(185) استجاب کا ترجمہ
قرآن مجید میں استجاب کا لفظ مختلف صیغوں کے ساتھ آیا ہے، جہاں یہ بندوں کے لیے آیا ہے، وہاں اس لفظ سے مراد ہوتی ہے پکار پر لبیک کہنا، اور جہاں یہ اللہ کے لیے آیا ہے، وہاں مراد ہوتی ہے دعا قبول کرنا، مراد بر لانا اور داد رسی کرنا۔ جھوٹے معبودوں کے سلسلے یہ لفظ یہ بتانے کے لیے آتا ہے کہ یہ معبودان باطل پکارنے والوں کی کچھ بھی داد رسی نہیں کرسکتے۔
پہلے مفہوم کی وضاحت علامہ ابن عاشور اس طرح کرتے ہیں:
والاستجابۃ: مبالغۃ فی الاجابۃ، وخصت الاستجابۃ فی الاستعمال بامتثال الدعوۃ او الامر۔ (التحریر والتنویر: 25/ 90)
دوسرے معنی کی وضاحت علامہ ابن عاشور اس طرح کرتے ہیں:
والاستجابۃ: الاجابۃ، والسین والتاءفیہ للتاکید وھی مستعملۃ فی المعاونۃ والمظاھرۃ علی الامر المستعان فیہ۔ (التحریر والتنویر: 12/21)
والاستجابۃ تطلق علی اعطاءالمسؤول لمن سالہ وھو اشہر اطلاقہا۔ (التحریر والتنویر:24/182)
استجاب کا استعمال جواب دینے کے لیے نہیں آتا ہے، بطور خاص قرآن مجید میں تو یہ کہیں بھی استفسار کے سیاق میں نہیں آیا ہے، جہاں بھی آیا ہے طلب کے سیاق میں آیا ہے، طلب اگر اوپر سے آئے تو منشا یہ ہوتی ہے کہ اس کی تعمیل کی جائے اور اس پر لبیک کہا جائے۔ اور اگر طلب کسی حاجت مند کی طرف سے ہو، تو وہ طلب داد رسی اور قبولیت کا انتظار کرتی ہے، نہ کہ محض جواب کا۔
ہم نیچے قرآن مجید کے کچھ ایسے مقامات ذکر کریں گے، جہاں مختلف صیغوں سے استجاب آیا ہے، اکثر مترجمین نے تو قبول کرنے کا ترجمہ کیا ہے، لیکن بعض مترجمین نے بعض مقامات پر جواب دینا ترجمہ کردیا ہے، جو مناسب نہیں ہے۔
(1) اِنَّ الَّذِینَ تَدعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ عِبَاد امثَالُکُم فَادعُوہُم فَلیَستَجِیبُوا لَکُم ان کُنتُم صَادِقِینَ۔ (الاعراف: 194)
”تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں “۔(سید مودودی)
”وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو “۔(احمد رضا خان)
”اگر سچے ہو تو چاہیے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”پھر ان کو چاہیے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو “۔(محمد جوناگڑھی)
(2) فَاستَجَابَ لَہُم رَبُّہُم انِّی لَا اضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنکُم من ذکر او انثی (آل عمران: 195)
”جواب میں ان کے رب نے فرمایا، ”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت“۔(سید مودودی)
”تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا“۔ (فتح محمد جالندھری)
(3) اذ تَستَغِیثُونَ رَبَّکُم فَاستَجَابَ لَکُم انِّی مُمِدُّکُم بِالفٍ مِنَ المَلَائِکَۃِ مُردِفِینَ (الانفال: 9)
”اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں“۔ (سید مودودی)
”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
(4) فَاستَجَابَ لَہُ رَبُّہُ فَصَرَفَ عَنہُ کَیدَہُنَ (یوسف: 34)
”اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں“۔ (سید مودودی)
(5) اِن تَدعُوہُم لَا یَسمَعُوا دُعَائَکُم وَلَو سَمِعُوا مَا استَجَابُوا لَکُم (فاطر: 14)
”انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے“۔ (سید مودودی)
”تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں، اور بالفرض سن بھی لیں تو تمہاری حاجت روانہ کرسکیں “۔(احمد رضا خان)
”تم انہیں پکارو گے تو تمہاری آواز کو نہ سوُ سکیں گے اور صَن لیں گے تو تمہیں جواب نہ دے سکیں گے“۔(جوادی)
(6) وَنُوحًا اِذ نَادَی مِن قَبلُ فَاستَجَبنَا لَہُ (الانبیاء: 76)
”اور یہی نعمت ہم نے نوحؑ کو دی یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا تھا ہم نے اس کی دعا قبول کی“۔(سید مودودی)
(7) فَاستَجَبنَا لَہُ فَکَشَفنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ (الانبیاء: 84)
”ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا“۔ (سید مودودی)
(8) فَاستَجَبنَا لَہُ وَوَہَبنَا لَہُ یَحیی (الانبیاء: 90)
”پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا“۔ (سید مودودی)
(9) وَیَومَ یَقُولُ نَادُوا شُرَکَائِیَ الَّذِینَ زَعَمتُم فَدَعَوہُم فَلَم یَستَجِیبُوا لَہُم (الکہف: 52)
”اس روز جب کہ ان کا رب ان سے کہے گا کہ پکارو اب ان ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے، یہ ان کو پکاریں گے، مگر وہ ان کی مدد کو نہیں آئیں گے“۔ (سید مودودی)
”تو وہ ان کو بلائیں گے لیکن وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)
(10) وَالَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِہِ لَا یَستَجِیبُونَ لَہُم بِشَیئٍ (الرعد: 14)
” رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں“۔ (سید مودودی)
”جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”رہے وہ جن کو یہ اس کے سوا پکارتے ہیں تو وہ ان کی کوئی بھی داد رسی نہیں کرسکتے“۔ (امین احسن اصلاحی)
” اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے“۔ (فتح محمد جالندھری)
(11) وَقِیلَ ادعُوا شُرَکَائَکُم فَدَعَوہُم فَلَم یَستَجِیبُوا لَہُم (القصص: 64)
”تو وہ ان کو پکاریں گے لیکن وہ ان کو جواب نہ دیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ اُن کو پکاریں گے اور وہ اُن کو جواب نہ دے سکیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”پھر اِن سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ اِن کو کوئی جواب نہ دیں گے“۔ (سید مودودی)
”کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ، وہ بلائیں گے لیکن انہیں وہ جواب تک نہ دیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”تو کہا جائے گا کہ اچھا اپنے شرکاءکو پکارو تو وہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے“۔ (ذیشان جوادی)
”اور ان سے کہا جائے گا کہ اب اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ ان کو پکاریں گے لیکن وہ ان کو جواب نہ دیں گے“۔(امین احسن اصلاحی)
”اور ان سے فرمایا جائے گا اپنے شریکوں کو پکارو تو وہ پکاریں گے تو وہ ان کی نہ سنیں گے “۔(احمد رضا خان)
مذکورہ بالا اس آیت میں اکثر لوگوں نے جواب دینے کا ترجمہ کیا ہے، حالانکہ سیاق کلام میں جواب دینے کا کوئی محل ہی نہیں ہے، شریکوں سے جواب مانگنے کی بات نہیں ہے بلکہ بات یہ کہی جارہی ہے کہ انہیں مدد کے لیے پکارو گے تو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکیں گے۔
(186) یفقھون کا ترجمہ
فقہ یفقہ کا مطلب سمجھنا ہوتا ہے، عام طور سے یہی ترجمہ کیا گیا ہے، لیکن بعض مقامات پر بعضے مترجمین نے سوچنا یا جاننا کردیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
(1) لَہُم قُلُوب لَا یَفقَہُونَ بِہَا (االاعراف: 179)
”ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں“۔ (سید مودودی)
”ان کے دل و دماغ ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)
”ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
(2) وَلَکِنَّ المُنَافِقِینَ لَا یَفقَہُونَ (المنافقون: 7)
”لیکن یہ منافقین نہیں جانتے “۔(امین احسن اصلاحی)
”مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں “۔(سید مودودی)
(3) قَد فَصَّلنَا الآیَاتِ لِقَومٍ یَفقَہُونَ (الانعام: 98)
”یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں “۔(سید مودودی)
(4) وَطُبِعَ عَلَی قُلُوبِہِم فَہُم لَا یَفقَہُونَ (التوبۃ: 87)
”اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا“۔ (سید مودودی)
(5) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (الانفال: 65)
”کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے“۔ (سید مودودی)
(6) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (التوبۃ: 127)
”کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں“۔ (سید مودودی)
(7) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (الحشر: 13)
”اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے“۔ (سید مودودی)
(187) جیب کا ترجمہ جیب نہیں
درج ذیل آیتوں کے ترجمے دیکھیں:
(1) وَنَزَعَ یَدَہُ فَاِذَا ھِیَ بَیضَاءُ لِلنَّاظِرِین (الاعراف: 108)
”اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا “۔(سید مودودی)
(2) وَنَزَعَ یَدَہُ فَاذَا ھِیَ بَیضَاءُ لِلنَّاظِرِینَ (الشعراء: 33)
”پھر اُس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا“۔ (سید مودودی)
(3) وَادخِل یَدَکَ فِی جَیبِکَ (النمل: 12)
”اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو“۔ (سید مودودی)
(4) اسلُک یَدَکَ فِی جَیبِک (القصص: 32)
”اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال “۔(سید مودودی)
پہلی آیت میں جیب کا ذکر ہے، حالانکہ وہاں کوئی لفظ نہیں ہے جس کا ترجمہ جیب کیا جائے۔ بالکل اسی طرح کی دوسرے نمبر والی آیت میں قوسین میں جیب کی بجائے بغل ہے۔ تیسرے اور چوتھے جملوں میں جیب کا لفظ آیا ہے، تاہم اس کا ترجمہ گریبان کیا ہے۔ جیب کا ترجمہ گریبان اور بغل تو درست ہے، تاہم جیب کا ترجمہ جیب درست نہیں ہے۔ اور لفظی لحاظ سے تو وہاں صرف ہاتھ نکالنے کا ذکر ہے، کسی چیز کا ذکر ہی نہیں ہے کہ ترجمے میں اسے ذکر کیا جائے۔
اس طرح پہلی آیت کا درست ترجمہ حسب ذیل ہے:
”اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق (تھا)“ ۔(فتح محمد جالندھری)
(جاری)