پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو

(یوٹیوب چینل ’’این ٹی وی‘‘ پر جناب جاوید چودھری اور فرخ عباس صاحب کے ۱۵ مئی کو نشر ہونے والے شو کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔)

(۱) پاکستان کے تیار کردہ سسٹمز

چلتے ہیں اپنی سب سے پہلی سٹوری کی طرف، ہمارا خطرناک ترین ہتھیار، ایک ایسا ہتھیار جس نے پوری جنگ پلٹ کے رکھ دی، جس نے تباہی پھیر کے رکھ دی ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ آپ کو بتائیں گے آج کی اپنی پہلی سٹوری میں۔

اچھا، اس طرح ہے کہ فضائیہ کے اندر کیونکہ بہت سارے کمپوننٹس ہوتے ہیں، بہت سارے پاس جہاز ہوتے ہیں، بہت سارے ہتھیار ہوتے ہیں، ان سب کو Synchronize (مربوط) کرنا، ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے، ایک کمیونیکیشن سسٹم کے اندر پرونا، یہ بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اور عموماً‌ ملک اس چیز کے اندر پریشان ہوتے ہیں۔ مثلاً‌ فرض کریں کہ انڈیا نے رافیل طیارے خریدے ہیں، تو نیچے اس کا جو ریڈار سسٹم ہے، رافیل طیاروں کا اس ریڈار سسٹم کے ساتھ کمیونیکیشن لنک نہیں بن رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب رافیل طیارے گرے تو انڈیا کے اندر کافی بحث شروع ہوئی اور انڈیا کو یہ بتایا گیا کہ آپ کا جو ریڈار سسٹم ہے وہ چونکہ طیاروں کے ساتھ سینکرونائز نہیں ہو رہا، اس وجہ سے کمیونیکیشن گیپ پیدا ہو رہا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے پورے گراؤنڈ سسٹم کو تبدیل کر کے وہ بھی رافیل والوں سے خریدیں تاکہ دونوں کا آپس میں لنک ہو سکے۔ یعنی انڈیا کو پرانا سسٹم نکال کر رافیل والوں سے ہی نیا سسٹم خریدنا چاہیے تاکہ وہ جہازوں کے ساتھ مل کر صحیح کام کر سکے۔ 

اب پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے پاس مختلف برانڈز کے جہاز ہیں، مثلاً‌ ایف سولہ امریکہ کے ہیں، جے ٹین چائنہ کے ہیں، جے ایف ۱۷ پاکستان اور چائنہ نے مل کر بنایا ہے، اس کے علاوہ میراج (فرانس کے) ہیں، ظاہر ہے یہ مختلف ملکوں کے برانڈز ہیں۔  اسی طرح نیچے جو گراؤنڈ سسٹمز ہیں وہ بھی مختلف ملکوں کے ہیں، جرمنی سے خریدا ہے، چیک ری پبلک سے خریدا ہے، امریکہ سے خریدا ہوا ہے، چائنہ سے خریدا ہوا ہے، اٹلی سے بھی ہے۔ یہ سارے ریڈار سسٹمز اور گراؤنڈ سسٹمز ملک کے مختلف حصوں میں نصب کیے گئے ہیں۔ اب ان سب کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور ایک سسٹم کے تحت لانا بہت مشکل کام ہے اور تقریباً‌ ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ملک نے اپنی ٹیکنالوجی صرف اپنے پاس رکھی ہوئی ہے اور کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی ٹیکنالوجی کسی اور ملک کے پاس چلی جائے، اس کے لیے ظاہر ہے انہوں نے بیریئرز لگائے ہوتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ جرمنی کے سسٹم کو اٹلی کے ساتھ سینکرونائز کر لیں، کیونکہ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ان ٹیکنالوجی کی Hegemony (بالادستی/انفرادیت) ختم ہو جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ نے تبدیلی کر کے ان کا سسٹم بریک کر لیا ہے، جس پر وہ فخر کر رہے تھے کہ ہمارا سسٹم کبھی ہیک نہیں ہوا۔ 

پاکستان نے کمال یہ کیا ہے کہ ہمارے پاکستانی لڑکوں نے یہاں بیٹھ کر دو سسٹمز تیار کر لیے ہیں۔ ایک تو انہوں نے ان سب ٹیکنالوجیز کو، مختلف برانڈز کے جو جہاز تھے، انہیں ایک سسٹم کے اندر سینکرونائز کر لیا ہے۔ اس کو انہوں نے نام دیا ہوا ہے Vision Link کا جو کہ پاکستان ایئرفورس کے سنٹرل کمانڈ سسٹم کے اندر موجود ہے اور یہ صرف اور صرف پاکستانیوں نے خود بنایا ہے اس میں کسی اور ملک کا کوئی کمال نہیں ہے۔  اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی لڑکوں نے جو کمال کیا وہ یہ تھا کہ انڈیا کے سائبر سسٹم کو انہوں نے ہیک کر لیا، اور انہوں نے یہ ایسا سسٹم بنایا ہوا تھا جس کی انہوں نے کبھی کسی کو سرگوشی بھی نہیں ہونے دی، یہ ایک سرپرائز ایلیمنٹ تھا جسے سن کر جسے دیکھ کر پوری دنیا حیران رہ گئی۔

چھ اور سات مئی کو پاکستان نے ویژن لنک کو استعمال کرتے ہوئے ان کے رافیل طیارے گرا لیے، اور اس پر ظاہر ہے پوری دنیا کے اندر کہرام بچ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ رافیل طیارہ آج تک گرا ہی نہیں۔ اور وہ بھی انہوں نے جے ٹین طیارے کی مدد سے گرایا ہے، جس نے زندگی میں پہلی مرتبہ رافیل طیارہ بلکہ کوئی بھی تیارہ گرایا ہے۔ اور یہ ٹیکنالوجی ظاہر ہے کہ چائنہ کے پاس بھی نہیں تھی۔ سوال یہ تھا کہ یہ پاکستان کے پاس آئی کہاں سے۔ اس کے بعد ۱۰ مئی آیا تو پاکستان نے ان کا سارا سسٹم ہیک کر لیا، کمیونیکیشن جام کر دی۔ چنانچہ چھ و سات مئی اور پھر ۱۰ مئی کے دونوں موقعوں پر پاکستان نے یہ اپنے خفیہ ہتھیار استعمال کیے۔ 

اس کے ساتھ ایک خبر اور نکلی ہے کہ قطر کے پاس بھی رافیل تیارے ہیں اور پاکستان قطر کے ساتھ مل کر جوائنٹ ایکسرسائزز کرتا رہا ہے۔ یعنی جب ہمارے پائلٹس وہاں جاتے تھے تو ظاہر ہے انہوں نے وہاں رافیل طیارے دیکھے ہیں، انہیں چلایا ہے، ان کے سسٹم کو سمجھا ہے، تو اس کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوا، اس نے پاکستان کو اپنا سسٹم بنانے میں بہت مدد دی۔ 

ایک اور بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ماہرین نے یہاں تک مہارت حاصل کر رکھی ہے کہ اپنے راڈار سسٹم پر ان کے طیاروں کی نقل و حرکت دیکھ کر وہ بڑی حد تک بتا دیتے ہیں کہ یہ کس برانڈ کا طیارہ ہے، یہ رافیل ہے، میراج ہے، مگ ہے یا ایس یو طیارہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس زیادہ ٹیکنالوجی نہیں ہوتی، زیادہ وسائل نہیں ہوتے، تو ایسے حالات میں انسانی جبلت بہت تیز ہو جاتی ہے۔ تو پاکستانی ماہرین نے اپنی سینسز کو بہت شارپ کر لیا ہے کہ وہ ان کے طیاروں کی نقل و حرکت سے بتا دیتے ہیں یہ کونسا طیارہ ہے۔ 

(۲) چین سے سٹیلتھ ٹیکنالوجی والے J-35 طیاروں کی خریداری

جہازوں کی گیم چل رہی ہے، جہازوں کی ٹیکنالوجیز میں رافیل 4.5 گریڈ کا طیارہ ہے، اس سے اوپر کے طیارے الگ ٹیکنالوجی کے شمار ہوتے ہیں۔ یہ الگ ٹیکنالوجی کیا ہے اور کتنی خطرناک ہے؟ اور اگر وہ ٹیکنالوجی پاکستان کے پاس آجاتی ہے تو یقین مانیں آپ اس جہاز پر بیٹھ کر ان کے سارے شہر دیکھ کر آ سکتے ہیں اور شاید انڈیا کو اس کا پتہ بھی نہ چلے۔ اگلی ٹیکنالوجی والے ففتھ جنریشن (پانچویں نسل) کے جہاز کہلاتے ہیں جن پر سٹیلتھ ٹیکنالوجی نصب ہوتی ہے جو راڈار میں نہیں آتی۔ 

آپ کو یاد ہو گا کہ جب امریکہ نے اسامہ بن لادن والا آپریشن کیا تھا اور ان کے ہیلی کاپٹرز افغانستان سے ایبٹ آباد تک آ گئے تھے لیکن ہمارے راڈاروں کو ان کا پتہ بھی نہیں چل سکا تھا۔ یہ سٹیلتھ ٹیکنالوجی والے ہیلی کاپٹرز تھے جو راڈار پر نظر نہیں آتے۔ اس آپریشن کے دوران ایک واقعہ یہ ہوا تھا کہ ان کے ایک ہیلی کاپٹر کا پر دیوار سے لگنے کی وجہ سے وہ اڑ نہیں سکا تھا اور اس میں آگ لگ گئی تھی۔ پھر امریکیوں نے اس کے اندر بم لگا کر اسے تباہ کر دیا تھا تاکہ اس کی ٹیکنالوجی کسی کے ہاتھ نہ لگ جائے، لیکن شاید وہ ہیلی کاپٹر پوری طرح تباہ نہیں ہو سکا۔ بعد میں امریکہ نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے وہ سارا ملبہ چائنہ کو دے دیا تھا جس نے ریورس انجینئرنگ کر کے اس کی سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا پتہ لگا لیا تھا۔  

چائنہ نے پہلے جے 20 طیارہ بنایا تھا اور اب ان کا جدید طیارہ جے 35 ہے جس کے اندر سٹیلتھ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، اور یہ سپر سونک طیارے ہیں یعنی ان کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ پاکستان نے چائنہ کے ساتھ جے 35 طیاروں کا سودا کیا ہے اور پاکستان کے پائلٹ چین جا کر اب اس کی ٹریننگ بھی لے رہے ہیں۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ 2025ء کے آخر تک یہ ہمیں جہاز مل جائیں گے۔ دوسری طرف  انڈیا امریکہ کے ساتھ ایف 35 جہازوں کا سودا کر رہا ہے۔ 

(۳) چین کی طرف سے اوروناچل پردیش میں ناموں کی تبدیلی

اگر آپ کبھی تبت جائیں اور اس کے پہاڑوں سے نیچے اترنا شروع کریں تو ہمالیہ کے پاس ایک جگہ آجاتی ہے جس کے ایک سائیڈ پر بنگلہ دیش ہے، دوسری سائیڈ پر نیپال ہے اور تیسری سائیڈ پر انڈیا ہے۔ یہ تین ملک وہاں پر ملتے ہیں۔ وہاں سے جو دریا اترتے ہیں وہ بنگلہ دیش سے ہوتے ہوئے، کچھ پانی نیپال کو دیتے ہوئے، کچھ انڈیا کو دیتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ وہاں پہ ایک علاقہ ہے ’’اوروناچل پردیش‘‘ جس کے بارے میں انڈیا کا دعویٰ ہے کہ ان کا ہے، اور چائنہ کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا حصہ ہے۔  

ان علاقوں کے اوپر چائنہ اور انڈیا کے درمیان 1962ء کے دوران باقاعدہ جنگ بھی ہوئی تھی۔ اس وقت نہرو صاحب امریکہ کے پاس گئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آپ پاکستان کو کہیں کہ اس موقع کا فائدہ نہ اٹھائیں کیونکہ ہماری چائنہ کے ساتھ جنگ ہو رہی ہے۔ انڈیا کو خطرہ تھا کہ کہیں پاکستان حملہ کر کے کشمیر اپنے قبضے میں نہ کر لے۔ تو امریکیوں کے کہنے پر جنرل ایوب خان صاحب نے اس کو گارنٹی دی تھی کہ آپ آرام سے جنگ لڑیں، ہم ابھی فارغ نہیں ہیں، ادھر قبضہ نہیں کریں گے۔ آج تک مؤرخین یہ کہتے ہیں کہ اس وقت بڑا سنہری موقع تھا جب چائنہ کے ساتھ انڈیا مصروف تھا، اگر جنرل ایوب خان صاحب اس وقت کشمیر کے اوپر قبضہ کر لیتے تو آج کشمیر پاکستان کا ہوتا، لیکن بہرحال وہ موقع ہم نے ضائع کر دیا۔ 

اس میں سے کچھ علاقہ چائنہ کے پاس ہے کچھ علاقہ انڈیا کے پاس ہے۔ اب معاملہ یہ ہوا ہے کہ چائنہ نے اوروناچل پردیش کے علاقوں کے نام چائنیز میں تبدیل کرنا شروع کر دیے ہیں، کوئی چھبیس ستائیس جگہیں ایسی ہیں جہاں انہوں نے اپنے نام رکھ لیے ہیں۔ انڈیا اس پر بہت زیادہ پریشان ہے کیونکہ اگر چائنہ وہاں سے اتر کر انڈیا کے بارڈر پر دستک دینا شروع کر دیتا ہے تو انڈیا کی سیون سسٹرز اسٹیٹس میں سے ایک ان کے پاس چلی جائے گی۔ اس کے ساتھ چائنہ نے اسی علاقے میں بنگلہ دیش کے اندر ان کے ساتھ مل کر ایک ایئر بیس بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ تو اس وقت انڈیا تین جگہوں سے پھنس چکا ہے: چائنہ سے، بنگلہ دیش سے، اور پاکستان سے۔

(۴) پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے متعلق بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ

عالمی جوہری توانائی ایجنسی نے پاکستان کے متعلق ایک رپورٹ دی ہے۔ پاکستان کے متعلق ایک بہت ہیوی کمپین کی گئی تھی اور پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ دراصل اس کا جواب آیا ہے۔ 

جتنے بھی ایٹمی ممالک ہیں ان کے ایٹمی ہتھیار خفیہ نہیں ہوتے بلکہ خود ان کی طرف سے بتایا جاتا ہے کہ وہ کہاں پر اسٹور کیے گئے ہیں۔ انڈیا بھی خود بتاتا ہے، پاکستان بھی خود بتاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کہیں چھوٹی موٹی چھیڑ چھاڑ کے دوران کسی غلط فہمی کی وجہ سے کوئی دوسرا ملک وہاں ہٹ نہ کر دے، کیونکہ اس سے ایک بہت بڑی تباہی ہو جائے گی۔ 

انڈیا نے ایک دعویٰ یہ کیا ہے کہ جب ہم نے سرگودھا پر حملہ کیا تھا تو جہاں پر پاکستان کے ایٹمی اثاثے تھے اس جگہ کو ہم نے ہٹ کر دیا تھا جس کے بعد ریڈییشن نکلنا شروع ہو گئی۔ اور یہ اتنا زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ لوگوں نے اس کو بین الاقوامی سطح پر بھی سچ سمجھنا شروع کر دیا۔ جب اس طرح کی خبر آتی ہے تو  ایک ادارہ ہے IAEA جس کو عالمی جوہری توانائی ایجنسی کہتے ہیں، وہ فوری طور پر متحرک ہو جاتا ہے، ان کا ویانا میں ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی ادارہ بنا ہوا ہے جو ایٹمی تنصیبات میں جا کر کے چیزوں کو چیک کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے ایکوپمنٹس اور پروٹوکولز استعمال کیے اور اس کے بعد اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں کسی جگہ کوئی گڑبڑ نہیں ہے اور ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بین الاقوامی سطح کا ہے، بالکل اسی طرح جیسے یورپ اور امریکہ کا ہے، لہٰذا یہاں پہ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے انڈیا کو بہت زیادہ ڈسٹرب کیا ہے کیونکہ انڈیا نے اس بارے میں بہت پروپیگنڈا کیا تھا۔

(۵) بگلیہار اور اڑی پراجیکٹ پاکستان کے نشانے پر

(سندھ طاس معاہدہ کی رو سے) پاکستان کے حصے میں تین دریا آئے تھے، سندھ، جہلم اور چناب، ان کے پانیوں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ دریائے جہلم کے اوپر انڈیا نے اڑی پراجیکٹ (اور کشن گنگا) ڈیم بنا لیا، جبکہ دریائے چناب کے اوپر انہوں نے بگلیہار ڈیم بنا دیا۔ ان کی وجہ سے پاکستان کا پانی کم ہو جاتا ہے، یا جب مون سون ہوتی ہے تو پانی چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے سیلاب آجاتے ہیں۔ 

حالیہ پاک بھارت تصادم کے دوران پاکستان نے بگلیہار ڈیم اور اڑی ڈیم دونوں کو (میزائل حملوں کے لیے) لاک کر لیا تھا۔ کشیدگی کے دوران جب میزائل مارے گئے تو انڈیا نے پاکستان کے نیلم جہلم پراجیکٹ کو بھی معمولی نقصان پہنچایا تھا۔  وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ ہمارے پراجیکٹ کو اگر واقعی نقصان پہنچتا تو ہم نے بگلیہار ڈیم کو اڑا دینا تھا۔ اور اس خبر کے اندر ایک اور خبر یہ ہے کہ پاکستان نے ان دونوں ڈیموں کو لاک کیا ہوا ہے، اگر کسی قسم کی گڑبڑ ہوئی، اگر پاکستان کو انڈیا کی طرف سے پانی نہیں ملتا تو پاکستان نے یہ ڈیم اڑا دینے ہیں۔ 

 اللہ حافظ، پاکستان زندہ باد۔

https://youtu.be/6BeuaT8H02M


(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter