(۸۲) بأیمانھم کا مطلب
یمین کی جمع أیمان ہے۔ یمین کے معنی داہنے ہاتھ کے بھی ہیں اور داہنی جانب کے بھی ہیں۔ قرآن مجید میں یمین بھی آیا ہے اور أیمان بھی آیا ہے۔ یمین کا لفظ قرآن مجید میں دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اپنے افادات میں ایک قیمتی نکتہ ذکر کیا ہے کہ اگر یمین سے پہلے حرف (باء) ہو تو مطلب ہوگا داہنے ہاتھ میں اور اگر یمین سے پہلے حرف (عن) ہو تو مطلب ہوگا داہنی جانب۔ ذیل کی قرآنی مثالوں سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے:
وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوسَی۔ (طہ: ۱۷)
’’اور اے موسیٰ تمہارے داہنے ہاتھ میں وہ کیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یہاں جار مجرور بطور حال آیا ہے، اس کے ساتھ کسی فعل کا ذکر نہیں ہے۔ مَا مبتدا اور تِلْکَ خبر ہے، اس سے حال بِیَمِیْنِکَ ہے۔
فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِیْنِہِ۔ (الانشقاق:۷) اور (الحاقۃ: ۱۹)
’’تو جس کو اس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں دی گئی۔‘‘
مذکورہ بالا ان دونوں آیتوں میں یمین کے ساتھ حرف (باء ) آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ اس کا مطلب داہنا ہاتھ ہے۔ جبکہ مذکورہ ذیل دونوں آیتوں میں یمین کے ساتھ حرف (عن) آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ داہنی جانب کے معنی میں ہے۔
فَمَالِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا قِبَلَکَ مُہْطِعِیْنَ۔ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ۔ (المعارج: ۳۶،۳۷)
’’تو ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ داہنے بائیں سے تم پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں، گروہ در گروہ۔ ‘‘
لَقَدْ کَانَ لِسَبَإٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ آیَۃٌ جَنَّتَانِ عَن یَمِیْنٍ وَشِمَال۔ (سبا:۱۵)
’’اہل سبا کے لیے بھی، ان کے مسکن میں، بہت بڑی نشانی موجود تھی۔ داہنے اور بائیں دونوں جانب باغوں کی دو قطاریں۔‘‘
اسی طرح مذکورہ ذیل آیت میں یمین کی جمع لفظ أیمان آیا ہے، یہ بھی داہنی جانب کے معنی میں ہے۔
ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِمْ۔ (الاعراف:۱۷)
ہم مترجمین کے یہاں دیکھتے ہیں، کہ وہ قرآن مجید کے ان تمام مقامات پر جہاں یمین یا أیمان کے ساتھ باء یا عن آیا ہے وہاں مذکورہ بالا اصول کے مطابق ہی ترجمہ کیا ہے، البتہ دو مقامات ایسے ہیں جہاں یمین کی جمع أیمان کے ساتھ حرف (باء ) آیا ہے، اور اس لحاظ سے ترجمہ داہنے ہاتھ کا ہونا چاہیے تھا، لیکن عام طور سے ترجمہ کرنے والوں نے داہنے جانب کا ترجمہ کیا، چند ترجمے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
(۱) یَسْعَی نُورُہُم بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْْمَانِہِم۔ (الحدید: ۱۲)
ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔(سید مودودی)
دوڑتی چلتی ہے ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے داہنے۔(شاہ عبدالقادر)
ان کا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف دوڑتا ہوا۔ (اشرف علی تھانوی)
their light shining forth before them and on their right hands,. (Pickthal)
their light running forward before them and by their right hands. (Hilali & Khan)
مولانا امانت اللہ اصلاحی آیت کے مذکورہ ٹکڑے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’ان کا نور ان کے آگے آگے رواں دواں اور ان کے دائیں ہاتھ میں ہوگا‘‘ ۔
نحوی ترکیب کے پہلو سے نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ فعل ’’یسعی‘‘ کا تعلق صرف ’’من بین أیدیھم‘‘ سے ہے، ’’بأیمانھم‘‘ سے نہیں ہے۔ ’’بأیمانھم‘‘ یہاں بجائے خبر ہے جس کا مبتدا پہلے مذکور نور کی ضمیر ہے۔
مذکورہ ذیل انگریزی ترجمہ بھی اوپر بیان کردہ اصول کے مطابق ہے:
their light running forward before them and in their right hands. (Mubarakpuri)
(۲) نُورُہُمْ یَسْعَی بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْْمَانِہِمْ۔ (التحریم:۸)
ان کی روشنی دوڑتی ہے ان کے آگے اور ان کے داہنے۔ (شاہ عبدالقادر)
ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا۔ (اشرف علی تھانوی)
ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ (سید مودودی)
ان کی روشنی ان کے آگے آگے اور ان کے دہنے چل رہی ہوگی۔(امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی آیت کے مذکورہ ٹکڑے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’ان کی روشنی ان کے آگے آگے رواں دواں ہوگی اور ان کے دائیں ہاتھ میں بھی ہوگی‘‘۔
مذکورہ ذیل انگریزی ترجمہ بھی بیان کردہ اصول کے مطابق ہے:
Their light will run forward before them and in their right hands. (Mubarakpuri)
مشہور مفسر اور ماہر لغت علامہ ابوحیان کی مذکورہ ذیل عبارت کے مطابق جمہور کی رائے یہی ہے کہ ان کے داہنے ہاتھ میں نور ہوگا جس سے سامنے بھی روشنی ہورہی ہوگے، البتہ وہ ایک رائے ذکر کرتے ہیں جس کی رو سے یہاں باء عن کے معنی میں ہے، اور مفہوم داہنی جانب کا ہے۔
والظاھر أن النور یتقدم لھم بین أیدیھم ، ویکون أیضا بأیمانھم، فیظھر أنھما نوران: نورٌ ساعٍ بین أیدیھم، ونورٌ بأیمانھم فذلک یضیءُ الجھۃ التی یؤُمُّونھا، وھذا یضیءُ ما حوالیھم من الجھات۔ وقال الجمھورُ: النور أصلہ بأیمانھم، والذی بین أیدیھم ھو الضوءُ المنبسط من ذلک النور۔ وقیل: الباءُ بمعنی عن، أی عن أیمانھم، والمعنی: فی جمیع جھاتھم۔ وعبّر عن ذلک بالأیمان تشریفاً لھا۔ (البحر المحیط فی التفسیر: ۱۰؍۱۰۵)
تاہم قرآن مجید کے تمام استعمالات کی روشنی میں اور خود دونوں آیتوں کے سیاق کلام کی روشنی میں بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے، کہ باء کو عن کے معنی میں لیا جائے، بلکہ زیادہ مناسب یہی ہے کہ باء کو باء کے معنی میں ہی مان کر ترجمہ کیا جائے۔
(۸۳) انظرونا کا مطلب
نظر کا فعل مختلف صیغوں کے ساتھ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر آیا ہے، کہیں پر یہ حرف الی کے صلہ کے ساتھ آیا ہے، تو کہیں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ، نظر کے دو معنی ہوتے ہیں، دیکھنا اور انتظار کرنا،
عام طور سے اہل لغت یہ ذکر کرتے ہیں کہ انتظار کرنے کے معنی میں نظر اس وقت ہوتا ہے جب وہ براہ راست مفعول بہ کے ساتھ ہو، البتہ دیکھنے کے معنی میں وہ ہر دو صورت میں ہوتا ہے، خواہ حرف الی کے ساتھ ہو، یا براہ راست مفعول بہ کے ساتھ ہو۔
نظرہ کنصرہ وسمعہ ، والیہ نظراً ومنظراً ونظراناً ومنظرۃً وتنظاراً: تأملہ بعینہ، ونظرہ وانتظرہ وتنظّرہ: تأنی علیہ۔ (القاموس المحیط، ص: ۴۸۴)
گویا نظرہ کے دو معنی ہوں گے اس کو دیکھا، یا اس کا انتظار کیا، اور نظر الیہ کے معنی ہوں گے اس کو دیکھا۔
تاہم ابوحیان کی تحقیق یہ ہے کہ دیکھنے کے لیے جو نظر آتا ہے اس کے ساتھ الی ضرور آتا ہے، اور الی کے بغیر نظر دیکھنے کے معنی میں صرف شعر میں (گویا شعری ضرورت کے تحت) آتا ہے۔
ولا یتعدی النظر ھذا فی لسان العرب الا بالی لا بنفسہ، وانما وجد متعدیاً بنفسہ فی الشعر۔ (البحر المحیط فی التفسیر:۱۰؍۱۰۶)
علامہ طاہر بن عاشور بھی اس رائے کی تائید کرتے ہیں:
الا أن نظر بمعنی الانتظار یتعدی الی المفعول، ونظر بمعنی أبصر یتعدی بحرف (الی)۔ (التحریر والتنویر: ۲۷؍۳۸۲)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نظر حرف الی کے ساتھ آیا ہے، وہ دیکھنے کے مفہوم میں ہے، اور جہاں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ آیا ہے، وہاں انتظار کرنے یا نظر عنایت فرمانے کے معنی میں ہے۔ ذیل کی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے:
أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کَیْْفَ خُلِقَتْ۔ (الغاشیۃ:۱۷)
کیا وہ اونٹوں پر نگاہ نہیں کرتے، وہ کیسے بنائے گئے؟
وَتَرَاہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ وَہُمْ لاَ یُبْصِرُون۔ (الاعراف:۱۹۸)
اور تم ان کو دیکھتے ہو کہ وہ تمھاری طرف تاک رہے ہیں، لیکن انھیں سوجھتا کچھ بھی نہیں ہے۔
فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَن تَأْتِیَہُم بَغْتَۃً۔ (محمد:۱۸)
یہ لوگ تو بس اسی بات کے منتظر ہیں کہ قیامت ان پر اچانک آدھمکے۔
فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِیْنَ۔ (فاطر:۴۳)
پس کیا یہ انتظار کررہے ہیں اسی سنت الہی کا جو اگلوں کے باب میں ظاہر ہوئی۔
اول الذکر دونوں آیتوں میں الی آیا ہے، اور مطلب دیکھنا ہے، اور موخر الذکر دونوں آیتوں میں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ آیا ہے اور انتظار کرنے کے معنی میں ہے۔
تاہم ذیل میں مذکور ایک مقام پر جہاں نظر براہ راست مفعول کے ساتھ آیا ہے، بہت سارے مترجمین نے دیکھنا ترجمہ کیا ہے، حالانکہ قرآنی استعمالات کی روشنی میں بھی اور خود اس آیت کے عمومی مفہوم کے لحاظ سے بھی ٹھہرنا اور انتظار کرنا زیادہ مناسب ترجمہ ہے، دونوں طرح کے ترجمے ذیل میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
یَوْمَ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِکُمْ۔ (الحدید: ۱۳)
اس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ (سید مودودی)
wait for us that we may borrow some of your light. (Daryabadi)
Look on us that we may borrow from your light! (Pickthal)
ہمیں ایک نگاہ دیکھو کہ ہم تمہارے نور سے کچھ حصہ لیں،(احمد رضا خان)
ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں۔ (محمد جوناگڑھی)
ہماری راہ دیکھو ہم بھی سلگالیں تمہاری روشنی سے (شاہ عبدالقادر)
انتظار کرو ہمارا ہم بھی روشنی لیں نور تمہارے سے (شاہ رفیع الدین)
نظر کنید بما تا بگیریم روشنی از نور شما (شیرازی)
علامہ زمخشری نے انظرونا کے دونوں معنے مراد لیے، اس پر علامہ ابوحیان نے حسب ذیل تنقید کی، اور وہ تنقید مناسب ہے۔
قال الزمخشری: انظرونا: انتظرونا، لأنھم یسرع بھم الی الجنۃ کالبروق الخاطفۃ علی رکاب تذف بھم وھؤلاء مشاۃٌ، أوانظروا الینا، لأنھم اذا نظروا الیھم استقبلوھم بوجوھھم والنور بین أیدیھم فیستضیؤن بہ۔ انتھی۔ فجعل انظرونا بمعنی انظروا الینا، ولا یتعدی النظر ھذا فی لسان العرب الا بالی لا بنفسہ، وانما وجد متعدیاً بنفسہ فی الشعر۔ (البحر المحیط فی التفسیر: ۱۰؍۱۰۶)
(۸۴) اسم موصول کا دقیق ترجمہ
ذیل کی دونوں آیتیں ملاحظہ فرمائیں:
وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ۔ (السجدہ: ۲۰)
وَنَقُولُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ۔ (سبا:۴۲)
ان میں الذی اور التی کا فرق ہے۔ عذاب مذکر ہے، اور اس کے لحاظ سے الذی آیا ہے، جبکہ النار مونث ہے اور اس کے لحاظ سے التی آیا ہے، دراصل جہاں الذی ہے وہاں زور اس پر ہے کہ یہ لوگ عذاب کو جھٹلاتے تھے، یعنی دوزخ کے عذاب کو، اور جہاں التی ہے وہاں زور اس پر ہے کہ یہ لوگ دوزخ کو جھٹلاتے تھے، جس دوزخ کے عذاب سے ان کو دوچار کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ وہ جھٹلاتے تو دونوں کو تھے، لیکن ایک جگہ ان کی ایک تکذیب کو نمایاں کیا گیا تو دوسری جگہ دوسری تکذیب کو نمایاں کیا گیا۔
ترجمے میں اس کا لحاظ کرنا زیادہ مناسب تھا، لیکن بعض مترجمین نے دونوں جگہ بالکل یکساں ترجمہ کیا، جو مفہوم کی ادائیگی کے لحاظ سے غلط نہیں ہے، لیکن دونوں اسلوبوں کا فرق ان سے ظاہر نہیں ہوتا ہے، جبکہ بعض ترجموں سے اس فرق کے خلاف مفہوم پیدا ہوتا ہے۔
وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ۔ (السجدہ: ۲۰)
اور ان سے کہا جائے گا کہ اب اس دوزخ کے عذاب کا مزا چکھو جس کی تم تکذیب کرتے رہے تھے۔ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمے میں تکذیب کی نسبت دوزخ کی طرف ہے، جبکہ آیت میں عذاب کی طرف ہے)
اور ان کو کہا جاوے گا کہ دوزخ کا وہ عذاب چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے(اشرف۔ علی تھانوی، اس ترجمہ میں اسلوب کی بخوبی رعایت ہے)
اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اسی آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (سید مودودی، اس ترجمہ میں آگ پر زور ہے، حالانکہ اسلوب عذاب پر زور کا متقاضی ہے)
وَنَقُولُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ۔ (سبا:۴۲)
اور ہم ان ظالموں سے کہیں گے کہ اب اس دوزخ کے عذاب کا مزا چکھو جس کو تم جھٹلاتے رہے ہو۔ (امین احسن اصلاحی، آپ نے دونوں جگہ ترجمہ بالکل یکساں کیا ہے، اس سے اسلوب کا فرق ظاہر نہیں ہوپاتا)
اور کہیں گے ہم ان گناہ گاروں کو چکھو تکلیف اس آگ کی جس کو تم جھوٹ بتاتے تھے۔ (شاہ عبدالقادر، اس ترجمے میں اسلوب کی اچھی رعایت نظر آتی ہے)
اور ہم ظالموں سے کہیں گے کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھٹلایا کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو۔ (اشرف علی تھانوی، اس ترجمے میں اسلوب کی رعایت کی گئی ہے)
اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے کہ اب چکھو اس عذاب جہنم کا مزہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (سید مودودی، آیت میں جہنم کو جھٹلانے پر زور ہے، اور ترجمہ میں عذاب کو جھٹلانے پر زور ظاہر ہورہا ہے، جو درست نہیں ہے)۔
(جاری)