اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۷)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(318) ایواء کا مطلب

آوی یؤوی ایواء کا اصل مطلب ٹھکانا فراہم کرنا ہوتا ہے۔ البتہ جب کسی دشمن یا کسی خطرے سے بچاؤ کا موقع ہو تو پناہ دینا بھی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہوجاتاہے۔ اس لیے اگر موقع پناہ کا نہیں ہو تو ایواء کا ترجمہ ’ٹھکانا دینا‘ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے:

(۱) وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ آیة وَآوَیْنَاہُمَا إِلَیٰ رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ۔ (المومنون: 50)

اس آیت میں آوَیْنَاہُمَا کہہ کر ٹھکانا فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے، نہ کہ پناہ دینے کی۔ اس آیت میں اس انتظام کی طرف اشارہ ہے، جو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اللہ تعالی نے حضرت مریم  علیہا السلام کے لیے کیا تھا۔جس کا ذکر سورہ مریم میں ہے۔ اللہ تعالی نے اس عمدہ انتظام کو بھی اپنی نشانی کے طور پر بیان کیا ہے۔ درج ذیل آیت میں معین سے مراد ایک چشمہ ہے نہ کہ بہت سے چشمے۔ آیت کے ترجمے ملاحظہ کریں:

”اور بنایا ہم نے مریم کے بیٹے اور اس کی ماں کو ایک نشانی اور ان کو ٹھکانا دیا ایک ٹیلے پرجہاں ٹھیراؤ تھا اور پانی نتھرا“۔ (شاہ عبدالقادر، یہ مناسب ترجمہ ہے)

”اور ابن مریم اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشان بنایا اور ان کو ایک سطحِ مرتفع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے“۔ (سید مودودی، غالباً کاتب کی غلطی سے نشانی کی جگہ نشان ہوگیا۔ ’چشمے جاری تھے‘ کے بجائے ’چشمہ جاری تھا‘ ہونا چاہیے۔)

درج ذیل ترجموں میں پناہ دینا ہے، جو مناسب نہیں ہے:

”اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسیٰ) اور ان کی ماں کو (اپنی) نشانی بنایا تھا اور ان کو ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور جہاں (نتھرا ہوا) پانی جاری تھا، پناہ دی تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسی علیہ السلام) کو اور ان کی ماں (حضرت مریم) کو بڑی نشانی بنایا اور ہم نے ان کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جاکر پناہ دی جو (بوجہ غلات اور میوہ جات پیدا ہونے کے) ٹھہرنے کے قابل اور شاداب جگہ تھی“۔ (اشرف علی تھانوی)

(۲) أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَیٰ۔ (الضحی: 6)

اس آیت میں بھی پناہ دینے کا محل نہیں ہے، بلکہ ٹھکانا دینے ہی کا محل ہے۔

”بھلا نہ پایا تجھ کو یتیم پھر جگہ دی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟“۔ (سید مودودی)

”کیا خدا نے آپ(ص) کو یتیم نہیں پایا؟ تو پناہ کی جگہ دی؟“۔ (محمد حسین نجفی)

”کیا اس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے“۔ (ذیشان جوادی)

(۳) وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیٰ یُوسُفَ آوَیٰ إِلَیْہِ أَخَاہُ۔ (یوسف: 69)

اس آیت میں بھی پناہ دینے کی بجائے اپنے نزدیک کرلینا درست ترجمہ ہے۔

”اور جب وہ لوگ یوسف کے سامنے حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس پناہ دی“۔ (ذیشان جوادی)

”یہ لوگ یوسفؑ کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا“۔ (سید مودودی)

(۴) تُرْجِی مَن تَشَاءُ مِنْہُنَّ وَتُؤْوِی إِلَیْکَ مَن تَشَاءُ۔ (الاحزاب: 51)

اس آیت میں پناہ دینا نہیں بلکہ اپنے پاس رکھ لینا درست ترجمہ ہے۔

”ان میں سے جس کو آپ چاہیں الگ کرلیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں“۔ (ذیشان جوادی)

”ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(319)  وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِینَ

غفلت کا مطلب لاپرواہی برتنا ہوتا ہے، نہ کہ کسی کام سے نا بلد ہونا۔ درج ذیل آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ مخلوق سے غافل و بے پروا نہیں ہے۔ طرائق طریقة کی جمع ہے جس کے معنی راستے کے ہیں۔ درج ذیل آیت میں طرائق کا ترجمہ راستے ہونا چاہیے، البتہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے نزدیک طرائق سے آسمان مراد ہیں۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِینَ۔ (المومنون: 17)

”اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے“۔ (سید مودودی)

”اورہم ہی نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم بنانے میں بے خبر نہ تھے“۔ (احمد علی)

”ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم نے تمہارے اوپر (کی جانب) سات آسمان پیدا کئے۔ اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہ بہ تہ آسمان بنائے اور ہم مخلوق سے بے پروا نہیں ہوئے“۔ (امین احسن اصلاحی، ’بے پروا نہیں تھے‘ ہونا چاہیے۔)

”اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، اور ہم مخلوق سے بے پروا نہیں تھے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(320) أَنزِلْنِی مُنزَلًا مُّبَارَکًا

وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِی مُنزَلًا مُّبَارَکًا وَأَنتَ خَیْرُ الْمُنزِلِینَ۔ (المومنون: 29)

”اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔(سید مودودی)

”اور عرض کر کہ اے میرے رب مجھے برکت والی جگہ اتار اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور (یہ بھی) دعا کرنا کہ اے پروردگار ہم کو مبارک جگہ اُتاریو اور تو سب سے بہتر اُتارنے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور کہنا کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر ہے اتارنے والوں میں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور دعا کیجیو کہ اے رب! تو مجھے اتار مبارک اتارنا اور تو بہترین اتارنے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

بعض لوگوں نے مبارک جگہ ترجمہ کیا ہے اور بعض لوگوں نے مبارک اتارنا ترجمہ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی اس رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہاں منزلا ظرف نہیں بلکہ مصدر میمی ہے۔ وہ حسب ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

”اور کہو کہ اے رب! تو مجھے اپنی برکتوں کے ساتھ اتار اور تو بہترین اتارنے والا ہے“۔

اس سے ترجمے میں شگفتگی بھی آجاتی ہے اور اس میں معنویت بھی بھرپور ہے۔

(321) ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ

درج ذیل آیت میں کس چیز کو بعید کہا جارہا ہے، وعدے کو، یا اس چیز کے واقع ہونے کو جس کی خبر دی جارہی ہے۔ ظاہر ہے وعدہ یا خبر تو دے دی گئی ہے، اس کے بعید ہونے کا سوال نہیں ہے، یہاں اس چیز کے بعید ہونے کی بات ہے جس کے واقع ہونے کی خبر دی جارہی ہے۔

ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ۔ (المومنون: 36)

”بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے“۔ (سید مودودی)

”بہت ہی بعید اور نہایت ہی مستبعد ہے یہ ڈراوا جو تمھیں سنایا جارہا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (بہت) بعید اور (بہت) بعید ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(322) فَجَعَلْنَاہُمْ غُثَاءً فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ

فَأَخَذَتْہُمُ الصَّیْحةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاہُمْ غُثَاءً فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ۔ (المومنون: 41)

”پس پکڑا ان کو آواز تند نے ساتھ حق کے، پس کردیا ہم نے ان کو ریزہ ریزہ پس لعنت ہے واسطے قوم ظالموں کے“۔ (شاہ رفیع الدین، غثاء کا ترجمہ ریزہ ریزہ کرنا درست نہیں ہے، اس کا مطلب کوڑا کرکٹ ہوتا ہے)

”پھر کردیا ہم نے ان کو کوڑا سو دور ہوجاویں گے گناہ گار لوگ“۔ (شاہ عبدالقادر، ظالمین کا ترجمہ گناہ گار لوگ کرنا درست نہیں ہے)

”تو ہم نے ان کو کوڑا کرڈالا۔ پس ظالم لوگوں پر لعنت ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا دُور ہو ظالم قوم!“۔ (سید مودودی، کچرا بنادیا درست ہے، بناکر پھینک دیا درست نہیں ہے۔)

”تو ہم نے انہیں گھاس کوڑا کردیا تو دور ہوں ظالم لوگ“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہم نے انہیں کوڑا کرکٹ کر ڈالا، پس ظالموں کے لیے دوری ہو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو ہم نے ان کو خس و خاشاک کردیا۔ تو خدا کی پھٹکار ہو ایسے بدبختوں پر“۔ (امین احسن اصلاحی، ظالمون کا ترجمہ بدبختوں درست نہیں ہے۔)

(323) مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ

درج ذیل آیت دو مقام پر آئی ہے، دونوں جگہ مضارع کے صیغے میں ہے، لیکن دونوں جگہ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ ماضی کا کیا ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ۔ (المومنون: 43)

”نہ تو کوئی امت اپنے وقت مقررہ سے آگے بڑھی اور نہ پیچھے رہی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھیر سکی“۔ (سید مودودی)

اوپر کے دونوں ترجموں میں یہ غلطی ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”نہ کوئی قوم اپنی اجل معین سے پہل ہی کرتی اور نہ وہ اس سے پیچھے ہی ہٹتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی) آگے بڑھ سکتی ہے نہ اس سے پیچھے رہ سکتی ہے۔

”کوئی جماعت اپنے وقت سے نہ آگے جاسکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ۔ (الحجر: 5)

”کوئی گروہ اپنے وعدہ سے آگے نہ بڑھے نہ پیچھے ہٹے“۔ (احمد رضا خان)

”کوئی قوم اپنے وقت مقرر سے نہ پہلے ہلاک ہوئی ہے نہ پیچھے رہی ہے“۔ (احمد علی)

اوپر کے دونوں ترجموں میں یہ غلطی ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہوسکتی ہے، نہ اُس کے بعد چھوٹ سکتی ہے“۔ (سید مودودی)

”کوئی گروہ اپنی موت سے نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے رہتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)


قرآن / علوم القرآن

(اپریل ۲۰۲۲ء)

اپریل ۲۰۲۲ء

جلد ۳۳ ۔ شمارہ ۴

مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین سے متعلق ہمارا موقف
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۷)
ڈاکٹر محی الدین غازی

مطالعہ سنن ابی داود (۴)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۹)
مولانا سمیع اللہ سعدی

کم عمری کا نکاح: اسلام آباد ہائیکورٹ کا متنازعہ فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قادیانیوں اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں میں فرق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قادیانیوں کے بطورِ اقلیت حقوق اور توہینِ قرآن و توہینِ رسالت کے الزامات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مسلم وزرائے خارجہ سے توقعات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ماں باپ کی زیادہ عمر اور ڈاؤن سنڈروم کا تعلق
خطیب احمد

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۴)
ڈاکٹر شیر علی ترین

الشریعہ اکادمی کا سالانہ نقشبندی اجتماع
مولانا محمد اسامہ قاسم

ولی کامل نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد قاسم قاسمی ؒکی رحلت
مولانا ڈاکٹر غازی عبد الرحمن قاسمی

تلاش

Flag Counter