(۱۱۶) یولج کا ترجمہ
ایلاج کے معنی داخل کرنا ہوتا ہے، قرآن مجید میں رات اور دن کے حوالے سے یہ فعل پانچ آیتوں میں ذکر ہوا ہے۔ ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔
ان پانچ آیتوں میں سے ایک آیت کا ترجمہ صاحب تفہیم القرآن نے داخل کرنے کے بجائے نکالنا کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔
پہلی بات کہ یہ ترجمہ آیت کے الفاظ کے خلاف ہے، ایلاج کے معنی داخل کرنا ہے نکالنا نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس مفہوم کی تائید میں کوئی اور نظیر بھی نہیں ہے، قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں آیا ہے کہ اللہ دن سے رات کو اور رات سے دن کو نکالتا ہے۔ صرف ایک مقام پر آیا ہے: وَآیَۃ لَّہُمْ اللَّیْْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَإِذَا ہُم مُّظْلِمُونَ۔ (یس:۳۷) یہاں اندر سے نکالنے کی بات نہیں بلکہ سلخ یعنی رات کے اوپر سے دن کو کھینچ لینے کی بات ہے۔
تیسری ایک بات یہ بھی ہے کہ خود صاحب تفہیم نے باقی چار آیتوں کا ترجمہ دیگر مترجمین کی طرح داخل کرنا کیا ہے، جیسا کہ ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے، اس لیے بلا تردد کہا جاسکتا ہے کہ پانچ میں سے اس ایک مقام پر ان سے ترجمہ کرتے ہوئے سہو ہوگیا ہے۔
(۱) ذَلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ یُولِجُ اللَّیْْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْلِ وَأَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ۔ (الحج: ۶۱)
’’یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے‘‘ (سید مودودی)
’’یہ سبب اس کے ہے کہ اللہ داخل کرتا ہے رات کو بیچ دن کے اور داخل کرتا ہے دن کو بیچ رات کے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ رات کو ڈالتا ہے دن کے حصہ میں اور دن کو لاتا ہے رات کے حصہ میں‘‘ (احمد رضا خان)
’’یہ اس لیے کہ خدا رات کو دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
(۲) تُولِجُ اللَّیْْلَ فِی الْنَّہَارِ وَتُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْلِ۔ (آل عمران: ۲۷)
رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں (سید مودودی)
(۳) أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰہَ یُولِجُ اللَّیْْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْلِ۔ (لقمان:۲۹)
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں؟‘‘ (سید مودودی)
(۴) یُولِجُ اللَّیْْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْلِ۔ (فاطر: ۱۳)
’’وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے‘‘ (سید مودودی)
(۵) یُولِجُ اللَّیْْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْل۔ (الحدید:۶)
’’وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے‘‘(سید مودودی)
(۱۱۷) باء برائے تجرید
جس طرح حرف من تجرید کے لیے آتا ہے اسی طرح حرف باء بھی تجرید کے لیے آتا ہے، امام لغت ابن جنی نے اس کی مثال دی ہے، لقیت بہ الاسد، وجاورت بہ البحر۔ (الخصائص ۲؍۴۷۷)
قرآن مجید کے بعض مقامات پر اگر تجرید کا اسلوب سامنے رہے تو مفہوم بہت واضح ہوکر سامنے آتا ہے، اور اس میں کوئی اشکال نہیں رہ جاتا۔ ذیل میں دو آیتوں پر گفتگو کی جائے جہاں باء کو برائے تجرید ماننا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(۱) مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہِ سَامِراً تَہْجُرُونَ۔ (المومنون: ۶۷)
اس آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے کہ مستکبرین اور تھجرون کا جو فاعل ہے، وہی سامرا کا فاعل بھی ہے یعنی رسول کی باتوں کا انکار کرنے والے۔ ذیل کے ترجمے ملاحظہ ہوں:
’’اپنے گھمنڈ میں اُس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے اپنی چوپالوں میں اُس پر باتیں چھانٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے‘‘ (سید مودودی)
’’خدمت حرم پر بڑائی مارتے ہو رات کو وہاں بیہودہ کہانیاں بکتے‘‘ (احمد رضا خان)
’’ان سے سرکشی کرتے، کہانیوں میں مشغول ہوتے اور بیہودہ بکواس کرتے تھے‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’اکڑتے اینٹھتے افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے‘‘(محمد جوناگڑھی)
اس مفہوم کو مراد لینے پر ایک اشکال یہ سامنے آتا ہے کہ سامر واحد ہے، تو اس سے مراد جمع کیوں لیا جائے؟
مزید یہ کہ جب مستکبرین اور تھجرون جمع استعمال ہوئے ہیں تو درمیان میں سامرا واحد کیوں استعمال کیا گیا؟
مفسرین اس اشکال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان جوابوں میں تکلف پایا جاتا ہے۔
دوسرا اشکال یہ ہے کہ اگر سامر سے مراد منکرین رسول کو لیا جائے تو سامر کا مفہوم اس پورے سیاق میں کوئی خاص معنویت نہیں ادا کرتا۔ استکبار اور ھجر تو واضح طور پر مذموم رویے ہیں، اور منکرین سے ان کا تعلق بھی واضح ہے لیکن دونوں کے بیچ میں سمر یعنی قصہ گوئی کی مناسبت واضح نہیں ہوپاتی۔
اس کے علاوہ یہ مفہوم لینے کے بعد (بہ) میں ضمیر کا مرجع متعین کرنے میں بھی لوگوں کو دشواری پیش آتی ہے۔
اگر (بہ) میں باء کو تجرید کا مان لیں، اور ھاء ضمیر کو رسول کے لیے مان لیں جیسا کہ آگے کی آیتوں سے واضح ہوتا ہے، اور سامرا کو ھاء ضمیر سے حال مان لیں تو مفہوم بخوبی واضح ہوجاتا ہے اور تمام اشکالات دور ہوجاتے ہیں۔ اس توجیہ کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کا انکار کرنے والے گھمنڈ میں مبتلا ہیں، وہ رسول کی بات سننے کے بجائے یہ کہہ کر اس سے دور ہٹ جاتے ہیں کہ یہ تو محض قصہ گو اور بکواس کررہا ہے۔
آیت کا ترجمہ اس طرح ہوگا:
’’گھمنڈمیں اُس کو چھوڑ دیتے تھے، گویا وہ بکواس کررہا ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
’’گھمنڈ کرتے ہوئے گویا کسی افسانہ گو کو چھوڑ رہے ہو‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہ درست ہے،البتہ اس کی تفسیر میں بہ میں باء کو تجرید کا ماننے کے بجائے استہزاء کو محذوف مان کر باء کو اس سے متعلق مانا گیا ہے، ایک تو اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے، پھر لفظ تھجرون سے خود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ موقعہ مذاق اڑانے کا نہیں بلکہ اعراض کرنے کا ہے۔ مزید یہ کہ خود ترجمہ سے استہزاء کے مفہوم کا اظہار نہیں ہوتا ہے)
’’غرور میں آ کر اسے کہانی سمجھ کر چلے جایا کرتے تھے‘‘ (احمد علی، اس ترجمہ میں سامر کے لیے کہانی کا لفظ درست نہیں ہے، کہانی سنانے والے کے لیے سامر آتا ہے)
’’اس سے بڑائی کر کر ایک کہانی والے کو چھوڑ کر چلے گئے‘‘ (شاہ عبدالقادر، سامر کا ترجمہ درست ہے، البتہ بہ کو مستکبرین سے متعلق مانا ہے جو محل نظر ہے)
علامہ فراہی مفسرین کی معروف توجیہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ولا یخلو من تکلف۔ والأولی من کل ذلک أن یکون (سامرا) مفعولا ل(تھجرون)۔ أی نکوصکم عن استماع آیاتی مستکبرین کان علی حالۃ کأنکم تترکون بفعلکم ھذا سامرا لا تعبأون بقولہ۔ والآیۃ التالیۃ تبین ذلک۔ ویقرب من ھذا التأویل أن یکون (بہ) متعلقا ب(سامرا)۔ وفی جعل الضمیر مذکرا دلالۃ علی أنھم لم یظنوا أنھا آیات اللہ، وانما ظنوھا قولا من السامر. فھذان تأویلان متقاربان۔ واللہ أعلم. (التعلیقات)
مولاناامانت اللہ اصلاحی اس اہم گفتگو پر یہ قیمتی اضافہ کرتے ہیں کہ یہاں باء برائے تجرید ہے۔اور ھاء کا مرجع رسول ہے۔
(۲) الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ الرَّحْمٰنُ فَاسْأَلْ بِہِ خَبِیْراً۔ (الفرقان: ۵۹)
’’وہ بڑی مہر والا ہے، سو پوچھ اس سے جو اس کی خبر رکھتا ہو‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’وہ رحمان ہے پس اس کی شان باخبر سے پوچھو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’رحمن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو‘‘ (سید مودودی)
’’وہ بڑی مہر والا تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ‘‘ (احمد رضا خان)
اس آیت کے ترجمے کی یہ چند مثالیں ہیں، عام طور سے لوگوں نے اسی طرح ترجمہ کیا ہے، جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اللہ کے بارے میں اس سے پوچھو جو اللہ سے باخبر ہو۔
اس مفہوم میں ایک اشکال یہ ہے کہ اللہ کے بارے میں خبیر ہونے کا دعویٰ کون کرسکتا ہے، اور کس کے بارے میں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ سے باخبر ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خبیر کا لفظ آیا ہے اور ہر جگہ اللہ کے لیے آیا ہے، کسی اور کے لیے یہ لفظ نہیں آیا ہے۔
مزید ایک بات یہ ہے کہ سأل بہ کے معنی ’’اس کے بارے میں پوچھنا‘‘عام استعمالات کے مطابق نہیں ہے۔عام استعمال کے مطابق سأل کے ساتھ جب ب آتا ہے تو مطالبہ کرنے کے معنی میں ہوتا ہے ، پوچھنے کے معنی میں نہیں ہوتا ہے۔ اور جب عن آتا ہے تو پوچھنے کے معنی میں آتا ہے۔ اور اگر کوئی صلہ نہیں ہو تو مانگنے کے معنی میں ہوتا ہے۔
اگر باء کو برائے تجرید مان لیں تو یہ سارے اشکالات دور ہوجاتے ہیں، اور ترجمہ اس طرح ہوتا ہے:
’’تم مانگو، اسے باخبر پاؤ گے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
اس توجیہ کے مطابق خبیر اللہ کی صفت قرار پاتی ہے جس طرح قرآن مجید میں باقی تمام مقامات پر خبیر کی صفت اللہ کے لئے آئی ہے، اور فاسأل کامفہوم یہاں اللہ سے مانگنا ہے، جو ہر چیز سے باخبر ہے۔ بہ میں باء تجرید کے لئے ہے اور ھاء کی ضمیر کا مرجع اللہ ہے۔
اس آیت کی توجیہ میں اہل نحو کو جو دشواریوں پیش آئی ہیں اس کا اندازہ ابن ہشام کی درج ذیل عبارت سے ہوسکتا ہے:
وَتَأَول البصریون (فاسأل بِہِ خَبِیرا) علیَ أن البَاء للسَّبَبِیَّۃ وَزَعَمُوا أنَّھَا لَا تکون بِمَعنی عَن أصلا وَفیہ بعد لِأَنہُ لَا یَقتَضِی قَولک سأَلت بِسَبَبہ أَن المَجرُور ھُوَالمسؤول عَنہُ۔ (مغنی اللبیب،ص:۱۴۲)
کوفی نحاۃ کے نزدیک باء عن کے معنی میں ہے، جب کہ بصری نحاۃ اسے عن کے معنی میں لینا درست نہیں سمجھتے اور برائے سبب قرار دیتے ہیں۔ ابن ہشام ان کی رائے کو بھی غیر موزوں قرار دیتے ہیں، ایسی صورت میں ان بعض نحویوں کی بات زیادہ مضبوط لگتی ہے جو اسے تجرید کے لیے مانتے ہیں، الباقولی لکھتے ہیں:
(فَسْئَلْ بہِ خَبِیراً): أی اسأل اللہ خبیرا۔ (اعراب القرآن للباقولی)
(جاری)