیروں میں رستہ بناتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(۵) وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا۔ (المائدۃ: 96)
’’اور جنگل (کی چیزوں) کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں رہو تم پر حرام ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور تم پر جنگل کا شکار کرنا حرام کیا گیا ہے‘‘۔ (احمد علی)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے، ظاہر ہے کہ جنگل ہو یا صحرا، ہر طرح کا شکار منع ہے۔
’’البتہ خشکی کا شکار جب تک احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
(۶) وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (الانعام: 59)
’’اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے وہ سب جانتا ہے‘‘۔ (احمد علی)
’’اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اور وہ اسے بھی جانتا ہے جو خشکی میں ہے اور اسے بھی جانتا ہے جو تری میں ہے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
(۷) ہُوَ الَّذِی یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (یونس: 22)
’’وہ وہی ہے جو تمہیں جنگل اور دریا میں سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے‘‘۔ (احمد علی)
’’وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’وہ اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’وہی ہے کہ تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
(۸) وَحَمَلْنَاہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (الاسرائ: 70)
’’اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دی‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
(596) یَأْتِ بِکُمُ کا ترجمہ
أَیْنَ مَا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ اللَّہُ جَمِیعًا۔ (البقرۃ: 148)
أتی بہ کا معنی لے آنا ہے۔ جمیعًا کا مطلب سب کو۔ یعنی سب کو ۔
’’جہاں کہیں ہوگے تم لے آوے گا تم کو اللہ سب کو‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’تم خواہ کہیں ہوگے لیکن اللہ تعالی تم سب کو حاضر کردیں گے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
مذکورہ بالا ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں۔
’’جہاں کہیں بھی تم ہوگے، اللہ تمہیں لے آئے گا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، جمیعًا کا معنی چھوٹ گیا)
’’تو کہیں ہو اللہ تم سب کو اکٹھا لے آئے گا‘‘۔ (احمد رضا خان، یہاں اکٹھا فاضل ہے)
’’اور تم سب جہاں بھی رہوگے خدا ایک دن سب کو جمع کردے گا‘‘۔ (ذیشان جوادی، جمع کرنا نہیں بلکہ لے آنا)
’’تم جہاں رہو گے خدا تم سب کو جمع کرلے گا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری، جمع کرنا نہیں بلکہ لے آنا)
’’جہاں کہیں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو جمع کرے گا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، جمع کرنا نہیں بلکہ لے آنا)
’’جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پا لے گا‘‘۔ (سید مودودی، پالینا نہیں بلکہ لے آنا)
(597) یَرْغَبُ عَنْ کا ترجمہ
رغب عن الشیء کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز سے بے رغبت اور بے زار ہونا۔ جس طرح رغب فی الشیء کا مطلب کسی چیز میں رغبت رکھنا ہوتا ہے۔
بے زاری الگ چیز ہے اور اعراض، روگردانی اور نفرت اس سے مختلف چیز ہے۔
اسی طرح سَفِہَ نَفْسَہُ ایک محاورہ ہے۔ جب کوئی نری حماقت میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے سَفِہَ حِلْمَہ ورأْیَہ ونَفْسَہ کہتے ہیں۔
درج ذیل آیت کے کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ إِبْرَاہِیمَ إِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ۔ (البقرۃ: 130)
’’اب کون ہے، جو ابراہیمؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور ابراہیم کے دین سے کون منھ پھیرے سوا اس کے جو دل کا احمق ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے، بجز اس کے جو نہایت نادان ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور کون ہے جو ابراہیم (ع) کی ملت (و مذہب) سے روگردانی کرے سوا اس کے جو اپنے کو احمق بنائے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اور کون ہے جو ملت ابراہیم سے اعراض کرسکے، مگر وہی جو اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کرے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے میں رغب عن اور سَفِہَ نَفْسَہُ دونوں کی رعایت کی گئی ہے:
’’دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بے وقوف ہو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’اور کون ہے جو ابراہیم کے راستے سے بے زار ہو، مگر وہی جو بالکل ہی حماقت میں مبتلا ہو‘‘۔