بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
آپریشن سندور کے بعد علاقائی بالادستی کے حوالے سے بھارت کی ساکھ مجروح ہوئی ہے

10 مئی کو ریاستہائے متحدہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کی ثالثی کے تحت بھارت اور پاکستان کے درمیان ’’مکمل اور فوری‘‘ جنگ بندی کا اعلان کیا۔ امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ مزید کشیدگی کا عندیہ ظاہر کرنے والی انٹیلیجنس کے پیش نظر نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو، اور وائٹ ہاؤس کی چیف آف سٹاف سوزی وائلس نے فوری ثالثی کا کردار ادا کیا۔ وینس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو تباہ کن خطرات سے آگاہ کیا اور بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت کا مشورہ دیا۔

جنگ بندی کے اعلان پر دنیا بھر میں سکھ کا سانس لیا گیا۔ جوہری جنگ کا خوف، جو 2019ء کے ایک تجزیے کے مطابق ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں بارہ سے تیرہ کروڑ افراد کو ہلاک کر سکتا ہے، اس نے علاقائی بے چینی پیدا کی اور امریکی سفارتی سرگرمیوں کو تیز کیا تھا۔

البتہ بھارت میں ٹرمپ کے اعلان کو کچھ حلقوں میں مختلف طور پر دیکھا گیا۔ بھارتی فوج کے سابق سربراہ وید پرکاش ملک نے ایکس پر لکھا:

’’جنگ بندی 10 مئی 2025ء: ہم نے یہ بات بھارت کی مستقبل کی تاریخ پر چھوڑی دی ہے کہ اس کی براہ راست اور بالواسطہ کارروائیوں کے بعد سیاسی مقاصد کے حوالے سے کیا فوائد حاصل ہوئے، اگر کوئی ہوئے ہیں۔‘‘

رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اسی پلیٹ فارم پر لکھا:

’’کاش ہمارے وزیر اعظم نریندرا مودی نے (خود) جنگ بندی کا اعلان کیا ہوتا نہ کہ کسی غیر ملکی صدر نے۔ ہم شملہ (1972ء) کے بعد سے ہمیشہ تیسرے فریق کی مداخلت کے مخالف رہے ہیں۔ اب ہم نے اسے کیوں قبول کر لیا ہے؟ مجھے امید ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی نہیں بنے گا، کیونکہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔‘‘

مؤخر الذکر تبصرہ شاید ٹرمپ کے اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں ’’یہ دیکھنے کے لیے کہ 'ہزار سال' کے بعد کشمیر کے بارے میں کوئی حل نکل سکتا ہے یا نہیں‘‘۔

امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کو اعلان کو بھارت میں کچھ لوگوں نے امریکی دباؤ میں مودی حکومت کی پسپائی کی علامت سمجھا ہے، جبکہ کشمیر پر ثالثی کی امریکی پیشکش کو اس بات کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے کہ بھارت کی تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کرنے کی دیرینہ پالیسی کمزور ہو رہی ہے۔

جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست میں، اندازہ اکثر حقیقت سے آگے نکل جاتا ہے، جب تک کہ حقیقت سامنے نہ آئے۔ بھارت نے طویل عرصے سے علاقائی بالادستی کا مظاہرہ کیا ہے، جس کو اقتصادی ترقی اور جوہری طاقت نے تقویت دی ہے۔ پھر بھی 22 اپریل کو کشمیر میں مزاحمتی محاذ (TRF) کی جانب سے کیے گئے قتلِ عام کے بعد بھارتی اقدامات نے اس کی کمزوریاں ظاہر کیں۔ (ٹی آر ایف نے بعد میں ذمہ داری کا اعلان واپس لے لیا تھا۔ الشریعہ)۔ طاقت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھنے کے باوجود بھارت کا ردعمل ناکام رہا، جس سے پاکستان کی علاقائی حیثیت میں اضافہ ہوا اور مودی حکومت سفارتی طور پر کمزور ہو گئی۔

7 مئی کو بھارت نے TRF جیسے گروپوں سے منسلک دہشت گرد اڈوں کو ختم کرنے کے لیے آپریشن سندور شروع کیا، جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ اسے پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ فرانسیسی ساختہ رافیل جیٹ طیاروں کی مدد سے اس آپریشن کا مقصد مقامی غصے کے ماحول میں مودی کو ایک مضبوط آدمی کے طور پر پیش کرنا تھا۔ پھر بھی اس کی کامیابی متنازعہ ہو گئی۔ پاکستان نے شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاع دی جن میں بچے بھی شامل تھے، جبکہ بھارت نے اصرار کیا کہ صرف دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

پاکستان کی فضائیہ نے حملوں کے جواب میں اپنے جیٹ طیارے بھیجے اور دعویٰ کیا کہ اس نے پانچ بھارتی طیارے مار گرائے، جن میں تین رافیل بھی شامل تھے۔ دو امریکی عہدیداروں نے رائٹرز نیوز ایجنسی کو تصدیق کی کہ چینی ساختہ J-10 طیارے نے کم از کم دو بھارتی طیارے مار گرائے، جس میں چینی انٹیلیجنس، نگرانی اور جاسوسی (ISR) کی مدد شامل تھی۔ بھارت نے کسی بھی نقصان کو تسلیم نہیں کیا۔

بھارتی میڈیا نے ابتدائی طور پر پاکستانی شہروں بشمول کراچی کی بندرگاہ پر تباہ کن حملوں کا دعویٰ کیا لیکن یہ رپورٹس، جو واضح طور پر پروپیگنڈا کا حصہ تھیں، غلط ثابت ہوئیں۔

پاکستان کے دعوے کے مطابق 9 مئی کو بھارت نے پاکستانی اڈوں پر میزائل حملے کیے جن میں اسلام آباد کے قریب ایک اڈہ بھی شامل تھا۔ پاکستانی فوج نے مختصر فاصلے کے میزائل اور ڈرون حملوں سے جوابی کارروائی کی جس میں ادھم پور، پٹھان کوٹ، آدم پور اور بھوج کے بھارتی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی فضائیہ کی افسر ویمیکا سنگھ نے رپورٹ کیا کہ پاکستانی ڈرونز اور گولہ بارود نے شہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔

ایک علاقائی بالادست کے طور پر بھارت کی ساکھ مجروح ہوئی۔ بھارتی حکومت نے واضح طور پر اپنے رافیل جیٹ طیاروں کو بالاتر سمجھا اور پاکستان کے چینی مدد یافتہ ISR سسٹمز کو کمتر سمجھا جس نے میدانِ جنگ میں (نشانے کی) درستگی میں اضافہ کیا۔

چین کی جانب سے پاکستان کو ملنے والی فوجی امداد میں حالیہ برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2020ء سے اسلام آباد کی فوجی درآمدات کا 81 فیصد ان کی طرف سے آیا ہے۔

کئی سالوں سے کچھ بھارتی دفاعی تجزیہ کار خبردار کرتے آ رہے تھے کہ بھارت کی فوج چین کے مدد یافتہ پاکستان سے مقابلے کے لیے تیار نہیں ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ کشمیر کے متعلق اس کے ہائی رسک (متنازعہ) موقف کے لیے امریکی یا روسی حمایت کچھ زیادہ نہیں ہے۔ دیگر نے حکومت کی خارجہ پالیسی کو چین-پاکستان تعلقات کے فروغ کا باعث بننے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی تنبیہات دہلی میں نظر انداز کر دی گئیں۔

گزشتہ چند دنوں کے واقعات نے بھارت کی منصوبہ بندی کی حدود کو بے نقاب کیا ہے، ابہام کی جگہ عالمی جانچ پڑتال نے لے لی ہے۔ نئی دہلی کا فوری ردعمل دفاعی بجٹ میں اضافہ اور کشمیر میں فوج کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

اب جب کہ بھارتی حکومت اپنے اگلے اقدامات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، اسے یہ بات اچھی طرح سے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خفیہ جنگ کی موجودہ صورتحال اور اضطراب کا باعث بننے والی خفیہ جارحیت کا سلسلہ ناقابلِ قبول ہے۔ دونوں ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے طویل عرصے سے پراکسیوں (بالواسطہ قوتوں) کی مدد کی ہے، جو کشمیر سے افغانستان تک عدمِ استحکام کو فروغ دے رہی ہیں۔

آئندہ کا لائحہ عمل نئی دہلی اور اسلام آباد کے دانشمندانہ فیصلوں پر منحصر ہے۔ مستقبل کی پالیسیوں کی تشکیل تحمل سے ہونی چاہیے نہ کہ بیان بازی سے۔ ایسا کرنے میں ناکامی جغرافیائی سیاسی افراتفری، معاشی رکاوٹ، اور لاکھوں لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ دنیا کی ایک چوتھائی غریب ترین عوام اور پینتیس کروڑ سے زیادہ ناخواندہ بالغ افراد کا خطہ ہونے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان طویل تنازعہ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ مسلسل کشیدگی بھارت کی ترقی کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے اور پاکستان کی کمزور معیشت کو تباہ کر سکتی ہے، جس سے حکمتِ عملیوں سے حاصل کیے گئے فوائد ضائع ہو سکتے ہیں۔

www.aljazeera.com


(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter