(۲۲) أَحْسَنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ کا ترجمہ:
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اعمال کا بدلہ دینے کی بات بڑے زور اور تاکید کے ساتھ کہی گئی ہے۔ اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے بعض مقامات پرقرآن مجید میں جو اسلوب اختیار کیا گیاہے، اسے سمجھنے میں بعض مترجمین سے غلطی ہوئی ہے۔
جزی کا فعل عربی زبان میں کسی چیز کا بدلہ دینے یا کسی کا بدل بننے اور کام آنے کے مفہوم میں آتا ہے۔ اس فعل کے بعد وہ چیز ذکر ہوتی ہے جسے بطور بدلے کے دیا گیا اور وہ چیز بھی ذکر ہوتی ہے جس کا بدلہ دیا گیا۔ کبھی دونوں ساتھ ذکرہوتے ہیں اور کبھی کسی ایک پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
دونوں کے ذکر کی مثال ہے:
وَجَزَاہُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّۃً وَحَرِیْرا۔ً (الانسان: ۱۲)
’’اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے۔‘‘ (محمد جوناگڑھی)
فعل جزی کے استعمال کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اگر یہ کہنا ہو کہ ’’اس نے تمہیں بہترین بدلہ دیا‘‘ تو کہا جاتا ہے جزاک أحسن الجزاء۔ اگر کہنا ہو کہ ’’اس نے تمہیں تمہارے عمل کا صلہ دیا‘‘ تو کہا جاتا ہے: جزاک بما عملت۔ اگر کہنا ہو کہ ’’اس نے تمہیں تمہارے عمل کا بہترین بدلہ دیا‘‘ تو کہا جاتا ہے: جزاک بما عملت أحسن الجزاء۔ لیکن اگر یہ کہنا ہو کہ اس نے تمہیں تمہارے بہترین عمل کا صلہ دیا تو کہا جاتا ہے: جزاک بأحسن ما عملت۔ گویا اگر بہترین بدلہ کہنا ہو تو أحسن الجزاء کہیں گے، اور اگر بہترین عمل کہنا مقصود ہو تو عمل کی طرف احسن کی اضافت ہوگی، جیسے بأحسن ما کانوا یعملون۔ یہ آخری اسلوب قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سب مقامات پر بہترین عمل کا مفہوم اختیار کیا جاتا جو جملہ کی مذکورہ ترتیب سے متبادر ہے، لیکن اس کے بجائے بہت سارے لوگوں نے بہترین بدلے کا مفہوم اختیار کیا۔
اردو تراجم سے پہلے یہ غلطی عربی تفاسیر میں ملتی ہے۔ بہت سارے مفسرین نے بہترین بدلے والا مفہوم اختیار کیا، لیکن اس کے یے انہیں أحسن یا أسوأ کے بعد جزاء کو مضاف الیہ کے طور پر محذوف ماننا پڑا۔ ابو حیان کے الفاظ میں:
وَلَنَجزِیَنَّہْمَ أحسَنَ الَّذِی: أی أحسن جزاء أعمالہم۔ (البحر المحیط: ۸/۳۴۲)
حالانکہ محذوف ماننے کے اس تکلف کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ صحیح مفہوم وہی ہے جو بغیر محذوف مانے ادا ہورہا ہے۔ مشہور قدیم مفسرابن عطیہ غرناطی نے آیت کا مفہوم صحیح اختیار کیا مگر اس کی نحوی توجیہ کو ایک مضاف محذوف مان کرتکلف آمیز کردیا۔ وہ کہتے ہیں:
وفی قولہ عز وجل (ولنجزینہم أحسن) حذف مضاف تقدیرہ ثواب أحسن الذی کانوا یعملون۔ (المحرر الوجیز: ۵/۲۱۵)
حالانکہ ثواب کو مضاف کے طور پر محذوف ماننے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ جزی کے اندر ثواب کا مفہوم مکمل طور پر موجود ہوتا ہے، اور جزی کے بعد اس چیز کو راست ذکر کردیا جاتا ہے جس کا صلہ دینا مقصود ہوتا ہے۔
یہ بات بھی سامنے رہے کہ فعل جزی کے بعد کبھی اس چیز کا ذکر کیا جاتا ہے جس کی جزاء دی جاتی ہے اور اس پر کبھی باء لگتی ہے اور کبھی نہیں لگتی ہے، جیسے ہَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ۔ (یونس: ۵۲) اور ہَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔ (النمل: ۹۰) اور کبھی نفس جزاء یا جزاء میں جو چیز دی جاتی ہے، اس کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن اس پر باء نہیں لگتی ہے۔ اب اگر قرآن مجید میں کہیں أحسن آیا ہے اور کہیں باء کے ساتھ بأحسن آیا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں نفس جزاء مراد نہیں ہے بلکہ وہ چیز مراد ہے جو جزاء کا سبب یا اس کا باعث ہے یعنی عمل۔ گویا درست ترجمہ ’’بہترین عمل کا اجر‘‘ ہوگا نہ کہ ’’عمل کا بہترین اجر‘‘۔
مذکورہ بالا وضاحت کے بعد ذیل میں وہ آیتیں ذکر کی جاتی ہیں جہاں بعض مترجمین نے کمزور مفہوم کو اختیار کیا۔
(۱) لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ أَحْسَنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ۔ (التوبۃ : ۱۲۱)
’’تاکہ اللہ ان کو ان کے عمل کا اچھے سے اچھا بدلہ دے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’تاکہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطا کرے۔‘‘ (سید مودودی)
’’تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین عمل کا بدلہ دے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۲) وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (العنکبوت : ۷)
’’اور ان کو ان کے عمل کا بہترین بدلہ دیں گے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور انہیں ان کے نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے۔‘‘ (محمدجوناگڑھی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘ (فتح محمدجالندھری،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ان کو ان کے بہترین عمل کا بدلہ دیں گے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳) لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا۔ (النور: ۳۸)
’’تاکہ خدا ان کو ان کے عملوں کا بہت اچھا بدلہ دے‘‘ (فتح محمدجالندھری،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے‘‘ (محمدجوناگڑھی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین عمل کا بدلہ دے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۴) وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوا أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (النحل: ۹۶)
’’ہم ان کو جو کچھ وہ کرتے رہے، اس کا بہترین اجر دیں گے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ہم یقیناًصبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کریں گے۔‘‘ (علامہ جوادی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور جن لوگوں نے صبر کیا، ہم اْن کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘ (فتح محمدجالندھری،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور صبر کرنے والوں کو ہم بھلے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔‘‘ (محمدجوناگڑھی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔‘‘ (سید مودودی)
’’ہم ان کے بہترین عمل کا اجر دیں گے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۵) وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (النحل:۹۷)
’’اور (آخرت میں) اْن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔‘‘ (فتح محمدجالندھری،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔‘‘ (علامہ جوادی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔‘‘ (محمدجوناگڑھی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اورہم ان کے بہترین عمل کا اجر دیں گے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۶) وَیَجْزِیَہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (الزمر : ۳۵)
’’اور ان کو ان کے کاموں کا اس سے خوب تر صلہ دے جو انھوں نے کیے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں کاموں کو مفضل علیہ قرار دیا گیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔)
’’اور ان کا اجر ان کے اعمال سے بہتر طور پر عطا کرے۔‘‘ (علامہ جوادی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ان کے اچھے سے اچھے کام کا بدلہ دے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۷) وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَسْوَأَ الَّذِیْ کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (فصلت : ۲۷)
’’اور انہیں ان کے اعمال کی بدترین سزادیں گے۔‘‘ (علامہ جوادی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ہم ان کو ان کے بدترین عمل کا صلہ دیں گے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
’’اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں، ان کا پورا پورا بدلہ انہیں دیں گے۔‘‘ (سید مودودی)
(۸) وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔ (یس : ۵۴)
’’اورتم کو بس وہی بدلے میں ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘ (امین احسن اصلاحی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اورتم کو بس اسی کا بدلہ ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
اسی سیاق میں ایک آیت پر خاص طور سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ ہے:
(۹) لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ أَسَاؤُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی۔ (النجم : ۳۱)
’’کہ وہ بدلہ دے ان لوگوں کو جنھوں نے برے کام کیے ہیں ان کے کیے کا اور بدلہ دے ان لوگوں کوجنھوں نے اچھے کام کیے ہیں اچھا۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور اْن لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے۔‘‘ (سید مودودی)
’’تاکہ برائی کرنے والوں کو ان کے کیے کا بدلہ دے اور نیکی کرنے والوں کو نہایت اچھا صلہ عطا فرمائے۔‘‘ (احمد رضا خان)
آپ دیکھیں گے کہ اس مقام پر عموما مترجمین نے بالحسنی کا ترجمہ اچھی جزا کا کیا ہے۔ عربی تفاسیر میں بھی یہی نہج اختیار کیا گیا ہے، لیکن آیت کا اسلوب اور الحسنی پر باء کا داخل ہونا یہ بتاتا ہے کہ بالحسنی کا مفہوم یہاں بہترین جزا کے بجائے بہترین اعمال ہے، کیونکہ جس طرح آیت کے پہلے حصہ میں بما عملوا کہا گیا ہے، اسی طرح اس دوسرے حصہ میں بالحسنی کہا گیا ہے۔ ترجمہ یہ ہوگا: ’’تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور اْن لوگوں کو جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے، بہترین اعمال کا بدلہ دے۔‘‘ گویا بالحسنی، بماعملوا کے مقابلہ میں آیا ہے۔
اس توجیہ کوزمخشری نے دوسرے نمبر پر ذکر کیا ہے: بِما عَمِلُوا بعقاب ما عملوا من السوء، وبِالحْسنی بالمثوبۃ الحسنی وھی الجنۃ۔ أو بسبب ما عملوا من السوء وبسبب الأعمال الحسنی۔ (تفسیر الکشاف:۴ / ۴۲۵)
سوال یہ ہے کہ اس مفہوم کو چھوڑ کر دوسرا مفہوم لینے کی وجہ کیا بنی؟ دراصل لوگوں کو اشکال یہ پیدا ہوا کہ اگر یہاں صرف بہترین اعمال کے بدلے کی بات ہے تو بہترین سے کم یعنی محض اچھے اعمال کے بدلے کا ذکر رہ جاتا ہے۔ ابوحیان کے الفاظ میں: وھذا التقدیر لا یسوغ، لأنہ یقتضی أن أولئک یجزون ثواب أحسن أعمالہم، وأما ثواب حسنہا فمسکوت عنہ، وہم یجزون ثواب الأحسن والحسن، الّا ان أخرجت أحسن عن بابہا من التفضیل، فیکون بمعنی حسن، فانہ یسوغ ذلک۔ (البحر المحیط: ۸/۳۴۲)
لیکن یہ اشکال صحیح نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آدمی کو اپنے بہترین اعمال کے صلہ کی زیادہ فکر ہوتی ہے، کیونکہ نجات اور کامیابی کا اصل ذریعہ تو وہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اپنے بدترین اعمال سے زیادہ ڈر لگتا ہے، کیونکہ ان کی سزا زیادہ سخت ہوتی ہے اور ناکامی کا اصل سبب وہی بنتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جو اللہ کا فرماں بردار بندہ ہوتا ہے، وہ ہر عمل کو احسن عمل بنانا چاہتا ہے اور ایسے بندوں کو اللہ محسنین کی صفت سے یاد کرتا ہے۔ اور جہاں تک بھرپور بدلے کی بات ہے تو وہ مفہوم لفظ جزی کے اندر از خود شامل ہے، کیونکہ جزی کہتے ہی ہیں بھر پور بدلہ دینے کو۔
مذکورہ آیتوں میں بہترین جزا کے بجائے بہترین عمل مراد ہے، اس کی بھر پور تائیدقرآن مجید کی حسب ذیل آیت سے ہوتی ہے:
أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا۔ (الاحقاف : ۱۶)
’’اس طرح کے لوگوں سے ہم اْن کے بہترین اعمال کو قبول کرتے ہیں۔‘‘ (سید مودودی)
دراصل اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہی بات دوسرے پیرائے میں مذکورہ بالا آیتوں میں کہی گئی ہے۔
(۲۳)کبھی ایک بات کا تعلق دوچیزوں سے ہوتا ہے مگر ایک سے ہی سمجھ لیا جاتا ہے:
مثال: ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَی۔ (طہ :۱۲۰)
اس آیت میں غور طلب امر یہ ہے کہ شجرۃ کا تعلق الخلد اور ملک دونوں سے ہے یا صرف الخلد سے۔
متعددترجمہ کرنے والوں نے یہ مان کے ترجمہ کیا ہے کہ شیطان نے دو چیزوں کا سراغ دینے کی پیشکش کی تھی۔ ایک چیز زندگئ دوام کا درخت اور دوسری چیز بادشاہی کہ جس میں کبھی ضعف نہ آئے۔
(۱) ’’کیا میں تمہیں زندگئ دوام کے درخت اور ایسی بادشاہی کا سراغ دوں جس پر کبھی کہنگی نہ آئے‘‘ ( امین احسن اصلاحی)
(۲) ’’کیا میں تم کو ہمیشگی (کی خاصیت) کا درخت بتلاؤں اور ایسی بادشاہی کہ جس میں کبھی ضعف نہ آئے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
(۳) ’’اے آدم! میں بتاؤں تجھ کو درخت سدا زندہ رہنے کااور باشاہی جو پرانی نہ ہو۔‘‘ (محمود الحسن)
لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جو بات قرآن مجید میں مذکور ہے، وہ یہ کہ اس نے صرف ایک درخت کا سراغ دیا جس کی اس نے دوخاصیتیں بیان کیں، ایک زندگئ دوام اور دوسری بادشاہی جس پر کبھی کہنگی نہ آئے۔ درست ترجمہ یوں ہوگا:
’’کیا میں تمہیں زندگئ دوام اور ایسی بادشاہی جس پر کبھی کہنگی نہ آئے، کے درخت کا سراغ دوں۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
اس مفہوم کے حق میں بہت واضح دلیل یہ آیت ہے:
فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْْطَانُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وُورِیَ عَنْہُمَا مِن سَوْءَ اتِہِمَا وَقَالَ مَا نَہَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ إِلاَّ أَنْ تَکُونَا مَلَکَیْْنِ أَوْ تَکُونَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ۔ (الاعراف: ۲۰)
’’پھر شیطان نے اْن کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے۔ اس نے ان سے کہا: ’’تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے‘‘۔ (سید مودودی)
اس آیت سے یہ واضح ہے کہ شیطان نے صرف درخت کی بات کی تھی جس سے آدم اور حوا کو روکا گیا تھا، اور اسی کی طرف اس نے مختلف خاصیتوں کو منسوب کیا تھا۔
(۲۴) اتخذ کے دو مفعولوں کا ترجمہ:
اتخذ کے جب دو مفعول آتے ہیں تو درحقیقت پہلا مفعول مبتدا اور دوسرا مفعول خبر کی جگہ پر ہوتا ہے۔ جیسے:
وَاتَّخَذَ اللّٰہُ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً۔ (النساء: ۱۲۵)
’’اللہ نے ابراہیم کو دوست بنایا‘‘، نہ کہ ’’دوست کو ابراہیم بنایا‘‘۔
اسی طرح:
اتَّخَذُوا الشَّیَاطِیْنَ أَوْلِیَاءَ۔ (الاعراف: ۳۰)
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا دِیْنَہُمْ لَہْواً وَلَعِباً (الاعراف: ۵۱)
اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّنْ دُونِ اللّٰہِ (التوبۃ: ۳۱)
إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً (الفرقان:۳۰)
غرض قرآن مجید میں اس کی بہت ساری مثالیں ہیں کہ فعل اتخذ کے بعد دومفعول آئے ہیں اور ہر جگہ فاعل نے پہلے مفعول پر دوسرے مفعول کا اثر واقع کیا ہے اور ہر جگہ ترجمہ کرنے والوں نے اسی کے مطابق ترجمہ بھی کیا ہے، البتہ دومقامات پر لگتا ہے کہ یہ پہلو مترجمین اور ان سے پہلے مفسرین کی نگاہ سے اوجھل ہوگیا۔اور وہ مقامات حسب ذیل ہیں:
(۱) أَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ (الفرقان : ۴۳)
(۲) أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ (الجاثیۃ : ۲۳)
ان دونوں آیتوں میں الھہ پہلا مفعول ہے اور ھواہ دوسرا مفعول ہے۔ مذکورہ بالا قاعدے کی رو سے ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’اپنے معبود کو اپنی خواہش بنایا ہے‘‘، اور اس کی تاویل یہ ہوگی کہ اپنے معبود کو اپنی خواہش سے بنایا ہے یا اپنا معبود اپنی خواہش کے مطابق بنایا ہے۔ لیکن لوگوں نے مذکورہ بالا قاعدے کی رعایت نہ کرتے ہوئے اس طرح ترجمہ کیا ہے:
’’بھلا یہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنارکھا ہے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
اور: ’’کیا دیکھا تم نے اس کو جس نے اپنی خواہش کو معبود بنارکھا ہے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
مفہوم کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو مشرکین کا رویہ یہی تھا کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنے معبود بنایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں وہ دلیل وبرہان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ وہ خواہش نفس کی پیروی کرتے تھے جس کے لیے قرآن میں اتباع ہوی کا ذکر ہے، لیکن خواہش نفس کو معبود بنانے کی بات قرآن مجید میں نہیں ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ دونوں مقامات پر دونوں مفعولوں میں مکانی لحاظ سے تقدیم وتاخیر ہوگئی ہے، لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن مجید میں فعل اتخذ دومفعولوں کے ساتھ پچیس سے زیادہ مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ پہلے مفعول کے اوپر دوسرے مفعول کا اثر واقع ہوا ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہاں تقدیم وتاخیر مان کر مفعول اول کو مفعول ثانی مانا جائے۔
(۲۵) فعل تَبَدَّلَ:
فعل تَبَدَّلَ کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو چھوڑ کر یا کسی چیز کے بدلے میں دوسری کوئی چیز لے لینا۔ جو چیز چھوڑی جاتی ہے، اس پر حرف باء داخل ہوتا ہے، اور جس چیز کو لے لیا جاتا ہے، وہ مفعول بہ کی صورت میں آتا ہے۔ اس کی واضح مثال ہے:
وَمَن یَتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْل۔ (البقرۃ: ۱۰۸)
’’اور جو کوئی کفر لیوے بدلے ایمان کے تو وہ بہکا سیدھی راہ سے۔‘‘ (محمود الحسن)
لیکن سورۃ النساء کی آیت ذیل میں متعدد مفسرین اور مترجمین اس فعل کے قواعد کی رعایت نہ کرسکے:
وَآتُوا الْیَتَامَی أَمْوَالَہُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّب (النساء: ۲)
اس آیت کا مفہوم یہ قرار دیا گیا کہ اپنے برے مال کو دے کر یتیموں کے عمدہ مال کو مت لے لو۔
’’نہ(اپنے) برے مال کو (ان کے ) اچھے مال سے بدلو۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو۔‘‘ (فتح محمد جالندھری)
’’اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو۔‘‘ (سید مودودی)
قواعد کے لحاظ سے صحیح ترجمہ یہ ہے:
’’اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو۔‘‘ (محمدجوناگڑھی)
’’اور پاک مال کے بدلے ناپاک مال حاصل نہ کرو۔‘‘ (محمد حسین نجفی)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا مال تمہارے لیے طیب ہے، یتیموں کا مال تمہارے لیے خبیث ہے، تو طیب مال چھوڑ کر خبیث مال مت اختیار کرو۔ بالفاظ دیگر یتیموں کا مال مت کھاؤ۔
(۲۶) ’’ضلال بعید‘‘ کا ترجمہ:
قرآن مجید میں ضلال بعید کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے۔ ضلال کے معنی گمراہی اور بعید کے معنی دور کے ہوتے ہیں، یہ درست ہے۔ بعید، ضلال کی صفت ہے، یہ بھی درست ہے،تاہم واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص راستہ بھٹک جانے کے بعد صحیح راستہ سے جس قدر دور چلاجاتا ہے، اسی قدر زیادہ گمراہ ہوتا جاتا ہے۔ گویا خود گمراہی دور یا قریب کی نہیں ہوتی ہے بلکہ گمراہ ہونے والا قریب یا دور ہوتا ہے۔ اس لیے ضلال بعید کا ترجمہ دور کی گمراہی موزوں نہیں ہے بلکہ گمراہی میں دور جاپڑنا موزوں ہے۔
مثال: فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْدًا۔ (النساء : ۱۳۶)
متعدد مترجمین نے ترجمہ دور کی گمراہی کا کیا ہے:
(۱) ’’تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا۔‘‘ (احمد رضا خان)
(۲) ’’وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘ (محمد جوناگڑھی)
لیکن موزوں ترجمہ گمراہی میں دور جا پڑنا ہے:
(۱) ’’وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔‘‘ (سید مودودی)
(۲) ’’وہ گمراہی میں دور جاپڑا۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
مندرجہ ذیل مقامات پر بھی ترجمہ میں اس کی رعایت کی جائے گی:
قَدْ ضَلُّوا ضَلاَلاً بَعِیْداً۔ (النساء : ۱۶۷)
وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْداً۔ (النساء : ۱۱۶)
وَیُرِیْدُ الشَّیْْطَانُ أَن یُضِلَّہُمْ ضَلاَلاً بَعِیْداً۔ (النساء : ۶۰)
أُوْلَءِکَ فِیْ ضَلاَلٍ بَعِیْدٍ۔ (ابراہیم : ۳)
إِنَّ الَّذِیْنَ یُمَارُونَ فِی السَّاعَۃِ لَفِیْ ضَلَالٍ بَعِیْدٍ۔ (الشوری : ۱۸)
وَلَکِنْ کَانَ فِیْ ضَلَالٍ بَعِیْدٍ (ق : ۲۷)
(۲۷) عَلیٰ أَعْقَابِہِمْ کا ترجمہ الٹے پاؤں یا پیٹھ پیچھے؟
عَقِبٌ کا مطلب پاؤں کی ایڑی ہوتا ہے۔ عام طور سے اہل لغت نے اس لفظ کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ یہ لفظ کہیں مثنی اور کہیں جمع کی صورت میں قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ مترجمین نے بھی عام طور سے اس کا ترجمہ ’’الٹے پاؤں‘‘ کیا ہے، لیکن امین احسن اصلاحی نے اس کا ترجمہ ’’پیٹھ پیچھے‘‘ کیا ہے جس کی عربی لغت سے کوئی تائید نہیں ملتی۔ پھر اس لفظ کا مثنی استعمال ہونا بھی یہی بتاتا ہے کہ یہاں پیٹھ نہیں بلکہ پاؤں کی ایڑیاں مراد ہیں۔ خیال ہوتا ہے کہ شاید موصوف نے اردو محاورہ کا لحاظ کیا ہے، لیکن اردو میں بھی الٹے پاؤں پھر جانا استعمال ہوتا ہے۔ پیٹھ پیچھے پھرجانا خود اردو کے لحاظ سے درست نہیں معلوم ہوتا۔ یہ ترجمہ صاحب تدبر نے کسی ایک مقام پر کرنے کے بجائے کئی جگہ کیا ہے، اس لیے اسے غلطی پر محمول کرنے کے بجائے ان کی سوچی سمجھی رائے قرار دینا مناسب ہوگا، لیکن یہ رائے ہنوز دلیل کی محتاج ہے۔
مثالیں حسب ذیل ہیں:
(۱) اِنْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَن یَّنقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْْءًا (آل عمران: ۱۴۴)
’’تو تم پیٹھ پیچھے پھر جاؤگے؟ جو پیٹھ پیچھے پھرے گا، وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
(۲) یَرُدُّوکُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ (آل عمران : ۱۴۹)
’’تو یہ تمہیں پیٹھ پیچھے لوٹا کے رہیں گے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
(۳) فَکُنتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ تَنکِصُونَ (المؤمنون : ۶۶)
تو تم پیٹھ پیچھے بھاگتے تھے۔ (امین احسن اصلاحی)
(۴) مِمَّن یَّنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْْہِ (البقرۃ : ۱۴۳)
’’ان لوگوں سے جو پیٹھ پیچھے پھر جانے والے ہیں۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
(۵) وَنُرَدُّ عَلَی أَعْقَابِنَا (الانعام : ۷۱)
’’اور ہم پیٹھ پیچھے پھینک دیے جائیں۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
البتہ ایک مقام پر لگتا ہے، موصوف نے نادانستہ طور سے عام ترجمہ کو اختیار کرلیا:
(۶) فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَکَصَ عَلَی عَقِبَیْْہِ (الانفال : ۴۸)
’’تو جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہوئے تو وہ الٹے پاؤں بھاگا ۔‘‘ (مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ ’’الٹے پاؤں بھاگا‘‘ کے بجائے ’’الٹے پاؤں پھر گیا‘‘ ہونا چاہیے۔)
(۲۸) جملے کی موزوں ساخت:
کبھی ترجمہ تو بالکل درست ہوتا ہے، لیکن جملے کی ساخت کمزور ہوتی ہے یا ایک جملے کے مختلف حصوں کی ترتیب میں خلل رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے ذیل کی مثال ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ مَا دُمْتُ حَیّاً (مریم : ۳۱)
اس آیت میں مَا دُمْتُ حَیّاً کا ترجمہ سب نے درست کیا ہے، لیکن اس کو کسی نے جملے کے شروع میں رکھ کر یہ ترجمہ کیا:
’’اور جب تک جیوں، اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی ہدایت فرمائی ہے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور جب تک زندہ ہوں، مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کا ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ (فتح محمد جالندھری)
اور کسی نے جملے کے آخر میں رکھ کر یہ ترجمہ کیا:
’’اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک میں (دنیا میں) زندہ رہوں۔‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں۔‘‘ (احمد رضا خان)
دونوں ترجموں میں ’’جب تک جیوں والا‘‘ ٹکڑا الگ تھلگ ہوگیا ہے، حالانکہ جملے کی مناسب ساخت اور ترتیب یوں ہے:
’’اور مجھ کو حکم دیا کہ جب تک جیوں، نماز اور زکوٰۃ پر قائم رہوں۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۲۹) إِنَّ اور أَنَّ میں فرق کی رعایت:
ہمزہ پر فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ إِنَّ اور أَنَّ کا استعمال ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں جملہ میں تاکید کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے، البتہ کسرہ کی صورت میں وہ جملہ جو إِنَّ سے شروع ہوتا ہے، لفظی طور سے ایک مستقل جملہ ہوتا ہے۔ گوکہ سابق سے معنوی ربط پایا جاسکتاہے اور اس ربط کا علم سیاق کلام سے حاصل ہوسکتا ہے، لیکن اس کا اظہار لفظ سے نہیں ہوتا۔ جبکہ فتحہ کی صورت میں جو جملہ أَنَّ سے شروع ہوتا ہے، وہ لفظی طور سے پچھلے جملے کا جزء بنتا ہے۔ اس کا سابقہ کلام سے گہرا معنوی ربط ہوتا ہے اور اس کا اظہار خود اس لفظ سے ہوتا ہے۔ استعمالات کی روشنی میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کسرہ کی صورت میں تاکید کا مفہوم لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے، ترجمہ میں اس کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، جبکہ فتحہ کی صورت میں تاکیدکے مفہوم کے مقابلے میں سابق سے ربط کا مفہوم غالب ہوتاہے۔
مختلف تراجم قرآن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مترجمین قرآن اکثر مقامات پر أَنَّ کی اس خاص معنویت کا خیال کرتے ہیں، لیکن بسا اوقات وہ ترجمہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ إنّ والا معاملہ کردیتے ہیں جس سے پورے کلام کی معنویت متأثر ہوجاتی ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں:
(۱) ذَلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدَاکَ وَأَنَّ اللّٰہَ لَیْْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (الحج : ۱۰)
’’یہ تیرے ان اعمال کے باعث ہے جو تیرے ہاتھ آگے بھیج چکے تھے اور بے شک اللہ اپنے بندوں پر بالکل ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (طاہر القادری)
صاف واضح ہے کہ یہاں أَنَّ کے بجائے إِنّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
’’یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے، ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (سیدمودودی)
اس ترجمہ میں ’’ورنہ‘‘ کا استعمال عجیب وغریب ہے۔
’’یہ اس کی وجہ سے جو بھیج چکے تیرے دو ہاتھ اور اس وجہ سے کہ اللہ نہیں ظلم کرتا بندوں پر‘‘۔ (محمود الحسن)
اس ترجمہ میں أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
(۲) ذَلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّیْ لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْْبِ وَأَنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ کَیْْدَ الْخَائِنِیْنَ (یوسف:۵۲)
’’یہ اس واسطے کہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی اور یہ بھی کہ اللہ دغابازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
اس ترجمہ میں أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
’’یہ اس لیے کہ وہ جان لے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس سے بے وفائی نہیں کی اور بے شک اللہ خائنوں کی چال کو چلنے نہیں دیتا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
یہاں پہلے أَنَّ کا ترجمہ درست ہے لیکن دوسرے لفظ میں أَنَّ کے بجائے إِنّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
(۳) ذَلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَأَنَّہُ یُحْیِی الْمَوْتَی وَأَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ وَأَنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ لَّا رَیْْبَ فِیْہَا وَأَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُور (الحج : ۶،۷)
’’یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور یہ کہ وہ مردے جِلائے گا اور یہ کہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور اس لیے کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کچھ شک نہیں، اور یہ کہ اللہ اٹھائے گا انہیں جو قبروں میں ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
اس ترجمہ میں أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
’’ان قدرتوں سے ظاہر ہے کہ خدا ہی (قادر مطلق ہے جو) برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے اور یہ کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کچھ شک نہیں، اور یہ کہ خدا سب لوگوں کو جو قبروں میں ہیں، جلا اٹھائے گا ‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
اس ترجمہ میں بھی أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
’’یہ (سب کچھ) اس لیے (ہوتا رہتا) ہے کہ اللہ ہی سچا (خالق اور رب) ہے اور بیشک وہی مردوں (بے جان) کو زندہ (جان دار) کرتا ہے، اور یقیناًوہی ہر چیز پر بڑا قادر ہے، اور بیشک قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، اور یقیناًاللہ ان لوگوں کو زندہ کر کے اٹھا دے گا جو قبروں میں ہوں گے‘‘(طاہر القادری)
یہاں أَنَّ کے بجائے إِنَّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
(۴) وَکَذَلِکَ أَنزَلْنَاہُ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَّأَنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَن یُرِیْدُ (الحج : ۱۶)
’’اور ہم نے اسی طرح اس قرآن کو نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں اتارا ہے (کہ لوگ ہدایت حاصل کریں) اور بے شک اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
یہاں أَنَّ کے بجائے إِنَّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
’’اور اسی طرح ہم نے اس (پورے قرآن) کو روشن دلائل کی صورت میں نازل فرمایا ہے اور بیشک اللہ جسے ارادہ فرماتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے‘‘(طاہر القادری)
یہاں بھی أَنَّ کے بجائے إِنَّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
’’اور یوں اتارا ہم نے یہ قرآن کھلی باتیں اور یہ ہے کہ اللہ سجھادیتا ہے جس کو چاہے‘‘۔ (محمود الحسن)
اس ترجمہ میں أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
’’اور ہم نے اس قرآن کو اسی طرح اتارا ہے کھلی کھلی دلیلیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔‘‘ (اشرف علی تھانوی)
اس ترجمہ میں بھی أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
(۵) وَکَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّہُمْ أَصْحَابُ النَّار (غافر:۶)
’’اور اسی طرح آپ کے رب کا فرمان اُن لوگوں پر پورا ہو کر رہا جنہوں نے کفر کیا تھا۔ بے شک وہ لوگ دوزخ والے ہیں‘‘ (طاہر القادری)
’’اور یونہی تمہارے رب کی بات کافروں پر ثابت ہوچکی ہے کہ وہ دوزخی ہیں‘‘(احمد رضا خان)
غور طلب بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس آیت میں أَنَّ کا ترجمہ بے شک کا کیا ہے، بالکل اسی اسلوب کی ایک اورآیت میں ایسا نہیں کرتے ہیں اور أَنَّ کی معنویت کا پورا پورا لحاظ کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:
کَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ فَسَقُوا أَنَّہُمْ لاَ یُؤْمِنُون (یونس : ۳۳)
’’اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے رب کی بات صادق آ گئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے‘‘ (سید مودودی)
’’اسی طرح آپ کے رب کا حکم نافرمانوں پر ثابت ہوکر رہا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘(طاہر القادری)
’’اسی طرح تیرے رب کی بات ان لوگوں پر پوری ہوچکی ہے جنھوں نے نافرمانی کی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘(امین احسن اصلاحی)
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ أَنَّ کے ساتھ بعض مترجمین کامذکورہ رویہ ایک سوچا سمجھا موقف نہیں ہے بلکہ ذہن کے چوک جانے کا نتیجہ ہے۔
تدبر قرآن کے ترجمہ میں جو تفسیر کے ساتھ شائع ہوا ہے، اس طرح کی غلطی زیادہ ملتی ہے، البتہ جو ترجمہ تلخیص کے ساتھ شائع ہوا ہے اور جس میں نظر ثانی بھی کی گئی ہے، وہاں أَنَّ کے قبیل کی کچھ غلطیاں دور کردی گئی ہیں، گو کہ ابھی بھی بہت سارے مقامات تصحیح طلب ہیں۔ تصحیح کی ایک مثال یہاں ذکر کی جاتی ہے:
أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوسَی، وَإِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفَّی، أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی، وَأَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی، وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَی، وَأَنَّ إِلَی رَبِّکَ الْمُنتَہَی، وَأَنَّہُ ہُوَ أَضْحَکَ وَأَبْکَی، وَأَنَّہُ ہُوَ أَمَاتَ وَأَحْیَا، وَأَنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی، مِنْ نُّطْفَۃٍ إِذَا تُمْنَی، وَأَنَّ عَلَیْْہِ النَّشْأَۃَ الْأُخْرَی، وَأَنَّہُ ہُوَ أَغْنَی وَأَقْنَی، وَأَنَّہُ ہُوَ رَبُّ الشِّعْرَی، وَأَنَّہُ أَہْلَکَ عَاداًنِ الْأُولَی (سورۃ النجم: ۳۶۔۵۰)
تفسیر تدبر قرآن میں موجود یعنی نظر ثانی سے قبل کاترجمہ یہ ہے:
’’کیا اس کو خبر نہیں ملی اس بات کی جو موسیٰ اور ابراہیم ، جس نے اپنے قول پورے کردکھائے، کے صحیفوں میں ہے؟ کہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمائی کی ہوگی، اور یہ کہ اس کی کمائی عنقریب ملاحظہ کی جائے گی، پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور یہ کہ سب کا منتہی تیرے رب ہی کی طرف ہے، اور بے شک وہی ہے جو ہنساتا اور رلاتا ہے، اور وہی ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے اور وہی ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد نر اور ناری پیدا کیے، ایک بوند سے جبکہ وہ ٹپکادی جاتی ہے، اور بے شک دوبارہ اٹھانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے، اور اسی نے غنی اور سرمایہ دار کیا، اور وہی شعریٰ کا بھی رب ہے اور اسی نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘۔
تلخیص میں موجود ترجمہ یعنی نظر ثانی کے بعد کاترجمہ یہ ہے :
’’کیا اس کو خبر نہیں ملی اس بات کی جو موسیٰ اور ابراہیم ، جس نے اپنے قول پورے کردکھائے، کے صحیفوں میں ہے؟ کہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمائی کی ہوگی، اور یہ کہ اس کی کمائی عنقریب ملاحظہ کی جائے گی، پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور یہ کہ سب کا منتہی تیرے رب ہی کی طرف ہے، اور یہ کہ وہی ہے جو ہنساتا اور رلاتا ہے، اور یہ کہ وہی ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہی ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد نر اور ناری پیدا کیے، ایک بوند سے جبکہ وہ ٹپکادی جاتی ہے، اور یہ کہ دوبارہ اٹھانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے، اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی اور سرمایہ دار کیا، اور یہ کہ وہی شعریٰ کا بھی رب ہے اور اسی نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘۔
غور طلب بات یہ ہے کہ نظر ثانی کے بعد بھی آخری آیت کے ترجمہ میں تصحیح نہیں ہوسکی یعنی ’’اور اسی نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘ کے بجائے ’’اور یہ کہ اسی نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘ ہونا چاہیے۔
مذکورہ آیتوں کے ترجمہ میں ایک اور کمزوری یہ بھی ہے کہ عربی کے لحاظ سے ان آیتوں میں کہیں پر حصر کا اسلوب ہے اور کہیں پر حصر کا اسلوب نہیں ہے۔ ہوا یہ کہ جہاں پر حصر کا اسلوب نہیں ہے ،وہاں پربھی حصر کا ترجمہ کردیا گیاہے ، جیسے وہ کی جگہ پر وہی اور اس کی جگہ پر اسی۔
ان آیتوں کا ترجمہ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی تصحیح کے بعد اس طرح ہے۔ دونوں ترجموں کا گہرا موازنہ قرآن مجید کے طالب علم کے لیے مفید ہوگا:
’’کیا اس کو خبر نہیں ملی اس بات کی جو موسیٰ اور ابراہیم ، جس نے اپنے قول پورے کردکھائے، کے صحیفوں میں ہے؟ کہ کوئی ہستی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کارکردگی کی ہوگی، اور یہ کہ اس کی کارکردگی کی نوعیت عنقریب سامنے آجائے گی، پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور یہ کہ سب کا منتہی تیرے رب ہی کی طرف ہے، اور یہ کہ وہ ہے جو ہنساتا اور رلاتا ہے، اور یہ کہ وہ ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد نر اور مادہ پیدا کیے، ایک بوند سے جبکہ وہ ٹپکادی جاتی ہے، اور یہ کہ دوبارہ اٹھانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے، اور یہ کہ وہ ہے جس نے غنی اور سرمایہ دار کیا، اور یہ کہ وہی شعریٰ کا بھی رب ہے، اوریہ کہ اس نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘ ۔
(۳۰) لفظ ’’تغابن‘‘ کی حقیقت:
لفظ تغابن قرآن مجید میں صرف ایک مقام پر آیا ہے:
یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ (التغابن : ۹)
اس آیت میں تغابن کا ترجمہ بیشتر مترجمین نے ہار جیت کا کیا ہے۔آیت کے مذکورہ ٹکڑے کے کچھ ترجمے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
’’اس دن (کو یاد رکھو جب ) اللہ اکٹھے کیے جانے کے دن کے لیے تم کو اکٹھا کرے گا۔ وہی دن در حقیقت ہار جیت کا دن ہوگا‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
’’جس دن تم سب کو اس جمع ہونے کے دن جمع کرے گا، وہی دن ہے ہار جیت کا‘‘(محمد جونا گڑھی)
’’وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا‘‘ (سید مودودی)
’’جس دن وہ تم کو اکھٹا ہونے (یعنی قیامت) کے دن اکھٹا کرے گا، وہ نقصان اٹھانے کا دن ہے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
’’جس دن تم کو اکٹھا کرے گا جمع ہونے کے دن، وہ دن ہے ہار جیت کا‘‘(محمود الحسن)
’’جس دن وہ تمہیں جمع ہونے کے دن (میدانِ حشر میں) اکٹھا کرے گا، یہ ہار اور نقصان ظاہر ہونے کا دن ہے‘‘(طاہر القادری)
’’(اور اس دن کو یاد کرو) جس دن تم سب کو ایک جمع ہونے کے دن جمع کرے گا، یہی دن ہے سود و زیاں کا‘‘(اشرف علی تھانوی)
التغابن کا ترجمہ بعض لوگوں نے ہار جیت کیا ہے۔ لفظ کی حقیقت کے لحاظ سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ تغابن کا صحیح ترجمہ ’’سود وزیاں‘‘ یا ’’نفع ونقصان‘‘ ہے۔ تغابن، غبن سے نکلا ہے، اور یہ خرید وفروخت میں نقصان اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، ہار جیت کا مفہوم اس لفظ میں نہیں پایا جاتا ہے۔
اہل لغت میں اس پر اختلاف ہے کہ تغابن میں اشتراک کا مفہوم ہے یا مبالغہ کا۔ پہلی صورت میں مطلب یہ نکلے گا کہ کسی کو فائدہ اور کسی کو نقصان پہنچنے والادن اور دوسری صورت میں مطلب ہوگا: بہت بڑے نقصان کا دن۔
آیت کے مذکورہ ترجموں پر غور کریں تو کچھ اور بھی کمزور پہلو سامنے آتے ہیں:
اول: بعض مترجمین نے یَوْمَ سے پہلے ایک فعل محذوف مقدر مانا ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ’’اس دن (کو یاد رکھو جب )‘‘ کہنے کے بجائے ’’جب ‘‘اور ’’جس دن‘‘ کہہ دینا کافی ہے۔ دراصل اس جملے میں یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْع مبتدا اول ہے، ذَلِکَ مبتدا ثانی ہے اور یَوْمُ التَّغَابُن اس کی خبر ہے اور یہ عربی کا بہت عام اسلوب ہے۔
دوم: لِیَوْمِ الْجَمْع کے لام کو بعض نے علت کا سمجھ کر ترجمہ اس طرح کیا ہے : ’’اکٹھے کیے جانے کے دن کے لیے تم کو اکٹھا کرے گا‘‘حالانکہ یہ لام ظرف کے لیے ہے اور ترجمہ یوں ہوگا: ’’اکٹھے کیے جانے کے دن تم کو اکٹھا کرے گا‘‘۔
سوم: یَوْمِ الْجَمْع کا ترجمہ بعض لوگوں نے ’’جمع ہونے کا دن‘‘ اور ’’اکٹھا ہونے کا دن‘‘ کیا ہے،جبکہ جَمْع فعل متعدی کا مصدر ہے، اور زیادہ مناسب ترجمہ ’’جمع کرنے کا دن‘‘ اور ’’اکٹھے کیے جانے‘‘ کا دن ہوگا۔
چہارم: ذَلِکَ کا ترجمہ کرتے ہوئے بعض مترجمین نے حصر کا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ’’یہی دن‘‘ اور ’’وہی دن‘‘ جیسی تعبیرات کا استعمال کیا ہے، حالانکہ اسلوب کلام حصر کے مفہوم سے خالی ہے، اور ’’وہ دن‘‘کہہ دینا کافی ہے۔ صحیح ترجمہ یوں ہے:
’’جب اللہ اکٹھے کیے جانے کے دن تم کو اکٹھا کرے گا، وہ ہوگا نفع ونقصان ظاہر ہونے کا دن‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳۱) ’’نشأ‘‘ کا مفہوم:
انشاء اور اس کے مشتقات کا قرآن مجید میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ لفظ انشاء کا مفہوم صرف پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ اصل میں نشوونما دینا اور پروان چڑھانا ہے۔ ساتھ میں پیدا کرنے کا مفہوم بھی شامل ہوجاتا ہے۔علامہ ابن فارس کے الفاظ میں:
(نشأ) النون والشین والہمزۃ أصل صحیح یدلّ علی ارتفاعٍ فی شئ وسموّ. ونَشأ السَّحابُ: ارتفع. وأنشأہ اللہ: رفعہ (معجم مقاییس اللغۃ لابن فارس)
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
النشأ والنشأۃ: احداث الشئ وترتیبہ (مفردات القرآن)
ایک حدیث میں عرش کے سائے میں جگہ پانے والوں میں ایک نوجوان ہے جس کی نشوونما رب کی عبادت میں ہوئی ہو، اس کا تذکرہ ان لفظوں میں کیا گیا۔
وَشَابّ نَشأ فی عبادۃ ربہ (البخاری)
ذیل کی آیت جس میں خواتین کا ذکر ہے، زیربحث لفظ کی حقیقت بخوبی واضح کرتی ہے:
أَوَمَن یُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْْرُ مُبِیْنٍ (الزخرف : ۱۸)
اس آیت میں عام طور سے مترجمین نے یُنَشَّأُ کا ترجمہ پلنے اور پروان چڑھنے کا کیاہے۔
’’اور کیا وہ جو گہنے (زیور) میں پروان چڑھے اور بحث میں صاف بات نہ کرے‘‘(احمد رضاخان)
لیکن دوسرے بعض مقامات پر مختلف تراجم میں اس کا خیال نہیں کیا جاسکا اور اس لفظ کے مفہوم کو صرف پیدائش تک محدود کردیا گیا۔ چند مثالوں سے بات مزید واضح ہوسکے گی:
(۱) قُلْ ہُوَ الَّذِیْ أَنْشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ (الملک :۲۳)
اس مقام پر عام طور سے مترجمین نے أَنْشَأَکُمْ کا ترجمہ پیدا کرنا کیا ہے۔
’’کہہ دیجیے کہ وہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے۔ تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو‘‘ (محمد جوناگڑھی)
جبکہ شیخ الہند کا ترجمہ اس لفظ کی معنویت کوبھر پور طریقہ سے ظاہر کرتا ہے:
’’تو کہہ وہی ہے جس نے تم کو بنا کھڑا کیا، اور بنادیے تمہارے واسطے کان اور آنکھیں اور دل۔ تم بہت تھوڑا حق مانتے ہو‘‘۔ (محمود الحسن)
(۲) وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَۃِ إِنْ یَّشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِکُم مَّا یَشَاءُ کَمَا أَنشَأَکُمْ مِّن ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ آخَرِیْن (الانعام:۱۳۳)
شیخ الہند نے اس دوسرے مقام پردیگر مترجمین کی طرح ’’پیدا کیا‘‘ ترجمہ کیا ہے:
’’اور تیرا رب بے پرواہ ہے، رحمت والا اگر چاہے تو تم کو لے جاوے اور تمہارے پیچھے قائم کردے جس کو چاہے جیسا کہ تم کو پیدا کیا اوروں کی اولاد سے‘‘ (محمود الحسن)
ایک اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ الْغَنِیُّ کا ترجمہ بے پروا کے بجائے بے نیاز کرنا صحیح ہے۔
’’اور تیرا رب بے نیاز، رحمت والا ہے۔ اگر وہ چاہے تم کو فنا کردے اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے لائے، جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس مقام پر سید مودودی نے پیدا کرنے کے بجائے ’’اٹھانا‘‘ کیا ہے جو لفظ کی حقیقت سے زیادہ قریب ہے:
’’تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے۔ اگر و ہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے جس طرح اُس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے‘‘(سید مودودی)
یہاں پر ایک اشکال یہ وارد ہوتا ہے کہ بجائے یہ کہنے کے کہ تم کو دوسرے لوگوں سے پیدا کیا، یہ کیوں کہا کہ دوسروں کی اولا د سے پیدا کیا؟ مولانا امانت اللہ اصلاحی نے جو مفہوم اختیار کیا ہے، اس سے یہ اشکال دور ہوجاتا ہے۔ ان کے مطابق یہاں مِنْ تجرید کا ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ ’’جس طرح سے تمہاری نشوونما کی ہے دوسروں کی اولاد کی صورت میں‘‘یا دوسروں کی اولاد بناکر۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح پہلے اس عالم گیتی میں دوسرے تھے جن کی تم اولاد ہو، وہ نہیں رہے اور ان کی جگہ تم ہو۔ اسی طرح اللہ جب چاہے تم کو نابود کرکے دوسروں کو تمہاری جگہ لا سکتا ہے۔
(۳) أَفَرَأَیْْتُمْ مَّا تُمْنُونَ، أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَہُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ، نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِیْنَ، عَلَی أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنشِئَکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُونَ، وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَۃَ الْأُولَی فَلَوْلَا تَذکَّرُونَ (الواقعہ: ۵۸۔۶۲)
’’ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے اور ہم اِس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمہیں پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے۔اپنی پہلی پیدائش کو تو تم جانتے ہو، پھر کیوں سبق نہیں لیتے؟ ‘‘(سید مودودی)
’’ہم ٹھہراچکے ہیں تم میں مرنا، اور ہم عاجز نہیں اس بات سے کہ بدلے میں لے آئیں تمہاری طرح کے لوگ اور اٹھا کھڑا کریں تم کو وہاں جہاں تم نہیں جانتے۔ اور تم جان چکے ہو پہلا اٹھان، پھر یاد کیوں نہیں کرتے‘‘ (محمود الحسن)
پہلے ترجمہ میں کمزوری یہ ہے کہ پیدائش کا ترجمہ کیا گیا ہے، جبکہ مراد نشوونما ہے۔ مزید یہ کہ قَدَّرْنَا کا ترجمہ تقسیم کرنا کیا گیاہے، حالانکہ صحیح ترجمہ مقدر کرنا ہے۔ دوسرے ترجمہ میں کمزوری یہ ہے کہ نُبَدِّلَ أَمْثَالَکُم کا مطلب انسانوں کی جگہ دوسروں کو لانا لیا گیا ہے، جبکہ اس سے مراد انسانوں کی موجودہ شکل وہیئت بدل کر دوسری شکل وہیئت کے ساتھ انہیں نشوونما دینا ہے۔ درست ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کی ہے اور ہم عاجز رہنے والے نہیں ہیں اس بات سے کہ تمہاری شکل وصورت بدل دیں، اور تم کو نشوونما دیں ایسی صورت میں جسے تم نہیں جانتے۔ اور پہلی نشوونما تو تم جانتے ہی ہو تو سبق کیوں نہیں حاصل کرتے‘‘(امانت اللہ اصلاحی)
(۴) إِنَّا أَنشَأْنَاہُنَّ إِنشَاءً ا فَجَعَلْنَاہُنَّ أَبْکَارًا (الواقعہ: ۳۵، ۳۶)
یہاں بھی بعض مترجمین نے پیدا کرنے کے مفہوم کو اختیار کیا ہے، جیسے:
’’ہم نے ان (حوروں) کو پیدا کیا‘‘ (فتح محمد جالندھری، اس ترجمہ میں مفعول مطلق کا مفہوم بھی نہیں ادا ہوسکا)۔
’’ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے‘‘ (سید مودودی)
اس ترجمہ میں فعل ماضی سے مستقبل کا مفہوم ادا کرنے کی کوشش غیر ضروری ہے۔
جبکہ بعض دوسرے مترجمین نے لفظ کا حق ادا کیا ہے جیسے:
’’بیشک ہم نے ان عورتوں کو اچھی اٹھان اٹھایا‘‘(احمد رضا خان)
’’ہم نے اٹھایا ان عورتوں کو اچھی اٹھان پر‘‘ (محمود الحسن)
’’(اور ان کی بیویاں ہوں گی) جن کو ہم نے ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہوگا، پس ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمہ میں ماضی کے دونوں افعال کو غیرضروری طور سے مستقبل کا معنی پہنانے کی کوشش کی گئی ہے جو درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا:
’’ان کو ہم نے ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہے، پس ہم نے انہیں بنادیاہے کنواریاں‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳۲) زمین سے پیدائش یا زمین سے نشوونما؟
قرآن مجید میں بعض مقامات پر انسانوں کے سیاق میں إِنشَاء اور انبات کے عمل کو زمین سے جوڑا گیا ہے۔ اس کی تفسیر میں بعض لوگوں کا ذہن اس طرف گیا کہ انسان کے تکوینی عناصر وہی ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کی تفسیر قرآن مجید کے اس بیان کو سامنے رکھ کر کی جس میں انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ طین سے پیدا کرنا اور ارض سے پیدا کرنا ایک ہی مفہوم کو ادا کرتا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں پیدائش نہیں بلکہ نشوونما کی طرف اشارہ ہے اور بتانا مقصود یہ ہے کہ انسان کو نشوونما کے لیے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، ان کا انتظام اللہ نے زمین میں فرمادیا ہے۔ مذکورہ آیتوں میں یہ اسلوب بیان ہوا ہے:
(۱) وَإِلَی ثَمُودَ أَخَاہُمْ صَالِحاً، قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَہٍ غَیْْرُہُ، ہُوَ أَنشَأَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْہَا (ہود:۶۱)
عام طور سے مترجمین نے اس آیت میں پیدا کرنے کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:
’’اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ اُس نے کہا، اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے‘‘ (سید مودودی)
جبکہ یہاں ترجمہ ہونا چاہیے:
’’اسی نے تم کو زمین سے نشوونما دی‘‘(امانت اللہ اصلاحی)
(۲) ہُوَ أَعْلَمُ بِکُمْ إِذْ أَنشَأَکُمْ مِّنَ الْأَرْض (النجم:۳۲)
’’وہ تمہیں خوب جانتا ہے تمہیں مٹی سے پیدا کیا‘‘(احمد رضا خان)
’’وہ تمھیں اْس وقت سے خوب جانتا ہے جب اْس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا ‘‘(سید مودودی)
’’وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہاری زندگی کی ابتداء اور نشو و نما زمین (یعنی مٹی) سے کی تھی‘‘(طاہر القادری)
’’وہ تم کو خوب جانتا ہے جب بنا نکالا تم کو زمین سے‘‘ (محمود الحسن)
یہاں بھی لفظ کی رعایت سے درست ترجمہ اس طرح ہوگا:
’’وہ تم کو خوب جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں نشوونما دی زمین سے‘‘(امانت اللہ اصلاحی)
(۳) وَاللّٰہُ أَنبَتَکُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتاً (نوح:۱۷)
اس آیت میں بعض لوگوں نے زمین سے اگانے کا تو بعض لوگوں نے زمین سے پیدا کرنے کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:
’’اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا‘‘(سید مودودی)
’’اور اللہ نے تمہیں سبزے کی طرح زمین سے اْگایا‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور خدا ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے ‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’اور تم کو زمین سے ایک (خاص اہتمام سے) اگایا ہے (اور پیدا کیا ہے) ‘‘(محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’اور اللہ نے خاص انداز سے زمین سے تمہاری نشوونما فرمائی ‘‘
دراصل جس طرح إِنشَاء کا اصل مفہوم نشوونما دینا ہے، اسی طرح انبات کا بھی اصل مفہوم نشو ونما دینا ہی ہے۔ إِنشَاء اور انبات میں ہم معنی ہونے کے ساتھ خاص فرق یہ ہے کہ إِنشَاء جانداروں کے لیے خاص ہے اور بطور استعارہ نباتات کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ انبات نباتات کے لیے خاص ہے اور بطور استعارہ غیر نباتات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ إِنشَاء کے بارے میں علامہ راغب لکھتے ہیں:
وأکثر ما یقال ذلک فی الحیوان۔ وقولہ تعالی: أَفَرَأَیْْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُورُونَ، أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَہَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِؤُونَ (الواقعۃ: ۷۱۔۷۲) فلتشبیہ ایجاد النار المستخرجۃ بایجاد الانسان (مفردات القرآن)
انبات کے بارے میں علامہ ابن فارس لکھتے ہیں:
النون والباء والتاء أصل واحد یدلّ علی نماءٍ فی مزروع، ثم یستعار. (معجم مقاییس اللغۃ)۔
انبات کا اصل مفہوم نشو ونما دینا ہے ، یہ ذیل کی آیت سے بہت اچھی طرح واضح ہوتا ہے:
فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَہَا نَبَاتاً حَسَنًا (آل عمران:۳۷)
یقینی طور پر اس آیت میں پیدا کرنے یا اگانے کا ترجمہ درست نہیں ہوگا۔
’’پس اسے اس کے پروردگار نے اچھی طرح قبول فرمایا اور اسے بہترین پرورش دی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’تو اسے اس کے رب نے اچھی طرح قبول کیا اور اسے اچھا پروان چڑھایا‘‘ (احمد رضا خان)
’’تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا‘‘(فتح محمد جالندھری)
بالکل اسی طرح سورہ نوح کی مذکورہ بالا آیت میں بھی پرورش کرنا مراد ہے، البتہ وہاں مِّنَ الْأَرْضِ کا اضافہ اس حقیقت کا بیان ہے کہ نشوونما کا انتظام جس طرح نباتات کے لیے زمین سے ہوتا ہے، اسی طرح انسانوں کی نشوونما کا انتظام بھی اللہ نے زمین میں کردیا ہے۔
(۳۳) فرض علیہ اور فرض لہ کے درمیان فرق:
فرض کے ساتھ جب علی آتا ہے تو اس کے معنی کسی پر کچھ فرض کرنے اور لازم کرنے کے ہوتے ہیں:
قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ (الأحزاب : ۵۰)
’’ہم کو اچھی طرح معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے باب میں فرض کیا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں‘‘ (سید مودودی)
صحیح بخاری کی حسب ذیل حدیث میں فرض علی دوبار آیا ہے اور دونوں جگہ اس کا مفہوم واجب کرنا ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ عنھما أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما بعث معاذا، رضي اللہ عنہ، علی الیمن، قال: انک تقدم علی قوم أھل الکتاب فلیکن اول ما تدعوھم الیہ عبادۃ اللہ، فاذا عرفوا اللہ فاخبرھم أن اللہ قد فرض علیھم خمس صلوات فی یومھم ولیلتھم، فاذا فعلوا فأخبرھم أن اللہ فرض علیھم زکاۃ (تؤخذ) من أموالھم وترد علی فقراءھم، فاذا أطاعوا بھا فخذ منھم وتوق کرائم أموال الناس۔
البتہ فرض کے ساتھ جب لام آتا ہے تو مفہوم کسی کے اوپر کچھ لازم کرنے اور عائد کرنے کا نہیں ہوتا، بلکہ کسی کے لیے کچھ مقرر کرنے کا ہوتا ہے۔ ذیل کی دومثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے:
(الف) لَاجُنَاحَ عَلَیْْکُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوہُنُّ أَوْ تَفْرِضُوا لَہُنَّ فَرِیْضَۃً (البقرۃ : ۲۳۶)
’’اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں‘‘ (جالندھری)
(ب) وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُم (البقرۃ : ۲۳۷)
’’اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا‘‘ (جالندھری)
دونوں مقامات پر عام طور سے مترجمین نے مہر مقرر کرنے کا مفہوم ذکر کیا ہے۔ تاہم فرض علی کے مقابلے میں فرض لہ کا یہ اہم فرق بعض ترجموں میں ملحوظ نہیں رکھا جاسکا۔ ذیل کی مثالوں میں یہ بات دیکھی جاسکتی ہے:
(۱) مَّا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہ (الاحزاب : ۳۸)
’’اور نبی کے لیے اللہ نے جوکچھ فرض کیا، اس میں کوئی تنگی نہیں ہے‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کام (کی انجام دہی) میں کوئی حرج نہیں ہے جو اللہ نے ان کے لیے فرض فرما دیا ہے‘‘(طاہر القادری)
’’نبی کے لیے خدا کے فرائض میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘(جوادی)
غور طلب امر یہ ہے کہ یہاں بات کسی ایسے فرض کی نہیں ہورہی ہے جو نبی پر عائد کیا گیا ہو، بلکہ اللہ نے نبی کے لیے ایک بات مقرر کی ہے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ اسے انجام دینے میں نبی کے لیے کوئی حرج نہیں ہے۔درست ترجمہ یہ ہے:
’’نبی پر کوئی حرج نہیں اس بات میں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمائی‘‘ (احمد رضا خان)
(۲) قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ أَیْْمَانِکُمْ (التحریم :۲)
’’اللہ نے تمہاری (خلاف شرع) قسموں کا توڑ دینا تم پر فرض کردیا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’خدا نے فرض قرار دیا ہے کہ اپنی قسم کو کفارہ دے کر ختم کردیجیے‘‘(جوادی)
یہاں بھی یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ قسموں کو توڑنا فرض ہے، بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ نے قسموں سے آزاد ہونے کا طریقہ بتادیا ہے، اس لیے آزادی کے ساتھ خدا کی شریعت پر عمل پیرا ہونے کے بجائے خود اپنی قسموں کی پابندی میں گرفتار رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ درست ترجمہ یہ ہے:
’’اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے‘‘ (سید مودودی)
إِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ (القصص :۸۵)
اس آیت میں فَرَضَ کے ساتھ علی آیا ہے، اس لیے اردو مترجمین میں سے بڑی تعداد نے ترجمہ ’’فرض کرنا‘‘ کیا ہے، جیسے:
’’اے نبی، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے، وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے ‘‘(سید مودودی)
علامہ راغب اصفہانی نے یہی مفہوم اختیار کیا ہے:
وقال: إِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْْکَ الْقُرْآنَ (القصص: ۸۵)، أی: أوجب علیک العمل بہ۔ (مفردات القرآن)
البتہ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ نازل کرنا کیا ہے، جیسے:’’جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والاہے ‘‘(محمد جوناگڑھی)
اس آیت میں فرض کامطلب نازل کرنا عرب مفسرین کے یہاں بھی ملتا ہے۔ امام قرطبی لکھتے ہیں: و’’فَرَضَ‘‘ معناہ أنزل۔ (تفسیر القرطبی: ۱۳؍۳۲۱)۔ لگتا ہے ان لوگوں کو یہ اشکال ہوا کہ قرآن پر فرض کیے جانے کا اطلاق کیسے کیا جائے، فرض کیے جانے کی چیز تو احکام ہوتے ہیں۔ تاہم علامہ طاہر بن عاشور کا خیال ہے کہ یہاں بھی فَرَضَ مقرر کرنے کے معنی میں ہے، اور علیٰ وجوب کا مفہوم ادا کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ یہاں فعل انزل کی تضمین ہے جس کا صلہ علیٰ ہے جسے ذکر کردیا گیا ہے۔ گویا مطلب ہوگا اللہ نے تمہارے لیے قرآن کو منتخب کرکے تم پر نازل کیا۔علامہ لکھتے ہیں:
ومعنی (فَرَضَ عَلَیْْکَ الْقُرْآن) اختارہ لک من قولھم: فرض لہ کذا اذا عین لہ فرضا أی نصیبا۔ ولما ضمن (فرض) معنی (أنزل) لأن فرض القرآن ھو انزالہ عدی فرض بحرف (علی)۔ (التحریروالتنویر: ۲۰؍۱۲۰)
(جاری)