حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)

تعارف

یہ مضمون بائبل اور قرآن کی پیشگوئیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے قیامت کی نشانیوں کو سمجھنے کے لیے ایک منفرد فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ احادیث میں بیان کردہ قیامت کی نشانیاں جغرافیائی، سماجی اور تاریخی تغیرات کی پیچیدہ عکاسی کرتی ہیں، جو حضرت محمد ﷺ کو رویا کی صورت میں دکھائی گئیں۔ اس مضمون میں ان نشانیوں کی تعبیر الہامی کتب کی روشنی میں کی گئی ہے۔

یہ علامتی انداز نہ صرف ان اہم پیغامات کو مؤثر طریقے سے بیان کرتا ہے بلکہ انہیں نسل در نسل منتقل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ساتھ ہی، یہ مستقبل کے مخصوص حالات کو ایک حد تک پوشیدہ رکھتا ہے۔ جب ان پیشگوئیوں کو تاریخی تناظر میں غیر جانبدار اور وسیع ذہن کے ساتھ پرکھا جائے تو یہ متعدد تاریخی حقائق سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ ان پیشگوئیوں کا مقصد ماضی کے انسانی اعمال کی اخلاقی توثیق یا تنقید نہیں، بلکہ اللہ کے کامل علم، قدرت اور تاریخ میں اس کی حاکمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

اس مضمون کے تین بنیادی مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ خدا کو کائنات کے خالق اور پروردگار کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی دعوت دی جائے—ایسا رب جو نہ صرف مومنین بلکہ غیر مومنین پر بھی حاکم ہے—تاکہ الٰہی حاکمیت کی عالمگیریت کو نمایاں کیا جا سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پیشگوئیوں کی روشنی میں عصرِ حاضر کے دور کی درست شناخت کی جائے، تاکہ مسلمان اپنی فکری اور عملی سمت کا تعین کسی غلط مفروضے کی بنیاد پر نہ کریں۔ تیسرا اور نہایت اہم مقصد یہ ہے کہ واضح کیا جائے: یہ پیشگوئیاں قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کردہ موجودہ دینی فرائض کے علاوہ کسی نئی مذہبی ذمہ داری کا تقاضا نہیں کرتیں۔ اس وضاحت کے نتیجے میں اہلِ ایمان غیر ضروری فکری و عملی بوجھ سے آزاد ہو کر اپنی اصل دینی ذمہ داریوں پر یکسوئی سے توجہ دے سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، حدیث میں دجال کے فتنے کے دوران پہاڑوں میں پناہ لینے کا ذکر قرآن کے اس اصول سے ہم آہنگ ہے جو مذہبی جبر کے وقت ہجرت کی تلقین کرتا ہے۔ یہ الٰہی رہنمائی کا تسلسل ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پیشگوئیاں احکامات دینے کے بجائے مومنین کو تاریخی اور عالمی واقعات میں خدا کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور اس کی تصدیق کرنے کے قابل بناتی ہیں۔

مضمون کا دعویٰ ہے کہ قیامت کی بہت سی نشانیاں بڑے عالمی واقعات کی نمائندگی کرتی ہیں، جن میں سے کئی شاید پہلے ہی وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔ مضمون کے تمام حدیث کے حوالہ جات صرف صحیح مسلم اور صحیح بخاری پر مبنی ہیں تاکہ اس کی درستگی اور اعتبار کو یقینی بنایا جا سکے۔

مستقبل کی پیشگوئیاں

اللہ نے اپنی مخلوق کو سیدھے راستے پر گامزن کرنے کے لیے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا، جنہیں اپنے مشن کی تکمیل کے لیے الہی وحی عطا کی گئی۔ ان وحیوں میں بعض اوقات مستقبل کے واقعات کی جھلکیاں شامل ہوتیں، جو اللہ کے علمِ کامل کی واضح گواہی تھیں۔ کچھ مواقع پر یہ واقعات واضح الفاظ میں بیان کیے گئے، جیسا کہ قرآن مجید کی سورہ روم میں رومیوں کی ساسانیوں پر فتح کا ذکر۔ جبکہ دیگر مواقع پر، یہ وحی رویا کی صورت میں پیش کی جاتی۔ مثال کے طور پر، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایک خواب میں آسمانی اجسام کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا، جو ان کی آزمائشوں کے بعد ان کے خاندان کی طرف سے عزت و تکریم کی علامت تھا۔ اسی طرح، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک رویا میں اپنے بیٹے کی قربانی کا منظر دکھایا گیا، جو ان کے اور ان کے بیٹے کے لیے ایک عظیم آزمائش تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے نے اسے اطاعت کی آزمائش سمجھتے ہوئے عظمت کا رویہ اپنایا اور اس پر من و عن عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، اللہ کی مداخلت نے قربانی کو روک دیا ، کیونکہ اس خواب کی تعبیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان یعنی اللہ کے گھر کی خدمت کے لیے نذر کر دینا تھی1۔ اس آزمائش میں اللہ کے حکم کے سامنے مکمل اطاعت اور ہر قسم کی قربانی کے لیے آمادگی نے ان کے اس عمل کو بندگی، وفاداری اور خلوص کی عظیم مثال بنا دیا.

تاہم، رویاؤں کی علامتی نوعیت انہیں اکثر غلط فہمی کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال کتاب مکاشفہ میں ملتی ہے، جو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) پر نازل کی گئی۔ یہ متن مختلف علامتی رویا پر مشتمل ہے، جن میں آفات، تاریخی واقعات، اور حضرت محمد ﷺ کی آمد کا ذکر شامل ہے۔ کتاب مکاشفہ میں حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو "ذبح شدہ برہ"2 کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو انبیاء کی معصومیت، قربانی، اور اللہ کے لیے مکمل وفاداری کی علامت ہے۔ یہ تمثیل حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے خواب ، جسے اوپر بیان کیا گیا ہے، سے مشابہت رکھتی ہے، جہاں قربانی کا تصور اللہ کی رضا اور حکم کے سامنے مکمل تسلیم و رضا کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم، عیسائیوں نے "ذبح شدہ برہ" کی اس علامت کو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی مصلوبیت کا حوالہ سمجھ لیا ۔ یہ غلط تشریح اس بات کی یاد دہانی ہے کہ علامتی روایات کو سمجھنے میں پہلے سے اپنائے گئے خیالات، جو محکم علمی طریقے سے حاصل نہ کیے گئے ہوں، غلط نتائج کے طرف لے جاتے ہیں۔

پیشگوئیوں کو سمجھنے کے بنیادی اصول

اس مضمون میں حدیث میں بیان کردہ رسول اللہ ﷺ کی رویا میں دکھائی گئی پیشگوئیوں کی تفہیم کے لیے درج ذیل اصولوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

پہلا اصول – انسانی و حیوانی علامات کی تعبیر

احادیث میں پیشگوئیوں کو علامتی انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس طرح سابقہ الہامی کتابوں، جیسے کتابِ دانیال اور مکاشفہ، میں بھی مستقبل کے واقعات کو خواب اور رویا کی شکل میں بیان کیا گیا۔ ان متون میں جانوروں اور انسانوں کی علامات مختلف طاقتوں، جیسے سلطنتوں، ملکوں اور تنظیموں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کتاب دانیال میں بابل کی سلطنت کے آخری دور میں اس سلطنت کو ایک انسان اور اس کے بعد آنے والی یونانی سلطنت کو ایک جانور کی صورت میں حضرت دانیال علیہ السلام کے خواب میں دکھایا گیا،3 جو اسی علامتی طرزِ بیان کا حصہ ہے جس کے تحت احادیث میں "دجال" کو ایک انسان اور "زمین کا جانور" کو ایک جانور کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

دوسرا اصول – مقامات اور گروہوں کے علامتی معانی

احادیث میں مذکور جغرافیائی مقامات اور انسانی گروہوں کو رسول اللہ ﷺ کے دور کے سیاسی اور تہذیبی سیاق و سباق میں سمجھنا ضروری ہے، بالکل اسی طرح جیسے قرآن کی تفہیم اُس وقت کی عربی زبان اور اس کے لسانی پس منظر کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ علامتی اندازِ بیان احادیث کو ایسی معنویت اور تسلسل عطا کرتا ہے جو وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور جغرافیائی تقسیم کے باوجود بھی برقرار رہتا ہے۔

مثال کے طور پر، رسول اللہ ﷺ کے دور میں قسطنطنیہ بازنطینی عیسائیوں کا دارالحکومت تھا، اور اس کی فتح کے وقت بھی یہی حیثیت قائم تھی، اس لیے حدیث میں اسے اسی اصل نام سے بیان کیا گیا۔ اسی طرح، رسول اللہ ﷺ کے دور میں "شام" بازنطینی سلطنت کے زیرِ اقتدار تھا، اس لیے ابتدائی دور سے متعلق پیشگوئیوں میں "شام" سے مراد حقیقی جغرافیائی شام ہے۔ البتہ بعد کی پیشگوئیوں میں "شام" ایک علامتی مفہوم اختیار کر لیتا ہے، جو عیسائی طاقتوں کے زیرِ اثر علاقوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

اسی سیاق میں، نبی کریم ﷺ کے وصال کے کچھ عرصے بعد خلافت کا مرکز عرب سے باہر منتقل ہو گیا، لہٰذا مدینہ کا ذکر بعد کے دور سے متعلق احادیث میں صرف ایک شہر نہیں بلکہ پوری مسلم امت کی علامت کے طور پر کیا جاتا ہے، جیسا کہ آپ ﷺ کے زمانے میں یہ مسلمانوں کی ریاست کا مرکز تھا۔ اسی طرح دیگر مقامات جیسے دمشق، لد اور یمن کو بھی اُن کے تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں سمجھنا ضروری ہے تاکہ احادیث کی تعبیر درست ہو سکے۔

اسی اصول کے تحت، احادیث میں ذکر کردہ انسانی گروہوں کو بھی اُن کے وقت کی تاریخی شناخت کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، بازنطینی رومیوں کی عیسائیت ان کی شناخت کا ایک بنیادی جزو تھی، اور اگرچہ ان کی سلطنت 1453ء میں ختم ہو گئی، احادیث میں بعد کے عیسائی گروہوں کو بھی "رومیوں" سے ہی پکارا گیا ہے۔4 اسی طرح، بنی اسحاق اور اصفہان کے یہودیوں جیسے دیگر گروہوں کا ذکر بھی اُن کے مخصوص تاریخی سیاق میں ہی سمجھا جانا چاہیے تاکہ ان سے متعلق احادیث کی تعبیر درست ہو سکے۔

تیسرا اصول – تفصیلات کا الٰہی حکمت کے تحت مخفی ہونا

احادیث میں بیان کردہ پیشگوئیوں میں بعض علامات اور تفصیلات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت پوشیدہ رکھا ہے، تاکہ ان کی مکمل تفہیم صرف ظہور کے بعد ہی ممکن ہو۔ یہ علامات اکثر علامتی زبان میں بیان کی گئی ہیں، جو کسی بڑے واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، مگر اس کی جزئیات کو ظاہر نہیں کرتیں۔ مثال کے طور پر، یاجوج و ماجوج کی گردنوں پر کیڑوں سے اچانک موت دراصل کسی بڑے عامل کی علامت ہے، جسے تفصیل سے بیان کرنے کے بجائے علامتی اسلوب میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح، مدینہ میں تین جھٹکوں کے نتیجے میں منافقین اور کافروں کا دجال کی طرف لپکنا اُن آزمائشوں پر پردہ ڈالتا ہے جو جھٹکوں کی صورت میں ظاہر کی گئیں۔ ایسی پیشگوئیوں کی صحیح تعبیر تاریخی سیاق میں اُن کے وقوع کے بعد ہی سامنے آتی ہے، جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ علامات کن حقیقی واقعات کی نمائندگی کر رہی تھیں۔

قیامت کی دس بڑی نشانیاں

آئندہ حصوں میں قیامت سے پہلے پیش آنے والے اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت محمد ﷺ کی احادیث میں بیان ہوا ہے۔ یہ واقعات قیامت کی دس بڑی نشانیوں پر مبنی ہیں،5 جن کو حضرت محمد ﷺ کے رویا میں دکھایا گیا۔6 مثال کے طور پر دجال کو معراج کے واقعے میں حضرت محمد ﷺ کو دکھایا گیا7، جو ایک رویا تھی8۔


زمین کا جانور (دابۃ الارض)

قیامت کی نشانیوں میں، ریاستوں، سلطنتوں، بادشاہتوں اور تنظیموں کو اکثر جاندار مخلوق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو طاقتور قوتوں کو سمجھنے اور بیان کرنے کے لیے ایک علامتی انداز ہے۔ یہ علامتی اظہار مختلف مذہبی متون، جیسے بائبل، قرآن اور حضرت محمد ﷺ کی احادیث میں نمایاں ہے۔ زمین کا جانور (دابۃ الارض) ان روایات میں ایک اہم استعارہ کے طور پر سامنے آتا ہے، جو جابر، وسیع اور اکثر ظالم ریاستوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

پرانے عہد نامے سے مثالیں

پرانے عہد نامے میں، خاص طور پر صحیفہ دانیال میں، حضرت دانیال علیہ السلام کے خوابوں میں جانوروں کی علامات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ جانور طاقتور اور ظالم سلطنتوں کی تمثیل کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ بائبل کے موجودہ قدیم ترین نسخے یونانی زبان میں تحریر کیے گئے، جہاں "تھریون" کا مطلب "جانور" تھا، جو عربی لفظ "دابۃ" سے مماثلت رکھتا ہے اور دونوں زبانوں میں ایک جیسے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت دانیال علیہ السلام کے خوابوں میں یہ جانور بڑی سلطنتوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جو اپنی طاقت، ظلم اور وسعت کی خصوصیات رکھتے ہیں۔ کچھ جانوروں کو کئی سروں کے ساتھ دکھایا گیا، جو ایک سلطنت کے مختلف خاندانوں، گروہوں یا دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ ان کے سینگ بادشاہوں، حکمرانوں یا بااثر رہنماؤں کی علامت ہیں ۔

چار جانور – چار قدیم عالمی سلطنتیں

چار جانوروں کا ذکر صحیفہ دانیال9 میں ملتا ہے۔ یہ جانور ایک کے بعد ایک آنے والی عالمی سلطنتوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جیسا کہ حضرت دانیال علیہ السلام کو وضاحت کی گئی10:

  • پہلا جانور – بابل کی سلطنت: پہلا جانور ایک شیر کی مانند ہے جس کے عقاب کے پر ہیں، جو بعد میں ایک انسان کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اسے انسانی دماغ دیا جاتا ہے۔ یہ بابل کی سلطنت (605-539 قبل مسیح) کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ سلطنت اپنی طاقت، غلبے، اور تیز رفتاری کے لیے مشہور تھی۔
  • دوسرا جانور – ہخامنشی سلطنت: دوسرا جانور ریچھ کی مانند ہے، جو مادی-فارس کی ہخامنشی سلطنت (331-539 قبل مسیح ( کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ سلطنت اپنی بے پناہ طاقت اور فتح کے لیے مشہور تھی اور اپنی درندگی کے سبب خوف پیدا کرتی تھی۔
  • تیسرا جانور – یونانی سلطنت: تیسرا جانور ایک تیندوا کی مانند ہے جس کے چار پر اور چار سر ہیں۔ یہ یونانی سلطنت (331-146 قبل مسیح) کی نمائندگی کرتا ہے، جو سکندر اعظم کی قیادت میں عالمی سطح پر چھا گئی۔ اس کے چار سر سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت کے چار حصوں میں تقسیم ہو جانے کی علامت ہیں۔
  • چوتھا جانور – رومی سلطنت: چوتھا جانور لوہے کے دانتوں اور دس سینگوں کے ساتھ نہایت خوفناک اور دہشت انگیز ہے۔ یہ رومی سلطنت (146 قبل مسیح سے) کی نمائندگی کرتا ہے، جو بے مثال طاقت اور غلبے کی علامت تھی۔ اس کے لوہے کے دانت اس کی بے رحمی اور طاقتور تسلط کو ظاہر کرتے ہیں، جبکہ دس سینگ بادشاہوں یا حکمرانوں کی علامت ہیں۔

مینڈھا اور بکرا – ہخامنشی اور یونانی سلطنت

صحیفہ دانیال میں بیان کردہ ایک اور رویا میں مینڈھے اور بکرے کا ذکر ملتا ہے11۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت دانیال علیہ السلام کو اس رویا کی وضاحت کی12۔ مینڈھا دو سینگوں کے ساتھ ہخامنشی سلطنت کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ سینگ ہخامنشی سلطنت میں مادی اور فارس کی مشترکہ طاقت کی علامت ہیں۔ بکرا یونانی سلطنت کی نمائندگی کرتا ہے، جو مینڈھے کو شدت کے ساتھ ٹکّر مار کر زمین پر گرا دیتا ہے اور اسے شکست دیتا ہے۔ بکرے کی آنکھوں کے درمیان ایک نمایاں سینگ سکندر اعظم کی طاقت اور قیادت کو ظاہر کرتا ہے۔ بکرے کے سینگ کا ٹوٹنا، اور اس کی جگہ چار چھوٹے سینگوں کا نمودار ہونا، سکندر اعظم کی وفات کے بعد اس کی عظیم سلطنت کے اس کے چار جرنیلوں میں تقسیم ہو جانے کی علامت ہے۔ یہ رویا تاریخ کے دھارے میں بڑی سلطنتوں کی طاقت، ان کا عروج، اور ان کا زوال بیان کرتی ہے۔

نئے عہد نامہ سے مثالیں

جانوروں کے استعارے کا تسلسل نئے عہد نامے میں بھی جاری رہتا ہے، خاص طور پر کتاب مکاشفہ میں، جہاں تین علامتی جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے۔

سمندر کا جانور – رومی سلطنت

کتاب مکاشفہ میں بیان کیا گیا یہ جانور رومی سلطنت کی نمائندگی کرتا ہے13، جو اپنی طاقتور بحری قوت اور سمندر کے ذریعے پھیلنے والے وسیع اثر و رسوخ کے لیے مشہور تھی۔ اس کا سمندر سے ابھرنا روم کی بحری طاقت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس کے سات سر سات شاہی ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں، اور ہر سر پر تحریر گستاخانہ الفاظ اس کے خدا کے خلاف سرکشی اور تکبر کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس جانور کو بیالیس مہینوں تک غرور اور کفر کے کلمات کہنے کی طاقت دی گئی14. یہ بیالیس مہینے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع کے بعد 66ء سے 70ء میں رومیوں اور یہودیوں کی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا انجام 70ء میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے معبد کی بے حرمتی اور مکمل تباہی پر ہوا۔

زمین کا جانور – کلیسا

کتاب مکاشفہ میں ذکر کردہ زمین کا جانور زمین پر مبنی ایک اتھارٹی کی علامت ہے، جو جھوٹے پیغامات کے ذریعے عوام کو دھوکہ دیتی ہے۔ اسے "جھوٹا نبی" کہا گیا ہے، جو شیطانی اثر و رسوخ کے تحت کام کرتے ہوئے جھوٹے نظریات پھیلانے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ جانور اپنی طاقت سمندر کے جانور کی اتھارٹی سے حاصل کرتا ہے اور اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب سمندر کے جانور کے ایک سر پر لگا مہلک زخم بھر چکا ہوتا ہے۔15 یہ زخمی سر رومی سلطنت کے تیسری صدی کے بحران کی علامت ہے، جس کے بعد کلیسا 325 عیسوی میں منعقد ہونے والی کونسل آف نائسیا کے نتیجے میں ایک باقاعدہ ادارے کے طور پر سامنے آیا۔ کلیسا نے رومی سلطنت کے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ان مخالف عیسائیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کیا جو نائسین عقائد کے مخالف تھے، جیسے کہ آریئن، ڈوناٹسٹ، مارسیونائٹس، اور مونٹینسٹ۔ "زمین کے جانور" کی علامت میں اس کے دو سینگ برہ کی طرح نظر آتے ہیں، جو ظاہر میں نرمی، تقدس اور معصومیت کا تاثر دیتے ہیں، لیکن اس کی زبان اژدھے کی مانند ہے، جو فریب، دھمکی اور گمراہی کی نمائندہ ہے۔ یہ دو سینگ کلیسا کے دو بڑے دھڑوں—قسطنطنیہ (مشرق) اور روم (مغرب)—کی مذہبی قوت کو ظاہر کرتے ہیں۔16

کتاب مکاشفہ میں سمندر اور زمین کے جانور کی شکست17 رومیوں کی وہ شکست ظاہر کرتی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں ہوئی، جس نے نہ صرف روم اور کلیسا کی طاقت و اثر و رسوخ کو کمزور کیا بلکہ ان کے طریقہ کار، فلسفہ اور نظریات پر بھی گہرا اثر ڈالا ۔

سرخ رنگ کا جانور – ایرانی سلطنت

کتاب مکاشفہ میں ذکر کردہ یہ جانور فارسی سلطنت کی نمائندگی کرتا ہے18۔ اس کے سات سر19 سات مختلف خاندانوں کی علامت ہیں۔ چھٹا سر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے پارتھیوں سے مطابقت رکھتا ہے، جبکہ ساتواں سر ساسانی سلطنت کی نمائندگی کرتا ہے۔20 اس کے دس سینگ ان آخری دس ساسانی بادشاہوں 21 کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جنگ کی22۔

قرآن میں جانور کا ذکر – قریش کے لیے تنبیہ

قرآن پاک کی سورہ النمل23 میں زمین سے نکلنے والے جانور (دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ) کا ذکر ملتا ہے، جو منکرینِ حق سے گفتگو کرے گا۔ یہ آیت حضرت محمد ﷺ کی قوم قریش کے لوگوں کے کفر اور انکار کے جواب میں بیان کی گئی ہے۔

قرآن کی اس تنبیہ میں دابّہ کے "بولنے" کا موازنہ اگر نئے عہد نامے میں مذکور "سمندر کے جانور" سے کیا جائے— جو بیالیس مہینے تک گستاخانہ اور متکبرانہ گفتگو کرتا ہے24— تو دونوں واقعات میں ایک گہری مماثلت نظر آتی ہے۔ نئے عہد نامے میں سمندر کے جانور کا بولنا بنی اسرائیل پر الٰہی غضب کی علامت ہے، جو 66ء سے 70ء کے درمیان یہودیوں کو مذہبی توہین، نفسیاتی دباؤ اور قومی ذلت کی صورت میں جھیلنا پڑا، اور جس کا انجام یروشلم کی ہیکل کی مکمل تباہی پر ہوا۔ بعینہٖ، قرآن میں اسی نوع کی تنبیہ قریش کے لیے کی گئی، جو ان کے کفر اور انکارِ حق کے جواب میں بطورِ عذاب پیش کی گئی ہے۔ تاہم جب قریش کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا، تو یہ سزا ٹال دی گئی۔25

حدیث میں جانور کا ذکر – منگول سلطنت

قرآنی اور بائبل کی پیشین گوئیوں کی روشنی میں، احادیث میں بیان کردہ "زمین کا جانور" — جو قیامت کی دس بڑی نشانیوں میں شمار ہوتا ہے — درحقیقت ایک طاقتور اور جابر زمینی سلطنت کی علامت ہے۔ یہ ایسی سلطنت ہے جو خشکی کی راہوں سے اپنے اثر و رسوخ کو وسیع کرتی ہے، اور اپنی عسکری فتوحات، ظلم و استبداد اور عالمی سطح پر تہذیبی تبدیلیوں کے ذریعے دنیا پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ زمینی طاقت نئے عہد نامے میں مذکور "سمندر کے جانور" سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ وہ بحری طاقت کے ذریعے پھیلتا ہے—جیسا کہ رومی سلطنت، جبکہ "زمین کا جانور" بری طاقت کی نمائندگی کرتا ہے۔

تاریخی تناظر میں یہ پیشین گوئی واضح طور پر 13ویں صدی کی منگول سلطنت پر منطبق ہوتی ہے۔ منگول سلطنت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور مہلک زمینی سلطنت کے طور پر ابھری، جس نے ایشیا سے یورپ تک پھیلے ہوئے وسیع خطے کو تاراج کیا۔ ان کی عسکری یلغار، سلطنتوں کا انہدام، اور بین الاقوامی جغرافیائی و سیاسی نظام کی ازسرنو تشکیل اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ منگول سلطنت ہی "زمین کے جانور" کی علامت ہے، جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔

شکل 1: منگول سلطنت اپنے عروج پر – تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت جو زیادہ تر زمینی حملوں کے ذریعے پھیلی، اور حدیث میں "زمین کے جانور" کے طور پر علامتاً بیان کی گئی ہے26


مغرب سے سورج کا طلوع ہونا

احادیث میں قیامت کی بڑی نشانیوں میں مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ "کسی تہذیب پر سورج کا طلوع ہونا" مختلف زبانوں اور ثقافتوں میں ایک استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جو کسی تہذیب کے اثر و رسوخ، طاقت، اور عروج کی علامت ہے۔ اس استعارے میں سورج کا ذکر تہذیبوں کے عروج و زوال کے تاریخی ادوار کو نمایاں کرتا ہے، جہاں طاقت اور قیادت مختلف خطوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کسی تہذیب پر سورج کا طلوع ہونا عام طور پر اس تہذیب کے عروج کی علامت سمجھا جاتا ہے اور کسی تہذیب پر سورج کا غروب ہونا عام طور پر اس کے زوال کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

علاماتِ قیامت کے تناظر میں، مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کی تشریح مغربی تہذیب کے عروج کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ عروج کا سفر 12ویں صدی کے قرون وسطی کے نشاۃِ ثانیہ27 سے شروع ہوا، جو یورپ میں فکری اور علمی بیداری کا دور تھا، جس میں یونانی اور عربی علوم کے تراجم کے ذریعے قدیم دانش کی بازیافت، سکولاستیک فلسفے کی ترقی، یونیورسٹیوں کا قیام اور قانون، سائنس، اور تعمیرات میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔ اس دوران عوامی ادب میں ترقی، مذہبی اصلاحات، اور صلیبی جنگوں کے نتیجے میں ثقافتی تبادلوں نے یورپی تہذیب و دانش کی بنیادوں کو مزید مضبوط کیا۔ بعد میں 14ویں سے 17ویں صدی کے نشاۃِ ثانیہ اور 16ویں صدی کی اصلاحی تحریکوں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔ ان تحریکوں نے یورپ میں فکر، سائنس، اور طرز حکمرانی میں گہرے انقلابات برپا کیے، جو بالآخر مغرب کو ایک غالب عالمی طاقت کے طور پر قائم کرنے کا باعث بنے۔

زمین کے جانور کے ساتھ قربت

حدیث 28 میں مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کو قیامت کی نشانیوں میں پہلی نشانی کہا گیا اور زمین کے جانور کو اس کے فوراً بعد کی ایک بڑی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا۔ مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کی یہ نشانی دس بڑی نشانیوں 29 میں سب سے پہلے پوری ہوئی۔ قرونِ وسطیٰ کے 12ویں صدی کے نشاۃِ ثانیہ30 کے بعد زمین کا جانور، جس کی علامتی تشریح 13ویں صدی میں منگول سلطنت ہے، کے نکلنے کا واقعہ رونما ہوا۔

ایمان لانے کا فائدہ نہ ہونا – ایک تنبیہ

حدیث31 میں بیان ہوا ہے کہ جب سورج مغرب سے طلوع کرے گا تو لوگ اسے دیکھ کر ایمان لے آئیں گے، لیکن اس وقت ایمان لانا بے سود ہوگا۔ بعض احادیث32 میں زمین کے جانور اور دجال کو بھی ان نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے جن کے ظاہر ہونے کے بعد ایمان لانا کسی نفع کا باعث نہیں ہوگا۔ اسی نوعیت کی ایک تنبیہ ہمیں سورۂ الانبیاء33 میں یاجوج ماجوج کے حوالے سے بھی ملتی ہے، جہاں لوگ یاجوج ماجوج کی رکاوٹ ٹوٹنے کے بعد اعتراف کریں گے کہ "بے شک ہم ظالم تھے"۔

یہ احادیث اور قرآن کی آیت ایک واضح تنبیہ ہیں، کیونکہ یہ نشانیاں قیامت کے قریب واقع ہوں گی۔ اور یہ قیامت کے دن کا منظرنامہ ہے کہ کسی شخص کا ایمان لانا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا اور لوگ اعتراف کریں گے کہ "بے شک ہم ظالم تھے"۔ یہ تنبیہ ان نشانیوں کے قیامت سے قریب الوقوع ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ نشانیاں قیامت سے کتنی قریب ہیں، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ یہ پیغام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ مہلت ختم ہونے سے قبل ایمان لے آئیں اور خالص توبہ کے ذریعے اپنی اصلاح کرلیں، اس سے پہلے کہ رجوع کا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔


حوالہ جات

1) Quran Exegesis 37:102-113 
https://www.javedahmedghamidi.org/#!/quran?chapter=37¶graph=13&type=Ghamidi#fn_60
2) Revelation 5:5-6: https://www.bible.com/bible/111/REV.5.5-6.NIV
3) Daniel 7:17–27: https://www.bible.com/bible/111/dan.7.17-27.NIV
4) Sahih Muslim 2898a: https://sunnah.com/muslim:2898a
5) Sahih Muslim 2901a: https://sunnah.com/muslim:2901
6) نزول مسیح، سید منظورالحسن، نومبر ۲۰۲۳، غامدی انسٹیٹیوٹ آف اسلامک لیئرننگ، صفحہ 217-185
7) Bukhari 3239: https://sunnah.com/bukhari:3239
8) Bukhari 7517: https://sunnah.com/bukhari:7517
9) Daniel 7:1–28: https://www.bible.com/bible/111/DAN.7.NIV
10) Daniel 7:17–27: https://www.bible.com/bible/111/dan.7.17-27.NIV
11) Daniel 8:1–27: https://www.bible.com/bible/111/DAN.8.1-27.NIV
12) Daniel 8:19–25: https://www.bible.com/bible/111/DAN.8.19-25.NIV
13) Revelation 13:1–10: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.1-10.NIV
14) Revelation 13:5–10: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.5-10.NIV
15) Revelation 13:11–12: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.11-12.NIV
16) Revelation 13:11: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.11
17) Revelation 19:19-21: https://www.bible.com/bible/111/REV.19.19-21
18) Revelation 17:3–14: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.3-14.NIV
19) Revelation 17:7: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.7.NIV
20) Revelation 17:10: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.10.NIV
21) خسرو دوم (590–628) – ساسانی سلطنت کا پہلا بادشاہ جو حضرت محمد (ﷺ) کے صحابہ کے خلاف لڑا۔ 
قباد دوم (شیرویہ) (628) 
اردشیر سوم (628–629) 
شہر براز (629) 
بوران دخت (629–631) 
آزرمی دخت (631) 
ہرمز ششم (631) 
خسرو سوم (631) 
ہرمز پنجم (631) 
یزدگرد سوم (632–651) - ساسانی سلطنت کا آخری بادشاہ۔ 
22) Revelation 17:12–14: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.12-14
23) Quran 27:82: https://quran.com/27/82
24) Revelation 13:5–10: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.5-10.NIV
25) https://www.javedahmedghamidi.org/#!/quran?chapter=27¶graph=35&type=Ghamidi
26) https://en.wikipedia.org/wiki/Mongol_Empire#/media/File:Mongol_Empire_map_2.gif
27) https://en.wikipedia.org/wiki/Renaissance_of_the_12th_century
28) Sahih Muslim 2941a: https://sunnah.com/muslim:2941a
29) Sahih Muslim 2901a: https://sunnah.com/muslim:2901
30) https://en.wikipedia.org/wiki/Renaissance_of_the_12th_century
31) Sahih Bukhari 4636: https://sunnah.com/bukhari:4636
32) Sahih Muslim 158: https://sunnah.com/muslim:158
33) Quran 21:96-97 https://quran.com/21/96-97


(جاری)

(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter