اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۹)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

اھتدی کا ترجمہ

اھتدی کا لفظ مختلف صیغوں کے ساتھ قرآن مجید میں بار بار آیا ہے، ماہرین لغت کی تشریح کے مطابق اس لفظ میں ہدایت کو طلب کرنا، ہدایت کو اختیار کرنا، اور ہدایت پر قائم رہنا شامل ہے۔ اس لفظ کے مفہوم میں ارادے اور اقدام کا ہونا موجود ہے۔ لفظ اھتدی کی اس روح اور اس کی اس معنوی خصوصیت کا سامنے رہنا بہت اہم اور ضروری ہے۔ یہ لفظ یاد دلاتا ہے کہ اس امتحان گاہ میں ہدایت از خود حاصل ہوجانے کے بجائے اختیار کی جانے والی چیز ہے۔

ہدایت اختیار کرنے کا یہ مفہوم ان مقامات پر اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے ، جہاں ایسا کرنے پر ایسا کرنے کے نتائج مرتب ہونے کی بات کہی گئی ہے، یا اس عمل پر اللہ کی طرف سے کسی انعام کا وعدہ کیا گیا ہے، جیسے مزید ہدایت دینے کا وعدہ ۔ غرض یہ کہ اھتداء دراصل ہدایت پانا نہیں بلکہ ہدایت اختیار کرنا ہے۔

قرآنی الفاظ کے ماہر امام راغب اصفہانی نے اس لفظ کی اس خصوصیت پر متعدد قرآنی مثالوں کے ساتھ تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:

الاِھتدَاء یختصّ بما یتحرّاہ الانسان علی طریق الاختیار، امّا فی الامور الدّنیویۃ، او الاخرویۃ۔ قال تعالی: وھُوَ الَّذِی جَعَلَ لکُمُ النُّجُومَ لِتَھتَدُوا بھا (الانعام/۹۷) (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: المفردات فی غریب القرآن)

قرآن مجید کے مختلف تراجم کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ مترجمین نے کہیں تو اس لفظ کا اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ اس کی یہ روح نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے، لیکن کہیں کہیں ان سے اس پہلو کی رعایت نہیں ہوسکی ہے، اور انہوں نے ترجمہ کرتے ہوئے ایسی تعبیر اختیار کی ہے، جس سے ہدایت اپنے ارادے طلب اور کوشش سے اختیار کرنے والی چیز کے بجائے از خود حاصل ہونے والی چیز محسوس ہوتی ہے۔ ذیل میں بطور مثال کچھ آیتوں کے ترجمے پیش ہیں:

(۱) قُل یَا اَیُّہَا النَّاسُ قَد جَاءکُمُ الحَقُّ مِن رَّبِّکُم فَمَنِ اھتَدَی فاِنَّمَا یَہتَدِی لِنَفسِہِ وَمَن ضَلَّ فاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیہَا۔ (یونس: ۱٠۸)

“اے محمد، کہہ دو کہ“لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آ چکا ہے اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے، اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اسی کے لیے تباہ کن ہے“ (سید مودودی)

“تم فرماؤ اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا تو جو راہ پر آیا وہ اپنے بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے برے کو بہکا۔“ (احمد رضا خان)

“کہہ دو کہ لوگو تمہارے پروردگار کے ہاں سے تمہارے پاس حق آچکا ہے تو جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے۔ اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے“ (فتح محمد جالندھری)

“آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہنچ چکا ہے، اس لیے جو شخص راہِ راست پر آجائے سو وہ اپنے واسطے راہِ راست پر آئے گا اور جو شخص بے راہ رہے گا تو اس کا بے راہ ہونا اسی پر پڑے گا“ (محمد جوناگڑھی)

(۲) مَّنِ اہتَدَی فاِنَّمَا یَہتَدی لِنَفسِہِ وَمَن ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیہَا۔ (الاسراء:۱۵)

“جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے“ (سید مودودی)

“جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا تو اپنے ہی برے کو بہکا“ (احمد رضا خان)

“جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لیے اختیار کرتا ہے۔ اور جو گمراہ ہوتا ہے گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا“ (فتح محمد جالندھری)

“جو راہِ راست حاصل کرلے وہ خود اپنے ہی بھلے کے لیے راہ یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے“ (محمد جوناگڑھی)

(۳) وَانِّی لَغَفَّار لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اہتَدَی۔ (طہ: ۸۲)

“البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔“ (سید مودودی)

“اور بیشک میں بہت بخشنے والا ہوں اسے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا۔“ (احمد رضا خان)

“اور جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے رستے چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں۔“ (فتح محمد جالندھری)

“ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہِ راست پر بھی رہیں۔“ (محمد جوناگڑھی)

(۴) وَان اتلُوَ القُرآنَ فَمَنِ اہتَدَی فَانَّمَا یَہتَدِی لِنَفسِہِ۔ (النمل: ۹۲)

“اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں، اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا“ (سید مودودی)

“اور یہ کہ قرآن کی تلاوت کروں تو جس نے راہ پائی اس نے اپنے بھلے کو راہ پائی “ (احمد رضا خان) (راہ پائی، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 

“اور یہ بھی کہ قرآن پڑھا کروں۔ تو جو شخص راہ راست اختیار کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے اختیار کرتا ہے“ (فتح محمد جاندھری)

“اور میں قرآن کی تلاوت کرتا رہوں، جو راہِ راست پر آجائے وہ اپنے نفع کے لیے راہِ راست پر آئے گا“ (محمد جوناگڑھی)

(۵) انَّا اَنزَلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ لِلنَّاسِ بِالحَقِّ فَمَنِ اہتَدَی فَلِنَفسِہِ۔ (الزمر: ۴۱)

“ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا“ (سید مودودی)

“بیشک ہم نے تم پر یہ کتاب لوگوں کی ہدایت کو حق کے ساتھ اتاری تو جس نے راہ پائی تو اپنے بھلے کو“ (احمد رضا خان) (راہ پائی، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 

“ہم نے تم پر کتاب لوگوں (کی ہدایت) کے لیے سچائی کے ساتھ نازل کی ہے۔ تو جو شخص ہدایت پاتا ہے تو اپنے (بھلے کے) لیے“ (فتح محمد جالندھری) (ہدایت پاتا ہے،موزوں ترجمہ نہیں ہے)

“آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لیے نازل فرمائی ہے، پس جو شخص راہِ راست پر آجائے اس کے اپنے لیے نفع ہے“ (محمد جوناگڑھی)

(۶) فانَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِہِ وَہُوَ اَعلَمُ بِمَنِ اہتَدَی۔ (النجم: ۳٠)

“یہ بات تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ اُس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے“ (سید مودودی)

“ان کے علم کی انتہا یہی ہے۔ تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے رستے سے بھٹک گیا اور اس سے بھی خوب واقف ہے جو رستے پر چلا“ (فتح محمد جالندھری، رستے پر چلا نہیں بلکہ صحیح راستے پر چلا کہنا درست ہوگا)

“یہاں تک ان کے علم کی پہنچ ہے بیشک تمہارا خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے جس نے راہ پائی“ (احمد رضا خان) (راہ پائی،موزوں ترجمہ نہیں ہے) 

“یہی ان کے علم کی انتہا ہے۔ آپ کا رب اس سے خوب واقف ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی خوب واقف ہے اس سے بھی جو راہ یافتہ ہے“ (محمد جوناگڑھی، راہ یافتہ موزوں ترجمہ نہیں ہے)

(۷) وَیَزِیدُ اللَّہُ الَّذِینَ اہتَدَوا ہُدًی۔ (مریم: ۷۶)

“اس کے برعکس جو لوگ راہِ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے“ (سید مودودی)

“اور جنہوں نے ہدایت پائی اللہ انھیں اور ہدایت بڑھائے گا“ (احمد رضا خان) (ہدایت پائی موزوں ترجمہ نہیں ہے)

“اور جو لوگ ہدایت یاب ہیں خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے“ (فتح محمد جالندھری) (ہدایت یاب بھی موزوں ترجمہ نہیں ہے)

“اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے“ (محمد جوناگڑھی)(ہدایت یافتہ بھی موزوں ترجمہ نہیں ہے)

(۸) وَالَّذِینَ اہتَدَوا زَادَہُم ہُدًی۔ (محمد: ۱۷)

“رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ اُن کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے“ (سید مودودی) (ہدایت پائی، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 

“اور جنہوں نے راہ پائی اللہ نے ان کی ہدایت اور زیادہ فرمائی“ (احمد رضا خان) (راہ پائی،موزوں ترجمہ نہیں ہے) 

“اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو وہ ہدایت مزید بخشتا“ (فتح محمد جالندھری) (ہدایت یافتہ موزوں ترجمہ نہیں ہے)

“اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیا ہے“ (محمد جوناگڑھی)(ہدایت یافتہ موزوں ترجمہ نہیں ہے)

بات بہت واضح ہے کہ یہاں اللہ کی طرف سے اور زیادہ ہدایت دینے کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو اقدام کرکے ہدایت کو اختیار کریں، نہ کہ جو ہدایت پائیں۔

(۹) وَان تَدعُہُم الَی الہُدَی فَلَن یَہتَدُوا اذاً اَبَداً۔ (الکہف: ۵۷)

“تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاو، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے“ (سید مودودی) (ہدایت نہ پائیں گے، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 

“تم انہیں ہدایت کی طرف بلاو تو جب بھی ہرگز کبھی راہ نہ پائیں گے“ (احمد رضا خان) (راہ نہ پائیں گے، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 

“اور اگر تم ان کو رستے کی طرف بلاو  تو کبھی رستے پر نہ آئیں گے“ (فتح محمد جالندھری، یہ ترجمہ مناسب ہے)

(۱٠) وَرَاَوُا العَذَابَ لَو اَنَّہُم کَانُوا یَہتَدُونَ۔ (القصص: ۶۴)

“اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے کاش یہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے“ (سید مودودی)

“اور دیکھیں گے عذاب، کیا اچھا ہوتا اگر وہ راہ پاتے“ (احمد رضا خان) (راہ پاتے، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 

“اور سب عذاب دیکھ لیں گے، کاش یہ لوگ ہدایت پا لیتے“۔ (محمد جوناگڑھی) (پالیتے موزوں ترجمہ نہیں ہے)

(۱۱) وَقَالُوا یَا اَیُّہَا السَّاحِرُ ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ انَّنَا لَمُہتَدُون۔ (الزخرف:۴۹)

“ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے، اے ساحر، اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے اُس کی بنا پر ہمارے لیے اُس سے دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آ جائیں گے“ (سید مودودی،’’وہ کہتے کے“ بجائے ’’انہوں نے کہا“، اور یہ ہر عذاب کی بات نہیں بلکہ آخری عذاب کی بات ہے)

“اور بولے کہ اے جادوگر ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر کہ اس عہد کے سبب جو اس کا تیرے پاس ہے بیشک ہم ہدایت پر آئیں گے“ (احمد رضا خان)

“اور کہنے لگے کہ اے جادوگر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بےشک ہم ہدایت یاب ہو جائیں گے“ (فتح محمد جالندھری)

“اور انہوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے، یقین مان کہ ہم راہ پر لگ جائیں گے“ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ انَّنَا لَمُہتَدُون کا ترجمہ مستقبل سے کرنے کے بجائے حال سے کرنا چاہئے، مطلب: ”ہم نے راہ راست کو اختیار کرلیا ہے“ ۔ کیوں کہ عذاب مسلط ہونے کے بعد موقع کا تقاضا ہے کہ راہ راست پر آنے کا اعلان کیا جائے، نہ کہ مستقبل میں راہ راست پر آنے کا وعدہ۔

(۱۲) قَالُوا ادعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا ہِیَ انَّ البَقَرَ تَشَابَہَ عَلَینَا وَانَّا ان شَاء اللَّہُ لَمُہتَدُون۔ (البقرة: ۷٠)

“پھر بولے اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتاو کیسی گائے مطلوب ہے، ہمیں اس کی تعین میں اشتباہ ہو گیا ہے اللہ نے چاہا، تو ہم اس کا پتہ پالیں گے“ (سید مودودی)

 لَمُہتَدُون کے مزید ترجمے

“ہم راہ پا جائیں گے“ (احمد رضا خان) (موزوں نہیں ہے)

“ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی“ (فتح محمد جالندھری) (موزوں نہیں ہے)

“ہم پتا لگالیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں یہ ترجمہ تجویز کرتے ہیں: ”ہم صحیح بات پر عمل کرلیں گے“، کیونکہ یہاں معلوم کرنے کا مسئلہ نہیں بلکہ حکم پر عمل کرنے کا مسئلہ ہے۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(جنوری ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter