اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۳)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۱) أنفسکم کا ترجمہ

قرآن مجید میں بعضکم بعضا کی تعبیر متعدد مقامات پر آئی ہے، اور حسب حال مختلف ترکیبوں کے ساتھ استعمال ہوئی ہے، بعضکم بعضا کا ترجمہ ہوتا ہے ’’ایک دوسرے کو‘‘ اور ’’آپس میں‘‘ اور ’’کوئی کسی کو‘‘ جیسے:

ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضاً۔ (العنکبوت:۲۵) 

کبھی فعل کے ثلاثی مجردکے بجائے باب تفاعل سے ثلاثی مزید میں استعمال ہونے سے بھی بعضکم بعضا کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے یقتل بعضھم بعضا کا مفہوم وہی ہے جو یتقاتلون کا ہے۔

اس کے علاوہ ایک تعبیر أنفسکم کی بھی آئی ہے، بہت سے مترجمین بہت سے مقامات پر اس کا ترجمہ بھی ’’ایک دوسرے کو‘‘ کردیتے ہیں۔ حالانکہ أنفسکم اس معنی میں نہیں آتا ہے، اور اس معنی میں لانے کے لیے مختلف توجیہات کرنی پڑتی ہیں۔

دراصل أنفسکم کے دو معنی ہیں، ایک ہے ’’اپنے آپ کو‘‘ اور ایک ہے ’’اپنے لوگوں کو‘‘ قرآن مجید میں یہ لفظ پہلے معنی میں بھی خوب استعمال ہوا ہے، اور دوسرے معنی میں بھی کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ سیاق کلام اور محل استعمال سے یہ طے ہوتا ہے کہ کہاں کون سا معنی لیا جائے۔

دوسرے معنی کی ایک مثال ذیل کی آیت ہے، جس میں أنفسکم کا ترجمہ تمام مترجمین نے ’’اپنے لوگوں‘‘ کیا ہے:

(۱) فَإِذَا دَخَلْتُم بُیُوتاً فَسَلِّمُوا عَلَی أَنفُسِکُمْ۔ (النور: ۶۱)

’’بس بات یہ ہے کہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو‘‘(امین احسن اصلاحی)

’’البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو‘‘(سید مودودی)

’’پھر جب کسی گھر میں جاؤ تو اپنوں کو سلام کرو ‘‘(احمد رضا خان)

’’پھر جب جانے لگو کبھی گھروں میں تو سلام کہو اپنے لوگوں پر‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’جب تم اپنے گھروں میں جانے لگا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کرلیا کرو‘‘ (اشرف علی تھانوی)

’’پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کرو‘‘(محمد جوناگڑھی)

آخری دونوں ترجموں میں ایک توجہ طلب امر یہ ہے کہ آیت میں بیوتا نکرہ استعمال ہوا ہے، اس لئے اول الذکر میں اپنے کے اضافے کے ساتھ اپنے گھروں اور موخر الذکر میں گھر کے اضافے کے ساتھ اپنے گھر والوں کہنا درست نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ اس آیت کی طرح مذکورہ ذیل آیتوں میں بھی أنفسکم کا وہی مفہوم ہے جو فسلموا علی أنفسکم میں أنفسکم کا ہے، تاہم مفسرین اور مترجمین کہیں وہ ترجمہ کرتے ہیں اور کہیں کوئی دوسرا ترجمہ کرتے ہیں۔

(۲) وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ۔ (البقرۃ: ۵۴)

’’یاد کرو جب موسی (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اس ) نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو‘‘ (سید مودودی)

زیر بحث جملے کے کچھ اور ترجمے بھی ملاحظہ ہوں:

’’اور اپنے مجرموں کو اپنے ہاتھوں قتل کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہاں أنفسکم کا مفہوم تو ادا کیا گیا ہے، لیکن اپنے ہاتھوں کہنا زائد ہے، اس کی لفظ اور معنی دونوں ہی لحاظ سے کوئی گنجائش نہیں ہے)

’’پھر بعض آدمی بعض آدمیوں کو قتل کرو‘‘ (اشرف علی تھانوی)

’’اور مارڈالو اپنی اپنی جان ‘‘(شاہ عبدالقادر)

’’تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو‘‘ (احمد رضا خان)

اس آیت میں واقعہ کے لحاظ سے نہ تو اپنے آپ کو قتل کرنے کا محل ہے اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کا محل ہے، بچھڑے کومعبود بنانے کے ظلم میں سب لوگ شریک نہیں تھے، اس لئے جو لوگ شریک تھے ان کے بارے میں حکم دیا گیا کہ وہ جو ہیں تو اپنے ہی لوگ مگر اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ان کو قتل کرو۔ابو حیان کے الفاظ میں:

وَالْمَعْنَی: اقْتُلُوا الَّذِینَ عَبَدُوا الْعِجْلَ مِن أَھْلِکُمْ،کَقَولِہِ: لَقَدْ جاءکم رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ،أَیْ مِن أَھْلِکُمْ وَجِلْدَتِکُمْ۔ (البحر المحیط فی التفسیر ،۱؍۳۳۵)

غرض صحیح ترجمہ ہے: ’’تو اپنے لوگوں کو قتل کرو‘‘ 

(۳) وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لاَ تَسْفِکُونَ دِمَاء کُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَکُم مِّن دِیَارِکُمْ۔ (البقرۃ: ۸۴)

’’اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے اقرار لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہاؤگے اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالوگے ‘‘(امین احسن اصلاحی)

’’اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ کرنا اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا ‘‘(احمد رضا خان)

آیت کے یہ دونوں صحیح ترجمے ہیں، جبکہ ذیل میں مذکور ترجمے محل نظر ہیں:

’’اور جب لیا ہم نے قرار تمہارا کہ نہ کرو گے خون آپس میں اور نہ نکال دو گے اپنوں کو اپنے وطن سے‘‘ (شاہ عبد القادر، اس ترجمے میں أنفسکم  کا ترجمہ صحیح کیا ہے البتہ لا تسفکون دماءکم کا ترجمہ ’’نہ کرو گے خون آپس میں‘‘محل نظر ہے، کیونکہ ’’آپس میں‘‘ کے مطلب کے لیے آیت میں کوئی لفظ نہیں ہے۔)

’’پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا‘‘ (سید مودودی) 

’’اور (وہ زمانہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے یہ قول وقرار (بھی) لیا کہ باہم خونریزی مت کرنا اور ایک دوسرے کو ترک وطن مت کرانا‘‘ (اشرف علی تھانوی، اس ترجمہ میں زیر بحث مسئلے کے علاوہ قوسین میں ’’وہ زمانہ بھی یاد کرو‘‘ غیر ضروری ہے)

ان تینوں ترجموں میں ’’آپس میں‘‘، ’’باہم‘‘ اور ’’ایک دوسرے‘‘کا ترجمہ کیا گیا ہے، جبکہ آیت کے الفاظ سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے۔ 

اس آیت میں دماء کم اور أنفسکم کا مفہوم متعین کرنے کے لیے ذیل کی آیت سے بھی مدد لی جاسکتی ہے جس میں أنفسکم کی جگہ فریقا منکم آیا ہے، اور جو اس کے فورا بعد اسی سیاق میں آئی ہے ۔

(۴) ثُمَّ أَنتُمْ ہَؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَکُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِیْقاً مِّنکُم مِّن دِیَارِہِمْ۔ (البقرۃ: ۸۵)

’’پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو‘‘(امین احسن اصلاحی) 

’’پھر یہ جو تم ہو اپنوں کو قتل کرنے لگے اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکالتے ہو‘‘(احمد رضا خان)

’’مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کردیتے ہو‘‘ (سید مودودی)

مذکورہ بالا ترجمے صحیح ہیں، جبکہ ذیل کے ترجموں میں زیر بحث غلطی موجود ہے۔

’’پھر تم ویسے ہی خون کرتے ہو آپس میں اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقے کو ان کے وطن سے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

’’پھر تم یہ (آنکھوں کے سامنے موجود ہی) ہو (کہ) قتل وقتال بھی کرتے ہو اور ایک دوسرے کو ترک وطن بھی کراتے ہو‘‘ (اشرف علی تھانوی) 

فریقا منکم کا ترجمہ ایک دوسرے کو کرنا بہت عجیب بات ہے، بلکہ جس طرح وَتُخْرِجُونَ فَرِیْقاً مِّنکُم کا ترجمہ ایک دوسرے کو کرنا درست نہیں ہے، ٹھیک اسی طرح وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَکُم کا ترجمہ بھی ایک دوسرے کو کرنا درست نہیں ہے۔

مذکورہ غلطی کے علاوہ آخری ترجمہ میں تقتلون أنفسکم کا ترجمہ قتل وقتال کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ آیت میں قتال کا لفظ ہی نہیں آیا ہے، اور پھر قتل وقتال کا محاورہ بھی استعمال نہیں کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ اس ترجمہ میں أَنفُسَکُم کا ترجمہ بھی نہیں ہوسکا ہے۔

(۵) یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ۔ (النساء :۲۹)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضامندی سے۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو‘‘ (سید مودودی) 

اس آیت میں ولا تقتلوا أنفسکم کا ترجمہ مترجمین نے مختلف طرح سے کیا ہے، جسے ذیل میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

’’اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی) 

’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’اور اپنی جانیں قتل نہ کرو‘‘(احمد رضا خان)

’’اور نہ خون کرو آپس میں‘‘ (شاہ عبد القادر)

’’اور تم ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو ‘‘(اشرف علی تھانوی)

صحیح ترجمہ ہے: ’’اوراپنے لوگوں کو قتل نہ کرو‘‘

آیت میں خود کو قتل کرنے کے بجائے دوسروں کو قتل کرنا مراد ہے اس کی تائید اس کے بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے، جس میں اس عمل کو عدوان اور ظلم بتایا گیا ہے، وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ عُدْوَاناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَاراً وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّہِ یَسِیْراً۔ (النساء :۳۰)

(۶) وَلَوْ أَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ أَنِ اقْتُلُواْ أَنفُسَکُم۔ (النساء :۶۶)

’’اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کرو‘‘ (سید مودودی) 

’’اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’اور اگر ہم نے ان پر یہ فرض کیا ہوتا کہ اپنی جانوں کو قتل کرو‘‘(محمد جوناگڑھی)

’’اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کردو‘‘ (احمد رضا خان)

’’اور ہم اگر لوگوں پر یہ بات فرض کردیتے کہ تم خودکشی کیا کرو‘‘(اشرف علی تھانوی)

درست ترجمہ ہے: ’’اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے لوگوں کو قتل کرو‘‘۔ 

یہ ترجمہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ الفاظ کے مطابق ہے، اس کے علاوہ مزید دو باتیں ملحوظ رکھی جاسکتی ہیں ، ایک بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی خودکشی کرنے کا حکم دے، یہ خود ایک ناقابل تصور امر ہے۔ دوسرے یہ کہ خودکشی کرنے کے لئے اقْتُلُواْ أَنفُسَکُم کی تعبیربھی محل نظر ہے۔

(۷) لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِہِمْ خَیْْراً۔ (النور:۱۲)

’’ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کی بابت نیک گمان کرتے‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی‘‘ (محمد جوناگڑھی)

اس آیت میں جس معاملے کے حوالے سے بات کہی گئی ہے، اس میں نہ تو اس کا محل ہے کہ بات سننے والے اہل ایمان اپنے سلسلے میں نیک گمان کریں، اور نہ اس کا محل ہے کہ سننے والے اہل ایمان ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کریں۔ محل کلام واضح طور پر یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں سننے والے اہل ایمان اپنے ان لوگوں کے سلسلے میں نیک گمان کریں جن کے بارے میں وہ باتیں کہی جارہی تھیں۔ غرض الفاظ اور محل کلام دونوں کے لحاظ سے درج ذیل دونوں ترجمے درست ہیں۔

’’کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیا ہوتا ‘‘(احمد رضا خان)

’’کیوں نہ جب تم نے اس کو سنا تھا خیال کیا ہوتا ایمان والے مردوں نے اور عورتوں نے اپنے لوگوں پر بھلا خیال ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۸) وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ۔ (الحجرات: ۱۱)

’’آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو‘‘(سید مودودی)

’’وعیب مکیند اہل دین خود را‘‘ (شیخ سعدی)

’’وعیب مکیند درمیان خویش ‘‘(شاہ ولی اللہ)

’’اور آپس میں طعنہ نہ کرو ‘‘(احمد رضا خان)

’’اور عیب نہ دو ایک دوسرے کو‘‘(شاہ عبد القادر)

’’اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو ‘‘(اشرف علی تھانوی)

’’اور نہ اپنوں کو عیب لگاؤ‘‘ (امین احسن اصلاحی)

صحیح ترجمہ ہے: ’’اور نہ اپنے لوگوں پر طنز کرو‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

غرض اوپر جتنی آیتیں ذکر کی گئی ہیں ان میں أنفسکم کا ترجمہ اپنے آپ کو یا آپس میں ایک دوسرے کو کیا جائے تو مفہوم اور محل کلام کے حوالے سے مختلف اشکالات پیدا ہوتے ہیں، جن کی توجیہ کی ضرورت پڑتی ہے، اور مفسرین نے ان کی توجیہ کی کوشش کی بھی ہے۔ لیکن اگر ان مقامات پر أنفسکم کا ترجمہ اپنے لوگوں کیا جائے، تو کوئی اشکال نہیں رہتا، اور مفہوم بہت واضح ہوجاتا ہے۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(اکتوبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter