(486) وَإِذْ قَالَتْ أمَّةٌ مِنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا
اصحاب سبت کے واقعہ کے سلسلے میں جب درج ذیل تین آیتوں پر غور کریں تو تین سوالات سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں بنی اسرائیل کے کتنے گروہوں کا ذکر ہے، دوسرا یہ کہ عذاب کن گروہوں پر آیا اور تیسرا یہ کہ عذاب کتنی بار آیا۔ ان سوالوں کا جواب لوگوں نے ترجمے میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ۔ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ أَنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ۔ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُہُوا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ۔ (الاعراف: 164 - 166)
”اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ”تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے“ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخرکارجب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار“۔ (سید مودودی، اس ترجمے کی رو سے تین گروہ تھے، ایک نافرمانی کرنے والے، دوسرے خاموشی اختیار کرنے والے اور تیسرے برائی سے روکنے والے۔ اول الذکر دو گروہوں پر عذاب آیا اور دو بار عذاب آیا۔)
”اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت کرسکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں۔ جب انہوں نے ان باتوں کو فراموش کردیا جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو جو لوگ برائی سے منع کرتے تھے ان کو ہم نے نجات دی اور جو ظلم کرتے تھے ان کو برے عذاب میں پکڑ لیا کہ نافرمانی کئے جاتے تھے۔ غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پراصرار اور ہمارے حکم سے) گردن کشی کرنے لگے تو ہم نے ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر ہوجاؤ“۔ (فتح محمد جالندھری، اس ترجمے کی رو سے عذاب ایک بار آیا)
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلی آیت میں أُمَّةٌ مِنْہُمْ کہہ کر ایک ہی گروہ کا ذکر ہوا ہے۔ اس گروہ نے یہ بات اپنے سے مختلف کسی دوسرے گروہ سے کہی تھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ یہ ایک گروہ کی باہم گفتگو ہو۔ اللَّہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیدًا کی تعبیر بتارہی ہے کہ یہ بات کہنے والے اللہ کے عذاب کے سلسلے میں گہرا شعور رکھتے تھے، اللہ کے عذاب سے لاپروا قسم کے لوگ نہیں تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی قوم کی نافرمانیوں سے شدید نفرت اور بیزاری بھی رکھتے تھے اور ان کے عمل سے قطعًا راضی نہیں تھے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ اس قوم کی نافرمانیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کی باہمی گفتگو ہے۔ اس تحریک کے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ اب ماننے والے نہیں ہیں انھیں سمجھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، اب اللہ کا عذاب ان کا مقدر ہوچکا ہے، اس پر ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ہی وہ سب لوگ یکسو ہوگئے۔
اصلاحی تحریکوں کے طویل سفر کے دوران اس طرح کے سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ کوششوں کو جاری رکھنے کی افادیت پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ تحریکوں کی استقامت اسی میں ہوتی ہے کہ اس کے افراد ان سوالوں کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کو مطمئن کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھنے کے موقف پر جمے رہیں۔
اگر یہ طے ہوجاتا ہے کہ پہلی آیت میں جس گفتگو کا ذکر ہے وہ مصلح گروہ کی آپس کی گفتگو ہے۔ تو یہ بات بھی طے ہوجاتی ہے اس پورے قصے میں دو ہی گروہ تھے ایک مصلحین کا اور دوسرا فاسقین کا، اسی کے ساتھ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ دوسری آیت میں جس عذاب کا ذکر آیا ہے وہ نافرمانی کرنے والے گروہ پر نازل ہوا، کسی اور پر نہیں۔ کیوں کہ وہاں دو ہی گروہ تھے، ایک نافرمانوں کا اور دوسرا مصلحین کا۔ نافرمانی پر خاموشی اختیار کرنے والوں کا گروہ تھا ہی نہیں۔
عذاب صرف نافرمانوں پر نازل ہوا، اس کے لیے عذاب کے مستحقین کے سلسلے میں ان آیتوں میں مذکور تعبیرات خود واضح دلیل ہیں:
(۱) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ، (۲) الَّذِینَ ظَلَمُوا، (۳) کَانُوا یَفْسُقُونَ، (۴) عَتَوْا عَنْ مَا نُہُوا عَنْہُ، یہ چاروں تعبیریں انہی لوگوں پر چسپاں ہوتی ہیں جو نافرمانی کا ارتکاب کررہے تھے۔ چاروں تعبیروں میں سے کسی کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا جو نافرمانوں کو نصیحت کرنے کی افادیت محسوس نہ کریں۔
جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے کہ عذاب ایک بار آیا یا دو قسطوں میں آیا، تو اس سلسلے میں بھی یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عذاب ایک بار آیا، پہلی آیت میں اس کی شدت کو بتایا گیا اور دوسری آیت میں اس کی تفصیلات بیان کردی گئیں۔ یہاں فلمّا کی تکرار لفظی ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ وہ واقعہ دو بار پیش آیا۔ اللہ کا سخت عذاب آجانے کے بعد بھی ان لوگوں کو اپنی روش پر قائم رہنے کا موقع ملے، یہ بعید از قیاس بات ہے۔
ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ ہوگا:
”اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے (آپس میں کہا) کہ ”تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے“ تو انہوں نے کہا انھیں نصیحت کرتے رہو اپنے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے اور اس امید پر کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخرکارجب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کرگئے جن سے ان کی یاددہانی کی گئی تھی تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور ان لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ تو جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہوجاؤ ذلیل اور خوار“۔
مَعْذِرَةً إِلَی رَبِّکُمْ میں ضمیر مخاطب کم آئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بارے میں بات نہیں بلکہ مخاطب کے بارے میں بات ہے۔ اس لیے مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ کرتے ہیں:”یہ کام کئے جاؤ اپنے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے“، جب کہ دوسرے لوگ ترجمہ کرتے ہیں: ”ہم یہ کام کررہے ہیں تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے“۔ لیکن اس ترجمے سے اس کی توجیہ نہیں ہوپاتی ہے کہ متکلم کی ضمیر کے بجائے مخاطب کی ضمیر کیوں آئی ہے۔
(487) فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ
حرج کا لفظ اپنے اندر ایک طرز کے متعدد معانی کے لیے وسعت رکھتا ہے۔ درج ذیل آیت میں لوگوں نے اس کا ترجمہ کرنے کے لیے مختلف تعبیرات اختیار کی ہیں، جیسے جھجک، رکاوٹ، تنگی، پریشانی، وغیرہ:
کِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ۔ (الاعراف: 2)
”یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو“۔ (سید مودودی)
”اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی تو تمہارا جی اس سے نہ رُکے“۔ (احمد رضا خان)
”(اے محمدﷺ) یہ کتاب (جو) تم پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے تمہیں تنگ دل نہیں ہونا چاہیے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”یہ کتاب ہے جو تمہاری طرف اتاری گئی ہے تو اس کے باعث تمہارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے یہاں حرج کے لیے ’الجھن‘ کا لفظ تجویز کیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اس کتاب کو لے کر تم کسی الجھن میں گرفتار نہ رہو۔ دیگر تعبیرات کے مقابلے میں یہ تعبیر موزوں تر معلوم ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں صدر کا لفظ آیا ہے۔ اس کا ترجمہ دل نہیں بلکہ سینہ ہونا چاہیے۔ عام طور سے لوگوں نے دل ترجمہ کیا ہے۔
(488) وَلِلَّہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی
وَلِلَّہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَاءِہِ۔ (الاعراف: 180)
”اور اللہ کے لیے تو صرف اچھی ہی صفتیں ہیں تو انہیں سے اس کو پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑو جو اس کی صفات کے باب میں کجروی اختیار کر رہے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
اس جملے میں حصر کا اثر لفظ ’َلِلَّہِ‘ پر ہے۔ یعنی اللہ کے لیے ہی اچھے نام ہیں۔ نام کا ترجمہ صفت کرنا بھی محل نظر ہے۔
”اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں“۔ (سید مودودی)
’اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے‘ ایک تو حصر کا اظہار نہیں ہوا، دوسرے ’مستحق‘ کا لفظ یہاں موزوں نہیں ہے۔ درست ترجمہ ہوگا: ”اللہ کے لیے ہی اچھے نام ہیں“۔ فِی أَسْمَاءِہِ کا ترجمہ ”نام رکھنے“ میں مناسب نہیں ہے۔ عمومی بات ہے کہ جو ”اللہ کے ناموں میں راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں“۔
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
”اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
(489) بدّل شیئا غیر شیء کا اسلوب
یہ اسلوب قرآن مجید میں آیا ہے، اس اسلوب میں غیر کا ترجمہ سوا، علاوہ اور خلاف موزوں نہیں ہے، بلکہ اور یا دیگر مناسب ہے۔ یعنی جو چیز پہلے سے ہے اس کی جگہ دوسری چیز لے آنا۔ غیر کو دیکھ کر جب سوا وغیرہ جیسے الفاظ لائے جاتے ہیں تو ترجمہ غیر ضروری طور پر بوجھل ہوجاتا ہے۔
(۱) کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُودًا غَیْرَہَا۔ (النساء: 56)
”جس وقت پک جاوے گی کھال ان کی، بدل کر دیں گے ان کو اور کھال“۔ (شاہ عبدالقادر)
”جب کبھی ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں انہیں بدل دیں گے“۔ (احمد رضا خان)
”جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
آخری دونوں ترجموں میں ’سوا‘ لانے سے ترجمہ بوجھل ہورہا ہے۔
(۲) یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ۔ (ابراہیم: 48)
”جس دن بدلی جاوے اس زمین سے اور زمین“۔ (شاہ عبدالقادر)
”جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا“۔ (احمد رضا خان)
یہاں بھی آخری دونوں ترجموں میں ’سوا‘ لانے سے ترجمہ بوجھل ہورہا ہے۔
مذکورہ بالا آیتوں کی طرح درج ذیل دونوں آیتوں میں بھی یہی مراد ہے کہ جو بات کہی گئی تھی اس کی جگہ وہ دوسری بات لے آئے۔ شاہ عبدالقادر نے درج ذیل دونوں آیتوں میں ’سوائے‘ کا غیر ضروری استعمال کرلیا، جس سے انھوں نے اوپر کے دونوں مقامات پر احتراز کیا تھا۔
(۳) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ۔ (البقرۃ: 59)
”پر بدل لی بے انصافوں نے اور بات سوائے اس کے جو کہہ دی تھی ان کو“۔ (شاہ عبدالقادر)
”تو جو ظالم تھے، انہوں نے اس لفظ کو، جس کا ان کو حکم دیا تھا، بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا“۔(فتح محمد جالندھری، قول کا ترجمہ بات ہونا چاہیے، ’لفظ‘ موزوں نہیں ہے۔ ’کہنا شروع کیا‘ بھی زائد از عبارت ہے،یہاں صرف ایک بات کو دوسری بات سے بدلنے کا ذکر ہے۔)
”مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا“۔ (سید مودودی)
”پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی“۔ (محمد جوناگڑھی)
درج بالا دونوں ترجموں کے سلسلے میں عرض ہے کہ عبارت کی رو سے جو بات کہی تھی اس کو بدلنا مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کی جگہ ایک دوسری بات کو لے آنا مراد ہے۔
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
”تو جنہوں نے ظلم کیا انہوں نے بدل دیا اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی دوسری بات سے“۔ (امین احسن اصلاحی)
(۴) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ۔ (الاعراف: 162)
”سو بدل لیا بے انصافوں نے ان میں سے اور لفظ سوائے اس کے جو کہہ دیا تھا“۔ (شاہ عبدالقادر)
”سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے فرمائش کی گئی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی، عبارت کے اسلوب کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے ترجمہ کتنا کم زور ہوگیا۔)
”مگر جو لوگ اُن میں سے ظالم تھے اُنہوں نے اُس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی بدل ڈالا“۔ (سید مودودی، بات کو نہیں بدلا، اس کی جگہ دوسری بات لے آئے۔)
”تو ان میں کے ظالموں نے بات بدل دی اس کے خلاف جس کا انہیں حکم تھا“۔ (احمد رضا خان، غیر کی وجہ سے ’خلاف‘ لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ایک بات کی جگہ دوسری اس سے مختلف بات لانا مراد ہے۔)
”مگر جو ان میں ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا“۔ (فتح محمد جالندھری، یہاں بھی وہی تسامح ہے)
”تو ان میں سے ان لوگوں نے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اس کو بدل دیا کہی ہوئی بات سے مختلف بات سے“۔ (امین احسن اصلاحی، ’اس کو بدل دیا‘ نہیں بلکہ کہی ہوئی بات کو بدل دیا مختلف بات سے۔)