(213) لو کے بعد فعل مضارع کا ترجمہ
لو کبھی مصدریہ بن کر آتا ہے جیسے ودوا لو تدہن فیدہنون، یہ عام طور سے فعل ود کے بعد آتا ہے، یہ ابھی ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ لو کی مشہور قسم وہ ہے جسے حرف امتناع کہتے ہیں۔ لو برائے امتناع اور ان شرطیہ میں فرق یہ ہے کہ ان مستقبل کے لیے ہوتا ہے، خواہ اس کے بعد فعل ماضی آئے یا فعل مضارع، اور لو ماضی کے لیے ہوتا ہے خواہ اس کے بعد فعل ماضی آئے یا فعل مضارع۔ ابن ہشام نے لکھا ہے:
ویتلخص علی ہذا ان یقال ان لو تدل علی ثلاثۃ امور عقد السببیۃ والمسببیۃ وکونہما فی الماضی وامتناع السبب۔ (مغنی اللبیب عن کتب الاعاریب، ص: 340)
یہ درست ہے کہ بعض نحویوں نے ذکر کیا ہے کہ لو مستقبل کے لیے بھی آتا ہے، مگر ان کے نزدیک بھی ایسا بہت کم ہوتا ہے، اور انھوں نے جو شواہد ذکر کیے ہیں وہ مختلف فیہ اور قابل تاویل ہیں۔
لو کے بعد فعل ماضی بھی آتا ہے اور مضارع بھی آتا ہے، ماہرین لغت نے واضح کیا ہے کہ لو کے بعد ماضی آئے تب تو ماضی کے زمانے کا مفہوم دیتا ہی ہے، لیکن اگر لو کے بعد مضارع آئے تب بھی وہ زیادہ تر ماضی کے زمانے کا مفہوم دیتا ہے۔
قرآن مجید کے تراجم کا جائزہ بتاتا ہے کہ عام طور سے مترجمین نے لو کے بعد فعل مضارع والے جملے کے ترجمے میں کوئی ایک موقف نہیں اختیار کیا ہے، وہ کبھی ماضی کے زمانے کا ترجمہ کردیتے ہیں اور کبھی مستقبل کے زمانے کا ترجمہ کردیتے ہیں۔ جیسے لو یاخذ کا ترجمہ ’اگر وہ گرفت کرتا‘ اور ’اگر وہ گرفت کرے‘ دونوں ترجمے کیے گئے ہیں۔
اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کی ایک منفرد رائے یہ ہے، جو کہیں اور راقم کو نہیں ملی، کہ وہ لو والے جملے کا ترجمہ ماضی سے کرنے پر زور تو دیتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ اس میں بھی فرق کرتے ہیں کہ لو کے بعد فعل ماضی آیا ہے یا فعل مضارع آیا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں لو شاء بھی آیا ہے اور لو یشاء بھی آیا ہے، لو شاء کا ترجمہ ’تو اگر وہ چاہتا‘ کیا جاتا ہے، لیکن لو یشاء کا ترجمہ بعض لوگ ’اگر وہ چاہے‘ کرتے ہیں، حالاں کہ یہ ان شاء اور ان یشا کا ترجمہ ہے، بعض لوگ لو شاء کی طرح لو یشاء کا ترجمہ بھی ’اگر وہ چاہتا‘ کرتے ہیں، مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ ’اگر وہ چاہتا ہوتا‘ کرتے ہیں۔
ابن عاشور کی ایک وضاحت سے اس کی تائید ہوتی ہے، وہ سورۃ النحل آیت نمبر61 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وشرط لو ملازم للزمن الماضی فاذا وقع بعد لو مضارع انصرف الی الماضی غالبا۔ فالمعنی: لو کان اللہ مواخذا الخلق علی شرکہم لافناہم من الارض وافنی الدواب معہم، ای ولکنہ لم یواخذہم۔ (التحریر والتنویر :14 188) یہاں لَو یُواخِذُ اللَّہُ کا مفہوم لو کان اللہ مواخذا سے ادا کیا ہے۔
اس وضاحتی تمہید کی روشنی میں درج ذیل آیتوں کا ترجمہ دیکھتے ہیں:
(۱) وَلَو یُواخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِظُلمِہِم مَا تَرَکَ عَلَیہَا مِن دَابَّۃ۔ (النحل: 61)
”اگر لوگوں کے گناہ پر اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا“۔(محمد جوناگڑھی)
”اور اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اگر اللہ لوگوں سے ان کی حق تلفی پر فورا مواخذہ کرتا ہوتا تو زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا“۔ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہ درست ہے، لیکن بس اسی جگہ یہ ترجمہ کیا ہے)
(۲) وَلَو یُوَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوا مَا تَرَکَ عَلَی ظَہرِہَا مِن دَابَّۃٍ۔ (فاطر: 45)
”اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب داروگیر فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا“۔(محمد جوناگڑھی)
”اور اگر خدا لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑنے لگتا۔ تو روئے زمین پر ایک چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا“۔ (فتح محمد جالندھری، مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ مستقبل سے کیا ہے حالانکہ دونوں آیتوں کا اسلوب ومعنی تقریباً یکساں ہے۔)
”اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑتا تو زمین کی پشت پر ایک جاندار کو بھی نہ چھوڑتا“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں ترجمہ ’پکڑتا‘ کیا، جبکہ اوپر والی آیت میں ’مواخذہ کرتا ہوتا‘ کیا ہے، حالانکہ دونوں آیتوں کا اسلوب ومعنی تقریباً یکساں ہے)
(۳) وَلَو نَشَاءُ لَطَمَسنَا عَلَی اَعیُنِہِم فَاستَبَقُوا الصِّرَاطَ۔ (یس: 66)
”ہم چاہیں تو اِن کی آنکھیں موند دیں، پھر یہ راستے کی طرف لپک کر دیکھیں“۔ (سید مودودی)
”اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر (اندھا کر) دیں۔ پھر یہ رستے کو دوڑیں“۔(فتح محمد جالندھری)
”اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں مٹادیتے پھر لپک کر رستہ کی طرف جاتے“۔(احمد رضا خان)
”اگر ہم چاہتے ہوتے تو اِن کی آنکھیں موند دیتے، پھر یہ راستے کی طرف لپکتے ہوتے“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(۴) وَلَو نَشَاءُ لَمَسَخنَاہُم عَلَی مَکَانَتِہِم فَمَا استَطَاعُوا مُضِیًّا وَلَا یَرجِعُونَ۔ (یس: 67)
”اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ان کی صورتیں بدل دیں پھر وہاں سے نہ آگے جاسکیں اور نہ (پیچھے) لوٹ سکیں“۔(فتح محمد جالندھری)
”ہم چاہیں تو اِنہیں اِن کی جگہ ہی پر اس طرح مسخ کر کے رکھ دیں کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں“۔(سید مودودی)
”اور اگر ہم چاہتے تو ان کے گھر بیٹھے ان کی صورتیں بدل دیتے نہ آگے بڑھ سکتے نہ پیچھے لوٹتے“۔(احمد رضا خان)
”اگر ہم چاہتے ہوتے تو اِنہیں اِن کی جگہ ہی پر اس طرح مسخ کر کے رکھ دیتے کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں“۔(محمد امانت اللہ اصلاحی)
(۵) وَلَو نَشَاءُ لَجَعَلنَا مِنکُم مَلَائِکَۃً فِی الاَرضِ یَخلُفُونَ۔ (الزخرف: 60)
”اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کردیتے جو زمین میں جانشینی کرتے“۔(محمد جوناگڑھی)
”ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کر دیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں“۔(سید مودودی)
”ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کردیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اگر ہم چاہتے ہوتے تو تمھیں فرشتے بنادیتے جو زمین میں جانشین ہوں“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
اس مقام پر لَجَعَلنَا مِنکُم مَلَائِکَۃً کا ترجمہ بھی زیر غور رہے۔
(۶) وَلَو یَشَاءُ اللَّہُ لَانتَصَرَ مِنہُم۔ (محمد: 4)
”اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا“۔(سید مودودی)
”اللہ چاہتا ہوتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا“۔(محمد امانت اللہ اصلاحی)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں سب نے ماضی کا ترجمہ کیا ہے۔
(۷) وَلَو نَشَاءُ لَاَرَینَاکَہُم فَلَعَرَفتَہُم بِسِیمَاہُم۔ (محمد: 30)
”اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور تم ان کو ان کے چہروں ہی سے پہچان لیتے“۔(فتح محمد جالندھری)
”اور اگر ہم چاہیں تو تمہیں ان کو دکھادیں کہ تم ان کی صورت سے پہچان لو“۔(احمد رضا خان)
”ہم چاہیں تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیں اور اُن کے چہروں سے تم ان کو پہچان لیتے“۔ (سید مودودی)
”اگر ہم چاہتے ہوتے تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیتے اور اُن کے چہروں سے تم ان کو پہچان لیتے“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(۸) قَالُوا لَو نَعلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعنَاکُم۔ (آل عمران: 167)
”تو کہنے لگے اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور ساتھ چلتے“۔(سید مودودی)
”تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہم لڑائی جانتے ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے“۔ (محمد جوناگڑھی، صرف اسی ایک مقام پر ’ہوتے‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے)
(۹) وَاِذَا تُتلَی عَلَیہِم آیَاتُنَا قَالُوا قَد سَمِعنَا لَو نَشَاءُ لَقُلنَا مِثلَ ہَذَاَ۔ (الانفال: 31)
”جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہاں سن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں (یہ کلام) ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں“۔(فتح محمد جالندھری)
”اور جب ان پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں تو کہتے ہیں ہاں ہم نے سنا ہم چاہتے تو ایسی ہم بھی کہہ دیتے“۔(احمد رضا خان)
”اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں“۔(محمد جوناگڑھی)
”جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہاں سُن لیا ہم نے، اگر ہم چاہتے ہوتے تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنادیتے“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(۱٠) لَو یَجِدُونَ مَلجَا او مَغَارَاتٍ او مُدَّخَلًا لَوَلَّوا اِلَیہِ۔ (التوبۃ: 57)
”ان کو کوئی پناہ گاہ یا غار یا گھس بیٹھنے کی جگہ مل جائے تو اس کی طرف بے تحاشہ بھاگ جائیں گے“۔(جوادی)
”اگر وہ کوئی جائے پناہ پالیں یا کوئی کھوہ یا گھس بیٹھنے کی جگہ، تو بھاگ کر اُس میں جا چھپیں“۔ (سید مودودی)
”اگر پائیں کوئی پناہ یا غار یا سما جانے کی جگہ تو رسیاں تڑاتے ادھر پھر جائیں گے“۔(احمد رضا خان)
”اگر یہ کوئی بچاؤ کی جگہ یا کوئی غار یا کوئی بھی سر گھسانے کی جگہ پالیں تو ابھی اس طرح لگام توڑ کر الٹے بھاگ چھوٹیں“۔(محمد جوناگڑھی)
(۱۱) وَرَبُّکَ الغَفُورُ ذُو الرَّحمَۃِ لَو یُوَاخِذُہُم بِمَا کَسَبُوا لَعَجَّلَ لَہُمُ العَذَابَ۔ (الکہف: 58)
”تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا“۔ (سید مودودی)
”اور تمہارا پروردگار بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔ اگر وہ ان کے کرتوتوں پر ان کو پکڑنے لگے تو ان پر جھٹ عذاب بھیج دے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بےشک انہیں جلد ہی عذاب کردے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے اگر وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑتا ہوتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(۲۱) وَاعلَمُوا اَنَّ فِیکُم رَسُولَ اللَّہِ لَو یُطِیعُکُم فِی کَثِیرٍ مِنَ الاَمرِ لَعَنِتُّم۔ (الحجرات: 7)
”خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ “۔(سید مودودی)
”اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں تو تم ضرور مشقت میں پڑو“۔ (احمد رضا خان)
”اور جان رکھو کہ تم میں خدا کے پیغمبرﷺ ہیں۔ اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ “۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور یاد رکھو کہ تمہارے درمیان خدا کا رسول موجود ہے یہ اگر بہت سی باتوں میں تمہاری بات مان لیتا تو تم زحمت میں پڑ جاتے“۔ (ذیشان جوادی)
”خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرتا تو تم مشکلات میں مبتلا ہوجاتے“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
مذکورہ بالا منتخب مقامات کے ترجموں سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ عام طور پرمترجمین کا موقف واضح معلوم نہیں ہوتا اس بارے میں کہ لو کے بعد فعل مضارع آنے کی صورت میں ترجمہ زمانہ ماضی کا کرنا ہے یا زمانہ مستقبل کا کرنا ہے۔ ایک ہی مترجم ایک مقام پر ماضی تو دوسرے مقام پر مستقبل والا ترجمہ بھی کرتا ہے۔ یعنی ’اگر وہ چاہے‘ مستقبل ہے اور ’اگر وہ چاہتا‘ ماضی ہے۔
دوسری بات یہ کہ لو کے بعد فعل مضارع کا جب ماضی میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو عام طور سے سادہ سا ترجمہ کیا جاتا جیسے ’اگر وہ چاہتا‘، جب کہ بعض مترجمین نے کہیں کہیں فعل مضارع کی رعایت کرتے ہوئے ’اگر وہ چاہتا ہوتا‘ کی طرح ترجمہ کیا ہے۔ مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی ہر مقام پر اسی ترجمہ کو تجویز کرتے ہیں۔
(جاری)