پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار

پاکستانی ہائی کمیشن کے ’’نیوز ایجنسی آف نائجیریا‘‘ کے ساتھ انٹرویو سیشن میں خوش آمدید۔ میرا نام مورین اوکون ہے۔ اس قسط میں ہم آپ کے سامنے بین الاقوامی حقائق کے حوالے سے تازہ ترین تجزیہ پیش کریں گے، جیسا کہ ایشیا، جو دنیا کی تقریباً نصف آبادی کا خطہ ہے، ایک ایسا اہم خطہ ہے جہاں کے فوجی تنازعات اور دیگر سرگرمیاں جیسے سیاسی، اقتصادی یا ماحولیاتی، براعظموں اور منڈیوں پر گہرے عالمی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ حال ہی میں ایک اور شدید پاک بھارت جھگڑے کا مشاہدہ کیا گیا جس میں فضائی حملے، سرحد پار جھڑپیں، اور جارحانہ سفارتی بیانات شامل تھے، جس سے برصغیر میں عدمِ استحکام کا خوف بڑھ گیا۔ آج ہمارے ساتھ موجود ہیں عزت مآب جناب سہیل احمد خان، نائیجیریا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہائی کمشنر، ایک ممتاز سفارتکار جو مسلح تنازعات، بین الاقوامی تعلقات، علاقائی اور عالمی حرکیات کے مطالعہ میں گہری مہارت رکھتے ہیں۔

جناب ہائی کمشنر! آپ کو خوش آمدید۔

سہیل احمد خان: السلام علیکم اور صبح بخیر۔

مورین اوکون: ہم اس سال 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گرد حملے سے شروع کرتے ہیں جو جموں و کشمیر کے پہلگام کے قریب ایک علاقے میں ہوا، جس میں 26 شہری ہلاک اور 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا، جسے پاکستانی حکومت نے مسترد کر دیا۔ اس پر آپ کا کیا موقف ہے اور اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

سہیل احمد خان: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ السلام علیکم اور صبح بخیر۔ مورین، میں آپ کا اور آپ کی ایجنسی کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے ایک بہت اہم موضوع کشمیر پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی دعوت دی۔ کشمیر اس وقت دنیا کا ایک مسئلہ ہے، یہ اس وقت سب سے بڑا ’’نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘‘ بن چکا ہے اور اس موضوع پر بات کرنا انتہائی اہم ہے۔ مجھے مدعو کرنے کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔

اس پہلگام واقعے کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے، میں آپ کے سامعین کے فائدے کے لیے چیزوں کو صحیح تناظر میں رکھنا چاہوں گا۔ بنیادی طور پر، میں آپ کو کشمیر اور مسئلہ کشمیر کا پس منظر بتانا چاہوں گا۔ کشمیر کے دو حصے ہیں: ایک آزاد کشمیر ہے جو پاکستان کے زیر انتظام ہے، اور دوسرا بھارت کا غیر قانونی مقبوضہ کشمیر ہے جو کشمیر کا بڑا حصہ ہے۔ اگست 1947ء میں برطانیہ نے برصغیر چھوڑا، دو قومی ریاستیں وجود میں آئیں، بھارت اور پاکستان۔ اس وقت تنازع کا مرکز کشمیر کا علاقہ تھا۔ تب سے کشمیری عوام نے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے مقامی جدوجہد کی ہے۔ یہ معاملہ 1950ء کی دہائی کے اوائل میں بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم مسٹر جواہر لال نہرو نے اقوامِ متحدہ میں اٹھایا تھا۔ اور اقوامِ متحدہ نے متعدد قراردادیں منظور کی ہیں جن میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں رائے شماری کروائی جائے تاکہ بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر کے لوگوں کو حقِ خود ارادیت دیا جا سکے۔

چنانچہ یہ صورتحال ہے، کشمیریوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں، ہزاروں خواتین کو قتل کیا گیا ہے، اور ہزاروں لوگ بہت لمبے عرصے سے جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کو سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد فراہم کی ہے۔ 8 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی ایک ایسے علاقے میں تعینات ہیں جہاں 10 ملین (ایک کروڑ) سے کچھ زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ اس طرح دراصل دس عام افراد پر جبری قوت کا ایک مسلط کردہ شخص ہے۔ اور اگر آپ بوڑھے لوگوں، بچوں، خواتین کو نکال دیں، تو شاید یہ تناسب ایک بمقابلہ ایک بالغ شخص ہو جاتا ہے۔ تو، یہ وہ صورتحال ہے جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے۔

پہلگام واقعے پر آتے ہیں۔ یہ واقعہ 22 اپریل کو پیش آیا۔ بھارتی میڈیا میں ایک زبردست بے قابو جنگی جنون پیدا ہوا۔ اور ہوا یہ کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے فوری طور پر اس خوفناک جرم کی مذمت کی۔ پاکستان دنیا میں کہیں بھی ہونے والی کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے بالکل خلاف ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ بھارت پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے اس قسم کا خوفناک جرم انجام دیا یا اس کی سرپرستی کی، جو کہ ناممکن تھا۔

پہلگام ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ پاکستان گزشتہ 77 سالوں سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کی حمایت کر رہا ہے۔ سیاح مارے گئے۔ سیاحت، جو پہلگام کے لوگوں کا واحد ذریعۂ معاش ہے، وہ متاثر ہوا ہے۔پاکستان ایسا کیوں کرے گا؟ یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

اور پھر فرض کریں، اگر دہشت گرد پاکستان سے آتے تو وہ لائن آف کنٹرول (LoC) سے گزرتے ہیں، جہاں مکمل طور پر باڑ لگی ہوئی ہے، لائن آف کنٹرول کا ہر انچ گولیوں کی رینج میں ہے، اور پھر 8 لاکھ فوجی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں۔ اور یہ دہشت گرد اس باڑ سے گزر کر، لائن آف کنٹرول پر تعینات فوجیوں سے بچ کر، مقبوضہ کشمیر میں گہرائی تک جا کر یہ آپریشن کرتے ہیں اور اچانک فضا میں غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ سوچا نہیں جا سکتا، یہ قابل قبول نہیں، یہ سمجھ سے باہر ہے۔ 

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ ہم کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شامل ہیں۔ ہم نے 80 ہزار سے زیادہ لوگ کھوئے ہیں، شہری اور فوجی دونوں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ اس لیے ہم دہشت گردی کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟ پاکستان اس وقت دنیا کے لیے واحد مضبوط دفاع ہے، دہشت گردوں اور باقی دنیا کے درمیان ایک دیوار ہے۔ یہ وہ قربانیاں ہیں جو پاکستان نے دی ہیں، جو پاکستانی عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی ہیں۔

پاکستان نے فوری طور پر بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور یہ بھی پیشکش کی کہ اگر کوئی فورم اس خاص واقعے کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا جاتا ہے تو ہم سہولت فراہم کریں گے۔ اب، جب کہ میں دہشت گردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں:

  • ابھی حال ہی میں مارچ کے دوران پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک ٹرین جعفر ایکسپریس دہشت گردوں نے ہائی جیک کر لی تھی۔ اور یہ ہماری مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی خالص پیشہ ورانہ مہارت تھی کہ وہ ان 450 سے زیادہ یرغمالیوں کو بچانے میں کامیاب ہوئے، جبکہ 33 دہشت گردوں کو ختم کر دیا۔
  • ابھی دو دن پہلے بلوچستان کے ایک سکول میں چار معصوم بچیاں خودکش بمبار حملے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔

پاکستان نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں دنیا کا کوئی بھی ملک دہشت گرد قرار نہیں دے سکتا، کیونکہ ہم نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، ہم ہمیشہ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست رہے ہیں۔ اور میں دنیا سے توقع کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کے اس کردار کو محسوس کرے۔ مجھے امید ہے کہ اس میں آپ کے سوال کا جواب آ گیا ہو گا۔

مورین اوکون: جی ہاں، آپ نے سوال کا بہت واضح جواب دیا۔ ہائی کمشنر نے ابھی پاکستان کے بارے میں ایک مضبوط موقف پیش کیا کہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار نہیں دیا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ سر، اس حالیہ تنازع کے بعد بھارت نے ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کو معطل کر دیا جسے پاکستان نے ’’جنگ کا عمل‘‘ قرار دیا۔ اسی طرح بھارت نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی معطل کر دیے۔ پاکستان ان یکطرفہ اقدامات کو چیلنج کرنے کے لیے کیا قانونی یا سفارتی کارروائی کر رہا ہے؟

سہیل احمد خان: جی مورین۔ یہ بھارت کا ایک ایسا ردعمل تھا جو ناپسندیدہ اور غیر ضروری تھا، اور جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ’’ایک خالی بوری سیدھی نہیں رہ سکتی‘‘۔ تو میں کہوں گا کہ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اور ’’مقدس’’ ہے، اسے بھارت یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔

دوسری بات یہ کہ کوئی بھی ذمہ دار قوم پانی کو ہتھیار نہیں بنائے گی، جو کہ زندگی کا ایک بنیادی جزو ہے۔ اور گزشتہ چند سالوں میں سرحد پار سے دھمکیاں آتی رہی ہیں کہ ’’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستان پانی کے ہر قطرے کے لیے بھیک مانگے‘‘۔ پچیس کروڑ سے زیادہ آبادی کو بھوک سے مرنے کی دھمکی دینا قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔ اور میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اگر پاکستانی قوم کی بقا داؤ پر لگی تو پاکستان کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو گا۔ دنیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔ اور بھارت کو بھی بنیادی طور پر بین الاقوامی معاہدوں اور بین الاقوامی ٹریٹیز کی پابندی کرنے کے لحاظ سے اپنی ساکھ پر غور کرنا چاہیے۔ میں اس معاملے کو اس طرح سے دیکھتا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر سمجھداری سے کام لیا گیا تو بھارت پانی کو ہتھیار بنانے کے اس آپشن پر نہیں جائے گا۔

مورین اوکون: جناب ہائی کمشنر، 7 مئی کو بھارت نے آپریشن سِندور کیا جس میں مبینہ طور پر انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ پاکستان نے شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع دی۔ پاکستان اس دعوے کے بارے میں کیا کہتا ہے اور اس نے شہریوں کی ہلاکت کے اپنے دعوے کی تائید میں بین الاقوامی برادری کو کیا ثبوت پیش کیے ہیں؟ اور اس نے جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کو نشانہ بنانے کے بھارت کے الزامات کا کیا جواب دیا؟

سہیل احمد خان: جی مورین، سب سے پہلے مجھے اس بات پر زور دینا چاہیے کہ پاکستان کا سرکاری موقف ہمیشہ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ بھارت نے تمام بین الاقوامی اصولوں کے خلاف یہ جارحانہ کارروائی کی۔ انہوں نے 9 مقامات پر حملہ کیا جن میں سے 4  مقامات پاکستان کے مرکزی علاقے کے اندر تھے، باقی آزاد کشمیر کے متنازعہ علاقے میں تھے جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہے۔ اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ 100 کٹر دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے صرف مساجد، مذہبی مقامات، ان مساجد سے منسلک مدارس، اور شہروں اور قصبوں کے وسط میں موجود گھروں پر حملہ کیا۔ اور جن دہشت گردوں کی وہ بات کر رہے ہیں، اصل میں 35 سے زائد شہری ہلاک ہوئے جن میں 8 خواتین اور 11 بچے شامل تھے۔ کیا وہ ان 100 دہشت گردوں میں شامل ہیں؟ کیا وہ ان ایک سو دہشت گردوں کو مارنے کا کوئی ثبوت دے سکتے ہیں؟ پاکستانی حکومت نے، ہمارے لوگوں نے بین الاقوامی صحافیوں کو ہر مقام پر لے جا کر انہیں ہر وہ جگہ دکھائی، ان 35 معصوم شہریوں کے جنازے دکھائے گئے۔

مجھے امید ہے کہ اس سے آپ کو نام نہاد بھارتی میزائل حملے کے حوالے سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور کیمپوں کے متعلق سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔ کوئی دہشت گرد ٹھکانے یا کیمپ نہیں تھے۔ میں نے آپ کو اپنے پچھلے جواب میں پہلے ہی بتایا ہے کہ پاکستان دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والی کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے بالکل خلاف ہے۔

مورین اوکون: ہائی کمشنر، 9 مئی کو بھارت نے پاکستانی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جس سے تنازع مزید بڑھ گیا۔ پاکستان نے اپنے فوجی انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کا کیا اندازہ بتایا ہے؟ اس نے امن کو خطرے میں ڈالے بغیر مزید حملوں کو کیسے روکا؟ اور دوسرا، پاکستان نے 10 تاریخ کو آپریشن بنیانٌ مرصوص کیا جو بھارتی فوجی اڈوں پر پاکستانی فوجی حملہ تھا۔ اس آپریشن کے اہداف کیا تھے؟

سہیل احمد خان: جہاں تک پاکستان کی موجودہ صورتحال کا تعلق ہے، یہ مجھے ایک کہاوت یاد دلاتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک افریقی کہاوت ہے کہ ’’سمندر کے بیچ میں موجود چٹان کو پانی سے خوف نہیں ہوتا‘‘۔

  1. پاکستان پر پہلی رات (7 مئی کو) 9 میزائلوں سے حملہ کیا گیا اور بھارت نے دہشت گردوں کے کیمپوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ پاکستان نے فوری طور پر جواب دیا اور 6 طیارے مار گرائے، جن میں جدید ترین رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ یہ پہلی رات کی بات تھی۔
  2. انہوں نے دوبارہ پاکستان کے شہری علاقوں، قصبوں اور شہروں میں ڈرونز کے جتھے بھیجے اور تقریباً 77 ڈرونز تھے جو سب کے سب مار گرائے گئے۔
  3. پھر انہوں نے انتقامی کارروائی کی اور 9ویں اور 10ویں مئی کو کئی اڈوں پر حملہ کیا۔ انفراسٹرکچر کو محدود نقصان پہنچا، زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا، اور اہم ساز و سامان کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ اس کے جواب میں ہم نے 26 ہدف شدہ فوجی اہداف پر کارروائی کی اور انہیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔

اب یہ ایک ایسا دور ہے، آپ درحقیقت 21ویں صدی میں رہ رہے ہیں، بہت زیادہ ٹیکنالوجی دستیاب ہے، چیزیں اتنی شفاف اور کھلی ہو چکی ہیں کہ یہ اس بچے کی طرح نہیں ہے جو اپنا کھلونا خراب کر کے بستر کے نیچے چھپا دیتا ہے۔ اگر آپ زمین پر کسی جگہ کسی انفراسٹرکچر یا کسی رن وے یا کسی ایئر بیس پر حملہ کر رہے ہوتے ہیں، تو وہ مکمل طور پر نظر آ رہا ہوتا ہے، اس کی سیٹلائٹ تصاویر ہوتی ہیں، ان واقعات کی براہ راست کوریج ہوتی ہے۔ اگر آپ ہوا میں کسی طیارے پر حملہ کر رہے ہیں تو اس کا ایک منفرد ڈیجیٹل ریکارڈ ہوتا ہے جو درحقیقت محفوظ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ تمام چیزیں بھارت کے طیاروں اور انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کے حوالے سے پاکستان کی کامیابیوں کے ثبوت کے طور پر موجود ہیں۔ اور یقیناً‌ ایسا ہی پاکستانی فضائی اڈوں اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے درست ہے۔

مورین، اس قسم کے تنازع میں یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ فتح کی نوعیت کو بیان کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کون فاتح نکلا۔ میڈیا ان دنوں بہت مؤثر ہے، تاہم اتنا مؤثر اور طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو بہت زیادہ ذمہ داری بھی اٹھانی پڑتی ہے، جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہوا۔ اور ان کے ہاں بہت زیادہ غلط معلومات تھیں، وہاں بہت زیادہ پروپیگنڈا تھا، اور درحقیقت یہ بتانا بہت مشکل تھا کہ اس پورے منظر نامے میں کون سی پارٹی فاتح نکلی۔ اور ایسے حالات میں یہ بتانا آسان نہیں کیونکہ جہاں سب کچھ اتنا مختصر اور اتنا تیز ہو تو آپ واقعی یہ تعین نہیں کر سکتے کہ یہ کیسے ہوا۔

لیکن میں آپ کو اس پوری چیز کا ایک اندازہ دوں گا۔ بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے، یہ پاکستان سے معیشت کے لحاظ سے بہت آگے ہے، اپنی مسلح افواج کی طاقت کے لحاظ سے بھی۔ وہ طاقتور تو ہے لیکن ذمہ دار ہونا ایک الگ سوال ہے۔ اور اسے قوموں کی کمیونٹی میں بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ سفارتی اثر و رسوخ حاصل ہے۔ وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ان کے پاس ڈیڑھ ارب لوگ ہیں۔ معیشت کے لحاظ سے ان کے پاس 400 ارب ڈالرز سے زیادہ کا فاریکس ریزرو ہے۔ مسلح افواج کے لحاظ سے وہ پاکستان سے 7 گنا بڑے ہیں۔

اگر پاکستان نے صرف 10ویں حصے کا بھی جواب دیا ہوتا تو ہم کم از کم ان کے برابر ہوتے۔ لیکن ہم نے انہیں اسی سطح کا جواب دیا، ہم نے اسی طاقت کے ساتھ جوابی کارروائی کی جس کی شاید انہیں توقع نہیں تھی۔ اس کا کریڈٹ فیصلہ سازوں کو جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں فوجی اور سویلین قیادت کا ایک مثالی امتزاج تھا جس نے بروقت فیصلہ کیا کہ کیا کرنا ہے، کب کرنا ہے، اور اس سے کیا اہداف حاصل کرنے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ تھا جو بنیادی طور پر فاتح ہوا۔

اس لیے میں کہوں گا کہ ہم نے درحقیقت انہیں بہت زیادہ مالی نقصان پہنچایا۔ اور اخلاقی بنیادوں پر، دنیا کے کسی بھی ملک نے، میڈیا کے ذریعے بہت زیادہ غلط معلومات پھیلنے کے باوجود، ایک بھی ملک نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان اس میں ملوث تھا۔ چنانچہ میں کافی حد تک کہوں گا کہ بین الاقوامی تجزیہ کار، دفاعی تجزیہ کار، اور صحافی بھی، سب پہلے ہی جان چکے تھے کہ پاکستان نے اس حوالے سے اچھا کام کیا ہے۔

ان کے ہاں کئی اینکرز اور ٹی وی شخصیات تھیں جنہوں نے شاید اس پورے منظر نامے میں ذمہ داری سے کام نہیں لیا۔ مگر میں یہ بھی کہوں گا کہ ان کی کچھ سمجھدار آوازیں بھی ہیں جو یقیناً بھارت نواز ہیں، جیسے کرن تھاپر مثال کے طور پر، پروین سونی، اور ایک بین الاقوامی دفاعی تجزیہ کار کرسچئن فیئر بھی ہیں۔ تو میں کہوں گا کہ لوگوں کو بھارت سے آنے والی ان سمجھدار آوازوں کو سننا چاہیے تھا تاکہ انہیں اس بات کا بہتر اندازہ ہو سکے کہ بھارت نے کہاں غلطی کی۔ مجھے امید ہے کہ اس سے آپ کے سوال کا جواب سامنے آ گیا ہو گا۔

مورین اوکون: تو بھارتی میڈیا کی طرف سے غلط معلومات پیدا کی گئی، کیا آپ یہی کہہ رہے ہیں سر؟

سہیل احمد خان: جی بالکل، میں یہی کہہ رہا ہوں۔ انہوں نے اتنی سنسنی پھیلائی، اتنا بے قابو جنگی ماحول پیدا کیا کہ بعض اوقات یہ بہت مضحکہ خیز لگتا تھا، کیونکہ

  • انہوں نے کہا کہ کراچی بندرگاہ تباہ ہو گئی ہے۔
  • یہاں تک کہ ایک اینکر، جو بہت زیادہ باخبر نہیں تھا، اس نے کہا کہ لاہور بندرگاہ تباہ ہو گئی ہے، حالانکہ لاہور میں کوئی سمندر نہیں ہے۔
  • انہوں نے کہا کہ پشاور پر قبضہ کر لیا گیا ہے، جبکہ پشاور پاکستان کے شمال میں ہے، وہ اس پر کیسے قبضہ کر سکتے ہیں؟
  • اور جب انہوں نے راولپنڈی میں ایک ایئربیس پر حملہ کیا تو کہا کہ راولپنڈی تباہ ہو گیا ہے۔
  • دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا کا ایک بندہ اس حد تک چلا گیا کہ اس نے یہ تجویز دینی شروع کر دی کہ پاکستان میں وہ تمام بچے جو آج رات پاکستان کا نقشہ یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، براہ کرم تین دن انتظار کریں کیونکہ نقشہ بدلنے والا ہے اور پاکستان کو بھارت مکمل طور پر تباہ کر کے اسے دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا۔

میرا مطلب ہے اس قسم کی کم علمی والی غیر ذمہ دارانہ باتیں میڈیا سے آنا واقعی قابلِ قبول نہیں تھا۔ اس نے درحقیقت ہندوستانی عوام میں بہت زیادہ سنسنی پیدا کی۔

جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے، پاکستانی ایک مختلف نسل ہیں۔ جب پاکستان میں ان ڈرونز کے جتھوں کے بارے میں خبر آئی تو لوگوں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ نے آخری ڈرون کہاں دیکھا ہے، ہم اسے براہ راست دیکھنا چاہیں گے، یہ پوری طرح سے جانے بغیر کہ یہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ کوئی افراتفری نہیں، کوئی خوف نہیں، کسی قسم کی سنسنی خیز سرگرمی نہیں تھی۔ جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے، معمول کی بات تھی، کاروبار معمول کے مطابق تھا، جب یہ بتایا گیا کہ کراچی بندرگاہ تباہ ہو گئی ہے تو لوگ کراچی میں مختلف جگہوں پر کھانا کھا رہے تھے۔ تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

مورین اوکون: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جنگ بندی دونوں فریقوں کی طرف سے برقرار رہے گی؟

مورین اوکون: اچھا، یہ خاص سوال مجھے ایک اور کہاوت یاد دلاتا ہے، اور یہ بھی ایک افریقی کہاوت ہے کہ ’’پلک اور آنکھ کو کبھی آپس میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ پاکستان اور بھارت اعلان کردہ جوہری ریاستیں ہیں۔ اور کشمیر تنازع کی جڑ ہے جو آج دنیا میں سب سے بڑا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے۔

پاکستان نے جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا تھا، لیکن جب اس کی پیشکش کی گئی تو ہم نے اسے فوری طور پر قبول کر لیا۔ اس وجہ سے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔ ہم دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے رہے ہیں۔ ہم نے افراد اور سامان دونوں کے لحاظ سے بہت کچھ کھویا ہے۔ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ہم ایک اور تنازع یا ایک اور جنگ میں جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان مکمل طور پر اپنی معیشت پر توجہ دے رہا ہے۔ البتہ اس بار جو کچھ بھی ہوا ہے، یہ ہمارے فیصلہ سازوں، سویلین اور فوجی دونوں کی شاندار یکجہتی تھی جس نے بھارت کو اسی قوت سے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

مجھے یقین ہے کہ جنگ بندی کا سلسلہ اسی طرح قائم رہے گا اور امن قائم رہے گا، البتہ پائیدار امن کے لیے اس صورتحال کے بنیادی مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔ دنیا کو اپنے فائدے کے لیے اس پر غور کرنا ہو گا کیونکہ کشمیر اب بھی دنیا میں سب سے بڑا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے۔ دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اور دیکھتے ہیں کہ طویل مدت میں اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

البتہ اس موقع پر میں کہوں گا کہ امریکی صدر مسٹر ٹرمپ اپنی دانشمندی اور اپنے اقدامات کے لحاظ سے بہت مضبوط ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے معاونین جیسا کہ ان کے نائب صدر مسٹر جے ڈی وینس اور ان کے وزیر خارجہ مسٹر روبیو کے ساتھ مل کر ایک شاندار کام کیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تنازع کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بروقت فیصلہ کیا۔

اس کے ساتھ ہمارے دیرینہ اور آزمودہ دوست چین کی کوششوں کی تعریف کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ جیسا کہ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان اور چین کے درمیان دوستی گہرے ترین سمندر سے گہری اور دنیا کے بلند ترین پہاڑ سے اونچی ہے‘‘۔ ہماری ایک دیرینہ دوستی ہے اور اس دوستی کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ ہم ہمیشہ ایک ہی موقف پر ساتھ رہیں گے۔

اس طرح سے ہمارے وقت کے آزمودہ دوست ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اور دیگر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک، ان سب نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے، یورپ میں، جنوبی امریکہ میں، آسٹریلیا میں، ایشیا میں، کہیں بھی کسی ایک ملک نے بھی پہلگام کے واقعات میں پاکستان کی ملوث ہونے کا نہ اشارہ دیا ہے اور نہ اس کی مذمت کی ہے۔ یہ سب سے اچھی بات ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی سفارتی فتح ہے۔

مورین اوکون: شکریہ مسٹر ہائی کمشنر، آپ بھارتی انتظامیہ کے نئے بیانیہ اور پاکستان کی طرف سے مبینہ ایٹمی بلیک میلنگ کو کیسے دیکھتے ہیں؟

سہیل احمد خان: پہلگام واقعے کے بعد سامنے آنے والے سازشی نظریات پر مکمل طور پر یقین نہ رکھتے ہوئے، اگرچہ ان میں سے کچھ کافی وزن بھی رکھتے ہیں، میں جناب معید یوسف کے الفاظ میں کہوں گا، جو سابق قومی سلامتی کے مشیروں میں سے ایک تھے، انہوں نے کہا کہ شاید بھارتی قیادت پہلگام کے بعد ’’اقدامی مجبوری‘‘ کے جال میں پھنس گئی تھی۔ وہاں میڈیا کی طرف سے بہت زیادہ جنون اور جنگی خواہش پیدا ہوئی، اور میڈیا چیخ رہا تھا کہ ہمیں پاکستان کو اس کی سزا دینی چاہیے، اور شاید بھارتی قیادت اس قسم کی مجبوری میں آ گئی اور انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے خلاف یہ کارروائی کریں گے۔ لیکن جو کچھ ہوا اس کے بعد انہیں 6 طیاروں کے گرائے جانے اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، اور بالآخر امریکہ کی مہربانی سے اور مسٹر ٹرمپ کی قیادت میں جنگ بندی ہوئی۔

پھر بھارتی قیادت کی طرف سے ایک تقریر کی گئی۔ مسٹر مودی جیسے قد کاٹھ کا ایک رہنما جو ڈیڑھ ارب لوگوں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی قیادت کر رہے ہیں، ان کی طرف سے ایسی باتیں کہی گئیں جن کی توقع ان کی حیثیت کے پیش نظر نہیں کی جا سکتی تھی۔ جیسے میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دوں گا کہ انہوں نے پاکستان پر حملہ کرنے والے اس آپریشن کا نام ’’آپریشن سندور‘‘ رکھا اور کہا کہ ہم نے ان لوگوں کو سبق سکھایا ہے جنہوں نے سندور چھین لیا ہے۔

سندور بنیادی طور پر ایک پاؤڈر جیسی چیز ہے جو شادی شدہ خواتین کے سروں پر لگائی جاتی ہے۔ یہ صرف ہندو مذہب کے ساتھ خاص ہے۔ میرا پہلا سوال یہ تھا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہماری بہنوں، ماؤں اور بیویوں کے سروں سے سندور چھین لیا گیا تھا؟ 28 کروڑ مسلمانوں کا کیا ہو گا جو ہندوستانی شہری ہیں؟ سکھوں کا کیا ہو گا؟ عیسائیوں، بدھوں اور دیگر برادریوں اور مذاہب کا کیا ہو گا؟ اس لیے میں کہوں گا کہ اس آپریشن کا نام کافی متعصبانہ نوعیت کا تھا، ان سے یہ توقع نہیں تھی۔

اور پھر ان کا مقصد درحقیقت اپنے لوگوں کو خاموش کرنا تھا۔ وہاں کی عوام میں میڈیا نے اتنا جنگی جنون پیدا کر دیا تھا کہ لوگ جنگ کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ یہ ایک بہت ہی مضحکہ خیز اور عجیب بات ہے کہ لوگ جنگ کا مطالبہ کیوں کریں گے؟ جنگ ایک ملک کو دس، پندرہ، بیس سال پیچھے لے جاتی ہے۔ یہ کسی سمجھدار قوم اور ملک کا انتخاب نہیں ہونا چاہیے۔ ذمہ دار قومیں اپنے مسائل کو مذاکرات کی میز پر بات چیت اور سفارتکاری سے حل کرتی ہیں۔ اور پاکستان کی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ تمام مسائل کو میز پر حل کیا جائے۔ البتہ اسے پاکستان کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے، ہمارے پاس عزم ہے، ہمارے لوگ معاملہ فہم ہیں، ہماری مسلح افواج بہت اچھی طرح سے تربیت یافتہ ہیں، اور ہماری فوجی اور عوامی قیادت دونوں بہترین پوزیشن میں ہیں اور ان میں صحیح وقت پر درست طریقے سے فیصلے کرنے کے حوالے سے ہم آہنگی ہے۔

اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے تین پہلوؤں پر بات کرنا چاہوں گا جن کا ذکر ان کی تقریر میں کیا گیا تھا کہ

  1. دہشت گردی کا جواب دیا جائے گا،
  2. اور ہم پاکستان کے جوہری بلیک میل سے متاثر نہیں ہوں گے،
  3. اور تیسرا یہ تھا کہ دہشت گردوں اور ان کی حمایت کرنے والی ریاست کو یکساں سمجھا جائے گا اور انہیں جواب دیا جائے گا۔

سب سے پہلے تو یہ کہ پاکستان کبھی بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث نہیں رہا۔ نہ ہم نے خود دہشت گردی کی کوئی سرگرمی انجام دی اور نہ ہی کسی قسم کے دہشت گردوں کو پناہ دی یا ان کی حمایت کی۔ تو اس بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پھر ایک ذمہ دار جوہری ریاست کی طرف سے دوسری جوہری ریاست کے خلاف اس طرح کا بیان دینا، جبکہ وہ ریاست بھی پڑوسی ہو، یہ بالکل ناقابلِ قبول ہے، یہ کوئی ذمہ دارانہ بات نہیں ہے۔

ان کی یہ بات کہ ہمیں جوہری بلیک میل سے متاثر نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ اس میں کوئی جوہری بلیک میل نہیں تھا، یہ ایک روایتی منظرنامہ تھا، انہوں نے ایک روایتی حملہ کیا جس کا اسی طریقے سے جواب دیا گیا، اور جوہری آپشن اس مخصوص منظرنامے میں کبھی بھی سامنے نہیں آیا۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں بھی (ایسا نہیں ہو گا)۔ جوہری قوت کو ایک ’’ڈیٹرنس‘‘ کے طور پر رکھا جاتا ہے، وہ اسے جانتے ہیں، ہم اسے جانتے ہیں، اور ہم دونوں ممالک جوہری ہتھیار رکھتے ہیں، اور یہ شاید اسی طرح رہے گا۔

البتہ اس خاص آپریشن یا اس خاص کشیدگی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ محدود باہمی جنگ یقینی طور پر ممکن ہے۔ چاہے وہ جگہ کے لحاظ سے ہو، چاہے وقت کے لحاظ سے ہو، یا چاہے ایک خاص طاقت کے لحاظ سے ہو۔ جیسا کہ اس معاملے میں یہ زیادہ تر فضائی افواج تھیں جنہوں نے کارروائی کی، اور کچھ توپ خانے کا استعمال تھا اور بس۔ البتہ جگہ محدود نہیں تھی کہ یہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ مرکزی علاقے میں بھی کیا گیا تھا۔ تاہم وقت کے لحاظ سے یہ مختصر تھا کہ چار دن میں معاملہ ختم ہو گیا۔

چنانچہ نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آیا ہے، جس کا بعد میں ضرور تجزیہ کیا جائے گا کہ جب ایک ملک دوسرے ملک کے پچیس کروڑ لوگوں کو پانی کا ہتھیار استعمال کر کے پیاسا مارنے کی دھمکی دیتا ہے تو اس بات کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے، اور عالمی طاقتوں اور عالمی برادری کو اس پہلو پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔

مورین اوکون: شکریہ جناب، یہ واقعی گہرا اور بصیرت انگیز (تجزیہ) تھا۔ آپ کے لیے آخری سوال ہے کہ آپ بین الاقوامی برادری سے کیا کہنا چاہیں گے؟

سہیل احمد خان: جی مورین، آخر میں مجھے یہ کہنا چاہیے کہ

  • یہ سارا معاملہ امن پر ختم ہوا کہ دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا کر جنگ بندی کرائی گئی۔ اس ساری مہم کا سہرا میرا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو جاتا ہے جنہوں نے بروقت فیصلے کیے اور جارحیت کا اسی انداز میں جواب دیا۔ اور اس کے ساتھ اس کا سہرا پاکستانی عوام کو بھی جاتا ہے جو اپنی سیاسی اور عسکری قیادت کی مکمل حمایت میں تھے۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایک جگہ کھڑے تھے اور انہوں نے اپنی فوجی اور سیاسی قیادت کے فیصلوں کی حمایت کی، جو ایک ایسی بات تھی جس نے پوری قوم کو متحد کیا، اور یہ ایک بہت مثبت بات ہے۔
  • پاکستان نے نہ صرف عسکری طور پر کامیابی حاصل کی کہ بھارت کو اب مستقبل میں کسی بھی قسم کی جارحیت کرنے سے پہلے دو بار سوچنا پڑے گا، بلکہ پاکستان نے دنیا کو ثابت کر دیا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے، لیکن اگر وقت آتا ہے تو اس میں یہ عزم، یہ ہمت، یہ صلاحیت، اور اپنے دوستوں کی مدد سے وہ وسائل موجود ہیں کہ وہ کسی کی بھی جارحیت کا اسی انداز میں جواب دے سکتا ہے۔
  • عالمی برادری (کے کردار کی بات کی جائے تو) مجھے امریکہ اور مسٹر ٹرمپ کی بطور ایک رہنما خاص طور پر تعریف کرنی چاہیے، جنہوں نے خود کو ایک معاملہ سلجھانے والے رہنما کے طور پر ثابت کیا۔ میں ذاتی طور پر دنیا کی بہتری اور دنیا میں زیادہ امن کے لیے ان کی طرف سے بہت کچھ آنے کی توقع کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے اقدامات اسی حوالے سے ہوں گے۔ انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ نیز اپنے دوستوں چین، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت تمام مشرق وسطیٰ کے ممالک کا میں خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
  • میں بین الاقوامی برادری اور بین الاقوامی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ، یورپی یونین، جنوبی امریکہ، شمالی امریکہ اور باقی براعظموں سے بھی اپیل کروں گا کہ براہ کرم اس خاص خطے پر خصوصی توجہ دیں۔ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ یہ صرف پاکستان ہی کی شدید خواہش نہیں ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے، یہ ایک انسانی بحران کی صورتحال ہے کیونکہ وہاں آٹھ لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں جو اسے چلا رہے ہیں، اور بعض جگہ اس خطہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے اور بین الاقوامی برادری کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ پاکستان نے اس خاص تنازع اور مسئلے پر چار جنگیں لڑی ہیں۔ بھارت اور پاکستان یہ دونوں ممالک جوہری ریاستیں ہیں، خطرات بڑھ گئے ہیں، خاص طور پر 28 مئی 1998ء کے بعد سے، جب کہ دونوں ممالک جوہری بن چکے تھے۔ اب کشمیر دنیا میں سب سے بڑا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے، بین الاقوامی برادری کو اس پر نہ صرف اس خطے کی خاطر بلکہ پوری دنیا کی خاطر غور کرنا چاہیے۔ امریکہ نے اس بحران کو حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی ہے، یہ ایک بہت خوش آئند بات ہے اور میں اس کے لیے مسٹر ٹرمپ کی واقعی تعریف کرتا ہوں۔
  • میں یہاں نائیجیریا میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ ہر چوتھا افریقی ایک نائیجیرین ہے، نائیجیریا کی آبادی تئیس کروڑ سے زائد ہے، یہ ایک عظیم ملک ہے، تیل اور گیس کا آٹھواں سب سے بڑا پیدا کنندہ، افریقی براعظم کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک، یہ ایک حیرت انگیز ملک ہے جس کی قیادت بہت دور اندیش ہے، ایسے لوگ جو بہت برداشت رکھتے ہیں۔ مجھے یہاں صرف ڈیڑھ سال ہوا ہے اور میں نے یہی محسوس کیا ہے کہ میں دنیا کے بہترین اور عظیم ترین ممالک میں سے ایک میں رہ رہا ہوں۔ نائیجیریا ایک ایسا ملک ہے جسے عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اور میں نائیجیریا، اس کے عوام اور قیادت سے اپیل کروں گا کہ وہ اپنا کردار ادا کریں، وہ کردار جو عالمی سیاست میں ادا کرنا ان کا حق ہے۔ انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی کوششیں کرنی چاہئیں۔ یہ آخری بات تھی جو میں کہنا چاہتا تھا۔

میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے برداشت کیا اور مجھے امید ہے کہ میرے جوابات نے آپ کے سوالات اور آپ کے استفسارات کو حل کیا ہو گا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

https://youtu.be/IbHya3mO1e4


(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter