اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۹)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

(548) وھن کا ترجمہ

لغت میں وھن کا معنی کم زوری بتایا گیا ہے۔ الوَہْنُ: الضعفُ (الصحاح، جوھری) قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ لفظ آیا ہے۔ بعض اردو تراجم میں وھن کا ترجمہ سست ہونا یا دل شکستہ ہونا کیا گیا ہے۔ لفظ کی رو سے درست ترجمہ کم زور پڑنا، کم زوری دکھانا اور ہمت ہار جانا ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ اردو میں سست کم زور و ناتواں کو بھی کہتے ہیں لیکن اس کا اصل اور مشہور معنی کاہل ہے۔ جب کہ لفظ وھن کاہلی نہیں کم زوری کا معنی دیتا ہے۔ جب وھن کا ترجمہ سستی کرتے ہیں تو ذہن کثرت رواج کی وجہ سے کم زوری کے بجائے کاہلی کی طرف جاتا ہے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ کریں: 

(۱)  فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا۔ (آل عمران: 146)

’’پھر نہ ہارے ہیں کچھ تکلیف پہنچنے سے اللہ کی راہ میں نہ سست ہوئے ہیں نہ دب گئے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر) ضَعُفُوا کا ترجمہ بھی سست پڑنا نہیں ہوگا۔

’’اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں اُن پر پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہیں ہوئے‘‘۔ (سید مودودی) دل شکستہ ہونے کا مطلوب تو غم گین اور مایوس ہونا ہوتا ہے۔ یہاں یہ مراد نہیں ہے۔ 

’’تو نہ سست پڑے ان مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے‘‘۔ (احمد رضا خان) 

’’تو جو مصیبتیں ان پر راہِ خدا میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ (کافروں سے) دبے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری نہ سست رہے اور نہ دبے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

درج ذیل ترجمے میں تینوں الفاظ کا حق ادا کیا گیا ہے:

’’تو وہ ان مصیبتوں کے سبب سے جو انہیں خدا کی راہ میں پہنچیں نہ تو پست ہمت ہوئے نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ دشمنوں کے آگے گھٹنے ٹیکے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲)  وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ۔ (آل عمران: 139)

’’تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایماندار ہو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی) سستی کرنا وھن نہیں ہے۔ مزید یہ کہ مُؤْمِنِینَ  کا ترجمہ ایمان دار مناسب نہیں ہے۔ ایمان والے مناسب اردو ترجمہ ہے۔ 

’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو ‘‘۔(سید مودودی) دل شکستہ ہونا وھن نہیں ہے۔

’’اور سست نہ ہو اور نہ غم کھاؤ‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ‘‘۔ (احمد رضا خان) سست ہونا یا سستی کرنا وھن نہیں ہے۔

’’اور (دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری) بے دل ہونا وھن نہیں ہے۔

درج ذیل ترجموں میں وھن کا درست ترجمہ کیا گیا ہے:

’’ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’اور پست ہمت نہ ہو اور غم نہ کرو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

(۳)  وَلَا تَہِنُوا فِی ابْتِغَائِ الْقَوْمِ إِنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمُونَ۔  (النساء: 104)

’’اور کافروں کی تلاش میں سستی نہ کرو اگر تمہیں دکھ پہنچتا ہے تو انہیں بھی دکھ پہنچتا ہے جیسا تمہیں پہنچتا ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بے آرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بے آرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری) ألم بے آرامی کو نہیں کہتے ہیں بلکہ دکھ اور تکلیف کو کہتے ہیں۔ بے آرامی سے ألم  والی بات ادا نہیں ہوپاتی ہے۔ 

’’ان لوگوں کا پیچھا کرنے سے ہارے دل ہو کر بیٹھ نہ رہو! اگر تمہیں بے آرامی ہوتی ہے تو انہیں بھی تمہاری طرح بے آرامی ہوتی ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’اور مت ہارو ان کا پیچھا کرنے سے اگر تم بے آرام ہوتے ہو تو وہ بھی بے آرام ہیں جس طرح تم ہو‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور دشمن کے تعاقب میں تھڑدلا پن نہ دکھاؤ۔ اگر تم دکھ اٹھاتے ہو تو آخر وہ بھی تو تمہاری ہی طرح دکھ اٹھاتے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی) وھن کا ترجمہ تھڑدلا پن دکھانا درست نہیں ہے۔

درج ذیل ترجمے میں ’’لَا تَہِنُوا‘‘ کا درست ہے:

’’اِس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں‘‘۔ (سید مودودی) 

پوری آیت کا مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

’’دشمنوں کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ اگر تمھیں تکلیف پہنچتی ہے تو تمہاری طرح انھیں بھی تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔

(۴)  فَلَا تَہِنُوا وَتَدْعُوا إِلَی السَّلْمِ۔ (محمد: 35)

’’پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو‘‘۔ (سید مودودی)

’’تو تم سستی نہ کرو اور آپ صلح کی طرف نہ بلاؤ‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اتر آؤ‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

لفظ بودے میں کافی وسعت ہے، اس لیے ذہن دوسری طرف جاسکتا ہے۔ جب کہ یہاں لفظ وھن سے متعین طور پر ہمت ہارنا اور کم زوری دکھانا مراد ہے۔ درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:

’’سو تم ہمت مت ہارو اور صلح کی طرف مت بلاؤ‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’تو تم کم زور نہ پڑو اور سمجھوتے کی دعوت نہ دو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

(549) أمانی کا ترجمہ

لَیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَہْلِ الْکِتَابِ۔ (النساء: 123)

’’آرزؤئیں نہ تمہاری پوری ہونی ہیں نہ اہل کتاب کی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ آرزوئیں پوری ہونے کی بات نہیں ہے بلکہ آرزوؤں کے مطابق فیصلہ ہونے کی بات ہے۔

’’کام نہ کچھ تمہارے خیالوں پر ہے اور نہ کتاب والوں کی ہوس پر‘‘۔ (احمد رضا خان)

أمانی کا معنی خیال اور ہوس نہیں ہے۔ مزید برآں دونوں گروہوں کے لیے فرق کرنا اور ایک جگہ خیال اور ایک جگہ ہوس ترجمہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

’’انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر‘‘۔ (سید مودودی)

(550) وَہُوَ یَرِثُہَا إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہَا وَلَدٌ

درج ذیل قرآنی آیت کے ترجمے ملاحظہ ہوں:

إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ یَرِثُہَا إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہَا وَلَدٌ۔ (النساء: 176)

’’اگر کوئی مرد ہلاک ہوجاوے نہیں ہو واسطے اس کے اولاد اور نہ باپ اور واسطے اس کے ہو ایک بہن پس واسطے اس کے ہے آدھا اس چیز سے کہ چھوڑ گیا اور وہ وارث ہوتا ہے اس کا اگر نہ ہو واسطے اس کے اولاد‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)

اس آیت میں باپ کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے، صرف ولد آیا ہے، لیکن ترجمے میں باپ کا اضافہ کردیا گیا جو درست نہیں ہے۔

’’اگر کوئی شخص مرجاوے جس کے اولاد نہ ہو (اور ماں باپ) اور اس کے ایک (عینی یا علاتی) بہن ہو تو اس کو اس کے تمام ترکہ کا نصف ملے گا اور وہ شخص اس (اپنی بہن) کا وارث ہوگا اگر (وہ بہن مرجاوے اور) اس کے اولاد نہ ہو (اور والدین بھی نہ ہوں)‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

اس ترجمے میں (اور ماں باپ) نیز (اور والدین بھی نہ ہوں) کا اضافہ مناسب نہیں ہے اگرچہ قوسین میں ہے۔ 

’’اگر کوئی ایسا مرد مرجائے جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ ماں باپ) اور اس کے بہن ہو تو اس کو بھائی کے ترکے میں سے آدھا حصہ ملے گا۔ اور اگر بہن مرجائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اس کے تمام مال کا وارث بھائی ہوگا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

اس ترجمے میں قوسین(اور نہ ماں باپ) کا اضافہ مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح ’تمام مال‘ کا اضافہ بھی درست نہیں ہے۔ دوسرے ورثہ بھی جیسے شوہر اس مال کے حصے دار ہوں گے۔

’’اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور صرف بہن وارث ہو تو اسے ترکہ کا نصف ملے گا اور اسی طرح اگر بہن مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو تو بھائی اس کا وارث ہوگا‘‘۔ (ذیشان جوادی)

اس ترجمے میں ’صرف‘ کہنا درست نہیں ہے۔ ’صرف‘ کا اضافہ مترجم کے اپنی طرف سے ہے اور نادرست ہے۔

’’اگر کوئی شخص مرے، اس کے کوئی اولاد نہ ہو، اس کے ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کے ترکہ کا نصف ہے اور وہ مرد اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں ’اور وہ مرد‘ نے ترجمے کو خراب کردیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے مرنے والے مرد کی بات ہورہی ہے۔ 

’’اگر کسی مرد کا انتقال ہو جو بے اولاد ہے اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے اور مرد اپنی بہن کا وارث ہوگا اگر بہن کی اولاد نہ ہو‘‘۔ (احمد رضا خان)

اس ترجمے میں امرؤ کا ترجمہ مرد کیا ہے، حالاں کہ مرد عورت دونوں اس لفظ میں شامل ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی مرے اور پیچھے ایک بہن چھوڑے تو وہی حکم ہوگا جو آیت میں مذکور ہے۔

’’اگر ایک مرد مر گیا کہ اس کو بیٹا نہیں اور اس کو ایک بہن ہے تو اس کو پہنچے آدھا جو چھوڑ مرا اور وہ بھائی وارث ہے اس بہن کا اگر نہ رہے اس کو بیٹا‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

اس ترجمے میں ولد کا ترجمہ بیٹا کیا ہے، حالاں کہ ولد کا ترجمہ اولاد کرنا چاہیے۔ وراثت کی آیتوں میں جہاں جہاں ولد آیا ہے اولاد یعنی بیٹا اور بیٹی دونوں ہی مراد ہیں۔

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

’’اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہوگا‘‘۔ (سید مودودی)

(551) اعتصام کا معنی

اعتصام کہتے ہیں کسی چیز کو مضبوطی سے تھام لینے کو۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

والاعْتِصَامُ: التّمسّک بالشیئ۔ (المفردات فی غریب القرآن)

عصام اس رسی کو کہتے ہیں جس سے باندھا جائے۔ 

والعِصَامُ: ما یُعْصَمُ بہ. أی: یشدّ۔ (المفردات فی غریب القرآن)

اس وضاحت کی روشنی میں کچھ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

(۱)  وَمَنْ یَعْتَصِمْ بِاللَّہِ فَقَدْ ہُدِیَ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۔ (آل عمران: 101)

’’جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور جس نے خدا (کی ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے لگ گیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور جس نے اللہ کا سہارا لیا تو ضرور وہ سیدھی راہ دکھایا گیا‘‘۔ (احمد رضا خان)

سہارا لینا اعتصام کے مفہوم میں شامل نہیں ہے۔

(۲)  وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا۔ (آل عمران: 103)

’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو‘‘۔ (سید مودودی)

(۳)  إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّہِ۔ (النساء: 146)

’’البتہ جو اُن میں سے تائب ہو جائیں او ر اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور اللہ کا دامن تھام لیں‘‘۔ (سید مودودی)

’’مگر وہ جنہوں نے توبہ کی اور سنورے اور اللہ کی رسی مضبوط تھامی‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’لیکن جو لوگ توبہ کریں اور اصلاح کرلیں اور اللہ تعالی پر وثوق رکھیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’ہاں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کرلیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

وثوق رکھنا اور یقین رکھنا اعتصام کے مفہوم میں شامل نہیں ہے۔

(۴)  فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَاعْتَصَمُوا بِہِ۔ (النساء: 175)

’’تو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کو انہوں نے مضبوطی سے پکڑلیا ‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

’’تو وہ جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رسی مضبوط تھامی‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اس (کے دین کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے‘‘۔ (سید مودودی)

پناہ ڈھونڈنا اعتصام کے مفہوم میں شامل نہیں ہے۔

(۵)  وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ۔ (الحج: 78)

’’اور اللہ کو مضبوط تھام لو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’اور اللہ ہی کو مضبوط پکڑے رہو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

جملے میں حصر کی کوئی علامت نہیں ہے کہ ’ہی‘ کا استعمال کیا جائے۔

’’اور خدا کے دین کی (رسی کو) پکڑے رہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

آیت میں خدا کو مضبوطی سے تھامنے کی بات ہے نہ کہ خدا کے دین کو۔


قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter