(490) وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ
وَوَاعَدْنَا مُوسَی ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً۔ (الاعراف: 142)
”ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کردیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی“۔ (سید مودودی)
درج بالا ترجمے میں دو باتیں توجہ طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ لیلۃ کا ترجمہ ایک بار ’شب و روز‘ اور اس کے بعد دو بار ’دن‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ لیلۃ سے یہاں مراد اگرچہ دن اور رات ملا کر پورا وقت ہے لیکن یہاں اصل رات ہے اور دن اس میں ضمنی طور پر شامل ہے۔ قرآن نے دوسرے مقام پر بھی اس کے لیے لیلۃ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ اس میں رات کی خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ دن کا لفظ اس خصوصیت پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ کا مطلب صرف اضافہ کرنا نہیں بلکہ مکمل کرنا ہے۔ درج ذیل ترجمے میں ان دونوں خامیوں کو دور کردیا گیا ہے۔
”اور وعدہ ٹھیرایا ہم نے موسی سے تیس رات کا اور پورا کیا ان کو اور دس سے، تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات“۔ (شاہ عبدالقادر)
(491) کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ
درج ذیل دونوں جملوں میں ربط قائم کرنے کے لیے بعض لوگوں نے ایک جملے کو بیچ میں محذوف مانا ہے۔ حالاں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیا ہے اسی کا تقاضا ہے کہ وہ انسانوں کو قیامت کے دن جمع کرے۔ لَیَجْمَعَنَّکُمْ میں جو تاکید ہے وہ کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ سے پورے طور پر ہم آہنگ ہے، گویا وہ اس کی رحمت کا ظہور ہے۔
کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (الانعام: 12)
”اس نے مخلوق پر رحمت کرنا اپنے اوپر لازم کر لی ہے (اس لیے جلدی سزا نہیں دیتا) وہ قیامت تک جس میں کوئی شک نہیں ہے تم سب کو اکٹھا کرتا رہے گا (پھر یکجا کرکے لائے گا)“۔ (محمد حسین نجفی)
”اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا“۔ (سید مودودی)
درج بالا دونوں ترجموں میں قوسین میں مذکور جملہ غیر ضروری ہے اور عبارت کے مفہوم کو کم زور کرتا ہے۔ درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:
”اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا قیامت کے دن کی طرف“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اس نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کر لیا ہے وہ تم سب کو قیامت کے دن جس میں کچھ بھی شک نہیں ضرور جمع کرے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)
(492) وَلَا یُطْعَمُ کا ترجمہ
درج ذیل جملے میں اطعام یعنی کھلانے اور نہیں کھلائے جانے کی بات ہے۔ یہاں یہ بات نہیں بتائی جارہی ہے کہ اللہ کھاتا نہیں ہے، بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ کھلاتا ہے اور اللہ کو کھلایا نہیں جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ سب کی ضرورت پوری کرتا ہے اور اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالی تو ہر چیز سے بے نیاز ہے، تاہم یہاں کھانے سے بے نیازی کا بیان نہیں بلکہ کھلانے والوں سے بے نیازی کا بیان ہے۔ وَلَا یُطْعَمُ کے الفاظ کا مفہوم یہی ہے۔
وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ۔ (الانعام: 14)
”اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے“۔ (سید مودودی)
”اور وہ کھلاتا ہے اور کھانے سے پاک ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور وہی (سب کو) کھانا دیتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور وہ کھلاتا ہے کھاتا نہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجمے وَلَا یُطْعَمُ کا صحیح مفہوم ادا نہیں کرتے ہیں۔
”اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور وہ سب کو کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلاتا“۔ (شاہ عبدالقادر)
درج بالا دونوں ترجمے بھی باریکی کے ساتھ لفظ کا مفہوم ادا نہیں کرتے۔ اسے کوئی کھانے کو نہیں دیتا اور اسے کھلایا نہیں جاتا میں باریک فرق ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی لفظ کی پوری رعایت کے ساتھ درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”اور وہ کھلاتا ہے اور اس کو کھلایا نہیں جاتا“۔
(493) ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ کا ترجمہ
درج ذیل عبارت میں فتنۃ کا ترجمہ کرنے میں لوگوں کو دشواری ہوئی ہے، اسی لیے لوگوں نے فتنہ کے مختلف ترجمے کیے ہیں، جیسے: عذر، فریب، شرک، بناوٹ وغیرہ۔ اس دشواری کی وجہ شاید یہ ہے کہ قیامت کے دن فتنہ کی تو کوئی گنجائش ہوگی نہیں، پھر اس وقت فتنہ کیسے ہوگا۔
ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ۔ (الانعام: 23)
”تو وہ اِس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ (یہ جھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے“۔ (سید مودودی)
یہ ترجمہ درست نہیں ہے کیوں کہ اس دن تو وہ کوئی فتنہ نہیں اٹھاسکیں گے۔
”تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اس کے (کچھ چارہ نہ ہوگا) کہ کہیں خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”پھر ان کی کچھ بناوٹ نہ رہی مگر یہ کہ بولے ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم مشرک نہ تھے“۔ (احمد رضا خان)
”پھر ان کے فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا مگر یہ کہ وہ کہیں گے کہ اللہ اپنے رب کی قسم! ہم مشرک نہیں تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”پھر نہ رہے گی ان کی شرارت مگر یہی کہ کہیں گے قسم ہے اللہ کی اپنے رب کی ہم شریک نہ کرتے تھے“۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”ان کی فتنہ سازی کا حال یہ ہوا کہ انھوں نے کہا اے اللہ، ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے“۔ گویا دنیا کی فتنہ سازی آخرت کی اس بے بسی پر جاکر ختم ہوئی۔
(494) فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ
درج ذیل عبارت میں اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ، امر کا جملہ نہیں ہے، بلکہ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ کا مفعول بہ ہے۔ ترجمہ اس کی رعایت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے گویا کہ زمین میں سرنگ یا آسمان میں سیڑھی ڈھونڈنے کو کہا جارہا ہے:
وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِآیَۃٍ۔ (الانعام: 35)
”اور اگر ان کا منھ پھیرنا تم پر شاق گزرا ہے تو اگر تم سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ تلاش کرلو یا آسمان میں زینہ پھر ان کے لیے نشانی لے آؤ“۔ (احمد رضا خان)
”اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)
”تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو“۔ (سید مودودی، ’اگر تم میں کچھ زور ہے‘ کی جگہ ’اگر تمہارے بس میں ہو‘ مناسب ہے۔)
درج ذیل دونوں ترجمے درست ہیں:
”اور اگر ان کا اعراض تم پر گراں گزر رہا ہے تو اگر تم زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی زینہ ڈھونڈ سکو کہ ان کے پاس کوئی نشانی لا دو تو کر دیکھو“۔(امین احسن اصلاحی)
”اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تواگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈھ لو پھر کوئی معجزہ لے آؤ تو کرو“۔ (اشرف علی تھانوی)
(495) قُلْ أَرَأَیْتَکُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ
درج ذیل دونوں آیتوں کا تعلق مستقبل سے ہے، بعض لوگوں نے دونوں آیتوں کا ترجمہ حال کا کیا ہے اور بعض نے دوسری آیت کا ترجمہ حال کا کیا ہے۔
قُلْ اَرَاَیْتَکُمْ اِنْ اَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللَّہِ تَدْعُونَ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔ بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُونَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُونَ اِلَیْہِ اِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُونَ۔ (الانعام: 40، 41)
”ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو“۔ (سید مودودی)
حال کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے عَذَابُ اور السَّاعَۃُ کا الگ ہٹ کر ترجمہ کرنا پڑا۔ جب کہ (یونس: 50) اور (الانعام: 47) میں اسی طرح کے جملوں کا ترجمہ مستقبل کا کیا ہے اور عذاب کا ترجمہ عذاب کیا ہے۔
”کہہ دو، بتاؤ، اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آدھمکے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو؟ بلکہ اسی کو پکاروگے تو وہ دور کردیتا ہے اس مصیبت کو جس کے لیے تم اس کو پکارتے ہو اگر چاہتا ہے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان کو بھول جاتے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)۔ بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لیے اسے پکارتے ہو۔ وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجموں میں مستقبل کا ترجمہ کرتے کرتے کچھ جملوں کا حال کا ترجمہ کردیا ہے۔
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
”آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لیے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
(496) اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ
اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ کا موزوں ترجمہ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا ہے نہ کہ ایک دوسرے کو استعمال کرنا۔
وَقَالَ اَوْلِیَاؤُہُمْ مِنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ۔ (الانعام: 128)
”تو جو انسانوں میں ان کے دوستدار ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”انسانوں میں سے جو اُن کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے، پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے“۔ (سید مودودی)
(497) وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا
درج ذیل آیت میں نُوَلِّی کا لفظ آیا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے دوست بنانا، نہ کہ مسلط کرنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات مستقبل میں قیامت میں پیش نہیں آئے گی، کیوں کہ وہاں تو سارے ظالم ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ یہ زمانہ حال کا بیان ہے کہ اللہ ظالموں کو دنیا میں ایک دوسرے کا دوست بناتا ہے۔ گذشتہ آیت میں ایسے اولیاء کا ذکر بھی آیا ہے۔
وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ۔ (الانعام: 129)
”اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں بدلہ ان کے کیے کا“۔ (احمد رضا خان)
”اسی طرح ہم مسلط کردیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے پر بسبب ان کی کرتوتوں کے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط کر دیتے ہیں“۔(فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجموں میں نُوَلِّی کا ترجمہ مسلط کرنا درست نہیں ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں نُوَلِّی کا ترجمہ مستقبل سے کرنا مناسب نہیں ہے:
”دیکھو، اس طرح ہم (آخرت میں) ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ (دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر) کرتے تھے“۔ (سید مودودی)
”اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور اسی طرح ہم ساتھ ملادیں گے گنہ گاروں کو ایک دوسرے سے بدلا ان کی کمائی کا“۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
”اسی طرح ہم دوست بنادیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے کا، اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ کرتے رہے ہیں“۔
(498) فَرْشًا کا ترجمہ
درج ذیل جملے میں حَمُولَۃً اور فَرْشًا دو الفاظ آئے ہیں۔ حَمُولَۃ سے مراد اونچے قد کے مویشی ہیں جیسے اونٹ گائے، اور فَرْش سے مراد چھوٹے قد کے مویشی ہیں جیسے بھیڑ بکری۔
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُولَۃً وَفَرْشًا۔ (الانعام: 142)
”اور مواشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور چارپایوں میں بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کیے اور زمین سے لگے ہوئے (یعنی چھوٹے چھوٹے) بھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
البتہ درج ذیل ترجمے میں فرش کا ترجمہ جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں کیا ہے:
”پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں“۔ (سید مودودی)
اس ترجمے کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ بھیڑ بکریوں کو زمین پر لٹاکر ذبح کیا جاتا ہے اور ان کی کھال کا بستر بنتا ہے۔ لیکن یہ توجیہ درست نہیں ہے کیوں گائے بیل بھی زمین پر لٹاکر ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کی کھال بھی استعمال میں آتی ہے۔
(499) مِنْ إِمْلَاقٍ کا ترجمہ
قرآن میں ایک جگہ وَلَا تَقْتُلُوا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ (الاسراء: 31) آیا ہے، جس کا ترجمہ ہوگا: ”اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔“ جب کہ درج ذیل مقام پر خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ کی جگہ مِنْ اِمْلَاقٍ آیا ہے۔ یہاں ”افلاس کا ڈر اور اندیشہ“ ترجمہ نہیں ہوگا بلکہ ”افلاس کا سبب“ ترجمہ ہوگا۔ دونوں میں لطیف فرق یہ ہے کہ افلاس کے ڈر کا مطلب یہ ہے کہ ابھی افلاس کی حالت نہیں ہے مگر کثرت اولاد سے افلاس کا اندیشہ ہے، جب کہ افلاس کے سبب کا مطلب یہ ہے کہ افلاس طاری ہوچکا ہے۔ اس طرح دونوں جگہوں پر الگ الگ کیفیتوں کے بارے میں رہنمائی کردی گئی۔
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ مِنْ اِمْلَاقٍ۔ (الانعام: 151)
”اور مت مار ڈالو اولاد اپنی کو ڈر افلاس سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو“۔ (سید مودودی)
”اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں:
”اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد مفلسی سے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث“۔ (احمد رضا خان)
”اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو“۔ (محمد جوناگڑھی)