اسرائیل کو اپنے دفاعی موقف کے لیے 2026ء تک مہلت دے کر عالمی عدالتِ انصاف نہ صرف انصاف کی فراہمی میں تاخیر کر رہی ہے بلکہ وہ غزہ کو تباہ کرنے اور اس کے لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے اسرائیل کو مزید وقت دے رہی ہے، اور اس صورتحال میں طاقتور ریاستیں اس سے چشم پوشی کر رہی ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) نے حال ہی میں جنوبی افریقہ بمقابلہ اسرائیل کے مقدمے میں اسرائیل کے دفاعی موقف کے لیے آخری تاریخ جنوری 2026ء تک بڑھا دی ہے۔ اس کیس میں عالمی عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے؟
بین الاقوامی برادری، جس نے 7 اکتوبر کے حملے کی فوری طور پر چند گھنٹوں کے اندر مذمت کی تھی، اس نے اس معاملے میں ’’نسل کشی‘‘ کا لفظ استعمال کرنے میں نمایاں طور پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے، بلکہ اس کی بجائے وہ دنیا کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے اس اصطلاح کی توثیق کا انتظار کر رہی ہے۔ یہ ہچکچاہٹ اس صورتحال میں بھی برقرار ہے جب کسی چیز کو اس کے صحیح نام سے پکارنے سے انکار ناقابلِ تصور خوف کو جنم دے رہا ہے۔
سب سے بری بات یہ ہے کہ اس بات کا خطرہ اب بھی موجود ہے کہ عدالت بالآخر ان واقعات کو نسل کشی قرار دینے سے انکار کر دے گی۔
ممکنہ طور پر اس صدی کے سب سے زیادہ فوری نوعیت کے معاملے میں، وافر مقدار میں دستیاب شواہد اور انسانی حقوق کی بڑی تنظیموں کی تسلیم شدہ تحقیق کے باوجود، جو کچھ ہو رہا ہے اس کی نشاندہی کرنے میں ہچکچاہٹ، اس میں بیوروکریسی کے لیے اس کی نرمی کو بھی شامل کر لیں تو، یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ اخلاقی رشوت کی ایک شکل ہو سکتی ہے۔ (یعنی اتنے واضح حالات اور ثبوتوں کے باوجود بھی عدالت کا واضح الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرنا اور غیر ضروری تاخیری حربوں کو برداشت کرنا یہ شک پیدا کرتا ہے کہ کہیں کسی بیرونی دباؤ یا مفاد کے تحت وہ سچائی کو نظر انداز تو نہیں کر رہی۔)
قانون بمقابلہ انصاف
بین الاقوامی قانون کو اکثر انصاف سمجھ لیا جاتا ہے، لیکن یہ دونوں ایک جیسے نہیں ہیں۔ اس لیے کہ قانون ایک ایسا تکنیکی شعبہ بن سکتا ہے جو زندہ حقیقت سے اس قدر دور ہو جائے کہ مضحکہ خیز حد تک پہنچ جائے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سے بین الاقوامی قانون دان تو ’’انصاف‘‘ کا لفظ استعمال کرنے میں بھی ہچکچاتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ اس کی تعیین کا کوئی واضح طریقہ نہیں ہے، اس لیے وہ بس ریاستوں کے طے کردہ قواعد پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔
اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ یہ قواعد دنیا کے سب سے طاقتور ممالک کی سیاسی مرضی کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں سے بیشتر سابقہ نوآبادیاتی طاقتیں ہیں۔
غزہ میں نسل کشی ہوئی ہے یا نہیں، اس کا جائزہ لینے کے لیے عدالت جن قواعد اور نظائر پر انحصار کرے گی وہ محدود ہیں۔ ان نظائر میں نوآبادیاتی تناظر میں کی گئی نسل کشیوں کے تجربات شامل نہیں ہیں۔ جیسا کہ راؤل پیک نے اپنی دستاویزی فلم Exterminate All the Brutes میں زبردست طور پر واضح کیا ہے کہ ایسی بہت سی نسل کشیوں کو ان کے مرتکبین نے تاریخ سے مٹا دیا، جبکہ متاثرین کی اولادوں کے اظہار کو مسلسل خاموش کرایا جاتا رہا۔ کینیڈا، آسٹریلیا، امریکہ اور دیگر جگہوں پر مقامی لوگوں کو اپنی کہانیاں سنانے کے حق سے محروم رکھا گیا۔ یہی بات الجزائر، کانگو، نمیبیا، لاطینی امریکہ، ویتنام اور دیگر جگہوں پر ان کی مزاحمت کے جواب میں لاکھوں قتل یا معذور کیے جانے والوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا کی ایک بڑی تعداد نوآبادیات کی تاریخ سے ناواقف ہے، اور یہ لاعلمی جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے۔
بین الاقوامی قانون، ایک باقاعدہ ضابطے کے طور پر، نوآبادیاتی نظام کے تحت کی جانے والی تاریخی ناانصافیوں اور مظالم کو مٹانے کا ایک طاقتور ذریعہ تھا۔ یہ اس وقت تیار ہوا جب یورپ کے بالا طبقات کی سلطنت اپنے عروج پر تھی، اور اس کا مقصد ان کے مفادات کی نگہبانی کرنا تھا۔ بین الاقوامی قانون کی قانونی حیثیت کو ’’تہذیب‘‘ کے نام پر جائز قرار دیا گیا تھا، ایک ایسی اصطلاح جس کا عملی مطلب ہر وہ چیز تھی جو یورپی مفادات اور ان کی انا کو پورا کرتی ہو۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد کا بین الاقوامی قانون اس نوآبادیاتی تاریخ سے مکمل طور پر الگ نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس، اس نے بار بار دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی ان کوششوں کو روکا کہ کہ نوآبادیاتی دور میں جو کچھ ہوا، جن کے اثرات آج بھی موجود ہیں، ان پر کھل کر بات کی جائے اور ان کا اعتراف کیا جائے۔
ایک غیر اعلانیہ اصول
نسل کشی کے بارے میں جو بہت کم تسلیم شدہ قانونی مثالیں موجود ہیں، ان کی رو سے بھی اگر دیکھا جائے تو اسرائیل نے اپنی بنیاد رکھنے کے بعد سے جو کچھ کیا ہے وہ خود ہی سب کچھ بتا دیتا ہے۔ بین الاقوامی عدالت پہلے ہی مان چکی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون کے سب سے اہم اصولوں کو توڑ رہا ہے۔ پچھلے سال جولائی میں عدالت نے اسرائیلی قبضے کے قانونی ہونے یا نہ ہونے پر جو رائے دی تھی، اگر اسے سمجھداری سے پڑھا جائے تو پوری بات واضح ہو جاتی ہے۔
اگر اسرائیل حقِ خود ارادیت کی خلاف ورزی کر رہا ہے، زمین کو اپنے اندر ضم کر رہا ہے، نسلی علیحدگی اور نسل پرستی کا نظام نافذ کر رہا ہے، اور نظام کے حوالے سے بے شمار دیگر سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، تو یہ بلاشبہ ایک نوآبادیاتی ریاست ہے۔ پھر بھی بین الاقوامی قانون دانوں کی ایک پوری برادری ایسی موجود ہے جو سچ کہنے سے ڈرتی ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب ایک غیر اعلانیہ اصول کو توڑنا ہوگا کہ کسی کو بھی نوآبادیات کی تاریخ کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔
جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ یہاں نوآبادیاتی نظام چل رہا ہے، تو تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے حالات میں نسل کشی ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیل نے اتنی تفصیل سے ایسے کام کیے ہیں کہ جن کا نسل کشی کے بین الاقوامی قوانین پر پورا اترنا یقینی ہو جائے۔ اس نے بیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو لمبے عرصے تک پانی، بجلی اور کھانے سے محروم رکھا ہے۔ اس نے پورے شہروں کو تباہ کر دیا ہے اور دنیا کے سب سے خطرناک ہتھیاروں سے عام لوگوں کو ڈرایا ہے۔ (اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان) ٹیکنالوجی کا فرق اور بڑے پیمانے پر ہدف شدہ قتل و غارت نوآبادیاتی تشدد کی خاص پہچان ہیں۔ آج غزہ میں بچوں کے اعضا کاٹے جانے کی سب سے زیادہ تعداد ریکارڈ کی گئی ہے۔ نوآبادیاتی جنگ میں جسموں کو مسخ کرنا ایک عام منظر ہے۔ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو منظم تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ اقدامات متفرق نہیں ہیں، یہ فلسطینی عوام کی نسلی صفائی کے واضح ارادے سے کیے جاتے ہیں، یہ ارادہ اسرائیلی ریاست کی بنیاد میں ہی کندہ ہے۔
کسوٹی کا معیار
اسے نسل کشی نہ قرار دینے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ نوآبادیات کی تاریخ اور زمینی حقائق دونوں سے انکار کیا جائے۔ ICJ کے جج عام لوگ نہیں ہیں، وہ بظاہر دنیا کے سب سے زیادہ معزز اور تعلیم یافتہ قانونی ذہنوں میں سے ہیں، وہ نوآبادیات کی تاریخ جانتے ہیں، اور اس مقدمے کے فریقین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ انہیں غزہ کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔ عدالت کے حالیہ (اسرائیل کو) مہلت دینے کے فیصلے سے پورے شعبے میں خطرے کی گھنٹی بج جانی چاہیے تھی۔ کیوں؟ اس لیے کہ کاغذ پر سیاہی کے بغیر، طاقتور ریاستیں آئینے میں خود کو دیکھنے سے بچنے کا فائدہ برقرار رکھتی ہیں۔
اس معاملے میں انصاف میں جتنی دیر ہوگی، اتنا ہی ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جو فلسطین میں نوآبادیاتی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاخیر سے انہیں وقت مل جائے گا کہ وہ حالات کو اپنی مرضی کے مطابق بیان کریں اور ان ثبوتوں کو مٹا دیں جو ان کے خلاف جاتے ہیں۔ فلسطین کا یہ مسئلہ ایک امتحان بن گیا ہے، صرف ججوں کی انسانیت کا ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی قانون کے ایک ضابطے کے طور پر قابلِ اعتبار ہونے کا بھی۔
اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ
- کیا جج صاحبان سیاسی دباؤ اور اپنے شعبے کے غیر علانیہ اصولوں کے آگے جھک جائیں گے، اور ایسی مبہم زبان استعمال کریں گے جس سے بات کو گول مول کیا جا سکے اور ذمہ داری سے بچا جا سکے؟ اگر جواب ہاں میں ہے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ جج صاحبان نے جان بوجھ کر اس ناواقفیت (اَن دیکھی) کو قبول کر لیا ہے جس کو موجودہ نظام انعام دیتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ظلم و ستم کو معمول کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ کیا وہ اخلاقی لحاظ سے رشوت لے لیں گے، چاہے شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طور پر؟
- یا وہ آخرکار بین الاقوامی قانون کی اس طویل تاریخ سے بغاوت کریں گے جو نوآبادیاتی جبر کو جائز قرار دیتی آئی ہے، اور وہ ہمارے دور کے بدترین ظلم کے سامنے انصاف کی سچی بات کہیں گے؟