اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۴)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(366)  لِیُنْذِرَ بَأْسًا شَدِیدًا مِنْ لَدُنْہُ

لِیُنْذِرَ بَأْسًا شَدِیدًا مِنْ لَدُنْہُ۔ (الکہف: 2)

”تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کردے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تاکہ وہ اپنی جانب سے جھٹلانے والوں کو ایک سخت عذاب سے آگاہ کردے“۔ (امین احسن اصلاحی)

ان دونوں ترجموں میں لِیُنْذِرَ کا فاعل اللہ تعالی کو مانا گیا ہے۔ قرآن مجید کے استعمالات دیکھیں تو یہ کام ہر جگہ رسول اور کتاب کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ صحیح توجیہ یہ لگتی ہے کہ لِیُنْذِرَ کا فاعل پیچھے مذکور عبد یا کتاب ہے، اور لَدُنْہُ  کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ مزید یہ کہ لَدُنْہُ کا تعلق عذاب سے ہے نہ کہ انذار سے۔ درج ذیل دونوں ترجمے اس پہلو سے درست ہیں:

”تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے“۔ (سید مودودی)

”تاکہ لوگوں کو عذاب سخت سے جو اس کی طرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(367) وَازْدَادُوا تِسْعًا

وَلَبِثُوا فِی کَہْفِہِمْ ثَلَاثَ مِاءَۃٍ سِنِینَ وَازْدَادُوا تِسْعًا۔ (الکہف: 25)

”وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو سال اور زیادہ گزارے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور نو سال مزید برآں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور مدت گزری ان پر اپنے کہوہ میں تین سو برس اور اوپر سے نو“۔ (شاہ عبدالقادر)

اس آیت کے مذکورہ بالا ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غار میں تو تین سو سال رہے اور پھر نو سال مزید زندہ رہے۔ وَازْدَادُوا تِسْعًا کے اسلوب نے دونوں مدتوں کو الگ الگ بتادیا۔ جب کہ درج ذیل ترجمہ یہ بتارہا ہے انھوں نے یہ پوری مدت غار میں گزاری۔

”اور اصحاب کہف اپنے غار میں نو اوپر تین سو سال رہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

درج ذیل ترجمہ عجیب ہے، بغیر کسی قرینے کے نو دن فرض کرلینا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ نو سال کے لیے تو واضح قرینہ موجود ہے کہ اس سے پہلے سال کا ذکر ہے۔

”اور یہ لوگ اپنے غار میں تین سو برس رہے اور اس پر نو دن کا اضافہ بھی ہوگیا“۔ (ذیشان جوادی)

درج ذیل ترجمہ عام ترجموں سے مختلف ہے:

”اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ لوگ مدّت کے شمار میں) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں کم زوری یہ ہے کہ لبثوا  کا فاعل اصحاب کہف کو اور ازدادوا کا فاعل تعداد بتانے والوں کو مانا ہے، پھر لبثوا کو اللہ کی دی ہوئی خبر کے بجائے لوگوں کا بیان قرار دیا گیا ہے۔ آیت کا مفہوم واضح ہے، اس کی تفسیر میں اس قدر تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔ آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات یہی ہے کہ اللہ تعالی نے یہ دونوں خبریں دی ہیں، جس کے بعد کہا کہ واللہ أعلم بما لبثوا، کہ وہ کتنا عرصہ رہے اس کا علم اللہ کو ہے۔

(368)  استثنا منقطع کا ترجمہ

لَا یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا۔ (مریم: 62)

”وہ لوگ وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے صرف سلام ہی سلام سنیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

اس ترجمے میں استثنا منقطع کا پورا لحاظ ہے۔ سلام لغو سے مستثنی نہیں ہے، بلکہ اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ پیرایہ استثنا کا ہے، لیکن دو الگ الگ باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لغو نہیں سنیں گے اور دوسری یہ کہ سلام سنیں گے۔

”وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سُنیں گے، جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے“۔ (سید مودودی)

اس ترجمہ میں بھی استثنا منقطع کا لحاظ ہے، لیکن سلام کا ترجمہ ’ٹھیک ہی سنیں گے‘، درست نہیں ہے۔ اس سے یہ مفہوم  نکلتا ہے کہ انھیں سننے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی، جو سنیں گے ٹھیک سنیں گے۔ غالبا مترجم کا مقصود یہ ہے کہ عیب سے پاک باتیں سنیں گے۔ سلام کا ترجمہ سلام ہی بہتر ہے۔

درج ذیل ترجموں میں کم زوری یہ ہے کہ وہ استثنائے متصل کا مفہوم دیتے ہیں۔ گویا سلام کو لغو سے مستثنی کیا گیا ہے، حالاں کہ سلام تو لغو میں شامل ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے مترجمین کا یہ مقصود بھی نہیں ہے، لیکن عربی کے استثنائے منقطع کا ترجمہ اردو میں مختلف طریقے سے ہوگا۔

”وہ اس میں سلام کے سوا کوئی بیہودہ کلام نہ سنیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس میں سوائے سلام کے کوئی فضول بات نہ سنیں گے“۔ (احمد علی)

”وہ وہاں سلامتی کی صداؤں کے سوا کوئی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے“۔ (محمد حسین نجفی)

(369)  جنۃ کا ترجمہ

عربی میں جنۃ کا اصل مطلب باغ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جنت یعنی آسائشوں کے مقام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ اردو میں جنت کا مطلب آسائشوں کا مقام ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں جنت کا لفظ دونوں معنوں میں آیا ہے، اس کا لحاظ ترجمہ کرتے وقت عام طور سے کیا جاتا ہے۔ البتہ سورہ کہف میں جہاں دو باغوں والے شخص کا واقعہ بیان ہوا ہے، مولانامودودی نے ترجمہ کرتے ہوئے عام مترجمین سے ہٹ کر ایک الگ جہت اختیار کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعہ میں پہلے جَنَّتَیْنِ کا لفظ آیا، جس کا ترجمہ دو باغ کیا۔

وَاضْرِبْ لَہُمْ مَثَلًا رَجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِہِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ أَعْنَابٍ۔ (الکہف: 32)

”اے محمدؐ! اِن کے سامنے ایک مثال پیش کرو دو شخص تھے ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے“۔ (سید مودودی)

پھر الجنتین کا ترجمہ بھی دو نوں باغ کیا۔

کِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ آتَتْ أُکُلَہَا۔ (الکہف: 33)

”دونوں باغ خوب پھلے پھولے“۔(سید مودودی)

اس کے بعد جنتہ کا ترجمہ اپنی جنت کردیا۔

وَدَخَلَ جَنَّتَہُ۔ (الکہف: 35)

”پھر وہ اپنی جنّت میں داخل ہوا“۔ (سید مودودی)

اور تفسیر میں اس کی توجیہ بھی کی: ”یعنی جن باغوں کو وہ اپنی جنت سمجھ رہا تھا۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اردو ترجمے کا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے جنت کے بجائے باغ ترجمہ کردیا گیا۔

Then he entered his vine-yard (syed Maududi)

غور طلب بات یہ ہے کہ اسی واقعے میں آگے پھر جنت کا لفظ دو بار آیا۔ اور دونوں جگہ باغ کے مالک نہیں بلکہ دوسرے شخص کی زبان سے ادا ہوا ہے، پھر بھی وہاں ترجمہ جنت ہی کیا ہے۔

وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّہُ۔ (الکہف: 39)

”اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ“۔ (سید مودودی)

فَعَسَی رَبِّی أَنْ یُؤْتِیَنِ خَیْرًا مِنْ جَنَّتِکَ وَیُرْسِلَ عَلَیْہَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ۔ (الکہف: 40)

”تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیری جنت سے بہتر عطا فرما دے اور تیری جنت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے“۔ (سید مودودی)

پورے واقعہ کو سامنے رکھیں، تو جنت کا ترجمہ جنت کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔شروع سے باغوں کا تذکرہ ہے، تو سب جگہ باغ ہی ترجمہ ہونا چاہیے۔

(370) خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا

درج ذیل آیت میں خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ تیرے رب کے نزدیک بہتر ہے ثواب کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ تیرے رب کے یہاں ملنے والے ثواب کے اعتبار سے بہتر ہے۔ یعنی عِنْدَ رَبِّکَ کو خیر سے متعلق مانا جائے یا ثوابا سے متعلق۔

وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ أَمَلًا۔ (الکہف: 46)

”اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنہی سے اچھی اُمّیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور باقی رہنے والے اعمال صالحہ باعتبار ثواب اور باعتبار امید تمہارے رب کے نزدیک بہتر ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا ترجموں میں عِنْدَ رَبِّکَ کو خیر سے متعلق مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں عِنْدَ رَبِّکَ کو ثوابا سے متعلق مانا گیا ہے۔

”تمہارے رب کے یہاں ملنے والے ثواب کے اعتبار سے اور امید کے اعتبار سے بہتر ہیں“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

”اور باقی رہنے والی اچھی باتیں ان کا ثواب تمہارے رب کے یہاں بہتر اور وہ امید میں سب سے بھلی“۔ (احمد رضا خان)

معنوی لحاظ سے دیکھیں تو موخر الذکر ترجموں میں زیادہ معنویت ہے۔ کیوں کہ اس میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ یہ اس ثواب کی بات ہے جو اللہ کے یہاں ملنے والا ہے۔ علاوہ ازیں اس مفہوم کی تائید قرآن کی دوسری آیتوں سے بھی ملتی ہے، جیسے: ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ وَاللَّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الثَّوَابِ۔ (آل عمران: 195)

(371) فَظَنُّوا أَنَّہُمْ مُوَاقِعُوہَا

درج ذیل آیت میں ظن کا ترجمہ گمان کرنا یا یاخیال کرنا نہیں بلکہ سمجھ لینا اور یقین کرنا ہوگا۔ مجرم جب گرفت میں آچکے ہوں، اور جہنم سامنے نظر آرہی ہو، تو گمان و خیال کا موقع نہیں ہوتا ہے۔

وَرَأَی الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّہُمْ مُوَاقِعُوہَا۔ (الکہف: 53)

”اور دیکھیں گے گناہ گار آگ کو پس گمان کریں گے یہ کہ وہ گرنے والے ہیں اس میں“۔ (شاہ رفیع الدین)

”اور دیکھیں گے گناہ گار آگ کو پھر اٹکلیں گے کہ ان کو پڑنا ہے اس میں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور مجرم دوزخ کو دیکھیں گے اور گمان کریں گے کہ وہ اسی میں گرنے والے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”سارے مجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اورسمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور گنہگار لوگ دوزخ کو دیکھیں گے تو یقین کرلیں گے کہ وہ اس میں پڑنے والے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(372)  وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِآیَاتِ رَبِّہِ فَأَعْرَضَ عَنْہَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ۔ (الکہف: 57)

”اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منھ پھیرے اور اُس برے انجام کو بھول جائے جس کا سر و سامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں دو باتیں توجہ طلب ہیں، ایک تو بلاضرورت برے انجام کو محذوف ماننا، دوسرے یہ کہ جو لوگ آخرت اور جزا و سزا پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں اور برے انجام کا تصور ہی نہیں رکھتے ہیں، وہ اپنے اعمال کے انجام کو کیوں یاد رکھیں گے؟

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے وہ پھر منھ موڑے رہے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھا ہے اسے بھول جائے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(373)  أَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا

وَکَانَ الْإِنْسَانُ أَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا۔ (الکہف: 54)

”لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور آدمی ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“۔ (احمد رضا خان)

”لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“۔(فتح محمد جالندھری)

پہلی بات یہ ہے کہ جدل کا اصل مطلب جھگڑا کرنا نہیں بلکہ بحث کرنا ہوتا ہے۔ بحث کبھی جھگڑے تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں دوسروں سے انسان کا موازنہ مقصود نہیں ہے، کہ وہ دوسری چیزوں سے زیادہ بحث مباحثہ کرتا ہے، یا جھگڑا کرتا ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ بحث کرنا اس کی نمایاں ترین صفت ہے۔ وہ کوئی اور کام اتنا نہیں کرتا جتنا کہ بحث کرتا ہے۔ کسی بھی کام سے زیادہ بحث کا کام کرتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

”اور انسان سب سے زیادہ بحث کرنے والا واقع ہوا ہے“۔

قرآن / علوم القرآن

(نومبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter