اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۱)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(273) أَن یَقُولُوا آمَنَّا

درج ذیل آیت کا ترجمہ دیکھیں:

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ۔ (العنکبوت: 2)

”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟“۔ (سید مودودی)

”کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہ ہوگی“۔ (احمد رضا خان)

”کیا لوگ یہ خیال کیے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ محض یہ کہہ دینے پر چھوڑدیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس آیت کے ترجمے میں عام طور سے لوگوں نے ’بس، صرف، محض اور اتنی بات‘ جیسی تعبیروں کا اضافہ کیا ہے۔ اس اضافے کی ضرورت غالبًا اس لیے محسوس کی گئی کہ لوگوں نے یہ سمجھا کہ أَن یَقُولُوا آمَنَّا سے مراد محض زبانی دعوی ہے، اور محض زبانی دعوے کرنے والوں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ انھیں بغیر آزمائے نہیں چھوڑے گا۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالی زبانی دعوی کرنے والوں کو آزمائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان لے آنا کوئی کھیل نہیں ہے کہ اس کے بعد زندگی بہت آسان رہے گی اور دشمنانِ اسلام یوں ہی چھوڑ دیں گے، بلکہ ان کی طرف سے ستایا جانا یقینی ہے۔ اگر یہ مفہوم لیا جائے تو پھر ان اضافوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے جو عام طور سے کیے گئے۔

ترجمہ ہوگا:

”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ یہ کہہ دینے پر چھوڑدیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟“۔

واضح رہے کہ آزمائش تو اللہ کے اذن سے ہوتی ہے، جس کا آگے ذکر کیا گیا، لیکن اس کی شکل یہی بنتی ہے کہ جیسے ہی کوئی ایمان لانے کا اعلان کرتا ہے دین کے دشمن اسے چھوڑتے نہیں ہیں بلکہ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں“۔

(274)  وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ

عربی زبان میں ’مَن‘ واحد کے لیے بھی ہوتا ہے اور جمع کے لیے بھی۔ اور جب ’مَن‘ جمع کے لیے آتا ہے تو اس کے بعد فعل واحد کے صیغے میں بھی آتا ہے اور جمع کے صیغے میں بھی۔ اگر جمع کا صیغہ ہو تب تو یقینی ہوجاتا ہے کہ ایک فرد کے بارے میں نہیں بلکہ گروہ کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ درج ذیل آیت کے ترجمے میں بعض لوگوں سے یہ تسامح ہوا کہ انھوں نے واحد کا ترجمہ کیا، اور آگے جہاں جمع کے صیغے کے افعال اور جمع کے ضمائر ہیں وہاں بھی واحد کا ترجمہ کردیا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللَّہِ فَإِذَا أُوذِیَ فِی اللَّہِ جَعَلَ فِتْنۃ النَّاسِ کَعَذَابِ اللَّہِ وَلَثِن جَاءَ نَصْر مِّن رَّبِّکَ لَیَقُولُنَّ إِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ أَوَلَیْسَ اللَّہُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِی صُدُورِ الْعَالَمِینَ۔ (العنکبوت:10)

”لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا، اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آ گئی تو یہی شخص کہے گا کہ ”ہم تو تمہارے ساتھ تھے“ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟“۔ (سید مودودی، لَیَقُولُنَّ جمع کا صیغہ ہے اس کا ترجمہ یہی شخص کیسے ہوسکتا ہے؟)

”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے جب اُن کو خدا (کے رستے) میں کوئی ایذا پہنچتی ہے تو لوگوں کی ایذا کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے خدا کا عذاب۔ اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ تھے۔ کیا جو اہل عالم کے سینوں میں ہے خدا اس سے واقف نہیں؟“۔ (فتح محمد جالندھری)

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُول کا ترجمہ’لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے‘ کی بجائے ’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں‘ درست ہے۔

(275)  آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ

درج ذیل آیت میں وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ میں الذی ایک بار ہے، لیکن لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ جیسے وہ دوبار آیا ہو۔

وَلَا تُجَادِلُوا أَهلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی هیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ  وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلَٰہُنَا وَإِلَٰہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ۔  (العنکبوت: 46)

”اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے، سوائے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں، اور اُن سے کہو کہ ”ہم ایمان لائے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے مُسلم (فرماں بردار) ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور کہو ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو تمہاری طرف اترا“۔(احمد رضا خان)

”اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اُتری اور جو (کتابیں) تم پر اُتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور صاف اعلان کر دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے اور جو ہم پر اتاری گئی ہے اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور کہو کہ ہم ایمان لائے اس چیز پر جو ہم پر نازل ہوئی اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف اتاری گئی“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمہ قرآنی الفاظ کے مطابق ہے:

”اور کہہ دو ہم اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور تمہاری طرف نازل کیا گیا“۔ (احمد علی لاہوری)

آیت کے الفاظ کے مطابق یہاں یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ ہم اس کتاب پر بھی ایمان لائے جو ہماری طرف اتری اور ان کتابوں پر بھی جو اہل کتاب کی طرف اتریں، بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ کتاب جو ہماری طرف بھی اتری ہے اور تمہاری طرف بھی اتری ہے، یعنی ہم سب کے لیے اتری ہے اس پر ہم ایمان لائے۔ یہ دعوت دینے کا نہایت عمدہ طریقہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے اور وہ ساری انسانیت کے لیے ہے، ہم بھی اس کے مخاطب ہیں اور تم بھی اس کے مخاطب ہو۔

(276)  کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ

یہ تعبیر تین مقامات پر آئی ہے۔ اس کا ترجمہ ماضی کا ہونا چاہیے، وہ رہ جانے والوں میں سے تھی یا ہوئی۔ لیکن الگ الگ مقامات پر لوگوں نے الگ الگ ترجمے کیے۔

(۱) فَأَنجَیْنَاہُ وَأَہْلَہُ إِلَّا امْرَأَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ۔ (الاعراف:83)

”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی“۔ (احمد رضا خان)

”تو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا مگر ان کی بی بی (نہ بچی) کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں سب نے ماضی کا ترجمہ کیا۔

(۲)  قَالَ إِنَّ فِیہَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِیہَا لَنُنَجِّیَنَّہُ وَأَہْلَہُ إِلَّا امْرَأَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ۔ (العنکبوت: 32)

”ابراہیم ؑ نے کہا، ”وہاں تو لوط ؑ موجود ہے”انہوں نے کہا“ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہے ہم اُسے، اور اس کی بیوی کے سوا اس کے باقی گھر والوں کو بچا لیں گے“ اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی“۔ (سید مودودی)

”مگر اس کی عورت کو، وہ رہ جانے والوں میں ہے“۔ (احمد رضا خان)

”بجز اُن کی بیوی کے وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں کسی نے حال اور کسی نے مستقبل کا ترجمہ کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اسے فرشتوں کے سابقہ قول کا حصہ سمجھا۔ حالاں کہ اسے اللہ کی طرف سے جملہ مستانفۃ سمجھتے تو ماضی کا ترجمہ کرتے، جو کہ لفظ کا تقاضا ہے۔

(۳)  وَلَمَّا أَن جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِیءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ إِنَّا مُنَجُّوکَ وَأَہْلَکَ إِلَّا امْرَأَتَکَ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ۔ (العنکبوت: 33)

”پھر جب ہمارے فرستادے لوط ؑ کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور دل تنگ ہوا اُنہوں نے کہا،نہ ڈرو اور نہ رنج کرو ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بچا لیں گے، سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے“۔ (سید مودودی)

”مگر آپ کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہے“۔ (احمد رضا خان)

”مگر آپ کی بیوی کہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں بھی ماضی کا ترجمہ ہونا چاہیے لیکن عام طور سے لوگوں نے حال یا مستقبل کا کیا ہے۔ علامہ آلوسی نے وضاحت کی ہے کہ ان تینوں مقامات پر یہ جملہ مستانفۃ ہے۔یعنی اس سے پہلے والا جملہ پہلے ہی مکمل ہوچکا ہے، اور یہ ایک نیا مستقل جملہ ہے۔

(277)  مکڑی کی مثال

درج ذیل آیت میں تشبیہ مرکب کا اسلوب استعمال ہوا ہے، یعنی ایک چیز کو ایک چیز سے تشبیہ نہیں دی جارہی ہے بلکہ کئی چیزوں سے مل کر پوری ایک صورت حال کو ایک صورت حال سے تشبیہ دی جارہی ہے۔

مَثَلُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّہِ أَوْلِیَاءَ کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتًا وَإِنَّ أَوْہَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنکَبُوتِ  لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ۔ (العنکبوت:41)

تشبیہ مرکب کے مطابق ترجمہ اس طرح ہوگا:

”ان لوگوں کی مثال جنھوں نے اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنائے ہیں ایسے ہی ہے جیسے مکڑی نے گھر بنایا۔ اور بے شک تمام گھروں سے بودا مکڑی کا گھر ہوتا ہے، اگر یہ لوگ جانتے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

ان لوگوں کو مکڑی سے تشبیہ نہیں دی گئی بلکہ تشبیہ اس بات میں ہے کہ جس طرح مکڑی اپنے لعاب سے گھر بناتی ہے اس طرح انھوں نے اپنی طرف سے اللہ کے سوا اولیاء بنالیے ہیں اور جس طرح یہ گھر مکڑی کی حفاظت نہیں کرسکتا اسی طرح ان کے اولیاء ان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔

درج ذیل ترجموں سے گمان ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو مکڑی سے تشبیہ دے رہے ہیں، یعنی تشبیہ مرکب کے بجائے تشبیہ بسیط کا ترجمہ کررہے ہیں:

”جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے، کاش! وہ جان لیتے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اور مالک بنالیے ہیں مکڑی کی طرح ہے، اس نے جالے کا گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر، کیا اچھا ہوتا اگر جانتے“۔ (احمد رضا خان)

(278) منکر کا ترجمہ

قرآن مجید میں منکر اور فحشاء دو لفظ کہیں ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں اور کہیں الگ الگ۔ دونوں لفظوں میں فرق اس طرح بتایا گیا ہے کہ فحشاء بے حیائی اور منکر عام برائیوں کے لیے آتا ہے۔ قاضی ابن عطیہ لکھتے ہیں:

و”الفَحْشاءِ“: الزِنی -قالَہُ ابْنُ عَبّاسٍ - وغَیْرُہُ مِنَ المَعاصِی الَّتِی شُنْعَتُہا ظاہِرَۃ، وفاعِلُہا أبَدًا مُتَسَتِّر بِہا، وکَأنَّہم خَصُّوھا بِمَعانِی الفُرُوجِ و”المُنْکَرِ“ أعَمُّ مِنہُ؛ لَأنَّہُ یَعُمُّ جَمِیعَ المَعاصِی والرَذاثلِ والإذایاتِ عَلی اخْتِلافِ أنْواعِہا۔ (المحرر الوجیز)

مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

”فحشاء کھلی ہوئی بے حیائی اور بدکاری کو کہتے ہیں۔ مثلًا زنا اور لواطت اور اس قبیل کی دوسری برائیاں۔۔۔۔منکر سے مراد وہ باتیں ہوں گی جو معروف اور عقل وعرف کے پسندیدہ طریقہ اور آداب کے خلاف ہوں“۔ (تدبر قرآن)  

لیکن ترجمہ کرتے ہوئے بعض لوگوں کی طرح خود وہ بھی اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھ سکے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:

(۱)  وَیَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ۔  (النحل: 90)

”اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور بے حیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور روکتا ہے بے حیائی، برائی اور سرکشی سے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے“۔ (سید مودودی، ترتیب الٹ گئی بے حیائی و بدی ہونا چاہیے تھا)

(۲)  إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ۔ (العنکبوت: 45)

”یقینا ً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے“۔ (سید مودودی)

”بے شک نماز بے حیائی اور منکر سے روکتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے“۔ (جوادی، یہاں ترتیب الٹ گئی، بدکاری اور برائی ہونا چاہیے تھا)

(۳) وَتَأْتُونَ فِی نَادِیکُمُ الْمُنکَرَ۔ (العنکبوت:29)

”اور اپنی مجلسوں میں بُرے کام کرتے ہو“۔ (سید مودودی)

”اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اپنی مجلسوں میں بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخر کے دونوں ترجموں میں بے حیائی کے بجائے برائی ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ لفظ منکر آیا ہے نہ کہ فحشاء۔

(279)  ارتیاب کا ترجمہ

ارتیاب ایک انفعالی کیفیت (شک میں پڑنے) کا نام ہے، جب کہ ارابة ایک فعل ہوتا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے شک کرنا شک پیدا کرنا۔ درج ذیل مقامات پرارتیاب آیا ہے جس کا زیادہ مناسب ترجمہ شک ہونا یا شک میں پڑنا ہے، نہ کہ شک کرنا، شک لانا یا مین میکھ نکالنا وغیرہ۔  

(۱)   وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ۔ (العنکبوت: 48)

”(اے نبیؐ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے“۔ (سید مودودی)

”یوں ہوتا تو باطل ضرور شک لاتے“۔ (احمد رضا خان)

”ایسا ہوتا تو اہلِ باطل ضرور شک کرتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ایسا ہوتا تو یہ جھٹلانے والے مین میکھ نکالتے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲) إِنَّمَا یَسْتَأْذِنُکَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُہُمْ فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ۔ (التوبۃ: 45)

”ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ سو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس آیت کے آخری جزء فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ کا ترجمہ حسب ذیل کیا ہے:

”وہ اپنے شک کی حالت میں پیچ وتاب کھارہے ہیں“۔

(۳)  أَفِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا۔  (النور: 50)

”کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟“۔ (سید مودودی)

(۴)  وَارْتَبْتُمْ۔ (الحدید: 14)

”اور (اسلام میں) شک کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور شک و شبہ کرتے رہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور شک میں پڑے رہے“۔ (سید مودودی)

(۵) وَاللَّاثِی یَثِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِن نِّسَاءِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثۃَ أَشْہُرٍ۔ (الطلاق: 4)

”تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو گئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۶)  ذَٰلِکُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ وَأَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَأَدْنَیٰ أَلَّا تَرْتَابُوا۔ (البقرۃ: 282)

”یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہ بھی نہیں پڑے گا“۔(فتح محمد جالندھری)

(۷)  وَلَا یَرْتَابَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ۔  (المدثر: 31)

”اور اہل کتاب اور مومن شک نہ لائیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اہل کتاب اور اہل ایمان شک نہ کریں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور کتاب والوں اور مسلمانوں کو کوئی شک نہ رہے“۔ (احمد رضا خان)

(۸)  إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا۔ (الحجرات: 15)

”حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا“۔ (سید مودودی)

”مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک وشبہ نہ کریں“۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ فعل ماضی کی بجائے فعل مضارع کا ترجمہ کردیا)

”پھر شک نہ کیا“۔ (احمد رضا خان)

”پھر شک میں نہ پڑے“۔ (فتح محمد جالندھری)


قرآن / علوم القرآن

(اکتوبر ۲۰۲۱ء)

اکتوبر ۲۰۲۱ء

جلد ۳۲ ۔ شمارہ ۱۰

عدت کے شرعی احکام : چند ضروری توضیحات
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۱)
ڈاکٹر محی الدین غازی

مطالعہ جامع ترمذی (۵)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۳)
مولانا سمیع اللہ سعدی

قومی زبان — عدالتِ عظمٰی اور بیوروکریسی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عشرہ دفاعِ وطن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام کے عہد اول میں فکری انقلاب
بیرسٹر ظفر اللہ خان

تلاش

Flag Counter