(۱۱۴) مِلَّۃَ إِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفاً کا ترجمہ
قرآن مجید میں حنیفا کا لفظ دس بار آیا ہے، اس کے علاوہ حنیف کی جمع حنفاء کا بھی دو مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ پانچ مقامات پر مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً آیا ہے، ان پانچوں مقامات پر ترجمہ کرتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ حنیفا اگر نحوی ترکیب کے لحاظ سے حال ہے تو اس کا ذوالحال کیا ہے، یعنی وہ کس کا حال ہے؟، کیونکہ اس کی وجہ سے ترجمہ مختلف ہوسکتا ہے۔ ہم پہلے ان مقامات کے مختلف ترجمے پیش کریں گے، اور اس کے بعد ان ترجموں کے متعلق اپنا جائزہ پیش کریں گے۔
(۱) وَقَالُواْ کُونُواْ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تَہْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ إِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (البقرۃ: ۱۳۵)
’’یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے عیسائی کہتے ہیں: عیسائی ہو، تو ہدایت ملے گی اِن سے کہو: ’’نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیمؑ کا طریقہ اور ابراہیمؑ مشرکو ں میں سے نہ تھا‘‘۔ (سید مودودی)
’’یہ (یہودی و نصرانی ) لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہودی ہوجاؤ یا نصرانی ہوجاؤ تم بھی راہ پر پڑ جاؤ گے، آپ کہہ دیجئے کہ ہم تو ملت ابراہیمی (یعنی اسلام) پر رہیں گے جس میں کجی کا نام نہیں اور ابراہیم علیہ السلام مشرک بھی نہ تھے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’اور کتابی بولے یہودی یا نصرانی ہوجاؤ راہ پاؤگے تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیمؑ کا دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں سے نہ تھے 150 (احمد رضا خان)
اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو، (نہیں) بلکہ (ہم) دین ابراہیم (اختیار کیے ہوئے ہیں) جو ایک خدا کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے‘‘(جوناگڑھی)
(۲) قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُواْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (آل عمران: ۹۵)
’’کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے، تم کو یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے، اور ابراہیمؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا‘‘(سید مودودی)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ کہہ دیا سو تم ملت ابراہیم کا اتباع کرو جس میں ذرا کجی نہیں اور وہ مشرک نہ تھے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’کہہ دو کہ خدا نے سچ فرمادیا پس دین ابراہیم کی پیروی کرو جو سب سے بے تعلق ہو کر ایک (خدا) کے ہو رہے تھے اور مشرکوں سے نہ تھے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
(۳) وَمَنْ أَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ للہ وَہُوَ مُحْسِنٌ واتَّبَعَ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَاتَّخَذَ اللّٰہُ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً۔ (النساء : ۱۲۵)
’’اُس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اُس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا‘‘(سید مودودی)
’’اور اس شخص سے زیادہ اچھا کس کا دین ہوگا جو کہ اپنا رخ اللہ کی طرف جھکادے اور وہ مخلص بھی ہو۔ اور وہ ملت ابراہیم کا اتباع کرے جس میں کجی کا نام نہیں، اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنا خاص دوست بنایا تھا‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’باعتبار دین کے اس سے اچھا کون ہے؟ جو اپنے کو اللہ کے تابع کر دے اور ہو بھی نیکو کار، ساتھ ہی یکسوئی والے ابراہیم کے دین کی پیروی کر رہا ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنا لیا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
(۴) قُلْ إِنَّنِیْ ہَدَانِیْ رَبِّیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْناً قِیَماً مِّلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (الانعام: ۱۶۱)
’’اے محمدؐ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘ (سید مودودی)
’’آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا رستہ بتلادیا ہے کہ وہ ایک دین ہے مستحکم طریقہ ہے ابراہیم کا جس میں ذرا کجی نہیں اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے‘‘(اشرف علی تھانوی)
(۵) ثُمَّ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (النحل: ۱۲۳)
’’پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘(سید مودودی)
’’پھر ہم نے تمہیں وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ہر باطل سے الگ تھا اور مشرک نہ تھا‘‘(احمد رضا خان)
’’پھر ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم کے طریقہ پر جو کہ بالکل ایک طرف کے ہورہے تھے چلئے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے‘‘(اشرف علی تھانوی)
(۶) مَا کَانَ إِبْرَاہِیْمُ یَہُودِیّاً وَلاَ نَصْرَانِیّاً وَلَکِن کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (آل عمران: ۶۷)
’’ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘(سید مودودی)
(۷) إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (الانعام: ۷۹)
’’میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘(سید مودودی)
(۸) وَأَنْ أَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً وَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (یونس: ۱۰۵)
’’اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تو یکسو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اِس دین پر قائم کر دے، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو‘‘(سید مودودی)
’’اور یہ کہ اپنے آپ کو اس دین (مذکور توحید خالص) کی طرف اس طرح متوجہ رکھنا کہ اور سب طریقوں سے علیحدہ ہوجاؤ‘‘(اشرف علی تھانوی)
(۹) إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتاً لِلّٰہِ حَنِیْفاً وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (النحل: ۱۲۰)
’’واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو وہ کبھی مشرک نہ تھا‘‘(سید مودودی)
(۱۰) فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً ۔ (الروم: ۳۰)
’’پس (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروؤں) یک سو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جما دو‘‘(سید مودودی)
’’سو تم یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف رکھو‘‘(اشرف علی تھانوی)
(۱۱) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ۔ (البینۃ:۵)
’’اور اُن کو اِس کے سوا کوئی علم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر‘‘(سید مودودی)
مذکورہ بالا آیتوں اور ان کے مختلف ترجموں کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں اور خاص طور سے جب ہم مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً کے ترجموں پر غور کرتے ہیں، تو صورت حال کچھ اس طرح سامنے آتی ہے۔
عام طور سے مترجمین نے حنیفا کو ابراھیم سے حال مان کر ترجمہ کیا ہے، ’’ابراہیم جو یکسو تھا‘‘۔بہت کم اردو مترجمین نے کوئی دوسری راہ اختیار کی ہے۔ عام ترجمے سے ہٹ کر ترجمہ کرنے والے دو نام خاص طور سے سامنے آتے ہیں:
مولانا تھانوی نے حنیفا کو ملۃ کا حال بنایا ہے، ’’ابراہیم کا طریقہ جس میں کوئی کجی نہیں ہے‘‘۔
مولانا مودودی نے مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً کا ترجمہ کرتے ہوئے حنیفا کو نہ ملۃ کا حال بنایا ہے، اور نہ ابراھیم کا حال بنایا ہے، بلکہ اس سے پہلے مذکور ضمیر کا حال بناکر ترجمہ کیا ہے ’’یکسو ہو کر پیروی کرو ابراہیم کے طریقے کی‘‘۔
اس طرح گویا تین طرح کے مفہوم سامنے آتے ہیں، ابراہیم حنیف تھے، ابراہیم کا طریقہ حنیف تھا، اور ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرنے والے کو حنیف ہونا ہے۔
تینوں میں سے کون سا ترجمہ زیادہ بہتر ہے، اس پر گفتگو سے پہلے یہ اشارہ بھی مفید ہوگا کہ مولانا تھانوی نے مذکورہ پانچوں مقامات میں سے سورہ نحل والی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے عام مترجمین کی راہ اختیار کرلی۔ جبکہ مولانا مودودی نے پانچوں مقامات میں سے سورہ انعام والی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے عام مترجمین والا ترجمہ کردیا۔
مولانا تھانوی کے مطابق مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً میں حنیفا کو ملۃ کا حال بنانے سے ایک اشکال تو یہ سامنے آتا ہے کہ قرآن مجید میں ابراہیم کو تو صریح طور سے حنیف کہا گیا ہے، إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتاً لِلّٰہِ حَنِیْفاً، اسی طرح کہیں پر ان لوگوں کو بھی صریح طور سے حنفاء کہا گیا ہے جنہیں دین پر چلنے کی ہدایت دی گئی، وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ، لیکن کہیں دین کے لیے یا ابراہیم کے طریقے کے لیے صریح طور سے حنیف کی صفت کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ ایسی صورت میں قرآن کی تفسیر قرآن سے کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں احتمال پایا جاتا ہو وہاں اس صورت کو اختیار کیا جائے جس کی صریح اور قطعی نظیر قرآن مجید میں موجود ہو، یعنی زیر نظر مقامات پر حنیف کو ملۃ کے بجائے ابراہیم کی صفت قرار دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملۃ مونث ہے اور حنیفا مذکر ہے، اس لیے ملۃ اور ابراہیم یعنی مذکر اور مونث جب دونوں موجود ہوں، اور دونوں میں ذو الحال بننے کا احتمال پایا جاتا ہو وہاں پہلے درجے میں حنیفا کو مذکر یعنی ابراہیم کا حال بنانا چاہیے۔
مولانا مودودی کے ترجمہ کے مطابق پہلے مذکور ضمیر کو ذوالحال بنانے کی صورت میں ایک اشکال یہ سامنے آتا ہے کہ سورہ آل عمران والی آیت میں فاتبعوا آیا ہے، یعنی اس فعل میں فاعل ضمیر واحد نہیں بلکہ ضمیر جمع ہے، ایسی صورت میں اگر وہ ضمیر ذوالحال ہوتی تو حنیفا کی جگہ حنفاء ہوتا جیسا کہ قرآن مجید میں دوسرے دو مقامات پر جمع ذوالحال کے لیے حنفاء آیا ہے۔غالبا مولانا مودودی کا ذہن اس طرف نہیں جاسکا اور انہوں نے غلطی سے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فاتبعوا میں موجود جمع کی ضمیر کو حنیفا کا ذوالحال بنادیا۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ جمہور مترجمین نے حنیفا کو ابراھیم کا حال مانا ہے، یہی بات زیادہ مناسب ہے ، اس رائے کے حق میں قرآنی استعمالات کی ایک زبردست دلیل حنیفا کے بعد وما کان من المشرکین والا جملہ ہے، وہ اس طرح کہ اوپر مذکور دوسری جن آیتوں میں ابراہیم کا ذکر نہیں ہے اور حنیفا کا لفظ آیا ہے، وہاں حنیفا کے ذو الحال کی رعایت سے حنیفا کے بعد والا جملہ آیا ہے، جیسے ولا تکونن من المشرکین اور وما أنا من المشرکین۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں وما کان من المشرکین آیا ہے، وہاں حنیفا کا ذو الحال وہی ہے جس کی ضمیر وما کان کا اسم ہے، یعنی ابراہیم۔ غرض حنیفا کے بعد والے جملے میں جس کا ذکر ہے، اسی کو حنیفا کا ذوالحال ہونا چاہیے۔
مذکورہ بالا سورہ روم والی آیت میں زمخشری کا خیال ہے کہ حنیفا کو الدین کا حال بنایا جاسکتا ہے، لیکن اس کی تردید سورہ بینہ والی آیت سے ہوتی ہے جہاں حنفاء آیا ہے جو یقینی طور پر الدین کا حال نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مولانا تھانوی جو دوسرے مقامات پر حنیفا کو ملۃ کا حال بناتے ہیں، وہ بھی سورہ روم والی آیت میں حنیفا کو الدین کا حال نہیں بناتے، اس سے بھی اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفا والی آیتوں میں حنیفا کو ملۃ کا حال نہیں بلکہ ابراہیم کا حال ہونا چاہیے۔
غرض تمام قرآنی نظائر اور استعمالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جمہور مترجمین نے جو ترجمہ کیا ہے، وہی قرآنی استعمالات کے زیادہ موافق ہے۔
(جاری)