احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں


(یوٹیوب چینل ’’درسِ قرآن ڈاٹ کام‘‘ پر  ۱۱ جنوری ۲۰۲۵ء کو نشر ہونے والے انٹرویو کی تفہیم و تسہیل قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔)



اویس: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، السلام علیکم، میں ہوں اویس منگل والا اور درسِ قرآن ڈاٹ کام پر یہ ایک سپیشل پوڈ کاسٹ ہے جس کے ساتھ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ بات کریں گے آج کچھ خوابوں کی، وہ کہتے ہیں نا کہ خواب وہ نہیں ہوتے جو کہ آپ کو نیند میں نظر آتے ہیں، خواب دراصل وہ ہوتے ہیں جو کہ آپ کو سونے نہیں دیتے۔ لیکن کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر خواب دیکھنے سے، خوابوں کی قوت سے محروم ہو چکے ہیں، اور اسی لیے ہماری انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوئی طویل مدتی سوچ نہیں رہی ہے۔ اب اس حوالے سے آج ہم نے گفتگو کرنی ہے کہ یہ معاملہ ہے کیا اور کیسے اس معاملے کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ساتھ ڈاکٹر ذیشان احمد صاحب موجود ہیں، بہت معروف ماہرِ تعلیم ہیں، بزنس سٹڈیز کے بھی ماہر ہیں، اور مختلف یونیورسٹیز سے ان کا تعلق رہا ہے، LUMS (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز) سے ان کا تعلق رہا ہے، KSBL (کراچی سکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ) سے ان کا تعلق رہا ہے، اور الغزالی یونیورسٹی سے بھی، تو ان سے آج ذرا ہم اس معاملے میں راہنمائی حاصل کریں گے۔ السلام علیکم ڈاکٹر صاحب، کیسے ہیں سر ٹھیک ٹھاک ہیں۔ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: وعلیکم السلام، الحمد للہ، آپ سنائیں۔ 

اویس: الحمد للہ، الحمد للہ، معاملہ جو ہے وہ ذرا سنگین ہے، لیکن میں نے آسان الفاظ میں اسے لوگوں کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن پہلا سوال میں آپ سے نہایت آسان اور نہایت سادہ سا کرتا ہوں کہ اس وقت اگر دنیا کی صورتحال کو دیکھا جائے اور دو قوموں کا موازنہ کیا جائے، ایک مسلمانوں کا اور ایک یہودیوں کا، تو طاقت میں، عالمی معاملات میں، با اثر ہونے میں، ٹیکنالوجی میں، ہر چیز میں کون آگے ہے؟ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم۔ دیکھیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم پیمائش کیسے کرتےہیں؟ ہر چیز کی ایک Per capita measure (فی کس پیمائش) ہوتی ہے، مثال کے طور پر اگر علم کی اور ٹیکنالوجی کی بات کریں تو معلوم کر سکتے ہیں کہ فی یہودی کتنے Patents (اختراع ناموں) کی درخواست دی گئی، کتنی تحقیق ہوئی، کتنے تحقیقی مقالے لکھے گئے، کتنی یونیورسٹیز ہیں، نوبل انعام یافتہ یہودیوں سے کتنے آئے؟ 

Per capita کے اندر Denominator (اس معاملے میں مسلمانوں اور یہودیوں کی آبادی) کا بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔ تو فی کس مسلمانوں کا دیکھیں تو ایک یہودی کے بدلے میں ایک سو مسلمانوں کا تناسب ہے۔ 

اویس: تعداد کی بات ہو رہی ہے نا یہ فی الحال؟

ڈاکٹر ذیشان احمد: جی، تعداد کی۔ یعنی ہم کہتے ہیں وہ ڈیڑھ ملین (پندرہ لاکھ) ہیں اور ہم ڈیڑھ بلین (ڈیڑھ ارب) سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ دیکھیں کہ سائنسی ترقی میں، تحقیق میں، اختراع ناموں میں، نوبل انعام یافتوں میں، یا دوسرے انعامات میں تو مسلمان کہیں نظر نہیں آتے۔ اور یہودیوں کا فی کس دیکھا جائے تو اور کوئی قوم نہیں ہے ایسی دنیا میں جس کا تناسب ان سے زیادہ ہو۔ 

اب ظاہر ہے کہ یہ دنیوی اسباب ہیں۔ اور یہ ایسی چیز ہے جو بڑی حد تک وضاحت کرتی ہے کہ آج اس وقت جہاں ہم کھڑے ہیں، کتنے بے بس ہیں، کتنے مجبور ہیں، امکانات کی کمی کی وجہ سے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے ہیں، ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کرنا کیا ہے؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں، کوئی اندازہ نہیں کہ اس صورتحال میں ہمیں کرنا کیا ہے۔ جبکہ وہ ایسی نئی نئی چیزیں کر رہے ہیں، جو حالیہ دنوں میں حزب اللہ کے ساتھ ہوا، اس سے پہلے جو ایران کے ساتھ ہوا، یعنی ہم ان کا دفاع، ان کا اقدام، ان کی ٹیکنالوجی دیکھ رہے ہیں۔

یہ ایسے ہی راتوں رات نہیں ہو جاتا، اس کے پیچھے بیس سال کی منصوبہ بندی ہے، اس کے پیچھے خواب دیکھے گئے ہیں، اس کے پیچھے ویژن بنایا گیا ہے، اور اس کے پیچھے تمام قوتوں کی صف بندی کی گئی ہے، منظم کیا گیا ہے، مالی مدد فراہم کی گئی ہے، سب کچھ کیا گیا ہے تب جا کر ان کے جو خواب ہیں، صیہونیوں کے خواب، وہ آج پورے ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ 

اور جو مسلمان تھے جنہوں نے خواب دیکھنے تھے، جنہوں نے آکے وہ چیزیں کرنی تھیں اور اس کا دفاع کرنا تھا، وہ ساری چیزیں جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی سے، صحابہؓ کی زندگی سے، حضرت عمرؓ کی زندگی سے ثابت ہیں، ہم نے وہ کچھ نہیں کیا۔ لہٰذا نتیجتاً‌ ہم کسی امریکی سازش کو، کسی اسرائیلی لابی کو، کسی موساد کو یا را کو الزام نہیں دے سکتے، یہ سب ہمارا اپنا کیا ہوا ہے۔ 

تو سوچنے کی بات ہے کہ جب یہ صورتحال صاف طور پر بتائی جاتی ہے تو پھر ظاہر ہے اگلا سوال یہ بنتا ہے کہ اچھا، اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟ 

اویس:  وہ اگر آگے ہیں تو کیسے آگے ہیں، انہوں نے کیا حکمتِ عملی اپنائی؟ اور ہم وہ کیوں نہیں کر سکے؟ کیونکہ پہلے تو اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے نا، ورنہ بہت سارے لوگ ایک Denial mode (انکاری کیفیت) میں ہوتے ہیں کہ نہیں جی ہم تو مسلمان ہیں، چونکہ ہمارے ساتھ یہ لیبل لگا ہوا ہے، جو کہ ظاہر ہے بہت بڑا لیبل ہے، لیکن اس بڑے لیبل کے ساتھ بہت ساری ذمہ داریاں بھی آتی ہیں۔ تو ہمارے ساتھ صرف لیبل لگا ہونا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ ہم کامیاب ہیں، یا ہم آگے ہیں، تو اس کا اعتراف کرنا بہت ضروری ہے، لیکن کیا ہم عام طور پر اس چیز کو تسلیم کرتے ہیں؟ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: بالکل نہیں کرتے۔ دیکھیں، ایک پہچان ہے، ایک شناخت ہے، سارے مسلمان مانتے ہیں کہ آخری وحی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آگے چل کر جتنے بھی چیلنجز آنے تھے، کسی بھی حوالے سے، ٹیکنالوجی، سماج، نفسیات، تعلقات، سیاست، معیشت، سب کا حل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ اچھا، اب ہوا یہ کہ اہلِ مغرب نے پندرہویں صدی کے آس پاس جتنا ہمارا جمع شدہ کام تھا، تحقیق تھی، چاہے وہ بو علی سینا کا ہو، فرابی کا ہو، کندی کا ہو، سارا جمع کر کے اپنی یونیورسٹیز میں پڑھانا شروع کر دیا۔ جبکہ ہم نے اس کے ساتھ ساتھ اس کو کھونا شروع کر دیا۔ نتیجہ کیا ہوا کہ قوموں کی پیش رفت میں وہ تیز رفتار ہوتے گئے اور ہم سست ہوتے گئے، اور ایک مقام پر آ کر وہ ہم سے آگے نکل گئے۔ اور اس کے بعد کی تاریخ ہم سب کو معلوم ہے۔ 

چونکہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی میں سب کچھ تھا، تو انہوں نے بہت ساری چیزیں اسی سے سیکھیں۔ جبکہ ہم اسے بتدریج اپنی زندگی گزارنے کے طریقے سے، اپنے ویژن سے، اپنے طرزِ زندگی سے، اپنی زندگی کے محور سے، ہر چیز سے اس کو ہٹاتے چلے گئے۔ 

پھر یہ زمانہ آ گیا کہ جیسے کراچی مذہبی اعتبار سے بڑا اچھا شہر ہے، یہاں کے مسلمان سمجھدار ہیں، لیکن ہمارے مڈل کلاس گھرانوں میں بچے کو کیا بتایا جاتا ہے، کس چیز سے ڈرایا جاتا ہے، کس چیز کی لالچ دی جاتی ہے؟ یہی کہ پڑھائی نہیں کرو گے تو کیا تم گدھا گاڑی چلاؤ گے؟ تو ساری بات ہوتی ہے معاشی کیریئر کی، ایک قابل بھروسہ مستقبل کی، کہ امریکہ چلے جاتے ہیں، انگلینڈ چلے جاتے ہیں۔ یہاں پر ایسی کوئی بات نہیں ہوتی جو اپنی شناخت کی عکاسی کرتی ہو۔ 

علماء جو وارث تھے، جنہوں نے حل پیش کرنے تھے، اور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت، جس نے علم میں آگے بڑھنا تھا، ان چیزوں کو سمجھنا تھا۔ ہوا یہ کہ مغرب والے تحقیق بڑھاتے گئے، اور اب وہ بہت ساری کتابیں ایسی لکھتے ہیں جن میں آپ کو Intermittent fasting سے لے کر Emotional intelligence سے لے کر Level five leader سے لے کر ہر چیز میں قرآن  و سنت اور سیرت نظر آئے گی۔

اویس: فائیو اے ایم کلب ان کی (صبح پانچ بجے جاگنے والے) ……

ڈاکٹر ذیشان احمد: ہمارا تو بچہ بچہ فائیو اے ایم کلب ہے۔ رابن شرما تو فائیو اے ایم کلب اب لکھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فور اے ایم کلب (تب بتا دیا تھا)، جو تہجد میں اٹھے گا، وہ تو فور اے ایم کلب میں اٹھے گا۔ ایک زمانے میں ہمارا بچہ بچہ یہ کرتا تھا۔ تو ظاہر ہے کہ اللہ کے وہ وعدے ان طریقوں کے ساتھ ہیں۔ 

مجھے کوئی El Salvador میں نظام کی تبدیلی کی کہانی سنا رہا تھا، چھوٹا سا ملک ہے، گلشن اقبال جتنا ہو گا، لیکن ایسی بڑی تبدیلی آئی ہے، وہ ڈرگز مافیا کا شہر تھا، اب کہتے ہیں کہ وہاں قانون کا زبردست راج ہے، دکانیں صبح ہی صبح کھلتی ہیں اور شام تک سب بند ہو جاتا ہے۔ اب یہ کہاں سے آیا؟ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا۔ لیکن کراچی میں اور پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور ایل سلواڈور میں کیا ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کس کو الزام جاتا ہے، ہم اپنے آپ کو ہی الزام دے سکتے ہیں۔ تو ہماری بنیادی جو چیز تھی، ہم نے اپنے آپ کو پہچانا نہیں۔ یہ جو کتاب مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے لکھی ہے ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ جس کا ترجمہ اردو میں ہوا ’’مسلمانوں کا عروج و زوال اور انسانیت پر اس کے اثرات‘‘۔ اس میں انہوں نے ایک زبردست دعویٰ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑا فرق یہ پڑ گیا ہے کہ جو لوگ اللہ  اور رسول کو ماننے والے اور آخرت کو ماننے والے تھے، وہ ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹ گئے۔ اس کا مطلب کیا ہے کہ جب یہ لوگ آئے تھے تو انہوں نے عورتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، کمزوروں کے حقوق، کمزوروں قوموں کے حقوق، یتیموں  اور بیواؤں کے حقوق قائم کیے تھے۔ اب یہ معاملہ جو دوسری طرف چلا گیا ہے تو بہت نقصان ہو سکتا ہے انسانیت کو۔ 

ظاہر ہے کہ ویسٹ میں صیہونی وغیرہ بھی ہیں، اور ویسٹ میں وہ سوشلسٹ ری پبلک Scandinavian  countries ممالک بھی ہیں  جو  ویلفیئر سٹیٹس بنا کے بیٹھی ہیں۔ جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت قریب ہیں (اسلامی رفاہی ریاست سے)، اس معنیٰ میں نہیں کہ ان کا ایمان ویسا ہے، یا وہاں پہ عبادات ویسی ہیں، لیکن معاملات کے اعتبار سے کہ وہاں کوئی بھوکا نہیں سو سکتا، وہاں پہ کوئی غریب بغیر علاج معالجے کے مر نہیں سکتا۔ تو اس معاملے میں وہ اس ریاست کے کہیں زیادہ قریب ہیں جو ہماری ریاست ہے یعنی  اللہ کے رسول جو قائم کر کے گئے تھے۔ 

تو یہ کیسے ہو گیا؟ ظاہر ہے کہ اس کو سمجھنا پڑے گا کہ بنیادی طور پر ساری چیز شروع ہوتی ہے اپنے آپ کو پہچاننے سے،  میں اس دنیا میں کیوں آیا ہوں؟ مجھے اس دنیا میں کرنا کیا ہے؟ اور میں نے خواب کون سے دیکھنے ہیں؟ وہی بات جو آپ فرما رہے ہیں۔ 

اویس: میں اس دنیا میں آیا ہوں تاکہ میں سکول جاؤں، کالج جاؤں، یونیورسٹی جاؤں، اس کے بعد ایک اچھی سی نوکری کروں، پھر شادی ہو جائے، کچھ بچے پیدا ہو جائیں، اس کے بعد بڑھاپا آئے، اس کے بعد اللہ حافظ۔

ڈاکٹر ذیشان احمد: بنگلہ ہو، گاڑی ہو، جب یہ چیزیں شامل کر لیتے ہیں تو آپ پاکستانی خواب اور امریکی خواب میں فرق نہیں کر سکتے۔ تو جس چیز کے پیچھے وہ لگے ہیں آپ بھی اس چیز کے پیچھے لگے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ جب آپ کی طرف دیکھیں گے کہ میں اس سے کیا کام لوں؟ اس کے اندر تو نہ جنت کا شوق ہے نہ کوئی اور۔ میں بچوں کو کل رات بتا رہا تھا کہ عمیر بن ابی وقاصؓ، سعد بن ابی وقاصؓ کے چھوٹے سے بھائی تھے۔ 

میرا چھوٹا بیٹا بیت السلام میں پڑھ رہا ہے تو وہاں اس کا ایک کلاس فیلو جو بالکل صحت مند تھا، تین چار دن میں اس کو بخار ہوا، طبیعت خراب ہوئی، برین ٹیومر نکلا اور اس کا انتقال ہو گیا۔ کل رات اس کے جنازے میں گئے تھے، وہ بہت ہلے ہوئے تھے۔ تو میں نے کہا کہ مسلمانوں کے ہاں موت جو تھی، وہ کوئی ہلنے والی چیز نہیں تھی، ایک یاد رہنے والی چیز تھی۔ میں نے ان کو بتایا کہ سعد بن ابی وقاصؓ کے جو بھائی تھے عمیر بن ابی وقاصؓ، وہ بدر کے دن چھپ رہے تھے کہ میں نظر آجاؤں گا تو یہ مجھے الگ کر دیں گے کہ یہ ابھی چھوٹا لڑکا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ چھپتے چھپتے شامل ہو گیا کسی طرح سے، اور اسی میں اس کی شہادت ہوئی۔ کہتے ہیں کہ اس کا تصور بالکل واضح تھا کہ بدر میں آیا ہوں اور مجھے اب سیدھا جنت جانا ہے، یہ میرا جنت جانے کا دروازہ ہے۔ اور اس کے لیے اس نے ہر طرح کی کوشش کی۔ اب آپ سوچیں کہ اس بچے کا جذبہ کیا ہو گا؟

حضرت خالد بن ولیدؓ کہہ رہے ہیں کہ یہ تم اس قوم کو للکار رہے ہو جو موت کو ویسے محبوب رکھتی ہے جیسے تم شراب کو محبوب رکھتے ہو۔ اور ابھی اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ تم اس قوم کو للکار رہے ہو جو موت سے اتنی محبت رکھتے ہیں جتنی تم صیہونی زندگی سے محبت رکھتے ہو۔ قرآن کریم کی آیت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ تم یہودیوں کو زندگی پہ زیادہ حریص پاؤ گے یہاں تک کہ مشرکین سے زیادہ۔ 

تو یہ بڑا فرق ہے، اب اگر ہم بھی انہی کی طرح ہو گئے، اگر مجھے بھی وہن یعنی موت کا خوف اور اس سے ایک اکتاہٹ اور زندگی کی محبت ہو گئی، تو پھر اللہ کے رسول نے کہا کہ چاروں طرف سے جیسے لوگ دسترخوان کے کھانے پہ اٹیک کرتےہیں،  ویسے تم پہ اٹیک کریں گے، اور وہی کچھ ہو رہا ہے۔

اویس: بالکل وہی چیز ہو رہی ہے۔ اچھا، اب ایک اور چیز اس کے اندر آجاتی ہے، بہت سارے لوگوں سے جب گفتگو ہوتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہونا ہی ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے، یہ تو ہونا ہے، تو اب ہم کیا کر سکتے ہیں، یہ اپروچ کیا ہے؟ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: اسے کہتے ہیں Self fulfilling prophecy کہ ہم یقین کر لیتے ہیں کہ ایسا ہونا ہی ہے۔ اگر میں سوچ لوں کہ میں کچھ بھی کر لوں مجھے بڑھاپے میں شوگر ہونی ہی ہے، تو اس کا مطلب کیا ہے کہ اب میں ایک خیالی دنیا میں داخل ہو گیا ہوں، میں نے سمجھ لیا ہے کہ میرے کچھ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسے پیشگوئی پر مبنی زندگی کہہ لیں، بے عملی کی زندگی کہہ لیں، یا ردعمل (کچھ ہو گا تو کچھ کریں گے) والی زندگی کہہ لیں کہ جس کے اندر آپ اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر کے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ 

دوسرا طریقہ زندگی گزارنے کا یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ نہیں، یہ تو مستقبل کا وہ منظر ہے جو مجھے پیشگوئی کی بنیاد پر نظر آ رہا ہے، لیکن ایک منظر وہ ہے جو میں دیکھنا چاہتا ہوں، اور اس سے قطع نظر کہ نتائج کیا ہوتے ہیں، جو میں چاہتا ہوں اس کے پیچھے پورا عزم کر کے اپنی پوری توانائی، محنت اور ثابت قدمی لگاؤں گا، اللہ سے مانگوں گا اور اللہ تعالیٰ مدد کرے گا، تو یہ مسلمان کی شان ہوتی ہے۔ 

اویس: یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی چیز کہی ہے کہ یہ ہونا ہے، تو آپ اس کو کیسے لے رہے ہیں؟ یہ تو آپؐ نے نہیں کہا نا کہ جب تم پر حملے ہو رہے ہوں تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جانا اور بس کچھ نہ کرنا۔

ڈاکٹر ذیشان احمد:  نہیں کہا، اور دیکھیں اس وقت جو فلسطینی مجاہدین ہیں، یعنی یحیٰ سنوار کا بیان میں نے پڑھا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور کتنا کمال کا بیان ہے کہ ’’انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم کس درجے کی قربانی دے سکتے ہیں‘‘۔ یہ اسی دور کا آدمی ہے، اسی دور کے لوگ ہیں، تو یہ جو کر کے دکھا رہے ہیں، یہ میرے لیے متاثر کن ہونی چاہیے نا۔ 

اس میں جو نکتہ ہے وہ یہی ہے کہ میری جو شناخت ہے، اللہ نے جو مجھے بھیجا ہے، اس سے قطع نظر کہ آس پاس والے کیا کر رہے ہیں، اگر ساری لہریں اور ساری ہوائیں مخالف سمت کی چل رہی ہیں، مجھے تو یہ دیکھنا ہے کہ میں نے کیا کرنا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام آگ میں کود گئے اور انہوں نے نہیں دیکھا کہ آس پاس کون کیا کہہ رہا ہے۔ میرا فریضہ تو میرے اللہ کے ساتھ ہے، اس نے جو کچھ کہا جس کے لیے بھیجا مجھے وہی کچھ کرنا ہے، لہٰذا میں اس پر قائم رہوں گا، اگر کوئی نتیجہ نہیں بھی نکلتا، میں اپنی جان اس میں لگا دوں گا۔ وہ چھوٹی سی چڑیا جو اپنی چونچ کے ساتھ پانی ڈال رہی ہے ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں، فرشتے اس سے پوچھ رہے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑے گا؟ وہ کہہ رہی ہے کہ میں بس یہی کر سکتی ہوں، اور قیامت کے دن میرا یہی عمل ضامن ہو گا جب اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ جب میرے خلیل کو اس طرح سے پھینکا جا رہا تھا آگ میں تو تم نے کیا کیا؟ 

اویس: تو اب یہ جو ’’اس وقت تم نے کیا کیا‘‘ والا سوال ہے،  اسی بنیاد پر وژن بننا ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم بات کریں عام عوام کی تو ان سے تو خیر ہم کیا امید رکھیں، لیکن مسلمانوں کا ایک ایسا طبقہ جسے ہم طاقتور کہیں، جسے ہم دولت مند کہیں، جسے ہم اہلِ نظر کہیں، یا وہ لوگ جو کہ بڑے بڑے اداروں بیٹھے ہوئے ہیں، کیا وہ ایک طویل دورانیے کا وژن بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، کوئی کوشش ہو رہی ہے؟ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: دیکھیں، بہت کم ہیں، بہت معمولی ہے اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ یعنی کچھ لوگ ہیں جو آ کر مشورہ بھی لیتے ہیں، انفرادی طور پر بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے اپنے دائرۂ اثر میں، اپنی آئی ٹی کمپنی میں، اپنے بزنس میں، وژن بنا کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اجتماعی سطح پر دیکھیں تو اس کی مثالیں بہت تھوڑی ہیں۔ اور یہ وہ چیز ہے جس سے قوموں کے مستقبل کا پتہ چلتا ہے۔ 

اویس: تو اگر اب یہ چیز ہمیں اپنی امت میں لانی ہے تو یہ کیسے ہو گا؟ اور اس کے لیے اگر ہم کوئی لائحہ عمل بنائیں، کوئی مرحلہ وار ترتیب بنائیں، کاموں کی فہرست بنائیں، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر ہم مسلم امہ کے لیے ایک طویل دورانیہ کا وژن بنانے کا آغاز کرنا چاہیں تو؟

ڈاکٹر ذیشان احمد: دیکھیں، ان ساری علامات میں جو بنیادی علامت ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو نہیں پہچانتے، اور یہ تشخیص جن لوگوں نے بھی کی ہے درست کی ہے۔ جیسے علماء مثال دیتے ہیں کہ ایک شیر کا بچہ بکری کے ریوڑ کے ساتھ چلا گیا، تو انہی کی طرح اس کی پرورش ہوئی اور وہ اپنی شناخت وہی سمجھتا تھا جو بکری کی ہے۔ جب اس کو دوسرے شیروں نے آ کر سمجھایا اور اسے بکریوں سے الگ کر کے بتایا تم ان میں سے نہیں بلکہ ہم میں سے ہو اور تمہارے یہ کام ہیں، جب اس کو جا کر پانی میں شکل دکھائی کہ دیکھو تم ان سے مختلف ہو تو وہ اس شکل سے بھی ڈر گیا، اس کو بہت وقت لگا سمجھنے میں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلی بات تو اپنے آپ کو پہچاننا ہے۔ دیکھیں، شاہ ولی اللہؒ کوئی معمولی آدمی نہیں تھے، وہ کہتے ہیں کہ تم اللہ کو ساتھ لو اگر تم واقعی مومن ہو، اور اگر تمہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اللہ اپنے خزانوں کے ساتھ اپنی قدرت کے ساتھ تمہارے ساتھ کھڑا ہے، تو تم نے اللہ کو نہیں پہچانا۔ تو ہم نہ اپنے آپ کو پہچان رہے ہیں، نہ اپنے رسول کو پہچان رہے ہیں، نہ اپنے اللہ کو پہچان رہے ہیں۔ 

اللہ نے ہمیں بہت زبردست وسائل دیے ہیں، اور اس میں امیری غریبی سے زیادہ ایمان، اخلاص اور اللہ کے ساتھ تعلق پہ زیادہ بھروسہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اپنی شناخت قائم کر لیں گے۔ پھر ایک آدمی نیت کرتا ہے کہ میں نے جانا ہی حیدرآباد ہے، تو ظاہر ہے کہ حیدرآباد تک اللہ اسے لے جائیں گے۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں چائنہ کے بارڈر سے ہوتا ہوا چائنہ کے آخری ساحل تک جاؤں گا۔ تو جب وہ یہ سوچتا ہے تو اس کے اندر اس نیت اور اس عزم کی برکت سے وہ صلاحیت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ 

اب وہ جو بچہ ہوا ہے اس کو ہم نے یہ کہنا ہے کہ تم نے اس طرح سے داعی بننا ہے، اس طرح سے مبلغ بننا ہے، اس طرح سے معلم بننا ہے ،اس طرح سے تبدیلی لانی ہے، یہ مشن تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا، یہی مشن تھا صحابہؓ کا، یہی مشن تھا اولیاءؒ کا،  یہی مشن ہے تمہارا۔ جب یہ بچپن سے اس کو ذہن نشین کرایا جائے گا، اب اس کے لیے فکر کی بات نہیں ہے، اب اس کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔  تو پہلی چیز ہے شناخت اور پھر بچپن سے تربیت۔ اور آپ یہی کچھ کر سکتے ہیں۔ جب اس کی شخصیت بن گئی، جب اس کی ذہنی حدود قائم ہو گئیں، تو پھر آپ اس کو کتنا تبدیل کر سکیں گے؟ 

ایک عجیب بات ہے، اسلام آباد راولپنڈی کے اندر ایک گورا تھا، وہ یہ کہتا تھا پاکستانیوں کو بگاڑنے کے لیے ان کی مائیں کافی ہیں۔ اس سے پوچھا گیا، کیسے؟ اس نے کہا، ہر چیز تو ان کے بستر پر لا کر دے دیتی ہیں۔  اگر آپ یہودیوں کا پڑھیں گے کہ ان کے بچوں کی تربیت کیسے ہوتی ہے، تو وہ ان کو دھکیلتے ہیں خطرے کی طرف، ان کو دھکیلتے ہیں مٹی میں، ان کو درختوں پر چڑھاتے ہیں، کیا کیا کرتے ہیں وہ بچپن میں۔ اور ہمارے بچے کی جو نشوونما ہو رہی ہے تو اس کا بیڈ اور کمرہ اس کے لیے آرام دہ جگہ بن گئی ہے، چائے وغیرہ سب وہیں مل رہا ہے۔ بیٹا، تم او لیولز کے گریڈ لے آؤ، بس باقی تمہارے ہاتھ میں جو گیجٹ ہے تو اسی کے ساتھ لگے رہو۔ اب وہ بچہ کیا کر جائے گا؟ کیا کر سکتا ہے؟ 

اور دوسرا بچہ جس کا ماحول کے ساتھ تعلق بنا، جو جغرافیائی سیاسی صورتحال پر نظر رکھے ہوا ہے، اس کو بچپن سے بتایا جا رہا ہے کہ یہ دشمن ہے، یہ دوست ہے، یہ وژن ہے، یہاں ہم نے گریٹر اسرائیل قائم کرنا ہے، تو ظاہر ہے تو اس نے آگے چل کر بہت مختلف کام کرنا ہے۔ اس کی ہمت الگ ہے، اس کا حوصلہ الگ ہے، ان کا آپس میں ربط ہے، اور وہ بہت سارے اپنے اختلافات صرف اس لیے دفن کر دیں گے کہ انہوں نے بڑا مقصد حاصل کرنا ہے۔

ہمارے ہاں چونکہ وژن ہے ہی انفرادی، تو میں دوسروں سے کٹ جاؤں گا اور اپنے وِژن کے پیچھے لگ جاؤں گا، یہاں تک کہ اگر مجھے اس کے لیے دوسروں کو ہٹانا پڑے گا، اپنے کزن کو، بھائی کو، تو میں وہ بھی کروں گا۔ تو یہ بہت بڑا فرق ہے۔ 

ظاہر ہے کہ یہ ساری چیزیں قرآن میں، حدیث میں، سیرت میں، اور نسلوں کی تاریخ میں ہمارے پاس موجود ہیں، لیکن نہ جانے کیوں ہمارا ان سے تعلق قائم نہیں ہو پا رہا۔ 

ایک طریقہ جو سمجھ میں آتا ہے جو بہت عملی ہے، وہ یہ کہ سیرت اور صحابہؓ کی زندگی سے اپنے بچوں کو متعارف کرایا جائے، ان کا جگر اور حوصلہ پیدا کیا جائے۔ مختلف کتابیں ہیں، لوگوں نے بڑی محنت کی ہے، فیس بک اور یوٹیوب پر بھی ویڈیوز دستیاب ہیں، انگلش میں بھی ہیں، اردو میں بھی ہیں۔ پھر دیکھا جائے کہ صحابہؓ اور صحابیاتؓ اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے تھے۔ اور اس کے برعکس جو ہمارے بچوں کی ہو رہی ہے۔ اس کو بہت بدلنے کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ یا تو آپ پیدا ہی ایسے ہوئے ہوں، یا پھر آپ اپنے آپ کو تبدیل کریں۔ تو اس سے بڑا فرق پیدا ہو گا کہ بچے پیدا ہی اس انداز میں ہوں۔

یاد رکھیے گا کہ یہاں بھی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا اصول لاگو ہوتا ہے کہ اگر کسی وقت میں بہت کم مسلمان باشعور ہیں اور اس شناخت پر یقین کر کے اس طرح کا وژن بنا رہے ہیں، تو ان مسلمانوں کی قیمت اللہ کی نگاہ میں بہت زیادہ ہے، اور انہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس وقت مسلمانوں کو بچائیں گے۔ ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں نے جو اپنا ایک تاثر قائم کیا ہوا ہے۔ ورنہ یہ حزب اللہ والا واقعہ شاید ایک سال پہلے ہو جاتا اگر یہ اس طرح کی مزاحمت اور مدافعت کا مظاہرہ نہ کر رہے ہوتے۔ تو ایسے مسلمان چاہئیں اور ظاہر ہے کہ اس کی آگاہی پیدا کرنی ہے، اور یہ بات اللہ تعالیٰ اسی لیے قرآن میں بار بار کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم سے ملاقات کی امید تھی، یہ لوگ تھے جو آخر کی طرف نظر کیے بیٹھے تھے، اور یہ لوگ دنیا کی زندگی (جو میسر تھی) اس سے مطمئن تھے، اسی میں خوش تھے۔ 

اویس: سر، وہ جگانے والی بات سوئی ہوئی قوموں پر تو لاگو ہو سکتی ہے، جو قومے میں ہو اس کو جگانا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: وہ کیا ہے ’’مجھے ہے حکمِ اذاں‘‘۔ ہمیں تو کرنا ہے اور یہ آگاہی ہے۔ اس میں حدود و قیود بھی ہیں، جتنا ہم اپنے بڑوں کی سوانح یا بائیوگرافیز پڑھتے ہیں، اتنا ہم آگے بڑھتے ہیں۔ 

اویس: اچھا، اب دو چیزیں ہیں اس کے اندر، ایک بات آپ نے کی کہ جی یوٹیوب پر بھی ہے، فیس بک پر بھی ہے، وہاں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن کیا یہ الٹا معاملہ نہیں ہے کہ یوٹیوب اور فیس بک بنایا کس نے؟ کفار اور یہودیوں نے۔ اور وہ چیز جو کفار اور یہودیوں نے بنائی، آج ہم کہہ رہے ہیں کہ چلو اس سے ہی استفادہ کر لو، ہم اس سطح تک نیچے جا چکے ہیں۔

ڈاکٹر ذیشان احمد: اور صرف یہی نہیں، میں اس سے اگلی بات کرتا ہوں کہ بظاہر فیس بک آپ کے لیے فری ہے، یوٹیوب چلو کچھ ایڈز دکھا دیتا ہے لیکن آپ کے لیے فری ہے، واٹس ایپ ہے یا دوسری چیزیں ہیں، تو یاد رکھیے گا کہ یہ ایسے ہی فری نہیں ہیں، ان کے پاس آپ کا پروفائل، آپ کا ڈیٹا، آپ کی ایک ایک چیز ہے۔ اس لیے آپ ان کے سامنے کیا اٹھیں گے، آپ تو آسان شکار ہیں، کیونکہ وہ آپ کو اندر باہر سے جانتے ہیں جبکہ آپ ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ چائنہ ظاہر ہے کہ اس معاملے میں باخبر قوم ہے تو انہوں نے اپنا فیس بک، اپنا یوٹیوب اور سارے چینلز اپنے بنائے ہیں۔ 

ایک دعوت میں شیخ تقی عثمانی صاحب میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ پروفیشنلز موجود تھے، بعض اوقات وہ میری طرف توجہ کر کے باقی سب کو سنا رہے ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ دیکھو، ہمیں لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ نہیں کیا، وہ نہیں کیا، تو ہم نے مدارس میں جہاں جہاں جو جو گنجائش نکل سکتی تھی وہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ یوٹیوب کا ایک مسلمان متبادل کیوں نہیں بنا سکے؟ فیس بک کا اسلامک متبادل کیوں نہیں بنا سکے؟ 

تو یہ سوالات ہیں جو آئی ٹی کے اور دیگر پروفیشنلز سے کیے جا سکتے ہیں اور اس کی بہت ضرورت ہے۔ اور چائنہ تو بالکل اوپر سے آتا ہے نا، کمیونسٹ پارٹی ہر چیز کرتی ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے خطرات کیا ہیں، اس لیے اس پہ کام کر رہے ہیں۔ اب بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس متبادل ہے ہی نہیں۔ تو ایک وژن کے تحت یہ کام بھی ہو سکتا ہے۔

اویس: اچھا، ابھی آپ نے مدرسوں والی بات کی، پھر آپ نے تقی عثمانی صاحب کا ایک پوائنٹ رکھا۔ یہ جو مدارس ہیں یہ کتنے مؤثر ہیں؟ کیونکہ اگر میں ایک عام آدمی کی نظر سے دیکھوں تو ہر سال ہزاروں علماء مدارس سے نکل رہے ہیں، کیا وہاں پر ان کا وہ وژن بنایا جا رہا ہے یا نہیں؟ کیونکہ جب ہزاروں علماء نکلتے ہیں دارالعلوم سے تو ان کی کھپت کہاں ہوتی ہے؟ کسی مسجد میں، جہاں انہیں مل رہے ہوتے ہیں پچیس تیس ہزار روپے، شاید زیادہ کہہ رہا ہوں میں، تو اگر ان اداروں کے فضلاء نے جا کر پچیس تیس ہزار روپے میں کسی مسجد کو ہی سنبھالنا ہے تو کیا اس سے مقصد پورا ہو رہا ہے؟

ڈاکٹر ذیشان احمد: دیکھیں، کوئی چیز اپنے تاریخی پس منظر کے بغیر نہیں سمجھی جا سکتی۔ انگریزوں کے زمانے میں علماء اور مدارس پر ایسا حال آیا کہ انہیں مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور بہت سازشیں کی گئیں۔ تو وہ اپنے دفاع میں صرف اس بات پر آ گئے کہ ہمیں اب کلمہ، نماز اور بنیادی دین کی جو تعلیمات ہیں، بدیہات ہیں، ان کی حفاظت کرنی ہے۔

اچھا، پاکستان بن گیا، علماء نے کوشش کی۔ آپ کا جو قراردادِ مقاصد ہے وہ تین چار بڑے بڑے علماء سید سلیمان ندویؒ، مناظر حسن گیلانیؒ، مفتی شفیعؒ جیسے حضرات کا مرہونِ منت ہے۔ لیکن کسی وجہ سے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے دور میں علماء کا جو کردار تھا وہ محدود ہوتا چلا گیا۔ اگر آپ ترکی اور ایران وغیرہ ممالک میں دیکھیں تو جتنے بھی مدارس ہیں، کُلیّات ہیں، جامعات ہیں، ان کی امداد ریاست کی طرف سے آتی ہیں۔ جبکہ ان مدارس کو ہم نے اپنی مدد آپ پر چھوڑ دیا۔ اور مدارس ایک بڑا کام یہ کرتے ہیں کہ ڈیڑھ دو کروڑ بچے جو سکول نہیں گئے، ان کی رہائش اور کھانے کا انتظام کرتے ہیں اور ان کو دین کی تعلیم دیتے ہیں۔ 

مگر پھر کیا ہوا کہ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۰ء کے دوران زیادہ سے زیادہ علماء سے معاشرے میں صرف یہی کام لیا جاتا تھا کہ طلاق ہوئی ہے کہ نہیں ہوئی؟ یہ وراثت کیسے بٹے گی؟ خطابت بھی عبادات اور ایمانیات تک رہی۔ یہ اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن معاشرہ کی تشکیل کے لیے معاملات، معاشرت، سیاست، تعلقات، قیادت، اور وژن کی طرف جو بات جانی چاہیے تھی وہ کبھی آپ کو جمعوں کے خطبوں میں نہیں ملے گی۔ معاملات میں اگر میں نے کوئی لیکچر سنا بھی تو وہ مدینہ میں مسجد نبوی میں سنا، عربی زبان میں، ہمارے پاکستان میں بہت کم ملا۔ 

تو جب نئی صدی میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ سود کے معاملے میں علماء نے قیادت کی، اس کے حل پیش کیے، اور دوسری چیزوں میں حل پیش کیے۔ یعنی جہاں پر علماء سے کہا گیا تو وہاں پر انہوں نے اچھا ریسپانس دیا۔ لیکن جو بات ہے کہ جو طبقے کو ایک آگاہی اور قیادت والا کردار ادا کر سکتا تھا وہ بس حالات کے ساتھ کیوں چلتا رہا؟ اس لیے کہ ان کو ایک طرح سے معاشرہ سے ایک طرح سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ ان کا تعلیمی نظام الگ ہو گیا، معاشرے میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ ان کو نہیں سکھائی گئی، اور بہت ساری چیزوں ہیں۔ میں ان کی بات اس لیے کر سکتا ہوں کیونکہ میں خود اس نظام سے نکلا ہوں، میں نے ساری کتابیں دیکھی اور پڑھی ہیں، مدرسے میں زمین پر بیٹھ کر۔ 

میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ جب میں القادر یونیورسٹی میں تھا تو میں نے یہ بات اس زمانے میں خان صاحب کو بھی کہی تھی کہ ان لوگوں سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، ان کے اندر ذہانت عام لوگوں سے زیادہ ہے، ان کے اندر امانت عام لوگوں سے زیادہ ہے، ان کے اندر قناعت عام لوگوں سے زیادہ ہے، یہ بہت کم پہ گزارا کر سکتے ہیں، جیسے آپ نے پچیس ہزار کا بتایا۔ اب اگر آپ ان کا ربط معاشرے کے ساتھ جوڑ دیں، تھوڑا سا اعتماد دے دیں، ان کی انگریزی پر، ان کی ہسٹری پر، ان کی سائنس پر، ان کے نقطۂ نظر پر آپ محنت کر لیں،  تو یہ ایسے لوگ ہیں جو معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ 

اس سلسلہ میں بہت تحریکیں ہیں، الغزالی یونیورسٹی ان میں سے ایک ہے، بڑے مدارس میں بھی یہ کام ہو رہا ہے، لیکن اگر ہم دیکھیں تو یہ کسی حد تک میرے جیسے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے، جو دوسری سائیڈ بہت اچھی طرح دیکھ کر امریکہ وغیرہ سے پڑھ کر آئے ہیں، میرے جیسے لوگوں کی قبولیت بھی ہوتی ہے۔ تو ایسے لوگ ان سے بات کریں کہ دیکھو اپنی افادیت اور اپنی تاثیر بڑھانے کے لیے یہ یہ کام کرنے پڑیں گے اور یہ راستہ ہے۔ 

اویس بھائی ایک آئی ٹی فرم مجھے بتا رہی تھی کہ ہمارا سب سے بہترین پروگرامر وہ عالمِ دین ہے جس نے راتوں کو جاگ کر پائیتھان وغیرہ کی پروگرامنگ سیکھی ہے اور اب وہ سب سے آگے ہے۔ یعنی ان لوگوں کے اندر صلاحیت ہے، اور اس کی صرف ایک مثال نہیں ہے، میں ایسی دس مثالیں دے سکتا ہوں۔ 

لیکن اگر ان سے کہہ دیا جائے کہ بس یہی ہے، اس کے علاوہ آپ نے کچھ کرنا ہی نہیں ہے، اور کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں چلو وہ بھی ٹھیک ہے، امام بھی انہی میں سے آئیں گے، بخاری بھی یہی پڑھائیں گے۔ مگر بات یہ ہے کہ اس معاشرے کا جو لڑکا میٹاورس پر اپنا وقت گزار رہا ہے، جو پب جی وغیرہ گیمز کھیل رہا ہے، اس کے مسائل اور اس کی اصلاح بھی تو آپ کے ذمے ہے نا، وہ آپ کا مقتدی ہے، آپ کی رعیت ہے، اس سے تعلق بنانے کے لیے، اس کی ذہنیت سمجھنے کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟ اتنی بات تو آپ سمجھ سکتے ہیں نا۔

بہت سے علماء یہ کہتے ہیں کہ ذیشان میاں آپ یہ کیا کر رہے ہیں کہ وہ انجینئر بنے، وہ ڈاکٹر بنے، تو پھر یہ کون سنبھالے گا؟ تو میں کہتا ہوں کہ چلو اسی بات کو لے لو، تو کم سے کم اسلامک سٹڈیز کا کورس، یونیورسٹیز میں، کالجز میں، سکولز میں تو آپ کو پڑھانا چاہیے تھا نا۔ آپ کی زبان وغیرہ کی ناواقفیت کی وجہ سے وہاں ایسے ایسے غیر عالم کو اسلامک سٹڈیز پڑھانے کے لیے دے دی جاتی ہے جو اسلامک سٹڈیز خود نہیں جانتا۔ تو یہ کتنا زبردست چیلنج ہے، کم از کم وہاں تک تو جائیں نا۔

آپ بیوروکریسی میں جائیں، عدلیہ میں جائیں، ایک زمانہ تھا کہ درسِ نظامی یا اس نوعیت کے کسی کورس کے بغیر کوئی قاضی یا جج نہیں بن سکتا تھا۔ تو اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ بہرحال اس پر محنت ہو رہی ہے، الغزالی یونیورسٹی کے عنوان سے بھی ہم کر رہے ہیں، دوسری جگہوں پہ ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ علماء اور مدارس میں یہ آگاہی آ رہی ہے۔ 

اویس: کیا یہ بہت تاخیر سے نہیں ہو رہا؟ میرے خیال میں تو پانچ چھ سو سال کی تاخیر سے۔

ڈاکٹر ذیشان احمد: بس ہم یہ کہیں گے کہ ’’دیر آید درست آید‘‘۔ پانچ چھ سو سال تو نہیں کہیں گے کیونکہ دیکھیں پانچ چھ سو سال پہلے تو یہ علماء قیادت کر رہے تھے نا۔ اس وقت یوں سمجھیں کہ اورنگزیب کی کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ لکھی جا رہی تھی، اور اُدھر سلطنتِ عثمانیہ میں مجلہ بن رہا تھا، یعنی اس وقت علماء اس منصب پر تھے اور قیادت کر رہے تھے۔ لیکن پھر وہ حالات کا شکار ہو گئے، خاص طور پر ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد تو انہیں بہت محدود کر دیا گیا۔ انگریزوں کے زمانے میں فرقے بنائے گئے اور بہت ساری چیزیں ہوئیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بالکل ہی تحفظات اور بچاؤ کی سطح پر آگئے۔ 

اویس: تو کیا اب اس کی اتنی آگاہی ہے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ چلیں ۱۸۵۷ء نہیں تو ۲۰۵۷ء یا ۲۱۵۷ء میں  ہمیں کچھ نظر آ سکے گا؟  جب ہم کسی چیز پر کام کرنا شروع کرتے ہیں تو اس کا ہدف ہمارے ذہن میں ضرور ہونا چاہیے، تو کیا اب یہ کسی ہدف کی طرف کوشش ہو رہی ہے، اس طرح کی کوئی آگاہی ہے؟

ڈاکٹر ذیشان احمد: دیکھیں، آپ میڈیا کے لوگ ہیں، کیمرے کو سمجھتے ہیں کہ وہ  آہستہ آہستہ Zoom کر کے اپنی Sharpness کو Define کرتا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح کے عمل سے ان کا کچھ وژن تو بنا ہے، لیکن ابھی اس کے Megapixels بہت زیادہ Defined نہیں ہیں۔ سمت کا تو پتہ چل رہا ہے لیکن ایک Narrow focus کسی چیز پر تو آہستہ آہستہ بنے گا۔ بہت سے اداروں کے ساتھ، لوگوں کے ساتھ بات ہوتی ہے جو اپنے اپنے دائروں میں ایسا کام کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ رکاوٹیں ہیں جن کا میں ضرور ذکر کرتا ہوں۔ 

اور یہ دو سو سال کا جمود ہے، اس میں ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سمت ہی غلط ہے، ہماری یہ ذمہ داری ہی نہیں ہے، تو ایسے لوگوں کی بھی مضبوط آواز ہے۔ 

اویس: اور ان کے مطابق ذمہ داری کیا ہے؟

ڈاکٹر ذیشان احمد: دیکھیں، ان کے نزدیک ذمہ داری یہی ہے کہ ہمیں اصل روایات کا تحفظ کرنا ہے اور انہی عموم پر قائم رہنا ہے۔ اچھا، میں اسے مکمل طور پر غلط نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں یہ بحث تب سمجھ آئے گی جب ہم اس کو اس انداز سے دیکھیں گے کہ کچھ لوگ سرحدوں پر ہوں اور کچھ لوگ مرکز میں یا ہیڈ کوارٹرز میں ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ سرحد والے اپنی محنت اور کوشش میں بنیادی امور سے ہی باہر نکل جائیں۔ 

ایک بات اس میں یہ ہے کہ کبھی کبھی شیطان کی طرف سے حسد آ جاتا ہے کہ یہ کیوں آگے بڑھ رہا ہے، میں کیوں نہیں بڑھ رہا؟ میں کیوں گمنام ہوں، یہ کیوں مشہور ہو رہا ہے؟ تو پھر ظاہر ہے کہ پھر وہ شیطان کا آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ تو ان چیزوں کی بھی واضح طور پر شناخت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ اگر تم نے آگے جا کر ایک دوسرے کی ہی ٹانگیں کھینچنی ہیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے جس پستی میں تم پڑے ہو میں بھی تم کو اس سے نہیں نکالتا۔ اللہ اسی قوم کی حالت بدلتا ہے جس کو اپنی حالت بدلنے کا خود شوق ہو یا خیال ہو۔ تو یہ ایک مسئلہ ہے جو بہرحال ہے۔

لیکن اس کے باوجود امید بہت زیادہ ہے، اور امید کی صرف یہ وجہ نہیں ہے کہ مدارس کے لوگ اب عصری علوم حاصل کر رہے ہیں کہ جس دنیا میں انہوں نے دعوت دینی تھی اور علم پھیلانا تھا اس کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ دوسری طرف وہ لڑکے جو لمز، آئی بی ایس، آغا خان، اور حبیب جیسی اعلیٰ یونیورسٹیوں اور سکولز میں پڑھ رہے ہیں، ان کے لیے بہت سے ایسے ادارے کھل گئے ہیں جہاں وہ دینی تعلیم بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور چونکہ وہ اُدھر کے لوگ ہیں، مین سٹریم سوسائٹی کے، تو جب وہ قرآن و حدیث پڑھتے ہیں تو ما شاء اللہ اس کی بڑی اثر انگیزی ہوتی ہے، ان کو ایک وژن ملتا ہے اور وہ جو کام کرتے ہیں وہ زیادہ مؤثر ہوتا ہے، کیونکہ یونیورسٹی کا لڑکا جب یونیورسٹی کے لڑکوں سے بات کرے گا، چاہے وہ جتنا بھی مولوی ہو چکا ہو، تو وہ ان سے زیادہ بہتر بات کر سکتا ہے۔

اویس: بالکل، کنکٹویٹی اس کی زیادہ اچھی ہو جاتی ہے۔ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: کل رات کی بات ہے، مجھے بتایا گیا کہ لمز سے یہ سات آٹھ بچے ہیں اور سات آٹھ بچیاں ہیں، تو ان کے پروفائلز سن کر میں حیران رہ گیا کہ وہ ٹاپ کے بچے ہیں، انہوں نے کمپیٹیشنز وغیرہ جیتے ہوئے ہیں اور وہ ساتھ ساتھ درسِ نظامی کر رہے ہیں اپنے شام کے اوقات میں۔ میں نے ان سے بات کی تو ما شاء اللہ بہت ہی ذہین بچے تھے۔ اور ان کے جو اشکالات تھے اپنے تقویٰ کے متعلق، اخلاص کے متعلق، اور یہ کہ ہمیں کرنا کیا ہے وغیرہ، تو میرے خیال میں یہ ایک بڑی فورس ہے۔ 

اویس: اچھا، ایک چیز جو کہ عام طور پر مجھے نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے محسوس ہوتی ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ ایک تاثر ہے، غلط ہے یا صحیح، یہ مجھے آپ بتائیے گا، مجھے لگتا ہے کہ کسی حد تک وہ صحیح ہے، انہیں لگتا ہے کہ مذہب تو نہیں لیکن مذہبی طبقہ جو ہے وہ ہر چیز سے روکتا ہے، کیونکہ ایک نوجوان جو ہوتا ہے اس کے دل میں یا دماغ میں تجربات کرنے کی، آگے جانے کی، حدود سے باہر نکلنے کی، سرحد کو بار کرنے کی ایک جستجو ہوتی ہے، اور وہ جب نئے نئے تجربات کرتے ہیں تو کچھ نئی چیزیں تخلیق ہوتی ہیں۔ 

ہمارے مذہبی طبقے میں ایک بات یہ ہے کہ نہیں، ہر چیز منع ہے۔ میں اگر میڈیا کی ہی مثال لوں کہ بھلے آپ ٹیلی ویژن کو اور تصویر کو جتنا ہی حرام قرار دیتے رہیں، سو سال بعد پھر انہیں ٹی وی پر، یوٹیوب پر، سوشل میڈیا پر آنا ہی پڑا ہے، اب آپ اس چیز کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ تو پہلے ہی اس کے اوپر تھوڑا سا نظرثانی کرتے اور اپنے آپ کو ذرا سا روک لیتے کہ ٹھیک ہے اگر کوئی تجربہ کر رہا ہے تو کرنے دو، پھر شاید آج ہم اتنے پیچھے نہ ہوتے۔ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: دو طرح سے رکاوٹیں ہیں: ایک تو قرآن و حدیث سے ہے۔ اب یہ تھوڑی سی لمبی بحث ہے، ایک پورا سیشن اس کے لیے الگ چاہیے، کہ علماء کیوں قبل از وقت کچھ چیزوں سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو فقہ کا مزاج ہے کہ جب کوئی چیز  عام نہ ہو، اس کی ضرور ت نہ ہو، اور وہ چیز کسی حد تک قرآن و حدیث کی روح سے، کسی حکم سے بظاہر ٹکراتی ہو۔ ایسی چیز کو تو کبھی زندگی میں ہم حلال نہیں کر سکتے جو قرآن حدیث کی صریح مخالفت  میں ہو۔ لیکن سدِ ذریعہ کے طور پر کچھ احکام ہوتے ہیں ان میں کچھ گنجائش نکلتی ہے اور یہ ارتقا کا ایک قدرتی عمل ہے جو کہ فقہ کے مزاج میں ہے، اسے ہم تبدیل نہیں کر سکتے۔ 

قرآن و حدیث کی رکاوٹیں تو بحیثیت مسلمان کے ہم مانتے ہیں کہ یہ اسلامی احکام ہیں۔ مثال کے طور پر میں اگر سوشلائز کرنے کے لیے یا ترقی یافتہ نظر آنے کے لیے  شراب نوشی کروں تو کوئی اس کی اجازت نہیں دے گا۔ لیکن کچھ رکاوٹیں ایسی ہیں جو شاید مسلمانوں کی تو ہیں لیکن اسلام کی نہیں ہیں۔ میں ایک بڑی اچھی مثال آپ کو دیتا ہوں کہ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایک آدھ جگہ کسی کام میں ناکام ہو جاتا ہے تو اس کی بہت حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور عبرت کا نمونہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مغرب میں ابھی جو سلیکون ویلی کا ماڈل ہے، وہاں پہ تو جو لڑکا دو بار تین بار فیل ہوا، اگلی دفعہ اسے بڑی فنڈنگ ملتی ہے۔ حیران کن بات ہے کہ وہ ای کامرس کے دو پلیٹ فارمز بنانے میں فیل ہو چکا ہے تو تیسری دفعہ اس کو اس سے زیادہ فنڈنگ کیوں مل رہی ہے؟  وہ کہتے ہیں کہ اگر میں نئے بندے پر پیسے لگاؤں گا تو وہ بھی اس رستے سے گزرے گا، جبکہ یہ لڑکا اس راستے سے گزر چکا ہے اور اس کو معلوم ہے کہ ناکامی کسے کہتے ہیں، اس لیے اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہے۔ 

یاد رکھیے گا کہ زندہ قوموں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ ایک مقصد کے لیے کسی حکمتِ عملی کے تحت کوئی کام کر کے اس میں ناکام ہو رہا ہے۔ جیسے، ہنری فورڈ کہہ رہا ہے کہ ناکام ہوتے رہو جب تک کہ تم کامیاب نہ ہو جاؤ۔ جبکہ ہمارے ہاں ناکامی ایک ناقابلِ قبول چیز ہے، اس بیچارے کو اتنا برا بھلا کہا جاتا ہے کہ وہ ویسے ہی بیٹھ جائے۔ جیسے میں نے بچپن کی مثال دی تھی کہ ارے بیٹا اُدھر نہیں جانا، گر جاؤ گے، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔ میں نہیں کہہ رہا کہ ایسا کرنا سو فیصد غلط ہے، اس کی ضرورت پڑتی ہے، مگر اس کو اتنا ڈرا دو کہ وہ اپنے تجربات کرنا ہی بھول جائے، وہ آگے نکلنا ہی بھول جائے۔ جبکہ دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ درخت پر چڑھو، مٹی میں بھاگو، چپل اتارو۔ 

اچھا، یہ چیزیں تو حقیقت میں ہماری بھی تھیں، صحابہؓ تو ایسے ہی تھے، حدیث میں آتا ہے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی چلو کیونکہ اللہ کے جو نیک بندے ہیں وہ بہت زیادہ نعمتوں میں نہیں رہتے۔ اور اب تو آپ صحت کے حوالے سے دیکھیں گے کہ ایک گراؤنڈنگ کا ایک تصور موجود ہے، یعنی زمین پر ننگے پاؤں رہنے سے آپ کو بہت سارے صحت کے فوائد ملیں گے۔ 

اب ہمارا جو کلچر ہے، وہ ہندوؤں کے ساتھ رہتے رہتے بنا، یا ہماری اپنی کمزوریوں سے بنا، ظاہر ہے کہ اس پہ تحقیق کی جا سکتی ہے، لیکن یہ اسلام جو ہم آج پیش کر رہے ہیں، اس اسلام سے تہذیبی طور پر بھی بہت مختلف ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے۔ 

اویس: تو اس وجہ سے مذہبی طبقے کا جو یہ پابندیوں والا مزاج بن گیا ہے، یہ مسائل پیدا کرتا ہے۔ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: ایک تو اس میں عمومی کلچر ہے، پاکستانی مسلمان ہونے کے ناطے سے، چاہے مذہبی ہوں یا نہ ہوں۔ کچھ اس میں سے مذہبی ہیں، یہ ڈر کہ اسلام میں منع ہے کہ یہاں نہیں جاؤ، وہاں نہیں جاؤ، یہ نہیں کرو۔ اس میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو مجھے لگتا ہے کہ درست ہیں، دیندار گھرانوں کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ مثلاً‌ ایک بچہ ہے جس کے والدین کو یہ آگاہی نہیں تھی کہ باہر برائیاں کس نوعیت کی ہیں، جب انہوں نے تجربے کے طور پر اس کو ایسے تعلیمی اداروں میں بھیجا جو بالکل مغربیت زدہ تھے، یا بیرون ملک بھیج دیا، تو نتیجتاً‌ وہ نماز سے بھی گیا، سنت حلیے سے بھی گیا، تو ان کے لیے وہ صدمے کا باعث بنا۔ تو یہاں ان کا روایتی ہونا بنتا ہے کیونکہ ایک دفعہ نقصان دیکھ لیا تو پھر محتاط ہونا پڑتا ہے۔ 

اویس: تو اس کے الٹ بھی کوئی معاملہ ہو گا؟

ڈاکٹر ذیشان احمد:  دیکھیں، مجھ سے جب والدین پوچھتے ہیں تربیت کے حوالے سے کہ اپنے بچے کو ہم کہاں بھیجیں کہاں نہ بھیجیں، تو میں دو چیزیں ان کو کہتا ہوں:

ایک یہ کہ اگر انہوں نے اپنے بچے کو داعی بنایا ہے اور ایسی تربیت دی ہے کہ وہ اپنی اقدار کے ساتھ مطمئن ہے اور اس میں اتنا اعتماد ہے کہ وہ آگے لوگوں سے بات بھی کر سکتا ہے کہ اللہ کو ماننا ہے، نما زپڑھنی ہے، قرآن حق ہے۔ دیکھیں، ایک ہوتا ہے زندگی کا بتایا گیا تصور، جو والدین سے مل گیا، وہ جب منطقی سوچ کے بغیر ہو گا تو ہر دوسرا بچہ چیلنج کرے گا کہ تم مولویوں کے گھر میں پیدا ہوئے اس لیے ایسا بول رہے ہو۔ اور ایک ہوتا ہے سوچا سمجھا زندگی کا تصور، جو اس نے خود معلوم کیا، اپنی منطقی سوچ سے۔ وہ جب آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے تو چونکہ علی وجہ البصیر ہوتا ہے اور بڑا باشعور ہوتا ہے تو وہ پھسلتا نہیں ہے بلکہ وہ اپنا حلقہ بناتا ہے اور دوسرے لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔

ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دیندار گھرانوں کے لوگ اتنے سیدھے سادھے ہوتے ہیں کہ بچہ ان کو جو بولتا ہے وہ یقین کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کیس میں ایک اسلامی سکول کے بچے نے گھر میں کہا کہ ابا مجھے وہ سیل فون دلا دیں کیونکہ سکول میں اس کی ضرورت ہے۔ والد نے اس کی بات پر یقین کر کے اس کو سیل فون دلوا دیا حالانکہ وہ سکول میں منع تھا۔ ایک صاحب آئے انہوں نے کہا کہ جو پیرنٹل کنٹرول جو والدین لگاتے ہیں اپنے بچوں کے فون پر، وہ میرے بچے نے میرے فون پر لگایا ہوا ہے، یعنی جو کچھ میں دیکھتا ہوں وہ میرے بچے کے فون پر بھی آتا ہے۔ 

میرا بارہ سال کا عبد اللہ ہے، ابھی اس کو او لیول کا امتحان دلوا ہے، وہ سات سال کا تھا تو اس کی امی اپنے فون پر جو پیٹرن بناتی تھیں وہ اسے کسی طریقے سے دیکھ لیتا تھا۔ پھر اس کی امی محتاط ہو گئی کہ جس وقت عبد اللہ نہ ہو تب لگاتی تھیں۔ اب وہ بتاتا ہے کہ میں کیا کرتا تھا کہ اس پر ویسلین لگاتا تھا، تو جو پیٹرن امی بناتی تھیں وہ بعد میں ڈیکوڈ کر لیتا تھا۔ ابھی میں نے تین چار پیٹرن اپنے فون پر ٹرائی کیے تو اس نے ہر ایک کو ہیک کر لیا۔ پھر بتایا کہ چار سال پہلے آپ نے یہی پیٹرن لگایا تھا تو یہ معلوم کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ 

اویس: مطلب کہ بچوں میں وہ ٹیلنٹ ہے، اس ٹیلنٹ کو استعمال کرنے کے لیے ان کو وہ میدان چاہیے، وہ رہنمائی چاہیے۔ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: دیکھیں اللہ پر ایمان ہے اور بِن دیکھا یقین ہے لیکن اس کی نشانیاں بھی ہیں۔ تو منطقی انداز میں ان کو سوچنے پر مجبور کرنا ہے، ان کو ایسے واقعات سنانے ہیں کہ ان کی تجزیاتی سوچ بنے۔ اگر ہم ایسا کر لیں گے تو پھر کہیں بھی آپ ان کو بھیج دیں گے تو پھر فکر کی بات نہیں ہے۔ جیسے میرا اپنا ایک بیٹا امریکہ میں پیدا ہوا، میں بھی امریکہ میں پڑھ کے آیا ہوں، وہ بھی پڑھ کے آیا ہے، لیکن میں اس میں حفاظت محسوس کرتا ہوں کہ اس کی شادی ہو جائے  تاکہ اس طرف سے وہ بے فکر ہو جائے، اس کو اس حوالے سے پریشانی نہ ہو، ہاں باقی وہ علم پڑھ رہا ہے، اور چیزیں پڑھ رہا ہے سوچ سمجھ کر، تو میرے خیال میں وہاں جا کر اس ماحول کے ساتھ جڑ کر وہ داعی بن سکتا ہے۔ 

تو اس زمانے میں بہت زیادہ آزاد خیال بھی نہیں ہونا اور بہت زیادہ روایتی بھی نہیں ہونا، اس کے درمیان درمیان میں بچوں کو رکھ کر انہیں تیار کرنا ہے اور اللہ کے رسول کا امتی بنا کر بھیجنا ہے۔ ہم نے وہ تصور ڈالنا ہے اور وہ روح ڈالنی ہے، ان کو مشنری بنانا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا امتی بنانا ہے، پھر ان کو آگے بھیجنا ہے۔

اویس: تو اگر ہم اس کو اختتام کی طرف لے جانا چاہیں تو ہم یوں کہیں گے کہ جی ہمیں ان تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے جو ایک ایسا مسلمان پیدا کریں جو کہ دین اور دنیا دونوں میں قابلیت رکھتا ہو اور پھر وہ جا کر معاشرے میں اس امت کی قیادت کرے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں جو تعلیمی ادارے ہیں، جن میں جانا ہر شخص کا خواب ہے، ہر شخص ایم آئی ٹی جانا چاہتا ہے، ہارورڈ جانا چاہتا ہے۔ ہم ایسا کچھ نہیں بنا سکے ہیں اور مجھے نہیں پتہ کہ بنا پائیں گے یا نہیں بنا پائیں گے۔ اگر ہم نے کوئی ایسا ادارہ بنانا ہے تو وہ کیسے بنے گا؟ کیونکہ آپ القادر یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے، الغزالی یونیورسٹی سے بھی ، تو کیا آپ کی اس بارے میں جانکاری ہے کہ ہم کیسے اس سطح تک پہنچ سکتے ہیں اور ہمیں کتنا وقت لگے گا؟ 

ڈاکٹر ذیشان احمد: ایک بڑی مزیدار بات آپ سے کہوں گا کہ ہمیں ایک Unfair advantage (بلا محنت فائدہ) حاصل ہے ایسے ادارے بنانے میں۔ جو بات آپ نے کہی ہے وہ درست ہے، میں اس سے اختلاف نہیں کر رہا، لیکن ہمارا اس فائدہ کی طرف کبھی دھیان نہیں جاتا۔ اگر آپ ٹیکنالوجی اور خالص سائنسی علوم کو ایک طرف کر دیں، کیونکہ اس میں ہمیں وقت لگے گا، لیکن قیادت میں، سیاست میں، نفسیات میں، عمرانیات میں، تعلقات وغیرہ میں آپ کو جو بھی جدید تحقیق ملے گی، یہاں تک کہ طبی حوالے سے بھی، وہ بہت ساری چیزیں آپ کو اللہ کے رسول سکھا کے چلے گئے ہیں، یعنی آپ کے پاس وہ پہلے سے موجود ہیں۔ 

وہ لوگ ایک تحقیق کے ذریعے سے وہاں تک پہنچ رہے ہیں، جبکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے پاس یہ پہلے ہی کتابوں میں موجود تھی لیکن بدقسمتی سے ہم نے انہیں اپنی کتابوں میں ہی دفن رہنے دیا، ان کو زندگی میں زندہ نہیں کیا۔  چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ Aging (بڑھتی ہوئی عمر) پر ہارورڈ کے David Sinclair کی جدید تحقیق ہے، وہ کھانے کے جو شیڈیول دے رہا ہے وہ آپ اٹھا کر دیکھ لیں کہ صحابہؓ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا تھا۔ ابھی میں نے گراؤنڈنگ کی بات کی تھی، زمین سے ٹچ ہونے کی۔ اسی طرح ابھی مغرب میں ری باؤنڈنگ کا ٹرینڈ چلا ہوا ہے۔ آپ ایک چھوٹا سا Rebounding trampoline لیں اور اس پہ باؤنس کریں، کہتے ہیں پانچ دس منٹ ایسا کرنے سے صحت کے بہت سے فوائد ملتے ہیں۔ میرا دماغ ہمیشہ اُدھر جاتا ہے، تو میں نے سوچا کہ شاید ہی کوئی صحابیؓ یا صحابیہؓ ایسے ہوں جو گھوڑے پہ سواری نہیں کرتے تھے، تو ان کی باؤنسنگ تو ایسے ہی ہو رہی ہوتی تھی۔ اور سائنس تو یہ اب کہہ رہی ہے۔ اب وہ اس زمانے کا تو حوالہ نہیں دیں گے کہ آپ گھر میں گھوڑا تو نہیں پال سکتے، لیکن وہ ری باؤنڈنگ کا کہیں گے۔ یہ تو میڈیکل کا میں آپ کو بتا رہا ہوں۔

لیڈرشپ کے حوالے سے جتنا بھی ٹاپ کا لٹریچر مغرب میں مل رہا ہے، وہی آپ کو حضرت عمرؓ میں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں، حضرت علیؓ میں، حضرت ابوبکرؓ میں، حضرت عثمانؓ میں ملے گا، صلاح الدین ایوبیؒ میں ملے گا۔ 

بچپن میں میرے والد صاحب نے ریڈرز ڈائجسٹ لگوایا ہوا تھا، اس ایک قابل اقتباس یہ چیز تھی کہ

When the science would complete its journey on the mountain of knowledge and reach on the top it will find religion already sitting there.

یعنی جب سائنس اپنا سفر پورا کر کے پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے گی تو اسے مذہب وہاں پہلے سے موجود ملے گا۔ تو بہت ساری چیزیں ہمیں وہاں سے مل رہی ہیں، تو یہ ایک Unfair advantage ہمیں حاصل ہے۔کم از کم ان شعبوں کے اندر ہم ایک اچھی یونیورسٹی بنا کر مثال قائم کر سکتے ہیں۔ میری بڑی خواہش ہے کہ پانچ دنوں کی ورکشاپ سے لے کر چار سال کے کورس تک، ایسے پروگرام ہوں کہ جن میں بچے کے اندر واقعتاً‌ سیرت کی نہج پر تربیت ہو، اس کی سوچ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں سے ملتی ہو، اس کی روٹین قرونِ اولیٰ سے ملتی ہو۔ وین ڈینیل پنک کی ایک کتاب ہے، وہ کہتا ہے کہ بہترین وقت اٹھنے کا، سونے کا، قیلولے کا، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت ہے، اس سے بہتر کوئی شیڈیول ہو نہیں سکتا۔ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا ہے، قرآن کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مجھے تو پہلے سے پتہ تھا، میں نے کیوں چھوڑا ہوا ہے؟ میری دکانیں کیوں دس گیارہ بجے کھل رہی ہیں اور رات دس گیارہ بجے تک کھلی رہتی ہیں؟

تو یہ ساری چیزیں ہیں کہ جس میں ہمیں بغیر کچھ کیے یہ فائدہ حاصل ہے، ہمارے پاس بنی بنائی تحقیق ہے، اس پہ ہم یونیورسٹیز بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم اتنے زیادہ احساسِ کمتری کا شکار ہیں کہ اس شناخت کی طرف جاتے ہی نہیں ہیں۔ ہم ہمیشہ مغرب کی طرف جاتے ہیں، اور دیکھیں، مغرب ہم سے سو سال آگے ہے، اس کے ریسنگ ٹریک پر دوڑ کر ہم کبھی بھی فنش لائن پر اس سے پہلے نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیں اپنا ٹریک خود ہی بنانا پڑے گا جو قرآن سے، سیرت سے، صحابہؓ سے، اولیاءؒ سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہو، تب جا کر ہم ان سے آگے نکل سکیں گے، لیکن اس کے لیے ہمیں اصل تعلیمات کی طرف جانا ہو گا۔ 

اویس: اس کے لیے ظاہر ہے کہ وسائل بہت سارے چاہئیں، فنڈنگ بہت ساری چاہیے، اور وہ وژن چاہیے جو اس کام پر لوگوں کو آمادہ کر سکے۔ تو کیا ہمارے پاس ان تینوں چیزوں کی وافر مقدار موجود ہے؟  

ڈاکٹر ذیشان احمد: دیکھیں، وسائل، فنڈنگ، زمین، ان سب چیزوں کا ایک چیز پر انحصار ہے جسے ہم مائنڈ سیٹ کہہ سکتے ہیں۔ جس کے اندر وژن ہے، جس کا ایسا ذہن ہے، تو باقی چیزیں اسی سے بنتی ہیں، اگر یہ نہیں ہے تو پھر کچھ نہیں ہے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر عبد الباری خان صاحب کو میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! فنڈنگ مجھے زیادہ ملنی چاہیے تھی آپ سے کیونکہ میرا کام آپ سے زیادہ اہم ہے۔  ان سے دوستی بھی ہے، میرے بزرگ بھی ہیں۔ تو کہنے لگے کیسے؟ میں نے کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ’’انما بعثت معلماً‌‘‘  مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے، یہ نہیں کہا کہ ’’انما بعثت طبیباً‌‘‘۔ بہت سارے کام اگر میرا شعبہ ٹھیک کر رہا ہوتا تو آپ کے ہسپتال میں ایسے لوگ دس فیصد رہ جاتے۔ 

یہ بات بہت اہم ہے سمجھنے کی کہ جو انقلاب آنا ہے وہ تعلیم سے آنا ہے۔ جو آج کا تعلیمی نظام ہے وہ اس کی پیشگوئی کرتا ہے کہ بیس سال بعد معاشرے میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کہاں پہنچی ہوئی ہے، رفاہی معاشرے اور ریاست کے حوالے سے کیا بحثیں چل رہی ہیں، انفرادی طور پر مادی فوائد کے حصول کے حوالے سے کیا چل رہا ہے، ان سب چیزوں پر اس بات کا انحصار ہے کہ بچہ آگے کس ذہن کے ساتھ اس قوم کی رہنمائی کرے گا۔ اور ظاہر ہے کہ ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ اس وقت بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اویس: آخر میں درسِ قرآن ڈاٹ کام کے جس پلیٹ فارم پر ہم بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ گفتگو کر رہے ہیں، آپ نے اس کو جتنا دیکھا اور جو تعلق رہا، میں چاہوں گا کہ آپ اس کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ڈاکٹر ذیشان احمد: دیکھیں، میں امریکہ میں تھا تو وہاں ہمارا ایک ہی ذریعہ تھا، طارق جمیل صاحب کا بیان ہو یا کوئی اور، اب تو خیر بہت سے چینلز آ گئے ہیں، لیکن درسِ قرآن ڈاٹ کام کی جو انفرادیت ہے وہ یہی ہے کہ جتنا ما شاء اللہ مواد یہاں تیار ہو رہا ہے، جتنا یہ متوجہ کرتے ہیں، جتنی ان کی دیکھنے والے ہیں، پاکستان میں تو ہے ہی، مغرب میں، کینیڈا میں، امریکہ میں، انڈیا میں بہت بڑی آڈیئنس ہے، تو میرے خیال میں یہ بہت بڑا چینل ہمارے پاس ہے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ میں اپنی ساری زندگی کے لمز ، آئی بی اے، کے بی ایل، مسسیسیپی، القادر، الغزالی، سب یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس بھی جمع کر لوں تو شاید تیس ہزار ہوں گے ملا جلا کر جن کو میں نے تھوڑا بہت پڑھایا ہو گا۔ جبکہ یہاں سے ایک ویڈیو پر تیس ہزار ویوز آجاتے ہیں۔ 

تو اس کو استعمال میں لانا چاہیے، اس کو سننا چاہیے اور اس پہ آنا چاہیے۔ اور میرے خیال میں مستقبل میں تصورات کی تشکیل میں یہ بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اور ہم جو کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کے اندر وژن پیدا کرنا ہے، دعوت کی روح پھونکنی ہے، اور ان کو اس بات پر لانا کہ وہ قربانیاں دیں اور رکاوٹوں کا سامنا کریں، یعنی اگر وہ روح آجائے تو میرے خیال میں درسِ قرآن ڈاٹ کام صحیح معنوں میں قرآن پر، سیرت پر، حدیث پر، صحابہؓ کی سیرت پر ہمیں لے جانے کے لیے بہت مضبوط ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے، ان شاء اللہ۔

اویس: بہت شکریہ، ڈاکٹر صاحب۔

ڈاکٹر ذیشان احمد: جزاک اللہ، جزاک اللہ۔

https://youtu.be/iIalH15ghAE


(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter