اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۹)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۰) ولد اور ابن میں فرق کی رعایت

عربی زبان میں جب ولدکا لفظ آتا ہے تو اس میں بیٹا اور بیٹی دونوں اور ان کی اولاد شامل ہوتے ہیں، یہ مفرد کے لیے بھی آتا ہے اور جمع کے لیے بھی۔ جبکہ ابن کے مفہوم میں صرف نرینہ اولاد یعنی بیٹا ہوتا ہے، علامہ ابوھلال عسکری (چوتھی صدی ہجری) اپنی شہرہ آفاق کتاب الفروق اللغویۃ میں لکھتے ہیں: یقال الابن للذکر والولد للذکر والأنثی۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جہاں ولد استعمال ہوا ہے وہاں اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے اولاد ترجمہ کرنا چاہیے، اور جہاں ابن یا ابن کی جمع بنین یا أبناء استعمال کی گئی ہے، وہاں بیٹا اور بیٹے ترجمہ کرنا چاہیے، دونوں الفاظ یعنی ولد اور ابن کے استعمال کے مواقع پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ولد استعمال ہوا ہے وہاں مفہوم کے لحاظ سے بھی مطلق اولاد ہی کا محل ہے خواہ وہ نرینہ ہو یا نہ ہو، اور جہاں ابن یا بنین استعمال ہوا ہے وہاں مفہوم بھی نرینہ اولاد کے خصوصی تذکرے کا تقاضا کررہا ہے۔ مگر اکثر مترجمین قرآن سے اس فرق کی رعایت ہر جگہ نہیں ہوسکی، ذیل کی مثالوں سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے:

ولد کا ترجمہ

(۱) قَالَتْ رَبِّ أَنَّی یَکُونُ لِیْ وَلَدٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ۔ (آل عمران: ۴۷)

’’وہ بولی کہ اے پروردگار میرے کس طرح لڑکا ہوگا جبکہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’بولی اے رب کہاں سے ہوگا مجکو لڑکا اور نہ مجہکو ہاتھ لگایا کسی آدمی نے ‘‘(شاہ عبد القادر)

اس آیت میں ولد آیا ہے، اس کا ترجمہ لڑکا کرنے کے بجائے اولاد کرنا چاہیے۔ یہاں بشارت ابن کی تھی، لیکن اظہار تعجب میں ولد کا ذکر ہے، کیونکہ مطلق اولاد ہونے پر تعجب ہوا قطع نظر کہ وہ لڑکا ہوگا یا لڑکی۔

(۲) إِنَّمَا اللّٰہُ إِلَہٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَہُ أَن یَکُونَ لَہُ وَلَدٌ۔ (النساء: ۱۷۱)

’’اللہ تو بس ایک خدا ہے۔ وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو‘‘ (سید مودودی)

’’سو ایک معبود ہے اس لائق نہیں کہ اس کے اولاد ہو‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’سوائے اس کے نہیں کہ اللہ معبود اکیلا ہے پاکی ہے اس کو کہ ہو واسطے اس کے اولاد‘‘ (شاہ رفیع الدین)

(۳) وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَخَرَقُوا لَہُ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ۔ بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنَّی یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْْءٍ وہُوَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ۔ (الانعام: ۱۰۰،۱۰۱)

’’اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرادیا، حالانکہ وہ ان کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کردیں، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں، وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘ (سید مودودی)

’’کہاں سے ہو اس کے بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’کیونکر ہو واسطے اس کے اولاد‘‘ (شاہ رفیع الدین)

دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ یہاں پہلی آیت میں صراحت ہے بنین وبنات کی، پھر دوسری آیت میں مشرکوں کی اسی بات کی تردید کرتے ہوئے ولد لفظ لایا گیا، جو عام ہے اور اس میں بنین اور بنات دونوں شا مل ہوتے ہیں۔ غرض ولد کا بیٹا ترجمہ کرنا درست نہیں ہوگا، اولاد ترجمہ کرنا درست ہے۔

(۴) مَا کَانَ لِلّٰہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَہُ۔ (مریم: ۳۵)

’’اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ذات ہے‘‘ (سید مودودی، مناسب ترجمہ ہوگا’’اللہ کے شایان شان نہیں ہے‘‘)

’’اللہ ایسا نہیں کہ رکھے کوئی اولاد وہ پاک ذات ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۵) مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِن وَلَدٍ (المؤمنون: ۹۱)

’’اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے‘‘ (سید مودودی)

’’اللہ نے کوئی بیٹا نہیں کیا‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۶) قُلْ إِن کَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِیْن۔ (الزخرف: ۸۱)

’’ان سے کہو اگر واقعی رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا‘‘ (سید مودودی) 

(۷) وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً سُبْحَانَہُ۔ (البقرۃ: ۱۱۶)

’’اور کہتے ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے، اس کی شان ان باتوں سے ارفع ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی، مناسب ترجمہ ہوگا’’نے اولاد بنارکھی ہے‘‘)

’’اور کہتے ہیں اللہ رکھتا ہے اولاد وہ سب سے نرالا ‘‘(شاہ عبدالقادر)

’’ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اللہ پاک ہے ان باتوں سے ‘‘(سید مودودی)

(۸) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً۔ (الاسراء:۱۱۱)

’’اور کہہ سرا ہے اللہ کو جس نے نہیں رکھی اولاد‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’اور کہو تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا‘‘ (سید مودودی)

(۹) وَیُنذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً۔ (الکہف:۴)

’’اور ان لوگوں کو ڈرادے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے‘‘ (سید مودودی، ’’ڈرادے کے‘‘ بجائے’’ خبردار کرے ‘‘مناسب ترجمہ ہوگا)

’’اور ڈر سنادے ان کو جو کہتے ہیں اللہ رکھتا ہے اولاد‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۱۰) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً۔ (مریم: ۸۸)

’’وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ‘‘(سید مودودی)

’’اور لوگ کہتے ہیں رحمن رکھتا ہے اولاد ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۱) أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَداً۔ (مریم: ۹۱)

’’کہ لوگوں نے رحمان کے لیے اولاد ہونے کا دعوی کیا ‘‘(سید مودودی)

(۱۲) وَمَا یَنبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَداً۔ (مریم:۹۲)

’’رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے‘‘ (سید مودودی)

’’اور نہیں بن آتا رحمن کو کہ رکھے اولاد‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۳) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَداً سُبْحَانَہُ۔ (الانبیاء: ۲۶)

’’یہ کہتے ہیں رحمان اولاد رکھتا ہے، سبحان اللہ‘‘ (سید مودودی)

’’اور کہتے ہیں رحمن نے کرلیا کوئی بیٹا وہ اس لائق نہیں ‘‘(شاہ عبدالقادر)

’’اور کہا انہوں نے کہ پکڑی ہے رحمن نے اولاد پاک ہے وہ ‘‘(شاہ رفیع الدین)

(۱۴) وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً۔ (الفرقان: ۲)

’’جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘‘(سید مودودی)

’’اور نہ پکڑی اولاد ‘‘(شاہ رفیع الدین)

’’اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۱۵) لَوْ أَرَادَ اللّٰہُ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَداً لَّاصْطَفَی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ سُبْحَانَہُ۔ (الزمر: ۴)

’’اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا برگزیدہ کرلیتا، پاک ہے وہ اس سے ‘‘(سید مودودی)

’’اگر اللہ چاہتا کہ اولاد کرلے تو چن لیتا اپنی خلق میں جو چاہتا وہ پاک ہے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۶) وَأَنَّہُ تَعَالَی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَلَا وَلَداً۔ (الجن: ۳)

’’اور یہ کہ اونچی ہے شان ہمارے رب کی نہیں رکھی اس نے جورو نہ بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے، اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا‘‘ (سید مودودی)

’’اور یہ کہ بہت بلند ہے عزت پروردگار ہمارے کی، نہیں پکڑی اس نے بی بی اور نہ اولاد ‘‘(شاہ رفیع الدین)

مذکورہ بالا تمام آیتوں میں ولد کا ترجمہ لڑکا یا بیٹا کرنے کے بجائے اولاد کرنا درست ہے۔

بَنِیْنَ کا ترجمہ

(۱) وَجَعَلَ لَکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً۔ (النحل: ۷۲)

’’اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’ان نیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کئے‘‘(سید مودودی)

(۲) الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ (الکہف:۴۶)

’’مال وپسران آرائش زندگانی دنیا را‘‘ (شیخ سعدی)

’’مال وفرزندان آرائش زندگانی دنیا است‘‘ (شاہ ولی اللہ)

’’مال واولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں ‘‘(امین احسن اصلاحی)

’’مال واولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’مال واولاد حیات دنیا کی ایک رونق ہے‘‘ (اشرف علی تھانوی)

’’یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے‘‘(سید مودودی)

’’مال اور بیٹے رونق ہیں دنیا کے جیتے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۳) وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (الاسراء:۶)

’’اور تمہاری مال واولاد سے مدد کی ‘‘(امین احسن اصلاحی)

’’اور مال واولاد سے تمہاری مدد کی‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی ‘‘(سید مودودی)

’’اور زور دیا تم کو مالوں سے اور بیٹوں سے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۴) أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّہُم بِہِ مِن مَّالٍ وَبَنِیْنَ۔ (المؤمنون: ۵۵)

’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کے مال واولاد میں اضافہ کررہے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جو بھی ان کے مال واولاد بڑھارہے ہیں‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’کیا خیال رکھتے ہیں کہ یہ جو ہم ان کو دئے جاتے ہیں مال اور اولاد ‘‘(شاہ عبدالقادر)

’’کیا گمان کرتے ہیں یہ کہ جو کچھ مدد دیتے ہیں ہم ان کو ساتھ اس کے مال سے اور بیٹوں سے‘‘ (شاہ رفیع الدین)

(۵) أَمَدَّکُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِیْنَ۔ (الشعراء: ۱۳۳)

’’اس نے تمھاری مدد کی چوپایوں اور اولاد سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’اس نے تمہاری مدد کی مال اور اولاد سے ‘‘(محمد جونا گڑھی)

’’تمہیں جانور دئے، اولادیں دیں‘‘ (سید مودودی)

’’پہنچائے تم کو چوپائے اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

یہاں ایک بات اور واضح رہے کہ مذکورہ بالا کچھ آیتوں میں امداد کی تعبیر استعمال ہوئی ہے، اس کا صحیح ترجمہ عطا کرنا ہے، نہ کہ مدد کرنا یا اضافہ کرنا۔اس موضوع پر تفصیلی گفتگو اس لفظ کے تحت ہوئی ہے۔

(۶) أَن کَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (القلم: ۱۴)

’’یہ کردار اس وجہ سے ہوا کہ وہ مال واولاد والا ہے ‘‘(امین احسن اصلاحی، ’’یہ کردار اس وجہ سے ہوا‘‘ کے بجائے مناسب ترجمہ ہوگا ’’اس وجہ سے کہ‘‘ یعنی یہ علت ہے اس رویہ کی جس کا ذکر آگے آرہا ہے نہ کہ اس کردار کی جس کا ذکر پہلے ہوا )

’’اس بنا پر کہ وہ بہت مال واولاد رکھتا ہے ‘‘(سید مودودی)

’’اس سے کہ رکھتا ہے مال اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۷) وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (نوح: ۱۲)

’’اور مال واولاد سے تمہیں فروغ بخشے گا ‘‘(امین احسن اصلاحی، مناسب ترجمہ ہوگا: ’’اور مال اور بیٹوں سے تمہیں نوازے گا‘‘)

’’تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ‘‘(سید مودودی)

’’اور تمہیں خوب پے در پے مال اور اولاد میں برکت دے گا‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’اور بڑھنے دے گا تم کو مال اور بیٹوں سے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۸) وَبَنِیْنَ شُہُوداً۔ (المدثر: ۱۳)

’’اور بیٹے حاضر ہونے والے‘‘ (شاہ رفیع الدین)

’’اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دئے‘‘ (سید مودودی)

(۹) زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ۔ (آل عمران: ۱۴)

’’لوگوں کے لئے مرغوبات نفس عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنادی گئی ہیں ‘‘(سید مودودی)

’’رجھایا ہے لوگوں کو مزوں کی محبت پر عورتیں اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

مذکورہ بالا تمام آیتوں میں بنین کا ترجمہ اولاد کرنے کے بجائے بیٹے کرنا درست ہے۔

غور کرنے کی بات ہے کہ وہ بہت سی آیتیں جن میں لفظ ولد آیا ہے، دراصل وہاں قرآن مجید نے کافروں کے اس جھوٹے دعوے کی تردید کی ہے ، جو وہ کیا کرتے تھے کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد اختیار کی ہے، یہاں اصل مسئلہ اولاد اختیار کرنے کا ہے، خواہ وہ نرینہ اولاد ہو یا غیر نرینہ اولاد ہو۔ ویسے بھی منسوب کرنے والوں نے اللہ کی طرف دونوں طرح کی اولاد کو منسوب کیا، چنانچہ اللہ کی طرف سے تردیدکے لیے وہ لفظ اختیار کیا گیا جس سے بیک وقت دونوں باتوں کی تردید ہوجائے۔اس کی بہت واضح مثال اوپر مذکور سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۰۰ اور ۱۰۱ ہیں، جہاں پہلے بنین اور بنات کے الفاظ آئے اور پھر انہیں ولد کہہ کر ایک لفظ میں بیان کردیا۔

دوسری طرف تنہا بنین کا لفظ زیادہ تر اس پس منظر میں آیا ہے کہ لوگ نرینہ اولاد کو باعث قوت اور سامان شان وشوکت سمجھتے ہیں، اور اس پر اتراتے ہیں جبکہ یہ سب اللہ کی نوازش ہے۔ غرض جس سیاق میں بنین کا لفظ آیا ہے، وہ سیاق اسی خاص لفظ کا مقتضی ہے۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ایسے بیشتر مقامات پر بنین کا لفظ مال یا اس کے ہم معنی لفظ کے ساتھ آیا ہے۔

اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ ترجمہ میں اس فرق کی رعایت بہت ضروری ہے جس فرق کا اہتمام خود قرآن مجید میں بہت خاص طریقے سے کیا گیا ہے۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(اپریل ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter