اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۶)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(440) أُوفِی الْکَیْلَ

أَلَا تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ۔ (یوسف: 59)

”کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ناپ بھی پوری پوری دیتا ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ میں سامان کی ناپ تول بھی برابر رکھتا ہوں“۔ (ذیشان جوادی)

”دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں“۔ (سید مودودی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ درج بالا آیت میں أُوفِی الْکَیْلَ سے ناپ تول میں کمی نہیں کرنا اور پورا ناپ کردینا مراد نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس مرتبہ بھائیوں نے بتایا کہ وہ ایک بھائی کو اپنے باپ کے پاس چھوڑ آئے ہیں، تو ان کے کہنے پر اس بھائی کا حصہ بھی دے دیا۔ یعنی پورا پورا دے دیا۔ البتہ ان سے یہ کہہ دیا کہ اس بار تمہارے کہنے پر اس کاحصہ دے دیا ہے اگلی بار اسے لے کر آنا تاکہ تمھاری بات کی تصدیق ہوجائے، اس کے بعد ہی اگلی بار کا غلہ ملے گا، ورنہ تمہاری بات جھوٹ ثابت ہوگی اور پھر غلہ بھی نہیں ملے گا اور جھوٹ کی پاداش میں قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔

اس رائے سے ایک تو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ حضرت یوسف نے ایک اور بھائی کو لانے کو کیوں کہا تھا، کیوں کہ ان بھائیوں نے کہا تھا کہ ایک بھائی اور ہے جو باپ کے پاس ہے اس کا حصہ بھی دے دیجیے۔

پھر اس رائے سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ حضرت یوسف نے اگلے سال کے غلے کے لیے اس بھائی کو لانے کی شرط کیوں لگائی تھی، اور نہیں لانے پر اتنی سخت بات کیوں کہی تھی۔

اس طرح أَلَا تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ کا ترجمہ ہوگا: ”کیا تم دیکھتے نہیں میں پورا پورا دے رہا ہوں“۔ یعنی جتنے افراد بتارہے ہو سب کا حصہ دے رہا ہوں۔

(441) ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ 

ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ۔ (یوسف: 65)

”اتنے غلہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا“۔ (سید مودودی)

”یہ ناپ تو بہت آسان ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”وہ بھرتی آسان ہے“۔ (شاہ عبدالقادر)

مذکورہ بالا ترجموں کے مقابلے میں درج ذیل ترجمہ زیادہ بہتر ہے۔

”یہ تو تھوڑا سا غلّہ ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”یہ غلّہ جو ہم لائے ہیں تھوڑا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

دراصل جب حضرت یوسف نے کہہ دیا کہ اگلی بار بھائی کو لے کر آؤ گے تبھی غلہ ملے گا، ورنہ نہیں ملے گا۔ تو انھوں نے اپنے باپ کو قائل کرنے کے لیے کہا کہ یہ غلہ جو ملا ہے یہ تو تھوڑا ہی ہے ختم ہوجائے گا پھر غلے کی ضرورت پڑے گی اور وہ بھائی کو لے جائے بغیر ملے گا نہیں، اس لیے بھائی کو لے جانا ضروری ہوگا۔ اس پورے سیاق کو دیکھیں تو آخری ترجمہ درست معلوم ہوتا ہے۔ البتہ مراد یہ نہیں ہے کہ اس بار کم ملا ہے اگلی بار بھائی والا مل کر زیادہ ہوجائے گا۔ مراد یہ ہے کہ جو ملا ہے وہ اپنے آپ میں تھوڑا ہی ہے اور اگلی بار کا وقت آتے ختم ہوجائے گا اور  پھر غلہ لینے کے لیے جانا اور بھائی کو ساتھ لے جانا ضروری ہوگا۔ 

(442) فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِہِمْ، فاعل کون؟

فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِہِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِیہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیہِ۔ (یوسف: 76)

”تب یوسفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی“۔ (سید مودودی)

”تو اول ان کی خرُجیوں سے تلاشی شروع کی اپنے بھائی کی خرُجی سے پہلے پھر اسے اپنے بھائی کی خرُجی سے نکال لیا“۔ (احمد رضا خان)

”پھر یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شروع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا تمام ترجموں میں حضرت یوسف علیہ السلام کو سب کے سامان کی تلاشی لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب کہ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ہے، حضرت یوسف تو عرش اقتدار پر متمکن تھے، وہ لوگوں کے سامانوں کی تلاشی کیوں لیں گے؟

دراصل جس نے پکار لگائی تھی کہ پیمانہ گم ہوگیا ہے، اسی نے تلاشی لی تھی۔ اس کے مطابق ترجمہ ہوگا:

”تب اس نے اس کے بھائی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اس کے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کرلی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(443) کَبِیرُہُمْ کا ترجمہ

سب سے بڑے کے لیے کبیر نہیں اکبر آئے گا۔ کبیر کا مطلب وہ شخص جو کسی گروہ میں منصب کے لحاظ سے بڑا ہو، ان کا لیڈر ہو خواہ وہ عمر میں سب سے بڑا ہو یا نہ ہو۔

قَالَ کَبِیرُہُمْ۔ (یوسف: 80)

”ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا“۔ (سید مودودی)

”سب سے بڑے نے کہا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ان کے بڑے نے کہا“۔(امین احسن اصلاحی)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(444) فَرَّطْتُمْ کا ترجمہ

 تفریط کا مطلب کسی کے معاملے میں کوتاہی کرنا ہے، نہ کہ کسی کے ساتھ زیادتی کرنا۔

وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُمْ فِی یُوسُفَ۔ (یوسف: 80)

”اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو“۔(محمد جوناگڑھی)

”اور اس سے پہلے یوسف کے بارہ میں کس قدر کوتاہی کرہی چکے ہو“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو“۔ (سید مودودی)

پہلے دونوں ترجمے درست ہیں۔

(445) وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ

وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ۔ (یوسف: 81)

”اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے“۔ (سید مودودی)

”اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے“۔ (احمد رضا خان)

”مگر ہم غیب کی باتوں کو جاننے اور یاد رکھنے والے تو نہیں تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم کچھ غیب کی حفاظت کرنے والے نہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم کو غیب کی خبر یاد نہ تھی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور ہم غیب کی باتوں کے تو حافظ تھے نہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور ہمیں غیب کی خبر نہ تھی“۔ (احمد علی)

آخری ترجمہ درست ہے۔ یہاں غیب سے باخبر نہ ہونے کی بات ہے۔ غیب کی حفاظت یا غیب کی نگہبانی کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟

(446) تَاللَّہِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ

درج ذیل آیت مستقبل کے صیغے میں ہے، لیکن بعض حضرات نے اس کا حال کا ترجمہ کیا ہے:

قَالُوا تَاللَّہِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْہَالِکِینَ۔ (یوسف: 85)

”بیٹوں نے کہا،خدارا! آپ تو بس یوسف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے“۔ (سید مودودی، تاللہ کا ترجمہ خدارا نہیں ہوگا، یہ قسم کے لیے ہے اس کا ترجمہ خدا کی قسم ہوگا۔)

”بولے خدا کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف کی یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ گور کنارے جا لگیں یا جان سے گزر جائیں“۔ (احمد رضا خان)

”کہنے لگے قسم اللہ کی تو نہ چھوڑے گا یاد یوسف کی جب تک کہ گل جاوے یا ہوجائے مردہ“۔ (شاہ عبدالقادر)

آخری دونوں ترجمے اس لحاظ سے درست ہیں کہ مستقبل کے صیغے میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

(447) فتحسّسوا کا ترجمہ

تحسس کے معنی خبر لینے کے ہوتے ہیں، لسان العرب میں ہے: وتَحَسَّسَ الْخَبَرَ: تطلَّبہ وتبحَّثہ۔جب یہ کسی راز یا پوشیدہ امر کے بارے میں ہو تو اردو میں ٹوہ لگانا کہیں گے، لیکن اگر کسی گم شدہ چیز کے لیے ہو تو تلاش کرنا اور سراغ لگانا کہیں گے۔ درج ذیل ترجموں میں ٹوہ لگاؤ درست ترجمہ نہیں۔

یَابَنِیَّ اذْہَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَأَخِیہِ۔ (یوسف: 87)

”اے بیٹو جاؤ اور تلاش کرو یوسف کی اور اس کے بھائی کی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ“۔  (احمد رضا خان)

”بیٹا (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو“۔  (فتح محمد جالندھری)

”میرے بچو، جا کر یوسفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ“۔ (سید مودودی)

”اے میرے بیٹو! جاؤ، یوسف اور اس کے بھائی کی ٹوہ لگاؤ“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری دونوں ترجموں میں فتحسسوا کے ترجمے کے لیے اردو تعبیر ٹوہ لگاؤ موزوں نہیں ہے۔

(448) لَا تَثْرِیبَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں تثریب کا مطلب گرفت و سرزنش ہے، نہ کہ الزام، جیسا کہ بہت سے لوگوں نے ترجمہ کیا ہے۔ کیوں کہ الزام تو تھا ہی، الزام کی نفی کیوں کی جائے گی۔ الزام سے آگے بڑھ کر جرم ثابت ہوچکا تھا۔ البتہ جرم ثابت ہونے کے باوجود اس پر سزا نہیں دی جائے گی، اس بات کا اعلان کیا گیا۔ یعنی بے گناہ قرار نہیں دیا گیا، سزا معاف کردی گئی۔

قَالَ لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ (یوسف: 92)

”کہا کچھ الزام نہیں تم پر آج“۔ (شاہ عبدالقادر)

”یوسف (علیہ السلام)  نے فرمایا کہ نہیں تم پر آج کوئی الزام“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اس نے کہا: اب تم پر کچھ الزام نہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اس نے جواب دیا، آج تم پر کوئی گرفت نہیں“۔ (سید مودودی)

”کہا نہیں سرزنش اوپر تمہارے آج کے دن“۔ (شاہ رفیع الدین)

(449) وَ إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ کا ترجمہ

وَ إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ۔ (یوسف: 91)

”اور واقعی ہم خطا کار تھے“۔ (سید مودودی)

”اور یقینا ہم ہی خطاکار تھے“۔ (طاہر القادری)

”اور بے شک ہم ہی غلطی پر تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری دونوں ترجموں سے یہ بات نکل سکتی ہے کہ لوگ کسی اور کو بھی خطاکار سمجھ رہے تھے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ صرف ان کے خطاکار ہونے اور نہیں ہونے کا سوال تھا، جس کے بارے میں انھوں نے اعتراف کیا کہ ہم خطاکار تھے۔ اس لحاظ سے پہلا ترجمہ زیادہ درست ہے۔

(450) ادْخُلُوا مِصْرَ کا ترجمہ

یوں تو ادخلوا مصر کا ترجمہ ہونا چاہیے”مصر میں داخل ہوجاؤ“، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ تو حضرت یوسف کے پاس آچکے تھے، پھر مصر میں داخل ہونے کو کیوں کہا جائے گا۔ اس کا ایک جواب یہ دیا گیا کہ حضرت یوسف نے پہلے مصر سے باہر ایک خیمے میں ان کا استقبال کیا، بعد میں مصر میں لے کر آئے۔ لیکن یہ بات تکلف سے بھرپور اور دلیل سے خالی ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ یہاں ادخلوا قیام کرنے کے مفہوم میں ہے، یہ توجیہ مناسب لگتی ہے۔

وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللَّہُ آمِنِینَ۔ (یوسف: 99)

”اور کہا داخل ہو مصر میں اللہ نے چاہا تو خاطر جمع سے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”کہا،چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے“۔ (سید مودودی، مصر غیر منصرف ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شہر کے معنی میں نہیں بلکہ اس جگہ کے معنی میں ہے جس کا نام مصر ہے۔)

”اور کہا مصر میں داخل ہو اللہ چاہے تو امان کے ساتھ“۔ (احمد رضا خان)

”اور کہا مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو جمع خاطر سے رہیے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”اور کہا: مصر میں ان شاء اللہ امن چین سے رہیے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(451) رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ

یہاں ”پہلے خواب“ ترجمہ کرنے سے بہتر ہے ”وہ خواب جو پہلے دیکھا تھا“، کیوں کہ پہلے خواب سے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس کے بعد بھی خواب دیکھے تھے۔ جب کہ کہنا مقصود یہ ہے کہ وہ خواب جو پہلے زمانے میں دیکھا تھا۔

وَقَالَ یَا أَبَتِ ہَذَا تَأْوِیلُ رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ۔ (یوسف: 100)

”اور کہا اے باپ یہ بیان ہے میرے اس پہلے خواب کا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اس نے کہا: اے میرے باپ! یہ ہے میرے پہلے خواب کی تعبیر“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور یوسف نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے“۔ (احمد رضا خان)

”یوسف نے کہا کہ بابا یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”یوسف ؑ نے کہا،ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔

(452) نَزَغَ الشَّیْطَانُ کا ترجمہ

مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی۔ (یوسف: 100)

”بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوادیا تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بعد اس کے شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوادیا“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)

شیطان نے فساد خود ڈالا تھا، کسی سے ڈلوایا نہیں تھا۔ اس لیے پہلے دونوں ترجمے درست نہیں ہیں۔ نزغ کا مطلب بھی خود فساد ڈالنا ہوتا ہے: لسان لعرب میں ہے: نَزَغَ بَیْنَہُمْ یَنْزَغُ ویَنْزِغُ نَزْغاً: أَغْرَی وأَفْسَدَ وَحَمَلَ بعضَہم عَلَی بَعْضٍ۔

(453) من الملک اور من تاویل الاحادیث میں من کیسا ہے؟

من دیکھ کرتبعیض کی طرف ذہن چلا جاتا ہے، لیکن من ہمیشہ تبعیض کے معنی میں نہیں ہوتا۔ قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ کہیں تبعیض کے بجائے تاکید العموم مقصود ہوتی ہے۔ درج ذیل تینوں مقامات پر مترجمین کا رویہ بہت مختلف قسم کا ہے، ایک ہی مترجم کہیں تبعیض کا ترجمہ کرتا ہے اور کہیں تبعیض کا نہیں کرتا ہے۔ درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہاں تینوں مقامات پر تبعیض مراد نہیں ہے۔ بلکہ عموم ہی مراد ہے۔

(۱) وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ۔ (یوسف: 6)

”اور سکھلادے گا کلبٹھانی باتوں کی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا“۔ (احمد رضا خان)

”اور تمھیں باتوں کی حقیقتوں تک پہنچنا سکھائے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) بھی سکھائے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۲) وَلِنُعَلِّمَہُ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ۔ (یوسف: 21)

”اور اس واسطے کہ اس کو سکھادیں کچھ کل بٹھانی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اس کو باتوں کی تعبیر بتائیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں“۔ (احمد رضا خان)

”کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۳) رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ۔ (یوسف: 101)

”اے رب تو نے دی مجھ کو کچھ سلطنت اور سکھایا مجھ کو کچھ پھیر“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اے میرے رب! تو نے مجھے اقتدار میں سے بھی حصہ بخشا اور باتوں کی تعبیر کے علم میں سے بھی سکھایا“۔(امین احسن اصلاحی)

”اے میرے رب بیشک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا“۔ (احمد رضا خان)

”اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے بہرہ کیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی“۔ (محمد جوناگڑھی)

اوپر کی تینوں آیتوں کے ترجموں میں ’کچھ‘  یا اس کا ہم معنی لفظ نہیں رہے گا۔

(454) وَہُمْ یَمْکُرُونَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں وھم یمکرون عربی کے اسلوب کے لحاظ سے جملہ حالیہ ہے، لیکن اس کا ترجمہ عام طور سے جملہ معطوفہ کا کیا گیا ہے۔ 

وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُونَ۔ (یوسف: 102)

”اور تم تو ان کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے جب کہ انھوں نے اپنی رائے پختہ کی اور وہ سازش کررہے تھے“۔(امین احسن اصلاحی)

”آپس میں اتفاق کرکے سازش کی تھی“۔ (سید مودودی، جملے کی ترکیب کے لحاظ سے ترجمہ ہونا چاہیے: سازش پر اتفاق کیا تھا۔)

”اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جب انہوں نے اپنا کام پکا کیا تھا اور وہ داؤں چل رہے تھے“۔ (احمد رضا خان)

وھم یمکرون کو جملہ حالیہ بنائیں گے تو ترجمہ ہوگا:

”جب کہ انھوں نے سازش کرتے ہوئے اپنی رائے پختہ کی“۔(امانت اللہ اصلاحی) یعنی سازش پر متفق ہوگئے اور اس کا تہیہ کرلیا۔

رائے پختہ کرنا اور سازش کرنا الگ الگ دو کام نہیں تھے، بلکہ جو سازش وہ کررہے تھے اسے کرتے ہوئے اپنی رائے پختہ کرلی تھی کہ کیا کرنا ہے۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(نومبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter