اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(481) فَاَمْکَنَ مِنْہُمْ کا ترجمہ

فعل أمکن کے دو مفعول آتے ہیں، ایک راست مفعول بہ ہوتا ہے اور دوسرے پر من لگتا ہے۔ أمکنت فلانًا من الصید میں نے فلاں کو شکار پر قابو دے دیا۔ درج ذیل آیت میں فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ میں مفعول بہ کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا ترجمہ و تفسیر کرتے ہوئے عام طور سے لوگوں نے مفعول بہ کو محذوف مانا ہے۔ یعنی فَأَمْکَنَکَ مِنْہُمْ۔ اس کے مطابق ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے انھیں تمہارے قابو میں دے دیا۔ عام طور سے اہل لغت نے یہ لکھا ہے کہ یہ فعل مفعول بہ اور جار مجرور (منہ) کے ساتھ آتا ہے۔ مَکَّنْتُہ من الشیءِ، وأمْکَنْتُہ منہ (القاموس المحیط)، یعنی کسی چیز کو کسی کے قابو میں دے دینا۔ درج ذیل ترجمے اسی کے مطابق کیے گئے ہیں:

وَإِنْ یُرِیدُوا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللَّہَ مِنْ قَبْلُ فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ۔ (الانفال: 71)

”لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کرچکے ہیں، چنانچہ اسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آ گئے“۔ (سید مودودی، قابو میں آنا سزا نہیں ہوتی ہے، سزا تو اس کے بعد ملتی ہے)

”اور اے محبوب اگر وہ تم سے دغا چاہیں گے تو اس سے پہلے اللہ ہی کی خیانت کرچکے ہیں جس پر اس نے اتنے تمہارے قابو میں دے دیے“۔ (احمد رضا خان، لگتا ہے کہ منھم میں من کو تبعیضیہ مان کر ”اتنے“ کہا ہے۔ یہاں من برائے صلہ ہے، تبعیضیہ نہیں ہے۔)

”اور اگر یہ لوگ تم سے دغا کرنا چاہیں گے تو یہ پہلے ہی خدا سے دغا کرچکے ہیں تو اس نے ان کو (تمہارے) قبضے میں کردیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر وہ تجھ سے خیانت کا خیال کریں گے تو یہ تو اس سے پہلے خود اللہ کی خیانت کر چکے ہیں آخر اس نے انہیں گرفتار کرا دیا“۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں مفعول بہ کو ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن ترجمہ فعل متعدی والا ہے۔یہاں خیانت کا خیال نہیں بلکہ ارادے کی بات ہے۔)

”اور اگر یہ تم سے بدعہدی کریں گے تو اس سے پہلے انہوں نے خدا سے بدعہدی کی تو خدا نے تم کو ان پر قابو دے دیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ فعل مفعول بہ کے بغیر صرف جار مجرور (منہ) کے ساتھ بھی آتا ہے۔ اس لیے آیت میں مفعول بہ ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے مطابق ترجمہ ہوگا:

”تو خدا نے ان کو قابو میں کرلیا۔“

یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کیا یہ فعل مفعول بہ کے بغیر بھی آتا ہے۔ یعنی کسی کے قابو میں دینے کے بجائے خود اپنے قابو میں کرنے کے معنی میں۔ اس سلسلے میں لغات خاموش ہیں۔ البتہ جملے میں اگر مفعول بہ ذکر نہ کیا جائے تو ذہن بغیر مفعول بہ والے مفہوم کی طرف جاتا ہے۔ عربی لٹریچر میں اس کا استعمال بھی ملتا ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے ابوحیان توحیدی کی درج ذیل عبارت میں اس کا برجستہ استعمال کیا گیا ہے:

وقل من تکبر علی الناس وحقر أہل الفضل إلا عاجلتہ العقوبة، ونہکتہ اللائمة، وأمکن منہ الدہر۔  (البصائر والذخائر: 2/ 221)

ظاہر ہے کہ ابوحیان توحیدی کا قول زبان کے سلسلے میں حوالہ نہیں بن سکتا، لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم کے یہاں یہ استعمال موجود ہے۔

اس آیت کے ضمن میں امام طبری نے  امام سدّی کی تفسیر ذکر کی ہے اس میں مفعول بہ کے محذوف ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ یَقُولُ: قَدْ کَفَرُوا بِاللَّہِ وَنَقَضُوا عَہْدَہُ، فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ بِبَدْرٍ۔ (تفسیر الطبری)

جن لوگوں نے مفعول بہ محذوف مانا ہے اور قابو میں دینے کا مفہوم مراد لیا ہے، انھوں نے اس سے جنگ بدر میں ہونے والے انجام کو مراد لیا ہے۔ لیکن اگر مفہوم اپنے قابو میں کرنا ہے تو پھر اللہ تعالی نے بدعہدوں کی جب جب پکڑ کی سب اس میں آجائے گا۔ ویسے بھی اصل ڈرنے کی چیز تو اللہ کی پکڑ میں آنا ہے۔

(482) إذ کے بعد فعل مضارع کا ترجمہ

إذ کے بعد جب فعل مضارع آتا ہے تو وہ ماضی کے مفہوم میں ہوتا ہے۔ لیکن ’إذ کے بعد فعل ماضی‘ اور ’إذ کے بعد فعل مضارع‘ میں فرق ہوتا ہے۔ ”إذ قال“ کا ترجمہ ہوگا ’جب اس نے کہا‘ اور ”إذ یقول“ کا ترجمہ ہوگا ’جب وہ کہہ رہا تھا‘۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے:

(۱) وَإِذْ یَعِدُکُمُ اللَّہُ إِحْدَی الطَّاءِفَتَیْنِ أَنَّہَا لَکُمْ۔ (الانفال: 7)

”یاد کرو جب کہ اللہ تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کر رہا تھا کہ وہ تمہارا لقمہ بنے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا“۔ (سید مودودی)

”اور جس وقت دو جماعتوں میں سے ایک کا اللہ تم سے وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ لگے گی“۔ (احمد علی)

”اور (اس وقت کو یاد کرو) جب خدا تم سے وعدہ کرتا تھا کہ (ابوسفیان اور ابوجہل کے) دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا (مسخر) ہوجائے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تم سے یہ وعدہ کر رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا“۔ (محمد تقی عثمانی)

درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔

”اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں وعدہ دیا تھا کہ ان دونوں گروہوں میں ایک تمہارے لیے ہے“۔ (احمد رضا خان)

درج بالا ترجمے میں فعل مضارع کے بجائے فعل ماضی کا ترجمہ ہوگیا۔ حالاں کہ یہاں یعدکم ہے، وعدکم نہیں ہے۔

”اور جس وقت وعدہ دیتا ہے اللہ تم کو ان دو جماعت میں سے کہ ایک تم کو ہاتھ لگے گی“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔

(۲) إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَاءِکَةِ مُرْدِفِینَ۔ (الانفال: 9)

”اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں“۔ (سید مودودی، فَاسْتَجَابَ لَکُمْ کا ترجمہ جواب دینا نہیں، بلکہ دعا قبول کرنا ہے۔ اللہ نے تمہاری فریاد قبول کرلی۔)

”جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی“ (احمد رضا خان)

”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔

(۳) إِذْ یُغَشِّیکُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً‌ مِنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (الانفال: 11)

”اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا“۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔

”جس وقت ڈال دی تم پر اونگھ اپنی طرف سے تسکین کو اور اتارا تم پر آسمان سے پانی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”جب اس نے تمہیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین (تسکین) تھی اور آسمان سے تم پر پانی اتارا“۔ (احمد رضا خان)

”جب اس نے (تمہاری) تسکین کے لیے اپنی طرف سے تمہیں نیند (کی چادر) اُڑھا دی اور تم پر آسمان سے پانی برسادیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

درج بالا ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہیں۔ فعل مضارع کے بجائے فعل ماضی والا ترجمہ کردیا ہے۔

”یاد کرو جب کہ وہ تم کو چین دینے کے لیے اپنی طرف سے تم پر نیند طاری کردیتا ہے اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔

(۴) إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلَاءِکَةِ أَنِّی مَعَکُمْ۔ (الانفال: 12)

”اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (سید مودودی)

”جب اے محبوب! تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی، معکم کا مطلب ساتھی ہوں نہیں ہوگا، ساتھ ہوں ہوگا۔)

درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔

”یاد کرو جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔

”جب حکم بھیجا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں ساتھ ہوں تمہارے“۔ (شاہ عبالقادر)

اذ کے بعد فعل مضارع“ کا ترجمہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بہتر ہوگا کہ ایک بار پیش آنے والا واقعہ بار بار پیش آنے والا واقعہ محسوس نہ ہو۔ ”جب کررہا تھا“ اور ”جب کرتا تھا“ پر غور کریں تو موخر الذکر سے یہ گمان ہوتا ہے کہ واقعہ کئی بار پیش آیا۔ اوپر جتنی آیتیں ذکر کی گئی ہیں وہ سب ایک بار پیش آنے والے واقعہ کی خبر دے رہی ہیں، اس لیے ترجمے میں اس کا لحاظ بھی ہونا چاہیے۔

(483) ذَات الشَّوْکَۃِ کا ترجمہ

عربی میں شوکة  کانٹے کو کہتے ہیں۔ لیکن جنگ کے سیاق میں شوکة  ہتھیار، ہتھیار کی تیزی اور دشمن کی قوت وسطوت کو بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ فیروزابادی کے الفاظ میں:

والشَّوْکَةُ: السِّلاحُ، أو حِدَّتُہُ، ومن القِتالِ: شِدَّةُ بأْسِہِ، والنِّکایَةُ فی العَدُوِّ۔ (القاموس المحیط)

درج ذیل آیت میں غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ کا ترجمہ بعض لوگوں نے کم زور کیا ہے۔ یہ لفظ کا موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے  الشَّوْکَةِ  کا ترجمہ کانٹا کیا ہے، یہاں جنگ کے سیاق میں کانٹا بالکل موزوں معلوم نہیں ہوتا ہے۔ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ کا مناسب ترجمہ غیر مسلح ہے۔

وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ۔  (الانفال: 7)

”تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے“۔ (سید مودودی)

”اور تم چاہتے تھے کہ جس میں تم کو کانٹا نہ لگے وہ ملے تم کو“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور تم چاہتے تھے جس میں کانٹا نہ ہو وہ تمہیں ملے“۔(احمد علی)

”اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمہیں ملے“۔ (محمد تقی عثمانی)

”اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہیں (کوئی نقصان نہ ہو)“۔ (احمد رضا خان)

درج ذیل دونوں ترجموں میں شوکة  کا مفہوم مناسب لفظوں میں ادا کیا گیا ہے۔

”اور تم یہ چاہ رہے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارا لقمہ بنے“۔(امین احسن اصلاحی)

”اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(484) یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ کا ترجمہ

أدبار دبر کی جمع ہے۔ دبر کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کا پچھلا حصہ۔ الدُّبُرُمن کُلِّ شیءٍ: عَقِبُہ ومؤخَّرُہ (القاموس المحیط)، جب یہ لفظ انسان کے لیے استعمال ہوتا ہے تو انسان کی پوری پشت مراد ہوتی ہے۔ بعض لوگوں نے أدبار کا ترجمہ کولہے یا سرین کیا ہے۔ کولہے یا سرین پشت کا ایک حصہ ہیں لیکن أدبار سے مراد آدمی کی پوری پشت ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:

(۱) وَلَوْ تَرَی إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُوا الْمَلَاءِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ۔ (الانفال: 50)

”کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منھ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے وہ ان کے چہروں اور ان کے کولھوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے“۔(سید مودودی)

”اور کبھی تو دیکھے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں مار رہے ہیں ان کے منھ پر اور ان کی پیٹھ پر“۔ (احمد رضا خان)

”اور کاش تم اس وقت (کی کیفیت) دیکھو۔ جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر (کوڑے اور ہتھوڑے وغیرہ) مارتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر تم دیکھ پاتے جب فرشتے ان کفر کرنے والوں کی روحیں قبض کرتے ہیں مارتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲) فَکَیْفَ إِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلَاءِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ۔ (محمد: 27)

”پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور اِن کے منھ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے؟“۔ (سید مودودی)

”تو کیسا ہوگا جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے ان کے منھ اور ان کی پیٹھیں مارتے ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”تو اُس وقت (ان کا) کیسا (حال) ہوگا جب فرشتے ان کی جان نکالیں گے اور ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر مارتے جائیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پس ان کی کیسی (درگت) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی سرینوں پر ماریں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(485) عَذَاب الْحَرِیقِ کا ترجمہ

حریق اور نار میں فرق ہے۔نار  آگ کو کہتے ہیں اور جب آگ کسی چیز کو جلاتی ہے اور تباہ کرتی ہے تو اسے حریق کہتے ہیں۔ چولہے کی آگ کو حریق نہیں کہیں گے لیکن جلتے ہوئے مکان کو حریق کہیں گے۔ آگ کے عذاب یا جہنم کے عذاب سے  عذاب الحریق کے مکمل صحیح مفہوم کی ادائیگی نہیں ہوتی ہے، اس کے لیے جلانے والی آگ کا عذاب یا جلنے کا عذاب موزوں ہے۔ ماہر لغت ابوہلال العسکری لکھتے ہیں: والحریق النار الملتہبة شیئا وإہلاکہا لہ۔ (معجم الفروق اللغویۃ)

کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:

 (۱) ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (آل عمران: 181)

”چکھو آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)

”چکھو عذاب آگ کا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”عذاب جہنم کا مزا چکھو“۔ (سید مودودی، یہ موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ سورۃ البروج میں جہنم اور حریق کو الگ الگ کہا گیا ہے)

”عذاب (آتش) سوزاں کے مزے چکھتے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جلنے والا عذاب چکھو! (محمد جوناگڑھی)

(۲) وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الانفال: 50)

”تم جلنے کا عذاب چکھو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور چکھو آ گ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)

”عذاب آتش (کا مزہ) چکھو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اب چکھو مزا جلنے کے عذاب کا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”لو اب جلنے کی سزا بھگتو“۔ (سید مودودی،ذوقوا  کا مطلب بھگتنا نہیں بلکہ چکھنا ہے۔)

(۳) وَنُذِیقُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الحج: 9)

”اور قیامت کے دن ہم اسے عذاب (آتش) سوزاں کا مزہ چکھائیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور قیامت کے روز اُس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے“۔ (سید مودودی)

”اور قیامت کے دن ہم اسے آگ کا عذاب چکھائیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہم قیامت کے دن ان کو آگ کا عذاب چکھائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور قیامت کے دن بھی ہم اسے جہنم میں جلنے کا عذاب چکھائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۴) وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الحج: 22)

”چکھو آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)

”جلنے کا عذاب چکھو!“۔ (محمد جوناگڑھی)

”چکھو اب جلنے کا عذاب“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جلنے کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”چکھو اب جلنے کی سزا کا مزا“۔ (سید مودودی)

(۵) فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ۔ (البروج: 10)

”تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے“۔(محمد جوناگڑھی)

”ان کو دوزخ کا عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا“۔(فتح محمد جالندھری)

”یقینا اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے“۔ (سید مودودی)

”ان کے لیے لازماً جہنم کی سزا اور جلنے کا عذاب ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)

درج بالا تمام ترجموں میں آگ کے عذاب سے زیادہ موزوں جلنے کا عذاب ہے۔

قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۳

کیا عالمِ اسلام دنیا کی قیادت سنبھالنے کا اہل ہے؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)
ڈاکٹر محی الدین غازی

پاکستان میں مذہبی سیاست کو درپیش تحدیات
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مولانا مفتی محمودؒ
مجیب الرحمٰن شامی

قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہامات
قاضی ظفیر احمد عباسی

جسٹس غزالی کی شخصیت کے دو دلفریب رنگ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل سسٹم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
بی_بی_سی

اسرائیل کے تحفظ کیلئے دفاعی میزائلی نظام
نصرت مرزا

فلسطین اور یہود: خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمیدؒ کا خط
ادارہ

امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت
ادارہ

یہودیوں کی طوطا چشمی
طلال خان ناصر

رفح
ہلال خان ناصر

ایامِ حج و زیارتِ مدینہ کی یاد میں
سید سلمان گیلانی

’’صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر‘‘
مولانا حافظ کامران حیدر

Election 2002: Our Expectations from Muttahida Majlis-e-Amal
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter