اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۱)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(409) وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ

سورۃ الحجر کی درج ذیل آیتوں میں زَیَّنَّاہَا اور حَفِظْنَاہَا دونوں ہی میں مفعول بہ   ضمیر ’ھا‘ کی صورت میں ہے۔ نحوی لحاظ سے اس ضمیر کا مرجع السماء بھی ہوسکتا ہے اور بروجاً بھی۔ اول الذکر صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آسمان کو مزین کیا اور آسمان کو شیطانوں سے محفوظ کیا، جب کہ ثانی الذکر صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ برجوں کو مزین اور شیطانوں سے محفوظ کیا۔ سورۃ الصافات میں صراحت کردی گئی ہے کہ مزین و محفوظ آسمان کو کیا ہے:

إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِینَۃٍ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ۔ (الصافات:6-7)

سورۃ الملک میں بھی کہا گیا ہے:

 وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلْنَاہَا رُجُومًا لِلشَّیَاطِینِ۔ (الملک: 5)

غرض ان دونوں مقامات سے یہ متعین ہوجاتا ہے کہ درج ذیل آیتوں میں آسمان کے مزین و محفوظ ہونے کی بات کہی گئی ہے نہ کہ بروج کے۔ اس لیے  ضمیر ’ھا‘ کا مرجع السماء کو مان کر ترجمہ کرنا چاہیے۔ بعض لوگوں نے اس حوالے سے غلطی کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ۔ وَحَفِظْنَاہَا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ رَجِیمٍ۔ (الحجر: 16-17)

”اور ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اُس کو سجا دیا۔ اور ہر شیطان راندہئ درگاہ سے اُسے محفوظ کر دیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہ ترجمہ درست ہے، جب کہ درج ذیل دونوں ترجموں میں مذکورہ غلطی پائی جاتی ہے۔

”یہ ہماری کار فرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے، اُن کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کیا۔اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کے لیے ستاروں سے آراستہ کردیا۔ اور ہر شیطان رجیم سے محفوظ بنادیا“۔ (ذیشان جوادی)

درج ذیل انگریزی ترجمے دیکھیں۔ اس حوالے سے پہلے ترجمہ میں یہ غلطی موجود ہے جب کہ دوسرا صحیح ہے۔

It is We Who have set out the zodiacal signs in the heavens, and made them fair-seeming to (all) beholders;  And (moreover) We have guarded them from every cursed devil. (Yusuf Ali)
And verily in the heaven we have set mansions of the stars, and We have beautified it for beholders. And We have guarded it from every outcast devil. (Pickthall)

(410)  وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی

درج ذیل آیتوں میں من روحی میں من تبعیض کا نہیں بیان کا ہے۔ نفخ کا معنی ہی پھونکنا ہوتا ہے۔ من روحی یا  من روحنا یا من روحہ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز اللہ نے پھونکی ہے وہ اللہ کی روح ہے۔ روح میں سے پھونکنا یا روح میں سے کچھ پھونکنا مراد نہیں ہے بلکہ روح پھونکنا مراد ہے۔

(۱)  فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ۔ (الحجر: 29)

”تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو جب میں اس کو مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک لوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرپڑنا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا“۔ (سید مودودی)

آخری دونوں ترجموں میں مذکورہ خامی پائی جاتی ہے۔

(۲) وَالَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہَا مِنْ رُوحِنَا۔ (الانبیاء: 91)

”اور اس خاتون (کا ذکر کیجئے) جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی (خاص) روح پھونک دی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اس (پاک دامن بی بی) پر بھی اپنا فضل کیا جس نے اپنے اندیشہ کی جگہوں کی حفاظت کی۔ تو ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونکی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی ہم نے اُس کے اندر اپنی روح سے پھونکا“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمے میں مذکورہ خامی پائی جاتی ہے۔

(۳) وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہِ مِنْ رُوحِنَا۔ (التحریم: 12)

”اور عمران کی بیٹی مریمؑ کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی“۔ (سید مودودی)

”اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریمؑ کی جنہوں نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی“۔ (فتح محمد جالندھری)

اپنی طرف سے روح پھونکنے کے بجائے اپنی روح پھونکنا عبارت کے مطابق ترجمہ ہے۔

(۴)  ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُوحِہِ۔ (السجدۃ: 9)

”پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی“۔ (سید مودودی)

”پھر اسے ٹھیک کیا اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی“۔ (احمد رضا خان)

یہاں بھی اپنی طرف سے روح پھونکنے کے بجائے اپنی روح پھونکنا عبارت کے مطابق ترجمہ ہے۔

(۵) فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی۔ (ص: 72)

”تو جب میں اس کو درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک لوں“۔ (امین احسن اصلاحی، درست کردوں اور روح پھونک دوں درست عبارت ہے۔)

”پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں“۔ (احمد رضا خان)

”پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں“۔ (سید مودودی)

یہاں بھی اپنی طرف سے روح پھونکنے کے بجائے اپنی روح پھونکنا عبارت کے مطابق ترجمہ ہے۔

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اگر کسی مترجم نے ایک جگہ تبعیض والا ترجمہ کیا تو اسی نے دوسری جگہ بیانیہ والا ترجمہ کیا۔

(411)  أَبَی أَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ

درج ذیل آیتوں میں دو بار مع الساجدین آیا ہے۔ اس سے مراد سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونا اور ان میں شامل ہونا ہے۔ سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینا اس سے مختلف مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہاں مراد نہیں ہے۔ شامل ہونے میں سجدہ کرنے والا بن جانا مراد ہوتا ہے جب کہ ساتھ دینے میں یہ مراد ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔

فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّہُمْ أَجْمَعُونَ۔ إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَی أَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ۔ قَالَ یَاإِبْلِیسُ مَا لَکَ أَلَّا تَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ۔ (الحجر:30-32)

”تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے، سوا ابلیس کے، اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا۔ فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں سے الگ رہا؟“۔ (احمد رضا خان)

”چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کر لیا۔ مگر ابلیس کے۔ کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے (صاف) انکار کر دیا۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو فرشتے تو سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔ مگر شیطان کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا۔ (خدا نے فرمایا) کہ ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ رب نے پوچھا:”اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمے میں مذکورہ بالا کم زوری پائی جاتی ہے۔

(412)  من المنظرین

قرآن مجید میں شیطان کے واقعے میں جب اس کے مہلت مانگنے پر اللہ تعالی نے اسے مہلت دی، تو اس کے لیے إِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ کی تعبیر آئی ہے۔ عربی کے عام اسلوب کے لحاظ سے تو اس کا ترجمہ ہوگا: ”تو ان لوگوں میں سے ہے جنھیں مہلت دی گئی“۔ لیکن اس ترجمے سے یہ بات نکلتی ہے کہ اور بھی لوگوں کو مہلت دی گئی۔ قرآن میں اس کا ذکر کہیں نہیں ہے کہ کسی اورکو قیامت تک کے لیے مہلت دی گئی ہے۔ البتہ عربی کے ایک خاص اسلوب کا لحاظ کیا جائے تو اس کا ترجمہ ہوگا: ”تجھے مہلت دی گئی“، قرآن مجید میں اس اسلوب کی بہت مثالیں ہیں۔

درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ بتاتا ہے کہ مختلف مترجمین نے کبھی اس اسلوب کا لحاظ کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے۔

(۱) قَالَ إِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ۔ (الاعراف: 15)

”فرمایا: تو مہلت دے دیا گیا“۔ (امین احسن اصلاحی، اردو محاورے کے لحاظ سے درست جملہ ہوگا: ”تجھے مہلت دی گئی“)

”فرمایا تجھے مہلت ہے“۔ (احمد رضا خان)

”ارشاد ہوا کہ تو مہلت والوں میں سے ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”فرمایا: اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت دی گئی ہے“۔ (محمد حسین نجفی)

آخری دونوں ترجموں میں مذکورہ بالا کم زوری موجود ہے۔

(۲) قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ۔ إِلَی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ۔ (الحجر:37-38)

”فرمایا: اچھا، تجھے مہلت ہے اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے“۔ (سید مودودی)

”فرمایا کہ تجھے مہلت دی جاتی ہے۔ وقت مقرر (یعنی قیامت) کے دن تک“۔ (فتح محمد جالندھری)

”فرمایا تو ان میں سے ہے جن کو اس معلوم وقت کے دن تک مہلت ہے“۔ (احمد رضا خان)

”فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے، روز مقرر کے وقت تک کی“۔ (محمد جوناگڑھی، وقت مقرر کے روز کی جگہ غلطی سے روز مقرر کے وقت ہوگیا ہے۔ آگے سورہ ص کی اسی طرح کی آیت کا درست ترجمہ کیا ہے۔)

”فرمایا: اچھا! روز معین تک مہلت پانے والوں میں سے تو بھی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری تینوں ترجموں میں مذکورہ کم زوری موجود ہے۔

(۳) قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ۔ إِلَی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ۔  (ص:80-81)

”ارشاد ہوا: تجھ کو مہلت دی گئی! وقت معین تک کے لیے“۔  (امین احسن اصلاحی)

”فرمایا، اچھا، تجھے اُس روز تک کی مہلت ہے، جس کا وقت مجھے معلوم ہے“۔ (سید مودودی)

”فرمایا کہ تجھ کو مہلت دی جاتی ہے، اس روز تک جس کا وقت مقرر ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”فرمایا تو تُو مہلت والوں میں ہے، اس جانے ہوئے وقت کے دن تک“۔ (احمد رضا خان)

”(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے، متعین وقت کے دن تک“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری دونوں ترجموں میں وہ کم زوری موجود ہے۔

(413)  مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ

درج ذیل آیت میں اگر مِنَ الْغَاوِینَ کے من کو تبعیض کے لیے مانیں گے تو اس کا ترجمہ ہوگا ”بدراہوں میں سے جس نے تیری پیروی کی“ اور اس سے مفہوم یہ نکلے گا کہ بدراہوں میں سے کچھ شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں اور کچھ بدراہ ایسے بھی ہیں جنھوں نے شیطان کی پیروی نہیں کی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بدراہ ہوتا ہی وہی ہے جو شیطان کی پیروی کرے، اور شیطان کا زور سارے ہی بدراہوں پر چلتا ہے۔ اگر من کو بیانیہ مانیں تو ترجمہ ہوگا: ”تیری پیروی کرنے والے بدراہ“ یعنی جو بد راہ ہیں وہی شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں۔ اس مفہوم پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا ہے۔ اس کی روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:

إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ۔ (الحجر: 42)

”بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا، تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں“۔ (سید مودودی)

”جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں (کہ ان کو گناہ میں ڈال سکے) ہاں بد راہوں میں سے جو تیرے پیچھے چل پڑے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہیں ہے علاوہ ان کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کرنے لگیں“۔ (ذیشان جوادی)

”میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا، بجز ان کے جو گمراہوں میں سے تیرے پیرو بن جائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری تینوں ترجموں میں وہ کم زوری موجود ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہاں سلطان کے معنی ’بس‘، ’قدرت‘ یا ’اختیار‘ کے نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ شیطان کو کسی پر اختیار اور قدرت نہیں دی گئی ہے۔ البتہ جیسا کہ آخری ترجمے میں ہے، یہاں سلطان کے لیے ’زور‘ مناسب تعبیر ہے۔

ایک اور بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ غاوی کا ترجمہ گم راہ کے بجائے بد راہ زیادہ صحیح ہے۔ ضلال اور غوایة میں یہ فرق ہے کہ ضلال راستہ گم ہوجانے کے لیے آتا ہے اور غوایة بے راہ روی یا بد راہی کے لیے آتا ہے۔ زمخشری کے مطابق: الضلال: نقیض الہدی، والغی نقیض الرشد۔ (تفسیر کشاف)

(414) قَدَّرْنَا إِنَّہَا لَمِنَ الْغَابِرِینَ

درج ذیل آیت میں قَدَّرْنَا کا ترجمہ عام طور سے مقدر کرنا، مقرر کرنا، طے کرنا اور فیصلہ کرنا کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں قَدَّرَ اندازہ کرنے کے معروف معنی میں ہے۔ قالوا کے بعد آخر تک پورا مقولہ فرشتوں کا ہے، جس میں قَدَّرْنَا والا جملہ بھی شامل ہے۔ 

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَی قَوْمٍ مُجْرِمِینَ۔ إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوہُمْ أَجْمَعِینَ۔ إِلَّا امْرَأَتَہُ قَدَّرْنَا إِنَّہَا لَمِنَ الْغَابِرِینَ۔ (الحجر: 58 - 61)

”وہ بولے، ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ صرف لوطؑ کے گھر والے مستثنیٰ ہیں، ان سب کو ہم بچا لیں گے۔ سوائے اُس کی بیوی کے جس کے لیے (اللہ فرماتا ہے کہ) ہم نے مقدر کر دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی“۔ (سید مودودی)

”مگر اس کی عورت ہم ٹھہراچکے ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہے“۔ (احمد رضا خان)

”البتہ ان کی عورت (کہ) اس کے لیے ہم نے ٹھہرا دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جائے گی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”سوائے اس (لوط) کی بیوی کے کہ ہم نے اسے رکنے اور باقی رہ جانے والوں میں مقرر کر دیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”بجز اس کی بیوی کے۔ اس کو ہم نے تاک رکھا ہے۔ وہ بے شک پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی توجیہ کے مطابق ترجمہ ہوگا:

”سوائے اُس کی بیوی کے جس کے بارے میں ہمارا اندازہ ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی۔“

(415)  لَآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِینَ

توسّم کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز پر غور و فکر کرکے اسے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنا۔ درج ذیل آیت میں متوسّمین کی تشریح کرتے ہوئے زمخشری لکھتے ہیں:

 لِلْمُتَوَسِّمِین:َ للمتفرّسین المتأملین۔ وحقیقة المتوسمین النظّار المتثبّتون فی نظرہم حتی یعرفوا حقیقة سمة الشیء۔ (الکشاف)

درج ذیل آیت میں عام طور سے متوسّمین کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا:

إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِینَ۔ (الحجر: 75)

”بے شک اس سرگزشت میں بصیرت حاصل کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بلاشبہ بصیرت والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”بیشک اس میں نشانیاں ہیں فراست والوں کے لیے“۔ (احمد رضا خان)

”بیشک اس (قصے) میں اہل فراست کے لیے نشانی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

متوسّم کا مطلب بصیرت والا یا فراست والا نہیں ہے۔ توسّم کے اندر غور و فکر کرکے حقیقت جاننے کی کوشش کرنے کا مفہوم ہوتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”بے شک غور سے نظر ڈالنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں“۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(جون ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter