ایک جملہ یا دو جملے؟
شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِی اوحَینَا اِلَیکَ وَمَا وَصَّینَا بِہِ ابرَاہِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ان اَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہِ۔ (الشوری: 13)
اس آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے گویا کہ یہ ایک ہی جملہ ہے جس میں والذی اوحینا الیک معطوف ہے ما وصی بہ نوحا پر جو مفعول بہ ہے۔ اور ان اقیموا الدین بیان یا تفسیر ہے۔اس ترجمے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ شرع لکم کہنے کے بعد والذی اوحینا الیک کہنے کی کیا ضرورت تھی، ذیل میں مذکور ترجمے ملاحظہ ہوں:
’’اسی نے تمہارے لیے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمد) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔“ (فتح محمد جالندھری)
”اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمد) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسی اور عیسی کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاو ۔“ (سید مودودی)
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا، کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ۔“ (محمد جونا گڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا اس سلسلے میں خیال یہ ہے کہ والذی اوحینا الیک سے دوسرا مستقل جملہ شروع ہوتا ہے۔ اس دوسرے جملے میں والذی اوحینا الیک مبتدا ہے، اس کے بعد جو ہے وہ اس پر معطوف ہے اور ان اقیموا الدین خبر ہے۔ ترجمہ دیکھیں:
’’اس نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی۔ اور تمہاری طرف جو وحی کی ہے اور جس کی وصیت ابراہیم اور موسی اور عیسی کو کی وہ یہ ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ میں نہ پڑو۔“ (امانت اللہ اصلاحی)
اس طرح اس میں دو باتیں بتائی گئیں، ایک یہ کہ جو دین آپ کو دیا گیا ہے وہ وہی ہے جو نوح کو دیا گیا تھا، اور دوسرے یہ کہ دین کے تعلق سے جو ذمہ داری آپ پر عائد کی گئی ہے وہ وہی ہے جو ابراہیم اور موسی اور عیسی پر عائد کی گئی تھی۔
اسلوب کی باریکی یہ ہے کہ لفظ والذی قرآن مجید میں عام طور سے نئے جملے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ما کے بجائے والذی لانے سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ نیا جملہ ہے۔
اس مفہوم کے بعد وہ اشکالات دور ہوجاتے ہیں، جو آیت کو ایک جملہ ماننے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان تشریحات کی بھی ضرورت نہیں رہتی ہے جو ان دونوں جملوں کوایک جملہ مان کر کی جاتی ہیں۔
آیت مذکورہ کے ترجمے میں ایک امر اور توجہ طلب ہے وہ یہ کہ بہت سے مترجمین نے ”لا تتفرقوا فیہ“ کا ترجمہ’’پھوٹ نہ ڈالنا“ کیا ہے جو درست نہیں ہے، کیونکہ یہ فعل لازم ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ خود تفرقے میں نہ پڑو نہ یہ کہ پھوٹ نہ ڈالو۔ پھوٹ ڈالنے کے لیے باب تفعیل سے تفریق کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یہاں بات تفعل سے تفرق کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب خود تفرقہ میں پڑجانا ہوتا ہے۔
"بما عھد عندک" کا ترجمہ
عہد کا لفظ عربی میں وعدے کے مفہوم کو ادا کرتا ہے، اس کے علاوہ لفظ عہد کسی چیز سے مسلسل تعلق کو بھی ظاہر کرتا ہے، شاعر کہتا ہے:
فلیسَ کَعَھدِ الدارِ یا امَّ مالکٍ
ولکن احاطَت بالرِقابِ السَلاسِلُ
اسی طرح حدیث میں ہے:
لولا قومک حدیثوا العھد بکفر۔۔۔الخ
نیچے ذکر کی گئی دونوں آیتوں میں بما عھد عندک سے عام طور سے وعدہ اور عہد مراد لیا گیا، ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں وہ معمول مراد ہے ، جو اللہ تعالی کا حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ تھا، اور یہ معمول آخری عذاب سے پہلے آنے والی نشانیوں کے سلسلے میں خود فرعون کی قوم کے سامنے واضح طور سے آچکا تھا۔
مشہور مفہوم کے تعلق سے یہ بات غور طلب ہے کہ عذاب ٹالنے اور دعا قبول کرنے کا کوئی عہد اللہ نے حضرت موسی سے کیا ہو، اس کا ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے، اور نہ ایسے عہد کی حضرت موسی نے قوم فرعون کو خبر دی تھی۔
اس تمہید کے بعد دونوں آیتوں کے مذکورہ ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
(۱) وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیھِمُ الرِّجزُ قَالُوا یَا مُوسَی ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ۔ (الاعراف: 134)
’’جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے "اے موسیٰ، تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر۔“ (سید مودودی)
’’اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے۔“ (احمد رضا خان)
’’اور جب ان پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے کہ اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے! جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے۔“ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا ان تینوں ترجموں میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ ماضی استمراری کا ترجمہ کیا ہے، حالانکہ یہاں کلما نہیں بلکہ لما ہے، اور جملہ میں استمرار یعنی بار بار کا مفہوم نہیں ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’اور جب آیا ان پر عذاب تو درخواست کی کہ اے موسی تم اپنے رب سے اس معمول کے واسطے سے جو اس کا تمہارے ساتھ رہا ہے ، ہمارے لیے دعا کرو۔“
(۲) وَقَالُوا یَا اَیُّہَا السَّاحِرُ ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ۔ (الزخرف: 49)
’’ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے، اے ساحر، اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے اُس کی بنا پر ہمارے لیے اُس سے دعا کر“۔ (سید مودودی، یہاں ’’ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے“ درست نہیں ہے، ہر عذاب کی بات نہیں ہے اور نہ ہی جملے میں استمرار کا مفہوم ہے۔ بلکہ ایک عذاب کی بات ہے)
’’اور بولے کہ اے جادوگر ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر کہ اس عہد کے سبب جو اس کا تیرے پاس ہے۔“ (احمد رضا خان)
’’اور انہوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے۔“ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا دونوں آیتوں کے آخری ترجمے میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ قوم فرعون کی طرف سے مطالبہ کسی ایسی بات کی دعاکرنا نہیں تھا جس کا عہد کیا گیا ہو، بلکہ عہد کے واسطے سے عذاب کو ہٹانے کی دعا کرنے کا مطالبہ تھا۔ یعنی ”جس کا عہد کیا تھا وہ دعا کریں“ یہ مراد نہیں ہے، مراد یہ ہے کہ جو عہد ہے اس عہد کے واسطے سے دعا کریں۔
عہد سے مراد اللہ کا حضرت موسی سے کیا ہوا کوئی وعدہ ہے، یا اللہ کا حضرت موسی کے ساتھ معمول مرادہے؟ ، یہ بحث مذکورہ غلطی کے علاوہ ہے۔
مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’اور انہوں نے کہا اے ساحر تیرے رب کا تیرے ساتھ جو معمول ہے اس کے واسطے سے ہمارے لیے دعا کر۔“
"الکلم الطیب" کا ترجمہ
کلم کلمہ کی جمع ہے، اس لفظ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ جمع ہونے کی وجہ سے مونث تو استعمال ہوتا ہی ہے مذکر بھی استعمال ہوتا ہے۔
(ج: کَلِمۃ) بِحَذفِ الھَاءِ، تُذَکَّرُ وتُوَنَّثُ، یُقال: ھُوَ الکَلِم، وھِیَ الکَلِم۔ (تاج العروس)
اس لغوی وضاحت کی روشنی میں درج ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
الَیہِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالعَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُہُ۔ (فاطر: 10)
’’تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے۔“ (محمد جونا گڑھی)
’’اُس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔“ (سید مودودی، اس ترجمہ میں حصر اپنے محل سے ہٹ گیا ہے، قاعدے کی رو سے حصر کا مفہوم مبتدا موخر میں نہیں ہے بلکہ خبر مقدم میں ہے، صحیح ترجمہ یوں ہوگا: ”اسی کے یہاں اوپر چڑھتا ہے پاکیزہ قول“)
’’اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اسے بلند کرتا ہے۔“ (احمد رضا خان)
’’اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں۔“ (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ بالا ترجمے لفظ کے مطابق ہیں، البتہ درج ذیل ترجمہ درست نہیں ہے اس میں کلم کا ترجمہ کلمہ یعنی واحد کردیا گیا ہے:
’’اس کی طرف صعود کرتا ہے پاکیزہ کلمہ اور عمل صالح اس کلمہ کو سہارا دیتا ہے۔“ (امین احسن اصلاحی)
(جاری)