ہم نے بھارت کو تسلیم کیا ہے تو اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کر سکتے؟
آصف محمود: ڈاکٹر صاحب، یہی سوال اگر میں آپ سے پوچھوں، انڈیا کو بھی تو ہم نے تسلیم کیا ہوا ہے، انڈیا نے ہماری ساری ریاستوں پر قبضے کیے ہوئے ہیں، حیدرآباد پہ کیا ہوا ہے، نظام حیدر آباد پہ، جونا گڑھ پہ کیا ہوا ہے، کشمیر پہ کیا ہوا ہے۔
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بالکل، اس میں ایک بنیادی فرق ہے، یعنی تسلیم کیا جانا، پہلے میں یہ واضح کروں کہ تسلیم کرنا دو طرح کا ہوتا ہے: ایک کو ہم انٹرنیشنل لاء کی اصطلاح میں کہتے ہیں de facto recognition یعنی as a matter of fact بطورِ امرِ واقعہ ایک چیز موجود ہے، اس کے قانونی جواز اور عدمِ جواز سے قطع نظر ہم اسے بطورِ امرِ واقعہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ یہ ایک صورت ہے۔ اس صورت میں تو ظاہر ہے اسرائیل کو بطورِ امرِ واقعہ تو سارے لوگ مانتے ہیں کہ ایک وجود تو موجود ہے۔ لیکن کیا وہ وجود قانونی جواز رکھتا ہے یا نہیں رکھتا؟ تو اگر ہم اس کا قانونی جواز تسلیم کریں تو اس کو de jure recognition کہتے ہیں۔
اب وہ جو قانونی جواز تسلیم کرنے کا مسئلہ ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور انڈیا کو تسلیم کرنے میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ جن علاقوں سے انڈیا تعبیر کیا جاتا ہے کہ یہ علاقے ہیں، یہ بھارت ہیں، تو ان میں چند ایک کے علاوہ باقی کسی پر ہم انڈیا کے وجود کو ناجائز نہیں تسلیم کرتے۔
اسرائیل کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا تو وجود ہی، اصل میں اس پر سوالیہ نشان قائم ہیں۔ پھر میں یہ کہتا ہوں کہ چلیں یہ تو ۱۹۴۷ء، ۱۹۴۸ء کی بات ہے، اس سے پہلے بھی آپ دیکھیں آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادوں میں ۱۹۳۰ء کی دہائی سے ۱۹۴۰ء کی دہائی تک قائد اعظم کے خطوط دیکھیں، ان کی اسپیچز دیکھیں، آل انڈیا مسلم لیگ ہر سال جس طرح فلسطین کا دن مناتی تھی اور اس کے لیے تقریبات کرتی تھی، تو وہ تو ہماری ایک مستقل پوزیشن تھی کہ یہ سارا قبضہ ہی ناجائز ہے اور ایک ناجائز وجود ہے۔
یعنی ایک تو یہ ہے کہ یہ ریاست تو ٹھیک ہے، اس کو تسلیم کر لیتے ہیں، اس کا اس علاقے پر قبضہ ناجائز ہے، جیسے بھارت کا ہم کشمیر پر یا جوناگڑھ پر قبضہ نہیں تسلیم کرتے۔
آصف محمود: اسرائیل اِن اِٹ سیلف (اپنے آپ میں) ناجائز ہے۔
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: اسرائیل اِن اِٹ سیلف۔ اچھا، میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ بات شروع کرنے کے لیے کم از کم یہاں سے تو شروع کی جا سکتی ہے کہ اسرائیل سے اگر بات ہو سکتی ہے، کوئی کرنا چاہے، کہ جو ۱۹۶۷ء میں علاقے قبضے میں لیے ہیں کم از کم اس پر تو دعوے سے دستبردار ہو جائے۔
آصف محمود: ڈاکٹر صاحب، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے اس کو تسلیم نہ کر کے، مطلب ویسے اس کے شیطانی اسٹیٹ ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے، لیکن اس کو تسلیم نہ کر کے ہم کہیں فلسطینیوں سے بھی رُس (ناراض ہو کر) بیٹھ گئے ہیں۔ یعنی ہمارا فلسطینیوں سے اب صرف اتنا سا تعلق ہے کہ ہم ایک اسٹیٹمنٹ دے دیں، رابطے ہوتے تو شاید ہم کچھ امداد دیتے، رابطے ہوتے تو شاید ہم ان (اسرائیل) کی ایمبیسی کے باہر کوئی پروٹیسٹ کرتے، ہم ان کو کوئی لعن طعن کرتے تو ہمارا دباؤ ہوتا، جیسے ترکیہ کا ہے۔ اب ہم نے فلسطینیوں کو ان کے مظالم کے رحم و کرم پہ چھوڑا ہوا ہے، نہ ہمارا کوئی رابطہ ہے، نہ ہمارا کوئی تعلق ہے، نہ ہم کوئی امداد بھیج سکتے ہیں، نہ ہم کچھ کر سکتے ہیں، بس ہم یہاں وہ کہتے ہیں نا کہ رُس کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: ہاں بالکل، وہ بات درست ہے آپ کی، لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ ترکیہ کو بھی وہ freedom flotilla بھیجنے میں کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل جب کرنے پہ آتا ہے، جس طرح اس نے بلاک ایڈ کیا تھا غزہ کا۔ یا مصر نے اس کو ریکگنائز کیا، اب اس کے نتیجے میں ہوا یہ کہ فلسطینیوں کے لیے مصر کی سرزمین بھی تنگ ہو گئی، یعنی فلسطینی غزہ سے اب مصر بھی نہیں جا سکتے، بلکہ مصر ان کے لیے اسرائیل سے، یو کہیں زیادہ بڑا جابر اور ظالم بن کر رہ گیا ہے۔
اس لیے میں کہتا ہوں بات تو شروع کرنے کے لیے کم از کم ۱۹۶۷ء میں جو علاقے قبضے میں لیے گئے ہیں، جن میں مسجد اقصیٰ اور آس پاس کے علاقے بھی شامل ہیں، غزہ اور مغربی کنارہ بھی شامل ہے، اس سے تو کم از کم بات شروع کریں، لیکن اسرائیل اس پر بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ جو اس نے انڈرسٹینڈنگ کی اس میں بھی اسرائیل نے، یہ جو القدس کا مسئلہ ہے اور غزہ اور مغربی کنارے کا مسئلہ ہے، اس پر کوئی کمٹمنٹ نہیں دی۔ بلکہ امریکہ نے ایک اسٹیپ آگے جا کر، اسی امریکہ نے جس نے ان دونوں کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کیا، اسی امریکہ نے اسی دوران میں اپنا جو سفارتخانہ ہے وہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔
www.facebook.com
بین الاقوامی قانون میں مسجد اقصیٰ کی قانونی حیثیت اور عملی صورتحال
آصف محمود: ڈاکٹر مشتاق صاحب، میں آپ سے آغاز کرتا ہوں، یہ جو واقعہ ہوا، اس میں وہ رسمی مذمت تو خیر، اس سے تو آگے بڑھ کر بات کرتے ہیں۔ یہ مسجد اقصیٰ اس وقت انٹرنیشنل لاء کی روشنی میں کس کے انتظام میں ہے؟ کیا اس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ تسلیم ہو چکا ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کے زیر انتظام ہے؟ اسرائیلی فورسز جب اندر گھستی ہیں تو کیا قانون انہیں اجازت دیتا ہے؟ اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں، کچھ میں نے بول دیے کچھ نہیں بولے، آپ ذرا اس پر راہنمائی کریں۔
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ دیکھیں، جہاں تک اس مسجد اقصیٰ کا تعلق ہے اور فلسطین کی سرزمین کا تعلق ہے، تو اس کے متعلق تو اقوامِ متحدہ کا سرکاری موقف یہ ہے، اقوامِ متحدہ کی تنظیم کا سرکاری موقف یہ ہے کہ یہ مقبوضہ علاقے ہیں۔ یعنی اقوامِ متحدہ کی دستاویزات میں بھی اور سب کچھ ان کے ہاں، اس کے لیے جو ٹائٹل استعمال ہوتا ہے وہ ہوتا ہے occupied palestinian territory یعنی مقبوضہ فلسطینی علاقہ۔ یہ وہ علاقے ہیں جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے قبضے میں لیے ہیں۔
یعنی اسرائیل کے پاس کچھ تو وہ علاقہ ہے جو ۱۹۴۸ء میں اس نے حاصل کیا تھا، اس میں بھی کچھ علاقہ وہ ہے جو اقوامِ متحدہ کے پارٹیشن پلان سے زیادہ اس نے حاصل کیا تھا، تو وہ بھی مقبوضہ ہے، لیکن چلیں اس کو تو ایک طرف رکھیں۔ لیکن یہ جو ۱۹۶۷ء میں اس نے علاقے قبضے میں لیے ہیں جس میں مسجد اقصیٰ اور القدس اور غزہ کی پٹی اور باقی علاقے بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ مصر سے بھی اور دیگر ممالک سے بھی کچھ علاقے لیے تھے، تو یہ تو مقبوضہ علاقے ہیں۔
اچھا، مقبوضہ علاقے ہیں تو انٹرنیشنل لاء کا یہ مسلّمہ اصول ہے کہ قابض طاقت کو مقبوضہ علاقے پر ملکیت حاصل نہیں ہوتی، وہ اس کے ملک کا حصہ نہیں بنتا، مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو مزاحمت کا حق حاصل ہے، قابض طاقت وہاں کی آبادی اور ڈیموگرافی کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ اس پر ICJ کا، بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا، جو اقوامِ متحدہ کا جوڈیشل آرگن ہے، اس کا ۲۰۰۳ء کا فیصلہ ہے، یعنی پیچھے جو قراردادیں اور جو دستاویزات ہیں وہ تو الگ، لیکن ۲۰۰۳ء کا فیصلہ ہے۔
جب اسرائیل نے یہاں اس مقبوضہ علاقے میں دیوار تعمیر کرنے کی کوشش کی، تو اس پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے پوچھا کہ کیا قابض طاقت کی حیثیت سے مقبوضہ علاقے میں اسرائیل اس طرح کی دیوار تعمیر کر سکتا ہے کہ وہ علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے لوگوں کو آپس میں نہ ملنے دے؟ اور اس کے اور بھی repercussions ہوں گے۔ اپنے دفاع کے نام پر وہ یہ کر رہا ہے۔
تو بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے، اسرائیل کا بھی ایک جج تھا، ظاہر ہے جس ملک کے متعلق مقدمہ جمع ہوتا ہے اس کا ایک جج اس میں ہوتا ہے، تو اس نے تو اختلافی نوٹ لکھا، باقی تمام ججز نے یہ صراحت کے ساتھ کہا کہ یہ مقبوضہ علاقہ ہے، اس میں قابض طاقت کی حیثیت اس کو حاصل ہے، اس وجہ سے یہ صرف انتظام کر سکتا ہے، باقی یہاں یہ دور رس تبدیلیاں نہیں کر سکتا، یہاں کے لوگوں کو مزاحمت کا بھی حق حاصل ہے۔ یہاں کے لوگوں کی حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیاں کیا ہو رہی ہیں، وہ بھی انہوں نے لسٹ کیں۔ occupation law کی کیا خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، وہ بھی بتا دیں۔
جہاں تک مسجدِ اقصیٰ کا تعلق ہے تو ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد بھی اردن کا اور اسرائیل کا آپس میں یہ طے ہوا تھا کہ، چونکہ اس وقت بھی اس کا انتظام اردن کے پاس تھا، تو اسرائیل نے تسلیم کیا کہ اب بھی اور آج تک اس کا جو وقف کا انتظام ہے، وہاں مسجد کا اور خطبے کا اور جو سارا نظام چلتا ہے، تو وہ اردن کی وزارت جو مذہبی امور سے متعلق ہے وہ اس کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور انتظام ان کے پاس ہے۔
اب اس وقت ہوا اصل میں یہ ہے، بہت سارے لوگوں کو پاکستان میں اس کا علم نہیں کہ یہ اچانک ایشو کیا بھڑک اٹھا۔ ہوا یہ کہ یہودیوں کا ایک تہوار ہے جس کو وہ ’’عیدِ فسح‘‘ کہتے ہیں، انگلش میں اس کو passover کہتے ہیں۔
یہ، بنی اسرائیل جب مصر میں تھے تو بائبل میں یہ آتا ہے کہ فرعون ان پر مختلف قسم کے مظالم کرتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے، قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے، کہ اس پر مختلف قسم کے اللہ کی جانب سے عذاب آئے تاکہ وہ بنی اسرائیل کو جانے دے اور ان پر ظلم روک دے۔ تو بائبل میں ایک عذاب کا ذکر ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو کہا گیا کہ آپ دنبہ ذبح کریں اور اس کا خون اپنے گھر کی دیوار پر دروازے پر لگائیں کیونکہ آج رات ملک الموت آئے گا، تو وہ جو فرعون اور اس کے ساتھی ہیں، تو ان کی جو پہلوٹھی اولاد ہے first born، ان کو وہ مار دے گا، لیکن جہاں یہ خون کا نشان لگا ہو دنبے کا، تو اس گھر کو وہ چھوڑ کر آگے گزر جائے گا، تو pass over کرے گا۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ جب مصریوں کی یہ اولاد فرعون اور آلِ فرعون کی ہلاک ہو گئی تو مجبور ہو کر انہوں نے اسرائیل کو جانے دیا، لیکن پھر بعد میں ان کا پیچھا کیا پھر وہ غرق ہوئے۔ اس کی یاد میں یہ تہوار مناتے ہیں۔
اچھا، تو یہ تہوار، یعنی اس سال کے لیے جو انہوں نے کیلکولیٹ کیا تھا، کیونکہ یہ، جیسے عرب جاہلیت میں کرتے تھے، اصل کیلنڈر تو ان کا بھی قمری ہے، لیکن وہ اس کو سورج کے ساتھ اور اس کے ساتھ ملا کر آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں۔ تو اس سال کے لیے انہوں نے چھ اپریل سے تیرہ اپریل تک یہ ہفتہ اس تہوار کے لیے رکھا تھا۔ اب ان میں بہت شدت پسند قسم کے جو یہودی ہیں، تو ان کا کہنا ہے کہ ہم نے جا کر مسجد اقصیٰ میں، کیونکہ اس کو وہ کہتے ہیں کہ یہاں ہمارا ٹیمپل تھا، یہاں ہم نے وہ تہوار کرنا ہے، یہاں ہم نے وہ دنبے کی قربانی بھی کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔
جو فلسطینی ہیں ظاہر ہے وہ نہتے ہیں، وہ اس کی حفاظت کے لیے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک دفعہ یہ یہاں بھی داخل ہو گئے، تو پہلے ہی یہ جتنا کچھ کر چکے ہیں تو یہ تو مسجد اقصیٰ کو ڈھا دینے کے پروگرام پر چل رہے ہیں۔ اور ۱۹۶۹ء میں یہاں آگ بھی لگائی گئی تھی مسجد اقصیٰ میں، اس کے بعد او آئی سی کی تنظیم بنی تھی۔ تو پیچھے پوری ہسٹری ہے۔ تو وہ ان کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی حکومت بظاہر تو یہ کہتی ہے کہ ہم لوگوں کو روکیں گے لیکن جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا ہے کہ اصل میں وہاں کیا ہو رہا ہے۔