بلاء کا ترجمہ
بلا یبلو، اور أبلی یبلی کابنیادی مطلب تو ہوتا ہے کسی کو آزمائش میں ڈالنا، صلہ اور باب فعل کے اختلاف سے آزمائش کی نوعیت بدلتی رہتی ہے، یہ آزمائش خیر سے بھی ہوتی ہے اور شر سے بھی ہوتی ہے۔فرمایا: (ونبلوکم بالشر والخیر)، یہیں سے اس کا ایک مطلب خیر سے نوازنا بھی ہے۔
ابن قتیبہ ادب الکاتب میں لکھتے ہیں:
بَلَوْتُہ أبلوہ '' بَلْواً '' إذا جرَّبتہ، وبَلاہ اللہ یَبْلوہ '' بَلاَءً '' إذا أصابہ بِبَلاءٍ، یقال: اللَّہمَّ لا تَبْلَنا إلا بالتي ھي أحسنُ، وأبلاہ اللہ یُبلیہ '' إبْلاءً حَسَناً '' إذا صنع بہ صنعاً جمیلاً، وقال زھیر: جَزَی اللہُ بالإحسانِ مَا فَعَلا بکمْ... فأَبْلاھُمَا خَیْرَ البَلاَءِ الَّذي یَبْلُو۔
قرآن مجید میں چھ مقامات پر لفظ بلاء آیا ہے، یہ چھ مقامات وہ ہیں جہاں کسی بڑی مصیبت یا آزمائش سے بچالیے جانے کا تذکرہ ہے۔ ان میں سے چار مقامات پر بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون کے ظلم سے نجات دلانے کے بعد اس کا ذکر ہے، اور ان چار میں سے تین مقامات کا تو بالکل ایک ہی مضمون ہے کہ آل فرعون سے نجات دی جو ان کے لڑکوں کو ذبح کردیتے تھے اور لڑکی کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ باقی ایک مقام پر ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے امتحان اور پھر اللہ کی طرف سے پروانہ کامیابی جاری ہونے کے بعد اس کا ذکرہے، اور ایک دوسرے مقام پر جنگ بدر میں اہل ایمان کی کامیابی کے بعد اس کا ذکر ہے۔ ان مقامات پر مترجمین کے مختلف ترجمے ملتے ہیں، بسا اوقات ایک ہی مترجم یکساں مقام پر الگ الگ ترجمہ کرتا ہے۔
وَإِذْ نَجَّیْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاءٌ مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ۔ (البقرۃ: 49)
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘ (سید مودودی)
’’اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اور بیچ اس کے آزمائش تھی پروردگار تمہارے سے بڑی ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام‘‘( (احمد رضا خان
’’اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی‘‘ (محمدجوناگڑھی)
وَإِذْ أَنجَیْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَونَ یَسُومُونَکُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ یُقَتِّلُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْم۔ (الاعراف: 141)
’’اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘(سید مودودی)
’’اوراس میں احسان ہے تمہارے رب کا بڑا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور بیچ اس کے آزمائش تھی پروردگار تمہارے کی طرف سے بڑی‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اور اس میں رب کا بڑا فضل ہوا‘‘(احمد رضا خان)
’’اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی‘‘ (محمدجونا گڑھی)
’’اور اس میں تمہارے رب کا بڑا احسان تھا ‘‘(احمد علی)
وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ أَنجَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْم۔ (ابراہیم: 6)
’’یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ''اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے اس نے تم کو فرعون والوں سے چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی ‘‘ (سید مودودی)
’’اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اور بیچ اس کے آزمائش تھی پروردگار تمھارے کی طرف سے بڑی ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور اس میں تمہارے رب کا بڑا فضل ہوا‘‘ (احمد رضا خان)
’’اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی‘‘ (محمدجوناگڑھی)
اوپر کی تینوں آیتوں میں اگر بلاء کا ترجمہ آزمائش کریں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیٹوں کو ذبح کرنے کا عمل تو آل فرعون کی طرف سے تھا، پھر اسے اللہ اپنی طرف کیوں منسوب کرے گا، دوسری بات یہ ہے کہ اگر آل فرعون کا عمل اللہ کی طرف سے تھا، تو اس عمل سے نجات دینا اللہ کی نعمت کیسے شمار ہوگا۔ تیسری بات یہ ہے کہ تینوں آیتوں کا سیاق نعمت کا بیان ہے نہ کہ آزمائش کا بیان۔ خاص طور سے تیسری آیت تو صریح طور سے نعمت یاد دلانے کے مضمون پر مشتمل ہے۔ ان پہلووں کو سامنے رکھیں تو بلاء کا ترجمہ انعام زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔
فَلَمْ تَقْتُلُوہُمْ وَلَکِنَّ اللّہَ قَتَلَہُمْ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللّہَ رَمَی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْم۔ (الانفال: 17)
’’پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اِس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’اور کیا چاہتا تھا ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور تو کہ آزمائش کرے ایمان والوں کو ساتھ نعمت کے اپنی طرف سے آزمائش نیک‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزمالے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے‘‘ (محمدجوناگڑھی، یہاں محنت کا مفہوم نہیں ہے)
’’اور اپنی طرف سے اہل ایمان کے جوہر نمایاں کرے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے‘‘ (اشرف علی تھانوی، یہاں محنت کا مفہوم نہیں ہے)
أبلاہ اللہ بلاء حسنا تو بطور محاورہ اللہ کی طرف سے انعام واکرام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے بھی اکثر مترجمین نے یہاں اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ۔ مِن فِرْعَوْنَ إِنَّہُ کَانَ عَالِیْاً مِّنَ الْمُسْرِفِیْنَ۔ وَلَقَدِ اخْتَرْنَاہُمْ عَلَی عِلْمٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ وَآتَیْنَاہُم مِّنَ الْآیَاتِ مَا فِیْہِ بَلَاء مُّبِیْنٌ۔ (الدخان: 30 ۔ 33)
’’اِس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب فرعون سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا اور اُن کی حالت جانتے ہوئے، اُن کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی اور اُنہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی‘‘ (سید مودودی)
’’ہم نے انہیں وہ نشانیاں عطا فرمائیں جن میں صریح انعام تھا ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی ‘‘(محمدجوناگڑھی)
’’اور ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں کھلا ہوا انعام تھا‘‘ (امین احسن اصلاحی، اکثر جگہوں پر آنجناب نے آزمائش ترجمہ کیا ہے)
’’اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح انعام تھا‘‘ (اشرف علی تھانوی، اکثر مقامات پر آنجناب نے آزمائش اور امتحان کیا ہے)
اس مقام پر کئی مترجمین نے انعام ترجمہ کیا ہے، بلکہ بعض وہ لوگ جو ہر مقام پر آزمائش کا ترجمہ کرتے ہیں، انہوں نے یہاں انعام ترجمہ کیا ہے۔ آیت کا سیاق بھی یہاں بہت واضح دلالت کررہا ہے کہ بلاء کا ترجمہ انعام ہونا چاہئے۔
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ۔ وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ۔ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء الْمُبِیْنُ۔ (الصافات: 103 ۔ 106)
’’آخر کو جب اِن دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندا دی کہ ''اے ابراہیم ؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقیناًیہ ایک کھلی آزمائش تھی'' (سید مودودی)
’’بے شک یہی ہے صریح جانچنا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’تحقیق یہ بات وہی ہے آزمائش ظاہر‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’بیشک یہ روشن جانچ تھی‘‘ (احمد رضا خان)
’’درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا‘‘ (محمدجوناگڑھی)
سورہ دخان میں بہت سے لوگوں نے بلاء مبین کا ترجمہ صریح انعام کیا ہے، مگر اسی طرح کی تعبیر البلاء المبین کا ترجمہ یہاں سبھی لوگوں نے صریح آزمائش کیا ہے۔ حالانکہ سیاق یہاں بھی تقاضا کررہا ہے کہ انعام ترجمہ کیا جائے۔
مذکورہ بالا تمام مقامات پر ایک بات مشترک ہے کہ بلاء کا لفظ نجات مل جانے اور سرخ روئی حاصل ہوجانے کے بعد آیا ہے۔ جس سے یہ بات اور روشن ہوجاتی ہے کہ لفظ بلاء ان سبھی مقامات پر انعام اورنوازش کے معنی میں ہے۔
تراجم کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ تقریبا ہر مترجم نے اگر کہیں آزمائش ترجمہ کیا ہے تو اسی مترجم نے دوسرے مقام پر انعام ترجمہ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ کوئی ایک حتمی موقف نہیں رکھتے تھے۔
(جاری)