تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں

اہل ایمان پر اللہ رب العزت کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی فکری اصلاح کے لیے انبیاء کرام کی سیرت اور ان کا کردار قرآن حکیم میں محفوظ فرما دیا ہے۔ تمام انبیاء کرام کی شخصیت اور ان کے کردار کو مختلف اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد یہ کہ اہل ایمان اپنی سیرت و کردار اور شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہیں۔

سیدنا ابراہیمؑ کی سیرت اور ان کی شخصیت کو جس اسلوب کے ساتھ قرآن حکیم پیش کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین ان صفات کو اہل ایمان میں دیکھنا چاہتے ہیں، اسی بنیاد پر ان کی سیرت کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ آج کا انسان اپنی فکر اور تعمیر شخصیت کے لیے مختلف راستے اختیار کرتا ہے، کبھی کسی کے فلسفے سے متاثر ہو کر اس کے پیچھے چل پڑتا ہے، سفر کے دوران معلوم ہوتا ہے یہ فلسفہ قابل عمل نہیں ہے، کوئی شخص کسی کی دل نشین گفتگو سن کر اس کی اتباع کی ٹھان لیتا ہے، لیکن اس کو صرف گفتار کا غازی دیکھ پلٹ جاتا ہے۔ لیکن قرآن حکیم نے انبیاء کرام کی عملی زندگی کو انسانیت کے سامنے پیش کیا ہے کہ تاکہ اہل ایمان اپنے سامنے ان کی عملی زندگی دیکھ کر اپنی شخصیت کی تعمیر کر سکیں۔

قرآن حکیم میں سیدنا ابراہیمؑ کا 69 مرتبہ ذکر کیا گیا ہے جو 17 پاروں پر محیط ہے۔ حضرت موسیؑ کے بعد آپؑ کا تکرار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد یہ کہ ان کی اعلی شخصیت و کردار اہل ایمان کے ذہنوں میں تازہ رہے اور وہ ان کو اپنے لیے مثال بناتے ہوئے زندگی بسر کر سکیں۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الانعام میں حضرت ابراہیمؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ، داؤدؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ، یوسفؑ، موسیؑ، ہارونؑ، زکریاؑ، یحییؑ، عیسیؑ، الیاسؑ، اسماعیلؑ، یسعؑ، یونسؑ، لوطؑ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: أولئک الذین ھدی اللہ فبہداھم اقتدہ- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! یہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو۔ گویا کہ انبیاء کرام کی زندگی اور ان کی شخصیت ہی انسان کو راہ راست پر گامزن کر سکتی ہے جس کی سند اللہ نے جاری کی ہے۔

قرآن حکیم میں سیدنا ابراہیمؑ کی متعدد صفات بیان کی گئی ہیں، جس کو اپنا کر بندہ مؤمن اپنی شخصیت کو احسن انداز میں تعمیر کر سکتا ہے۔ ذیل میں تفصیل کے ساتھ آپؑ کی صفات پیش کی جا رہی ہیں۔

امت کے کمالات کا پیکر

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ان ابراہیم کان امۃ: ابراہیمؑ امت تھے۔ امام قرطبیؒ نے امہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد: الرجل الجامع للخیر، ایک فرد امت کے کمالات کا پیکر ہو۔ اسی آیت کے ذیل میں امام قرطبی نے ابن مسعودؓ کا قول نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ: معاذؓ امہ اور اللہ کے فرمانبردار تھے۔ ان سے کہا گیا کہ اے ابو عبد الرحمن: قرآن میں یہ صفت تو حضرت ابراہیمؑ کی ذکر گئی ہے۔ آپؓ نے فرمایا: امہ سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والا ہو۔ گویا معلوم ہوا کہ ابن مسعودؓ نے امہ کا یہ مفہوم ذکر کیا ہے کہ امۃ وہ شخص ہے جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والا ہو۔

تفسیر ابن کثیر میں ابن عمرؓ کا قول نقل کیا گیا ہے کہ امۃ سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے دین کی تعلیم دینے والا ہو۔ اسی طرح امام مجاہدؒ کے نزدیک امہ سے مراد تنے تنہا ایمان کی راہ پر چلنا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ تنے تنہا توحید کا علم لے کر اٹھے اور اس پر قائم رہے جبکہ باقی لوگ کفر کی راہ پر گامزن تھے۔

آپؑ کی خصوصیات میں سے یہ ایک خاصیت اس امر پر آمادہ کرتی ہے کہ انسان کے پاس اللہ کی سب سے بڑی نعمت زندگی ہے، اس زندگی کو خیر کی اشاعت کے لیے وقف کرنا اور اپنی شخصیت کو اس نہج پر تعمیر کرنا کہ اس سے بھلائی اور خیر کا پیغام پھیلے۔ اسی طرح آپؑ کی یہ صفت اس امر کی دعوت دیتی ہے کہ جب حق معلوم ہو جائے تو اس کو تھام لو اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی مکمل کوشش کی جائے۔ چاہے لوگ کسی دوسرے راستے کے راہی ہوں، چاہے حق کے راستے پر کتنی ہی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے، لیکن اس راستے کو ترک نہیں کرنا چاہیے، چاہے آپ اکیلے ہی کیوں نہ ہوں۔ ہر دور کے انسانوں لیے سیدنا ابراہیمؑ کی یہ صفت قابلِ عمل ہے اور اسی سے انسان ہر میدان میں مضبوط ہو سکتا ہے۔ آئیے اس امر کا عزم کرتے ہیں کہ اپنے وجود سے مساجد، مدارس، یونیورسٹیرز، اسکولز، گھروں، بازاروں، عدالتوں، پارلیمنٹ وغیرہ میں خیر کی اشاعت کا پیکر بن جائیں۔

مالکِ کائنات کا مُسلِم

اللہ تعالیٰ نے ان کی دوسری صفت یہ بیان کی ہے کہ انہوں نے اپنے رب کے سامنے یک سوئی کے ساتھ سر اطاعت خم کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسی خاصیت ہے جسے اللہ بہت زیادہ پسند فرماتے ہیں، اور اس عمل میں جتنی پختگی ہوگی اس کی مدد و نصرت ہر وقت شامل حال رہے گی۔ قرآن حکیم میں آپؑ کی اس صفت کو مختلف اسلوب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس کی تفصیل ذیل ہے:

ارشاد باری تعالیٰ ہے: إذ قال لہ ربہ اسلم قال أسلمت لرب العالمین (البقرۃ 131) اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا، ’’مسلم ہوجا‘‘ تو اس نے فورا‌ کہا ’’میں مالک کائنات کا مسلم ہو گیا‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا أمۃ مسلمۃ لک (البقرۃ 128) اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ما کان ابراھیم یہودیا و لا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما و ما کان من المشرکین (آل عمران 67) ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا، اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: إنی وجہت وجہی للذی فطر السماوات والارض حنیفا‌ وما أنا من المشرکین (الانعام 79) میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

ان آیات مبارکہ میں آپؑ کی شخصیت کا اہم حصہ یہ ذکر کیا گیا کہ انہوں نے اپنے وجود کو اپنے خالق کے لیے وقف کر دیا تھا، اسی بنیاد پر رب العالمین نے ان کی تعریف ان الفاظ میں کی: وإذ ابتلی إبراھیم ربہ بکلمات فأتمہن قال إنی جاعلک للناس إماما (البقرۃ 124) یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا 124 اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔

اسی طرح آپؑ نے بیٹے کو خواب میں ذبح کرنے کے عمل کو حقیقت میں مکمل کرنے کی مکمل تیاری کر لی تو آسمان سے صدا آئی: فلما أسلما وتلہ للجبین، ونادیناہ أن یا إبراھیم، قد صدقت الرؤیا إنا کذلک نجزی المحسنین (الصافات 103-105) آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا، اور ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیمؑ! تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔

سیدنا ابراہیمؑ کا اپنے رب کے ساتھ مضبوط تعلق اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ ایک انسان جب اسلام کے دائرے میں آجاتا ہے تو اس کا مطلب ہے اس نے اپنے آپ کو اللہ رب العالمین کے حوالے کر دیا ہے، اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اسی سے امیدیں وابستہ کرے، اسی کے سامنے سربسجدہ رہے اور اس کے علاوہ تمام خداؤں سے لاتعلقی کا اظہار کرے۔ اور یہ اس لیے ہو کہ مؤمنین کے بارے میں اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ 111)

لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان انفرادی و اجتماعی سطح پر اس اہم صفت کو اپنانے میں کمزور نظر آتا ہے، جس کے سبب ہم متعدد مسائل و مشاکل کا شکار ہیں۔ اسی فکر کی تجدید کے لیے ہر سال سیرت ابراہیمؑ کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ اہل ایمان ان کی مانند یکسوئی کے ساتھ اپنے رب سے تعلق مضبوط کریں، اور اسی کا ہو کر رہنے کا داعیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔

عصر حاضر میں تعلق باللہ اور اللہ کے فیصلوں پر کامل یقین کی اعلی و ارفع مثال اہل غزہ و مجاہدین کی صورت میں موجود ہے، جو 570 دن سے زائد عرصے سے قابض و غاصب اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں، اور اپنے رب کے راستے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے حسبی اللہ و نعم الوکیل نعم المولیٰ ونعم النصیر کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔ ان کا یہ عمل امت مسلمہ کو بالخصوص اور پورے عالم کو بالعموم یہ دعوت دے رہا ہے کہ اللہ ہی واحد حاکم ہے جس کے قبضہ قدرت میں پوری کائنات کا نظام ہے۔ اسی فکر کو مولانا محمد علی جوہرؒ نے اس شعر میں پرویا ہے:

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے تھا

اللہ کی فرمانبرداری کا سراپا

قرآن حکیم میں سیدنا ابراہیمؑ کی تیسری صفت ’’قانت اللہ‘‘ ذکر کی گئی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپؑ نے کامل اللہ کی فرمانبرداری اختیاری کر لی تھی۔ اللہ رب العالمین کو آپؑ کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اس کو قرآن حکیم کا حصہ بنا دیا، تاکہ قرآن کا قاری اپنے آپ کو سراپا اطاعت کا پیکر بنا سکے۔ اللہ رب العالمین نے زمین و سماں میں موجود اشیاء کے بارے میں فرمایا: ولہ من فی السماوات والأرض کل لہ قانتون (النحل 26) آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب اس کے بندے ہیں، سب اسی کے پاس تابع ہیں۔ اس آیت میں اس امر کی صراحت کی گئی ہے کائنات کی ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے اور سب اسی کے حکم کی تعمیل میں کار فرما ہیں۔ 

بنیادی طور پر یہ بات انسان کے ذہن نشین کروائی جا رہی ہے کہ جب پوری کائنات اپنے خالق کا امر مکمل کرنے پر کاربند ہے، اور اسی کے حکم کے مکمل کرنے پر کارفرما ہے تو انسان اپنے اختیار کا غلط فائدہ نہ اٹھائے کہ اپنے رب کی بندگی ترک کر کے کسی اور کی بندگی شروع کر دے، جبکہ چار و ناچار سب اس کی اطاعت میں مصروف ہیں۔ ایسے لوگ جو اللہ کے دین سے جی چراتے اور اس پر عمل کرنے کے حوالے سے شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں، اس کے علاوہ کسی اور کو رب ماننے اور اس کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے کے خواہاں ہوتے ہیں، ان کو اس انداز میں سمجھایا گیا کہ : أفغیر دین اللہ یبغون ولہ أسلم من فی السماوات والارض طوعا وکرھا وإلیہ یرجعون (آل عمران 83) اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کے تابع ہیں، اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وقالوا اتخذ اللہ ولدا سبحانہ بل لہ ما فی السماوات والأرض کل لہ قانتون (البقرۃ 116) اور ان کا قول ہے کہ اللہ نے کی کو بیٹا بنایا ہے۔ اللہ پاک ہے ان باتوں سے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں، سب اس کے مطیع فرمان ہیں۔

مالک کائنات کو یہ خاصیت اتنی محبوب ہے کہ اس کے حامل اہل ایمان کی تعریف کی گئی ہے، تاکہ اہل ایمان اس خاصیت کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: إن المسلمین والمسلمات والمؤمنین والمؤمنات والقانتین والقانتات — أعد اللہ لہم مغفرۃ وأجرا عظیما (الاحزاب 35) یقینا‌ جو مرد و عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجرا تیار کر رکھا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اللہ عز و جل کی راہ میں جہاد کے برابر کون سا عمل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تم اس کی استطاعت نہیں رکھتے‘‘۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: صحابہ نے دو یا تین بار سوال دہرایا، آپ نے ہر بار فرمایا: ’’تم اس کی استطاعت نہیں رکھتے‘‘۔ تیسری بار فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو روزہ دار ہو، اللہ کے سامنے اس کی آیات کے ساتھ زاری کر رہا ہو، وہ اس وقت تک نہ روزے میں وقفہ آنے دے، نہ نماز میں یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا واپس آ جائے‘‘۔ (صحیح مسلم 4869)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ پوری خلق چار و ناچار اللہ کی اطاعت اور حکم کی پابند ہے، گویا پوری خلق انسان کو دعوت دے رہی ہے کہ اللہ ہی اس کائنات کا حقیقی مالک ہے اس کی اطاعت میں ہی زندگی بسر کی جائے، اس کی اطاعت سے منہ موڑنے میں انسان ناکامی کے دہانے پر کھڑا رہتا ہے۔ آج کا انسان آزادئ اظہار رائے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر اپنے خالق کی اطاعت سے باہر نکل جاتا ہے، انفرادی و اجتماعی سطح اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں مختلف مسائل و مشاکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیرتِ ابراہیمیؑ اس امر کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ خالص اللہ کی اطاعت اور اس بندگی ہی میں زندگی بسر کرنے میں ہی انسانی معاشرہ حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔

حلیم و بردبار شخصیت

آپؑ کی ایک صفت حلیم بیان کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: إن إبراھیم لحلیم أواہ منیب (ہود 75) بے شک ابراہیم بڑے بردبار ’نرم دل‘ خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ حلم و بردباری انسانی شخصیت کے وقار میں اضافہ کرتی ہے، اور اس کے سبب انسانی معاشرے میں کئی مسائل از خود ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبدالقیس سے فرمایا: ’’تم میں دو خوبیاں ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے: حلم اور طبیعت میں ٹھہراؤ۔‘‘(صحیح مسلم 117)

دلِ گرویدہ کا حامِل

اسی طرح آپؑ کے بارے میں قرآن اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ’’منیب ‘‘ تھے، کہ ہر معاملے میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: إن إبراھیم لحلیم أواہ منیب (ہود 75) قرآن حکیم میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس قرآن سے وہی شخص نصیحت حاصل کر سکتا ہے جو اپنے رب کی پلٹنے اور اس کی رجوع کرنے کی تڑپ رکھتا ہو۔ اسی طرح سورہ ق میں متقین کو جنت کی بشارت دی گئی، اس میں داخل ہونے کی بہت ہی دل نشین انداز میں منظر کشی کرتے ہوئے اللہ رب العالمین نے اس میں داخل ہونے افراد کی خصوصیات میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: من خشی الرحمٰن بالغیب وجآء بقلب منیب (ق 33) جو بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتا تھا، اور جو دل گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔

قلب منیب کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: اصل الفاظ ہیں ’’قلب منیب‘‘ لے کر آیا ہے۔ منیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رخ کرنے اور بار بار اسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جیسے قطب نما کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی بلائیں جلائیں، وہ ہر پھر کر قطب ہی کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو احوال بھی اس پر گزرے ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا۔ اسی مفہوم کو ہم نے دل گرویدہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اسی کا ہو کر رہ جائے۔

درج بالا صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کا اسوہ آج بھی تعمیر سیرت میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ یہی سیرتِ ابراہیمؑ کا پیغام ہے۔

(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter