مسئلہ کشمیر اب تک!


بھارت اور پاکستان کے درمیان دہائیوں پرانے اس تنازع کی جڑیں 1947ء کی ہنگامہ خیز تقسیمِ ہند میں پائی جاتی ہیں۔ 


پہلگام حملے کے بعد، جس میں 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 26 شہری ہلاک ہوئے تھے، پاکستان اور بھارت نے جنگی بیانات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائرنگ کا تبادلہ کیا ہے، جو کشمیر میں اس وقت عملی سرحد ہے۔ تب سے پاکستان حکومت کے سینئر اہلکار اور فوجی حکام نے متعدد نیوز کانفرنسیں کی ہیں جن میں انہوں نے اس بارے میں ’’مصدقہ معلومات‘‘ ملنے کا دعویٰ کیا ہے کہ جلد ہی بھارت کا فوجی ردعمل متوقع ہے۔ 

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک، جن کی مجموعی آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زیادہ ہے، جو دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہے، ممکنہ جنگ کی صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں۔ ان کی دیرینہ دشمنی کا مرکزی سبب خوبصورت وادئ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت ہے، جس پر بھارت اور پاکستان اپنی چار سابقہ جنگوں میں سے تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے دونوں ممالک کشمیر کے علاقوں پر قابض ہیں، چین بھی اس کا ایک حصہ کنٹرول کرتا ہے، جبکہ (پاکستان اور بھارت) کا مکمل کشمیر پر دعویٰ ہے۔ 

تو کشمیر کا تنازعہ کیا ہے، اور آزادی کے تقریباً آٹھ دہائیوں بعد بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ لڑائی کیوں جاری ہے؟

تازہ ترین کشیدگی کس بارے میں ہے؟

بھارت کے مطابق ان کے خیال میں پاکستان نے بالواسطہ طور پر پہلگام حملے کی حمایت کی ہو گی۔ پاکستان اس دعوے کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ دونوں ممالک سفارتی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف جوابی اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس میں ایک دوسرے کے شہریوں کے ویزوں کی منسوخی اور سفارتی عملے کو واپس کرنا شامل ہے۔

بھارت نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے پانی کے استعمال و تقسیم کے ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ (ستمبر 1960ء) پر عملدرآمد معطل کر دیا ہے۔ پاکستان نے بدلے میں شملہ معاہدے سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی ہے، جس پر جولائی 1972ء میں دستخط ہوئے تھے۔ 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی واضح شکست کے سات ماہ بعد، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تھا، ہونے والا شملہ معاہدہ تب سے پاک بھارت تعلقات کی بنیاد چلا آ رہا ہے۔ یہ معاہدہ لائن آف کنٹرول کی حیثیت طے کرتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود تنازعات کو پر امن ذرائع کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا ہے۔ 

بدھ کے روز، ریاستہائے متحدہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ سبراہ مانیم جے شنکر کو فون کیا تاکہ دونوں ممالک پر زور دیا جا سکے کہ وہ ’’کشیدگی کو کم کرنے اور جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی برقرار رکھنے‘‘ کے لیے مل کر کام کریں۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے بھی جمعرات کو بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو فون کر کے اس حملے کی مذمت کی۔ ہیگسیتھ نے ایکس پر لکھا، ’’میں نے اپنی بھرپور حمایت کا اظہار کیا۔ ہم بھارت اور اس کے عظیم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘

تنازع کشمیر کی اصل وجہ کیا ہے؟

برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع یہ خطہ 222,200 مربع کلومیٹر (85,800 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جس میں تقریباً چالیس لاکھ افراد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور ایک کروڑ تیس لاکھ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں رہتے ہیں۔ آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ پاکستان شمالی اور مغربی حصوں یعنی آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان کو کنٹرول کرتا ہے۔ جبکہ بھارت جنوبی اور جنوب مشرقی حصوں کو کنٹرول کرتا ہے جس میں وادی کشمیر اور اس کا سب سے بڑا شہر سری نگر، نیز جموں اور لداخ شامل ہیں۔

اگست 1947ء میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خاتمے اور برطانوی ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں مسلم اکثریتی پاکستان اور ہندو اکثریتی بھارت کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت جموں و کشمیر جیسی شاہی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی ملک میں شامل ہو جائیں۔ تقریباً 75 فیصد مسلم آبادی والے اس علاقے کے بارے میں اہلِ پاکستان کا یہ عام خیال تھا کہ یہ خطہ فطری طور پر ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا۔ محمد علی جناح کی قیادت میں بالآخر مسلمانوں کے الگ وطن کے طور پر پاکستان وجود میں آیا، اگرچہ تقسیم کے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت نے وہیں رہنے کو ترجیح دی، جہاں مہاتما گاندھی اور آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ایک سیکولر ریاست کی بنیادیں رکھی تھیں۔

ابتدائی طور پر کشمیر کے مہاراجہ کا ارادہ دونوں ممالک سے آزاد رہنے کا تھا، لیکن پاکستان کی طرف سے ہونے والے حملے کے بعد اس نے بھارت میں شامل ہونے کا انتخاب کر لیا، جس کے نتیجے میں 1947ء تا 1948ء کی پہلی پاک بھارت جنگ شروع ہوئی، اس جنگ کے بعد قائم ہونے والی سیزفائرلائن (جنگ بندی کی سرحد) کو بعد میں شملہ معاہدے میں باضابطہ طور پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی شکل دی گئی۔ بہرحال دونوں ممالک پورے خطے کے دعویدار ہیں، جبکہ بھارت کا مشرقی علاقے میں چین کے زیر قبضہ علاقہ اکسائی چِن پر بھی دعویٰ ہے۔ 

1947ء میں پہلی پاک بھارت جنگ کی وجہ کیا بنی؟

کشمیر کے حکمران ہندو مہاراجہ ہری سنگھ تھے، جن کے آباؤ اجداد نے 1846ء میں انگریزوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اس خطے کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔ تقسیم کے وقت ہری سنگھ نے ابتدائی طور پر کشمیر کو بھارت اور پاکستان دونوں سے آزاد رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ہوا یہ کہ کشمیر کے ایک حصے میں پاکستان کے حامی باشندوں کی طرف سے ہری سنگھ حکومت کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔ پاکستان کے ان مسلح گروہوں نے خطے پر قبضے کے ارادے سے حملہ کر دیا اور انہیں اس وقت کے نو تشکیل شدہ پاکستانی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔  اس وقت کے بڑے کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے پاکستان کے حمایت یافتہ اس حملے کی مخالفت کی۔ جبکہ ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد کی اپیل کر دی۔

نہرو حکومت نے اس شرط پر پاکستان کے خلاف مدد دی کہ مہاراجہ ہری سنگھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کریں جس کے تحت جموں و کشمیر بھارت میں ضم ہو جائے۔ چنانچہ اکتوبر 1947ء میں جموں و کشمیر باضابطہ طور پر بھارت کا حصہ بن گیا، جس سے نئی دہلی کو وادئ کشمیر، جموں اور لداخ کا کنٹرول مل گیا۔ بھارت نے پاکستان پر تنازع کے حوالے سے جارحیت کا الزام لگایا، پاکستان نے اس کی تردید کی اور جنوری 1948ء میں یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا، جہاں ایک اہم قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا: 

’’جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان میں الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے کیا جانا چاہیے۔‘‘

تقریباً 80 سال گزر گئے ہیں لیکن  کوئی رائے شماری نہیں ہوئی، جو کہ کشمیریوں کے لیے باعثِ تکلیف ہے۔

کشمیر پر یہ پہلی جنگ بالآخر اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی۔ اور 1949ء میں دونوں ممالک نے کراچی میں، جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا، طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت سیزفائرلائن کو باضابطہ شکل دی۔ نئی سرحد نے کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے زیر کنٹرول حصوں میں تقسیم کر دیا۔

1949ء کے معاہدے کے بعد صورتحال کیسے بدلی؟

1953ء تک شیخ عبداللہ جموں کشمیر نیشنل کانفرنس (JKNC) کی بنیاد رکھ چکے تھے اور انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ریاستی انتخابات جیت لیے۔ البتہ بھارت سے آزادی کے حصول میں ان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث بھارتی حکام نے انہیں گرفتار کر لیا۔ 

1956ء میں جموں و کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ (ناقابلِ جدا حصہ) قرار دیا گیا۔

ستمبر 1965ء میں، آزادی کے بعد دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پر ایک اور جنگ ہوئی۔ پاکستان کو امید تھی کہ وہ مقامی بغاوت ابھار کر کشمیریوں کے مقصد میں مدد دے گا، لیکن یہ جنگ ایک تعطل پر ختم ہوئی، جس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کی نگرانی میں جنگ بندی پر راضی ہوئے۔

چین کو کشمیر کا ایک حصہ کیسے ملا؟

اس خطے کے شمال مشرق میں واقع اکسائی چن کا علاقہ 5,000 میٹر (16,400 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے، اور تاریخی طور پر یہ ایک دور دراز اور آبادکاری کے لیے مشکل علاقہ رہا ہے، جو انیسویں صدی کے دوران اور بیسیوں صدی کے اوائل میں برطانوی ہندوستان اور چین کی سرحد پر واقع تھا۔ یہ اس ریاست کا حصہ تھا جو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو 1846ء میں انگریزوں کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ملی تھی۔ تقریباً‌ 1930ء کی دہائی تک چینی نقشوں نے بھی کشمیر کو ’’ارداغ-جانسن لائن‘‘ کے جنوب میں تسلیم کیا ہے جس میں کشمیر کی شمال مشرقی سرحد دکھائی گئی ہے۔ 

1947ء میں ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد نئی دہلی نے اکسائی چن کو اپنے علاقے کا حصہ سمجھا۔ لیکن 1950ء کی دہائی کے اوائل میں چین نے، جو اَب کمیونسٹ حکومت کے تحت تھا، تبت اور سنکیانگ کو ملانے والی ایک وسیع و عریض 1,200 کلومیٹر (745 میل) طویل شاہراہ تعمیر کر لی تھی، جو اکسائی چن سے گزرتی تھی۔ بھارت اس وقت بے خبر رہا اور یہ ویران علاقہ تب تک اس کی قومی سلامتی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوا تھا۔ 1954ء میں نہرو نے ’’ارداغ-جانسن لائن‘‘ کے مطابق سرحد کو باضابطہ بنانے کا اعلان کیا، جس کا مقصد درحقیقت اکسائی چن کو بھارت کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کرنا تھا۔ لیکن چین مصر تھا کہ انگریزوں نے کبھی ’’ارداغ-جانسن لائن‘‘ پر بات نہیں کی تھی، اور یہ کہ ایک متبادل نقشے کے تحت اکسائی چن اس کا حصہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ چین اکسائی چن میں موجود شاہراہ کی وجہ سے پہلے ہی وہاں موجود تھا۔

اس دوران پاکستان اور چین کے درمیان بھی کشمیر کے حوالے سے اختلافات موجود تھے کہ کس کا کنٹرول کس حصے پر ہے۔ لیکن 1960ء کی دہائی کے آغاز میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت چین نے وہ زرخیز علاقہ چھوڑ دیا جس کی پاکستان نے درخواست کی تھی، اور بدلے میں پاکستان نے شمالی کشمیر میں ایک پتلی پٹی چین کے حوالے کر دی۔ جبکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ معاہدہ غیر قانونی تھا کیونکہ 1947ء کے الحاق کی دستاویز کے مطابق پورا کشمیر اس کا ہے۔

بھارت اور پاکستان کا معاملہ: اس کے بعد کیا ہوا؟

دسمبر 1971ء میں ایک اور جنگ ہوئی، اس بار مشرقی پاکستان میں (مغربی) پاکستان کی حکومت کے خلاف بھارت کے حمایت یافتہ بنگالی قوم پرستوں کی ایک بڑی بغاوت بھی ہوئی، اور اس جنگ کے نتیجے میں (مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر) بنگلہ دیش بن گیا۔ اور 90,000 سے زیادہ پاکستانی فوجیوں کو بھارت نے جنگی قیدی بنا لیا۔

شملہ معاہدے نے جنگ بندی لائن کو ایل او سی (لائن آف کنٹرول) میں تبدیل کر دیا، جو عملی طور پر تو سرحد تھی لیکن بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ نہیں تھی، جس سے ایک بار پھر کشمیر کی حیثیت ایک سوالیہ نشان بن گئی۔

لیکن 1971ء کی جنگ میں بھارت کی واضح فتح کے بعد اور نہرو کی بیٹی وزیراعظم اندرا گاندھی کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ کے دوران، 1970ء کی دہائی میں کشمیری راہنما شیخ عبد اللہ نے رائے شماری اور کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے دستبرداری اختیار کر لی۔ 1975ء میں انہوں نے اندرا گاندھی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں بھارت کے ساتھ اس کے زیر انتظام کشمیر کا الحاق تسلیم کیا گیا، جبکہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خطہ کی نیم خود مختار حیثیت برقرار رکھی گئی۔ شیخ عبد اللہ نے بعد میں اس خطے کے وزیر اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

1980ء کی دہائی میں کشمیری آزادی کی نئی تحریک کی وجہ کیا بنی؟

جیسے جیسے شیخ عبد اللہ کی نیشنل کانفرنس پارٹی اور بھارت کی حکمران انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان تعلقات بڑھے، ویسے ہی بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں کشمیریوں کی مایوسی بھی بڑھی، جنہوں نے محسوس کیا کہ خطے میں سماجی اور اقتصادی حالات بہتر نہیں ہوئے ہیں۔

مقبول بھٹ کی طرف سے قائم کردہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ جیسی علیحدگی پسند تنظیمیں ابھریں۔ مسلح گروہوں کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت کے پیش نظر کشمیر میں جمہوریت کے بھارتی دعوے کمزور پڑ گئے۔ ایک اہم موڑ 1987ء کے ریاستی اسمبلی کے انتخابات تھے، جس میں شیخ عبد اللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ اقتدار میں آئے، لیکن بھارت مخالف سیاستدانوں کو اس عمل سے باہر رکھنے کے حوالے سے ان انتخابات کو بڑے پیمانے پر دھاندلی شدہ سمجھا گیا۔

بھارتی حکام نے علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع کیا، جن کے بارے میں نئی دہلی نے الزام لگایا کہ انہیں پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس کی حمایت اور تربیت حاصل ہے۔ پاکستان نے اپنی طرف سے مسلسل یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت فراہم کرتا ہے اور کشمیریوں کے ’’حقِ خود ارادیت‘‘ کی پشت پناہی کرتا ہے۔

1999ء میں کارگل کا تنازع سامنے آیا، جس میں بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان لائن آف کنٹرول پر واقع فوجی اہمیت کے حامل بلند حصے پر کنٹرول کے لیے لڑائی ہوئی۔ بھارت نے بالآخر کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ حاصل کر لیے اور قبل از جنگ کی صورتحال بحال ہو گئی۔ یہ کشمیر پر تیسری جنگ تھی۔ کارگل لداخ کا ایک حصہ ہے۔   

اس کے بعد کشمیر پر کشیدگی میں کیسے اضافہ ہوا؟

اگلے برسوں میں براہ راست تنازع میں بتدریج کمی آئی اور متعدد جنگ بندی کے معاہدوں پر دستخط ہوئے، لیکن بھارت نے وادی میں اپنی فوجی موجودگی کو نمایاں طور پر بڑھا دیا۔ 

2016ء میں ایک معروف علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشیدگی دوبارہ بھڑک اٹھی۔ ان کی موت کے نتیجے میں وادی میں تشدد میں اضافہ ہوا اور ایل او سی پر فائرنگ کے تبادلوں میں تیزی آئی۔ 

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 2016ء کے دوران پٹھان کوٹ اور اڑی میں بڑے حملے ہوئے جن میں بھارتی افواج کو نشانہ بنایا گیا، پاکستان کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ 

سب سے سنگین کشیدگی فروری 2019ء میں ہوئی جب پلوامہ میں بھارتی نیم فوجی اہلکاروں کے ایک قافلے پر حملہ کیا گیا جس میں 40 فوجی ہلاک ہو گئے اور دونوں ممالک میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا، جس سے جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہو گئی۔ پاکستان نے اس اقدام کو شملہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں وادی میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ بھارت نے 500,000 سے 800,000 فوجی تعینات کیے، خطے کو لاک ڈاؤن کر دیا، انٹرنیٹ خدمات بند کر دیں اور ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا۔

بھارت کا اصرار ہے کہ کشمیر میں جاری بحران کا ذمہ دار پاکستان ہے، جس پر وہ پاکستان میں مقیم مسلح گروہوں کی میزبانی، مالی معاونت اور تربیت کرنے کا الزام لگاتا ہے، جنہوں نے دہائیوں کے دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان میں سے کچھ گروہوں پر بھارت اور امریکہ وغیرہ نے بھارت کے دیگر حصوں پر بھی حملے کرنے کا الزام لگایا ہے، جیسا کہ 2008ء میں بھارت کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی پر ہونے والے حملے، جب تین دنوں میں کم از کم 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستان مسلسل اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں تشدد کو ہوا دیتا ہے، اس کے بجائے وہ مقامی لوگوں میں پائی جانے والی وسیع ناراضگی کو نمایاں کرتا ہے، اور بھارت پر خطے میں سخت اور غیر جمہوری حکمرانی مسلط کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ وہ کشمیری علیحدگی پسندی کی صرف سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے۔

www.aljazeera.com


(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter