(588) باء کا ترجمہ
قرآن مجید میں باء بغضب جیسی عبارتوں کے عام طور سے تین طرح ترجمے کیے گئے ہیں۔ مستحق ہونا، گھِر جانا، مبتلا اور گرفتار ہوجانا۔ باء کے سلسلے میں لغت کی تحقیقات اور استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ باء کے اندر واقع ہوجانے کا مفہوم ہوتا ہے نہ کہ محض مستحق ہونے یا گھِر جانے کا۔
باء یبوء کا مطلب ہوتا ہے لوٹنا۔ بائَ إِلَی الشَّیْئِ یَبُوئُ بَوْء اً: رَجَعَ۔(لسان العرب)
یہ فعل جب ب کے ساتھ آتا ہے تو باء بشیء میں رجع بشیء کی طرح کسی چیز کے ساتھ لوٹنے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ استعمالات کی سطح پر باء بشیء میں سے لوٹنے کا مفہوم خارج ہوگیا اور کسی چیز میں مبتلا ہونے اور گرفتار ہونے کا مفہوم رائج ہوگیا۔
لسان العرب میں ہے: وبائَ بذَنْبِہ وبإِثْمِہ یَبُوئُ بَوْءاً وبَواءً: احتمَلہ وَصَارَ المُذْنِبُ مأْوَی الذَّنب۔
قرآن اور عربی زبان کے بڑے عالم اخفش کہتے ہیں:
وأما قولہ، وَبَآئُ و بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّہ یقول: رَجَعُوا بِہِ أی صار علیہم، وتقول: باء بِذَنْبِہِ یَبُوئُ بَوْءاً. وقال: إِنِّی أُرِیدُ أَن تَبُوئَ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ، مثلہ۔ (معانی القرآن)
اسی طرح مفسر و ماہر لغت زجاج کہتے ہیں:
یقال بْؤت بکذا وکذا أی احتملتہ۔ (معانی القرآن)
البتہ یہاں زمخشری نے کچھ دور کی تاویل کی اور مستحق ہونے کا مفہوم نکالنے کی کوشش کی، وہ لکھتے ہیں:
وَبَآئُ و بِغَضَبٍ مِنَ اللَّہِ من قولک: باء فلان بفلان، إذا کان حقیقاً بأن یقتل بہ، لمساواتہ لہ ومکافأتہ، أی صاروا أحقاء بغضبہ۔ (الکشاف)
لیکن زمخشری نے جو مثال دی ہے یعنی باء فلان بفلان اس میں مستحق ہونے کی بات نہیں بلکہ برابری پائے جانے کی بات ہے۔ یہاں قتل کے معاملے میں برابری کی بات ہے۔ بواء کا معنی برابری ہوتا ہے، لسان العرب میں ہے: وبائَ فُلانٌ بِفُلانٍ بَوائً، مَمْدُودٌ، وأَبائَ ہ وباوَأَہ: إِذَا قُتِل بِہِ وَصَارَ دَمُہ بِدَمِہ۔ یعنی وہ فلاں کے بدلے قتل ہوا اور معاملہ برابری سے نپٹ گیا۔
قرآنی استعمالات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ قرآن میں باء (ثلاثی مجرد) ہر جگہ شر میں مبتلا ہونے کے لیے آیا ہے۔ اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صرف شر کے سیاق میں آتا ہے۔ ابو حیان کہتے ہیں: وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: بَائَ لَا تَجِیئُ إِلَّا فِی الشَّرِّ۔ (البحر المحیط)
البتہ اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ باء جب مبتلا ہونے کے معنی میں آتا ہے تو شر کے سیاق میں آتا ہے۔ جیسے باء بالفشل اور باء بالخیبۃ۔ البتہ باء جب اقرار و اعتراف کرنے کے معنی میں آتا ہے تو شر اور خیر دونوں کے سیاق میں آتا ہے۔ جیسے مشہور حدیث ہے: أَبُوئُ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوئُ بِذَنْبِی۔
درج ذیل آیتوں کے ترجموں میں ہمیں مختلف طرح کی باتیں ملتی ہیں۔ کہیں مستحق یا سزاوار ہونا ترجمہ کیا گیا ہے۔ مستحق ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ابھی وہ ان پر واقع نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح گھِر جانا بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔ گھِر جانے میں بھی واقع ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ جب کہ لغت کے لحاظ سے باء کا مطلب ہے کہ وہ چیز مذکورہ شخص یا گروہ پر واقع ہوگئی ہے۔ جیسے باء بالفشل کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ناکام ہوگیا۔ بعض مقامات پر بعض لوگوں نے لوٹنا یا پلٹنا بھی ترجمہ کیا ہے۔ حالاں کہ لوٹنے اور پلٹنے کا نہ وہاں مفہوم ہے اور نہ اس کا محل ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے باء بالفشل کی مثال مدد کرتی ہے۔ اس میں بھی لوٹنے یا پلٹنے کا مفہوم نہیں بس ناکام ہوجانے کا مفہوم ہے۔
اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل آیتوں کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
(۱) وَبَائُ وا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّہِ۔ (البقرۃ: 61)
’’اورمستحق ہوگئے غضب الٰہی کے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اور خدا کے غضب میں لوٹے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور اللہ تعالی کا غضب لے کر وہ لوٹے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور کمالائے غصہ اللہ کا‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گئے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
آخری دونوں ترجمے مناسب ہیں۔
(۲) فَبَائُ وا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ۔ (البقرۃ: 90)
’’پس وہ اللہ کا غضب در غضب لے کر لوٹے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’لہٰذا اب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’تو غضب پر غضب کے سزاوار ہوئے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اس کے باعث یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’سو کمالائے غصے پر غصہ‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’تو وہ (اس کے) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہو گئے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
آخری دونوں ترجمے مناسب ہیں۔
(۳) وَبَائُ وا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 112)
’’یہ غضبِ الٰہی میں رہیں گے‘‘۔ (ذیشان جوادی، مستقبل کا ترجمہ درست نہیں ہے، یہاں فعل ماضی ہے۔)
’’یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’یہ غضب الٰہی کے مستحق ہو گئے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور کمالائے غصہ اللہ کا‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور یہ لوگ خدا کے غضب میں گرفتار ہیں‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
آخری دونوں ترجمے مناسب ہیں۔
(۴) أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّہِ کَمَنْ بَائَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 162)
’’بھلا وہ شخص جو ہمیشہ خدا کی رضا پر چلنے والا ہو۔ وہ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو خدا کے غضب میں گھر گیا ہو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’کیا پس وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے درپے ہے، اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے؟‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’سو ایسا شخص جو کہ رضائے حق کا تابع ہو، کیا وہ اس شخص کے مثل ہوجاوے گا جو کہ غضب الٰہی کا مستحق ہو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’کیا ایک شخص جو تابع ہے اللہ کی مرضی کابرابر ہے اس کے جو کمالایا غصہ اللہ کا‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’تو کیا جو اللہ کی مرضی پر چلا وہ اس جیسا ہوگا جس نے اللہ کا غضب اوڑھا‘‘۔ (احمد رضا خان)
آخری دونوں ترجمے مناسب ہیں۔
(۵) وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَیِّزًا إِلَی فِئَۃٍ فَقَدْ بَائَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّہِ۔ (الانفال: 16)
’’جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری، الا یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دُوسری فوج سے جا ملنے کے لیے، تو وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائے گا‘‘۔ (سید مودودی)
’’وہ غضب الٰہی کا حق دار ہوگا‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’تو وہ اللہ کے غضب میں پلٹا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’وہ اللہ کے غضب میں آجاوے گا‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’تو (سمجھو کہ) وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
آخری دونوں ترجمے مناسب ہیں۔
(۶) إِنِّی أُرِیدُ أَنْ تَبُوئَ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ۔ (المائدۃ: 29)
’’میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اور اپنے گناہ اپنے سر پر رکھ لے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے‘‘۔ (سید مودودی)
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے اور اپنے دونوں کے گناہوں کا مرکز بن جائیے‘‘۔ (ذیشان جوادی، گناہوں کا مرکز بن جانے کی تعبیر بہت کم زور ہے۔)
(589) بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذَابِ کا ترجمہ
زحزحۃ کا مطلب ہے دور کرنا۔ والزحزحۃ: التبعید والإنحاء (الکشاف)۔ درج ذیل آیت میں عذاب سے دور کرنے کی بات ہے نہ کہ عذاب سے چھڑانے کی۔ لمبی عمر سے عذاب کو دور کرنے کی مناسبت سمجھ میں آتی ہے نہ کہ عذاب میں واقع ہوجانے کے بعد اسے چھڑانے کی۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ یُعَمَّرَ۔ (البقرۃ: 96)
’’حالانکہ لمبی عمر بہرحال اُسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی‘‘۔ (سید مودودی، دور نہیں کرسکتی ترجمہ ہوگا، نہ کہ دور نہیں پھینک سکتی۔)
’’مگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’گویا یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا ‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
یہاں’ گویا ‘ بے محل ہے۔ مذکورہ بالا ترجموں میں چھڑانا زحزح کا درست ترجمہ نہیں ہے۔
’’اور وہ اسے عذاب سے دور نہ کرے گا اتنی عمر دیا جانا‘‘۔ (احمد رضا خان، یہاں ’ھو‘ کا ترجمہ ’وہ‘ کرنا فصاحت کے خلافت ہے۔ ھو یہاں ضمیر مبہم ہے جس کا ترجمہ نہیں کیا جاتا ہے۔ )
’’حالاں کہ اگر یہ عمر بھی ان کو ملے تو بھی وہ اپنے آپ کو (خدا کے) عذاب سے بچانے والے نہیں بن سکتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمے میں کم زوری یہ ہے کہ أن یعمّر کو فاعل بنانے کے بجائے اس شخص کو فاعل بنایا گیا ہے۔ یہ ترجمہ قوی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ زحزح کا مطلب بچانا نہیں بلکہ دور کرنا ہے۔)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’حالانکہ لمبی عمر پانا بہرحال اُسے عذاب سے دور نہیں کرسکتا‘‘۔
(590) عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت کے تراجم سے یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں اور ان کے عہد حکومت میں شیاطین سحر وغیرہ پڑھتے پڑھاتے تھے۔ عام طور سے لوگ عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ کو ظرف بناتے ہیں یعنی سلیمان کی بادشاہت میں۔ ان کے نزدیک یہاں علی، فی کے معنی میں ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حضرت سلیمان کے عہد حکومت میں ایسا نہیں ہوتا تھا بلکہ بعد میں ہونے لگا۔ ان کے نزدیک یہاں تضمین ہے اور افتراء محذوف ہے جب کہ علی اس پر دلالت کررہا ہے۔ یفترون عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ۔ یعنی شیاطین جو کچھ پڑھتے پڑھاتے ہیں اسے سلیمان کی بادشاہت کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ۔ (البقرۃ: 102)
’’اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین (حضرت) سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور اس کے پیرو ہوئے جو شیطان پڑھا کرتے تھے سلطنت سلیمان کے زمانہ میں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہدِ سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور ان چیزوں کے پیچھے پڑگئے جو سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھتے پڑھاتے تھے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور لگے اُن چیزوں کی پیروی کرنے، جو شیا طین، سلیمانؑ کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے‘‘۔ (سید مودودی)
آخری ترجمہ بہتر ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’اور ان چیزوں کے پیچھے پڑگئے جو سلیمان کے عہد حکومت کی طرف منسوب کرکے شیاطین پڑھتے پڑھاتے تھے‘‘۔
(591) خَالِدِینَ فِیہَا کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں خَالِدِینَ فِیہَا سے پہلے جہنم کا یا عذاب کا ذکر نہیں بلکہ اللہ کی لعنت کا ذکر ہے۔ اس لیے ضمیر کا مرجع لعنت ہونا چاہیے۔ تاہم بعض مترجمین نے اس کا مرجع جہنم کو بنادیا ہے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
خَالِدِینَ فِیہَا۔ (البقرۃ: 162)
’’اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (سید مودودی)
’’وہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں (گرفتار) رہیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’جاودانہ در دوزخ اند‘‘ (خرمشاہی)
آخری دونوں ترجمے درست نہیں ہیں۔ دوزخ عین لعنت نہیں بلکہ لعنت کا ایک جز ہے۔
(592) إِذَا عَاہَدُوا کا ترجمہ
وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوا۔ (البقرۃ: 177)
’’اور جب معاہدہ کر بیٹھیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’معاہدہ کربیٹھیں‘ سے ایسا لگتا ہے کہ معاہدہ کرنا کوئی غلط کام ہے۔ ’معاہدہ کریں‘ درست تعبیر ہے۔
’’اور جو بھی عہد کرے اسے پورا کرے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
إِذَا عَاہَدُوا کا ترجمہ ’جو بھی عہد کرے‘ نہیں ہوگا، ’جب عہد کرے‘ ہوگا۔
’’جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
وعد اور عھد میں لطیف فرق بتایا جاتا ہے۔ اس لیے عھد کا ترجمہ وعدہ کرنے کے بجائے عہد اور معاہدہ کرنا چاہیے۔ خاص طور سے جب عھد باب مفاعلہ سے ہو، جیسے یہاں إِذَا عَاہَدُوا ہے۔
’’اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(593) الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں القواعد کا لفظ آیا ہے۔ یہ دراصل دیوار کے نیچے کی نیو اور بنیاد کے لیے آتا ہے۔ جب بنیاد اٹھائی جاتی ہے تو وہ دیوار کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ بعض لوگوں نے القواعد کا ترجمہ دیوار کردیا ہے۔ القواعد یعنی بنیادوں کے ذکر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم واسماعیل نے پہلے سے موجود بنیادوں پر دیوار نہیں کھڑی کی تھی بلکہ بنیاد بھی انھوں نے ہی رکھی تھی اور بنیاد کے پتھر سے کام شروع کیا تھا۔
وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیلُ۔ (البقرۃ: 127)
’’اور جب کہ اٹھارہے تھے ابراہیم علیہ السلام دیواریں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل علیہ السلام بھی‘‘۔
’’اور یاد کرو ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے‘‘۔ (سید مودودی)
’’ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم علیہ السّلام و اسماعیل علیہ السّلام خانہ کعبہ کی دیواروں کو بلند کر رہے تھے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’اور جب اٹھانے لگا ابراہیم بنیادیں اس گھر کی اور اسماعیل‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’وآنگاہ کہ بلند میکردند ابراہیم واسماعیل بنیاد ہائے خانہ را‘‘۔ (شاہ ولی اللہ)
آخری دونوں ترجمے مناسب ہیں۔