میرے اللہ نے جو مدد فرمائی اور نصرت فرمائی، اللہ اکبر، ہم کہتے ہیں مالک تیرا ہی شکر ہے، تیرے کرم سے ہی ممکن ہوا، ہم اس قابل بھی نہیں تھے جس طرح ہم آپس میں لڑ رہے تھے، جس طرح ہم معاشی بحرانوں میں مبتلا تھے، جس طرح ہم اپنے ہی ملک کو اپنے ہاتھوں سے نوچ رہے تھے، جس طرح ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے تھے، ہم اس قابل نہیں تھے کہ ہم یہ کر پاتے لیکن مالک تو نے پھر بھی حضورؐ کے صدقے ہمارے اوپر رحم فرمایا، اس قوم سے تو نے کوئی کام لینا ہے، امت کے لیے کچھ کام لینا ہے۔ تو نے ہماری آبرو برباد نہیں ہونے دی، ہماری عزت برباد نہیں ہونے دی، اس ظالم انڈیا کے سامنے تو نے سرخرو فرمایا۔
شکر پر علماء نے لکھا ہے کہ احسان اور نعمت کے بدلے میں جو مدح و تعریف کی جائے وہ شکر کہلاتی ہے، اور اس کی تین قسمیں اس اعتبار سے ہیں کہ وہ قولاً بھی ہوتی ہے، فعلاً بھی ہوتی ہے، اور وہ قلباً بھی ہوتی ہے۔ تمہارا دل بھی شکر گزار ہو، تم زبان سے بھی کہو کہ مالک تیرا شکر ہے کہ تو نے یہ کرم کیا۔ ’’واما بنعمۃ ربک فحدث‘‘ (الضحیٰ ۱۱) اس کا چرچا کرو کہ مالک تیرا کرم تیرے فضل سے ہوا۔ اور پھر تمہارا عمل اور رویہ بتائے کہ تم واقعی اس کے شکر گزار ہو۔ تمہارے اندر عجز پیدا ہو جائے اور تم اپنے مالک اور قریب ہو جاؤ۔ اس کے ساتھ تمہاری توقعات کا جو رشتہ ہے، توکل کا جو رشتہ ہے، وہ اور زیادہ مستحکم ہو جائے۔
تو ہم اس کے حضور شکر گزار ہیں، صد بار شکر گزار ہیں، ہزار بار شکر گزار ہیں، کروڑ بار شکر گزار ہیں، لفظ ساتھ چھوڑ جائیں لیکن مالک تیرے شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا جو تو نے ہمارے اوپر کرم فرمایا اور ہمارے اوپر رحم کیا اور اس امت کو ابرو سے عزت سے جینے کا نور عطا فرمایا اور زندگی کا اجالا بخشا۔
اور میں اس موقع پہ بارگاہِ ایزدی میں دعا گو ہوں کہ اللہ اس امت کو پھر خلافت کا نور عطا کرے (آمین) اور خلیفۃ المسلمین کا رعب پوری دنیا کے اوپر غالب ہو، اور کوئی دنیا کے کونے کے اوپر کسی مسلمان کی طرف میلی نظر سے بھی نہ دیکھ سکے۔ اور اللہ اسلام کو غالب اور سر بلند کرے، اور ان شاء اللہ اسلام نے سر بلند ہو کے رہنا ہے۔ حضور ﷺ کا وہ فرمان پھر دہرا رہا ہوں، میرے حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ مٹی، گارے اور پتھر کا بنا ہوا کوئی گھر، چمڑے اور اون کا بنا ہوا کوئی خیمہ باقی نہیں رہے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہیں ہو گا۔
اس کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ شرق سے غرب تک، شمال سے جنوب تک، پوری کائنات میں ہر چھت پہ جھنڈا میرے حضورؐ کے نام کا جھول رہا ہو گا۔ اور اسلام کا دبدبہ اسلام کی ہیبت پوری دنیا کے اوپر طاری ہو گی۔ ان شاءاللہ وہ وقت آ کے رہے گا، ہم ہوں گے یا نہیں ہوں گے، وہ وقت ضرور آئے گا۔ میں اپنی نسلوں کو وصیت کرتا ہوں کہ جب وہ وقت آئے تو آ کے ہماری قبر پہ ہمیں بتانا کہ وہ وقت اگیا ہے، امام مہدیؒ کا نزول ہو گیا ہے۔
اللہم صلی علیٰ سیدنا و مولانا محمد معدن الجود والکرم۔ اللہ، اٹھے ہوئے ہاتھ پھیلی ہوئی جھولیاں کبھی خالی نہ موڑنا۔ اللہ، اس امت کو کھویا ہوا وقار دینا۔ اللہ، ہماری دعاؤں کا بھرم رکھنا۔ اللہ، ہم ہزار جان سے کروڑوں دلوں سے لاکھوں زبانوں سے تیرا شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ، تو نے میرے وطن کی آبرو پہ انچ نہیں آنے دی، میرے وطن کی عزت کو سلامت رکھا، میرے وطن کے وقار کو سلامت رکھا۔ اللہ، ظالم جابر مکار ہندوؤں سے اللہ ہمیں سرخروئی عطا فرمائی، ان پر ہمیں کامیابی نصیب فرمائی۔ اللہ، کروڑ بار تیرا شکر ادا کرتے ہیں، اللہ تیرا شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ، تیرے حضور مزید کامیابیوں کے ملتجی ہیں۔ اللہ، ہمیں کسی میدان میں ناکامی دیکھنے نہ دینا۔ ہر جگہ اللہ کامیابیاں عطا فرمانا۔
اور اے اللہ، افواجِ پاکستان کی خیر فرمانا۔ میرے وطن کے گوشے گوشے کی چپے چپے کی خیر فرمانا۔ اے اللہ، ہماری افواج کو اتنی ہمت اتنی طاقت اتنی توانائی اتنی جرأت اتنی صلاحیتیں اور اپنی جناب سے اتنی قوتِ ایمانی نصیب فرمانا کہ وہ اپنے مظلوم غزہ کے بھائیوں کا بدلہ لے سکیں۔ اللہ، اپنے بھائیوں کا بدلہ لے سکیں۔ اللہ، ان لاچاروں کے سر پہ ہاتھ رکھ سکیں۔
اپنا خاص کرم و فضل اللہ میرے وطن کا مقسوم فرمانا۔ اللہ، اس قوم کو دنیا کی توانا قوم بنانا۔ اللہ، ہمیں حرب و ضرب کے اسلحہ جات سے لیس فرمانا۔ اللہ، ہماری دھاک دنیا کے اوپر بٹھا دینا۔ اللہ، ہمیں تو نے جو کامیابیاں عطا کیں تیرا شکر بجا لاتے ہیں مزید کامیابیاں نصیب فرمانا۔ اللہ، اپنا خاص کرم و فضل اس وطن کا مقسوم فرمانا۔ اس وطن کو معیشت کا جمال بھی دینا، صالح اقدار کا نور بھی دینا۔ اللہ، اپنا خاص کرم و فضل چھپن ستاون اسلامی ملکوں کا مقسوم کرنا۔ اللہ سب ممالک کو نیک، صالح، پاکیزہ، اہل، دیانتدار اور جرأتمند حکمران عطا کر دینا۔ اللہ، غزہ کے بھائیوں کے لیے، القدس کے چاروں طرف لڑنے والوں کے لیے، اللہ ہمیں مدد کے لیے پہنچنے کی توفیق دینا۔ وصلی اللہ تعالیٰ علی النبی الامین۔