حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جس نے حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور اس میں نہ تو گالی گلوچ سے کام لیا اور نہ کسی فسق کا ارتکاب کیا، یہ گناہوں سے یوں پاک ہو گیا جیسے نوزائیدہ بچہ۔‘‘
آپ کو مبارک ہو کہ آپ کا نام ان لوگوں میں شامل ہو گیا ہے جنہیں عنقریب اللہ کے گھر کے حج اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ پاک کی زیارت نصیب ہو گی۔ اللہ نے آپ کو کتنے بڑے احسان سے نوازا ہے، آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ اس کا اندازہ وہ لوگ کر سکتے ہیں جو حج کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں لیکن اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔
آج سے ہی حج کی تیاری شروع کر دینی ہے۔ سب سے پہلا کام جو آپ نے کرنا ہے وہ یہ ہے کہ دو نفل شکرانہ ادا کریں۔ آپ کے جذبات تشکر سے اتنے لبریز ہو جائیں کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑیں۔ حج کی تیاری یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ حج کے معنی کیا ہیں۔ حج کے معنی ہیں ’’ارادہ کرنا‘‘۔ حج ِ بیت اللہ یعنی مخصوص اعمال کی بجا آوری کے لیے بیت اللہ شریف کا ارادہ کرنا۔
حج کی تیاری یہ ہے کہ پہلی فرصت میں کتابیں خریدنی ہیں۔ یاد رکھیے کہ حج کے بارے میں آپ کا مطالعہ جتنا وسیع ہو گا آپ کو حج کا اتنا ہی زیادہ لطف آئے گا۔ آپ کے پاس قرآنی اور مسنون دعاؤں کی کتاب بھی ہونی چاہیے۔ جتنی بھی دعائیں آپ یاد کر سکتے ہیں کر لیں۔ اس کے ساتھ ہی مناسکِ حج کی تربیت حاصل کریں۔
حج تین قسم کے ہوتے ہیں اور ان کو (۱) حج قِران، (۲) حج اِفراد اور (۳) حج تمتُع کہتے ہیں۔ پاکستانی حجاج عموماً حجِ تمتُع کرتے ہیں لہٰذا اس کا آسان مختصر طریقہ یہ ہے:
عمرہ کا تفصیلی طریقہ
اِحرامِ عمرہ کی نیت (فرض)
ایئرپورٹ پہنچ کر اِحرام کی چادریں پہن لیں، پھر دو رکعت نفل ادا کریں، پھر آپ عمرہ کے اِحرام کی نیت کریں کہ میں اب عمرہ کا اِحرام باندھتا ہوں، نیت دل کے ارادے کا نام ہے اور زبان سے بھی نیت کے یہ الفاظ کہیں:
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمُرَۃَ فَیَسِّرْھَا لِیْ وَتَقَبَّلْھَا مِنِّیْ‘‘۔
ترجمہ: اے اللہ! میں عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں، اس کو میرے لیے آسان فرما اور اس کو میری طرف سے قبول فرما۔
اس کے بعد تلبیہ پڑھیں:
’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ‘‘۔
ترجمہ: میں حاضر ہوں، اے اللہ، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں اور تیری ہی بادشاہت ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔
ایک مرتبہ تلبیہ پڑھنا ضروری ہے اور تین مرتبہ پڑھنا سنت ہے۔ مرد بلند آواز سے اور خواتین آہستہ آواز سے پڑھیں- تلبیہ کے بعد درود شریف اور یہ دعا پڑھنا بھی مستحب ہے:
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّارِ‘‘۔
ترجمہ: اے اللہ میں آپ سے آپ کی خوشنودی اور جنت مانگتا ہوں، اور آپ کے غصہ اور دوزخ سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
اب آپ کا اِحرام بندھ گیا اور آپ پر اِحرام کی پابندیاں لگ گئیں۔ اِحرام چادروں کا نام نہیں بلکہ نیت کر کے تلبیہ پڑھنے کا نام ہے۔ اور یہ چادریں اِحرام کا لباس کہلاتی ہیں۔
نیز نیت اور تلبیہ اس وقت پڑھیں جس وقت جہاز پرواز کر جانے کا یقین ہو جائے۔
خواتین کے اِحرام کا طریقہ
خواتین غسل کر کے سلے ہوئے کپڑے جس رنگ کے چاہیں پہن لیں۔ اوپر کوئی ڈھیلا عباء یا برقع پہن لیں، اور سرکے اوپر سکارف پہن کر بالوں کو چھپا لیں۔
دو رکعت نفل ادا کرے، پھر تین بار تلبیہ پڑھے اور عمرہ کی نیت کر لے۔
خواتین میں یہ مشہور ہے کہ سر کے اوپر جو رومال لپیٹتی ہیں، اسی رومال کے اوپر مسح کر لیتی ہیں۔ یاد رکھیے! اگر کسی خاتون نے بالوں کی بجائے اس رومال یا سکارف پر مسح کیا تو اس کا وضو نہیں ہو گا۔ اور جب وضو نہیں ہو گا تو نماز بھی نہیں ہو گی۔ اس لیے خواتین وضو کرتے وقت اس رومال کو کھول کر بالوں پر مسح کریں، پھر دوبارہ رومال باندھ لیں، اس سے اِحرام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اگر کوئی خاتون ناپاکی کی حالت میں ہے تو اِحرام باندھتے وقت مستحب یہ ہے کہ نظافت اور صفائی کے لیے غسل کر لے، یہ غسل طہارت کے لیے نہیں۔ اِحرام کے نوافل نہ پڑھے۔ یہ بھی اِحرام کی نیت کر کے تلبیہ پڑھے، اب اس کا بھی اِحرام بندھ گیا اور اِحرام کی پابندیاں لگ گئیں۔
مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد جب تک پاک نہ ہو جائے مسجد حرام میں نہ جائے، نہ نمازیں پڑھے، نہ قرآن کریم پڑھے، نہ بیت اللہ کا طواف کرے، بلکہ اپنی قیام گاہ پر ہی رہے، البتہ ذکر کر سکتی ہے، تسبیحات اور درود شریف وغیرہ پڑھ سکتی ہے، پاک ہونے کے بعد سب کام انجام دے۔
اِحرام کی پابندیاں
جب کسی مرد نے اِحرام کی نیت کر کے تلبیہ پڑھ لیا تو اس پر اِحرام کی یہ پابندیاں لگ گئیں:
(۱) پہلی پابندی یہ ہے کہ مرد اِحرام کی حالت میں کسی قسم کا سلا ہو اکپڑا نہیں پہنیں گے۔ البتہ چادر تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو چادر کی جگہ دوسری چادر ہی استعمال کریں۔ اس لیے اپنے ساتھ ایک دو چادریں زائد لے جائیں۔
البتہ خواتین ہر قسم کا سلا ہوا کپڑا پہن سکتی ہیں۔ عورت کو سر کے بال چھپانا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا اِحرام کے وقت دوپٹہ کی جگہ رومال بندھوایا جاتا ہے تاکہ کپڑا چہرہ کو نہ لگے۔ اس رومال کے اتارنے اور کھولنے سے اِحرام نہیں ٹوٹتا، اس لیے خواتین وضو کرتے وقت رومال کھول کر بالوں پر مسح کریں۔
(۲) دوسری پابندی یہ ہے کہ مرد اِحرام کی حالت میں اپنا چہرہ اور سر نہیں ڈھانپے گا۔ رات کو سوتے وقت بھی سر اور چہرہ کھلا رہے گا۔
جبکہ خاتون صرف چہرہ پر کپڑا نہ لگنے دے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین کو پردہ نہ کرنا چاہیے۔ خواتین پردہ کریں، بلکہ خواتین کو حج میں پردہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، اس لیے کہ حرم کے اندر جس طرح نیکی کا اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے، اس طرح وہاں گناہ کرنے کا وبال بھی بڑھ جاتا ہے۔ بے پردگی کی وجہ سے خواتین مردوں کی بد نگاہی کا سبب بنتی ہیں، اس طرح خواتین خود بھی گناہ میں مبتلا ہوتی ہیں اور دوسروں کے لیے بھی گناہ کا سبب بنتی ہیں۔ اس لیے خواتین کو وہاں پردے کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، لیکن پردہ اس طرح کریں کہ کپڑا چہرے کو نہ چھوئے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سر کے اوپر کوئی چھجا نما چیز رکھ کر اس کے اوپر کپڑے کو چہرے کے سامنے اس طرح لٹکائیں کہ وہ کپڑا چہرے سے دور رہے اور پردہ بھی ہو جائے۔ دھوپ سے بچنے کے لیے جو ٹوپیاں (P-Cap) وغیرہ بازار میں ملتی ہیں وہ بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔
(۳) تیسری پابندی یہ ہے کہ اِحرام کی حالت میں مرد و عورت بدن کے کسی حصے کے بال نہ کاٹیں گے، نہ مونڈیں گے، اور نہ توڑیں گے۔ مرد وضو کرتے وقت چہرے پر آہستہ ہاتھ پھیریں۔ اِحرام کی حالت میں وضو یا غسل کرتے وقت بدن اور سر کو زور سے نہ رگڑیں، اگر رگڑنے کی وجہ سے بال ٹوٹیں گے تو صدقہ دینا ہو گا۔ پس اگر تین بال سے زیادہ ہو تو صدقہ میں پونے دو سیر گیہوں (گندم) دے دیں۔ اور اگر تین بال یا اس سے کم ہو تو پھر کوئی معمولی صدقہ بھی کافی ہے۔ اگر کسی شخص کے بال خودبخود گر جاتے ہوں تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے، احتیاطاً کچھ دے دے تو بہتر ہے۔
(۴) چوتھی پابندی یہ ہے کہ حالت اِحرام میں مرد و عورت ناخن نہیں کاٹیں گے۔
(۵) پانچویں پابندی یہ ہے کہ حالت اِحرام میں مرد و عورت دونوں کے لیے ہر قسم کی خوشبو لگانا منع ہے۔ البتہ نیت کرنے اور تلبیہ پڑھنے سے پہلے ہلکی سی خوشبو بدن اور کپڑوں پر لگا سکتے ہیں، بلکہ اس وقت خوشبو لگانا مستحب ہے، لیکن اس کا نشان اور دھبہ باقی نہ رہے۔ حتیٰ کہ خوشبودار میوے کو سونگھنا بھی مکروہ ہے۔
(۶) چھٹی پابندی یہ ہے کہ حالت اِحرام میں مرد حضرات دستانے اور موزے استعمال نہیں کریں گے۔ اس طرح ایسا بند جوتا بھی نہیں پہنیں گے جس میں پاؤں کے اوپر کی درمیانی ہڈی اور دائیں اور بائیں طرف کا حصہ چھپ جائے۔ اس لیے یا تو کھلا جوتا پہنیں یا ہوائی چپل پہنیں۔ البتہ خواتین دستانے ، موزے اور بند جوتا پہن سکتی ہیں۔
(۷) اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ ہے تو اِحرام کی حالت میں بیوی کے ساتھ شہوت کی بات کرنا حرام ہے۔
مندرجہ بالا تمام پابندیاں اِحرام کی نیت کر کے تلبیہ پڑھ لینے کے بعد فوراً لگ جائیں گی۔
عمرہ کا پہلا کام: طواف اور اس کا طریقہ (فرض)
عمرہ کا سب سے پہلا کام طواف ہے، طواف کے لیے وضو ضروری ہے، اس لیے مسجد حرام میں باوضو آئیں۔ طواف شروع کرنے کے لیے آپ بیت اللہ کے اس کونے کے سامنے آجائیں جس میں حجرِ اسود لگا ہوا ہے، اور وہاں آ کر اس طرح کھڑے ہوں کہ حجرِ اسود کا کونا آپ کے داہنی طرف رہے اور آپ کا چہرہ بیت اللہ کی طرف ہو۔ آپ نیت کریں کہ میں عمرہ کے طواف کے سات چکر اللہ تعالیٰ کے لیے لگاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کو آسان فرمائے اور قبول فرمائے۔ نیت کرنے کے بعد اب آپ اپنا سیدھا مونڈھا کھول لیں اور احرام کی چادر دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں مونڈھے پر ڈال لیں۔ اس کو ’’اضطباع‘‘ کہتے ہیں۔ اس طواف کے ساتوں چکروں میں یہ مونڈھا کھلا رکھنا سنت ہے۔ جب سات چکر پورے ہو جائیں تو پھر چادر کو دونوں مونڈھوں پر ڈال لیں۔
حجرِ اسود کا استقبال
نیت اور اضطباع کرنے کے بعد اب آپ حجرِ اسود کے سامنے آجائیں۔ اس وقت آپ کا سینہ بالکل حجرِ اسود کے سامنے ہو گا۔ یہاں کھڑے ہو کر پہلے آپ حجرِ اسود کا استقبال کریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں جس طرح نماز میں تکبیرِ تحریمہ میں اٹھاتے ہیں۔ اور تکبیر یہ کہیں: ’’بِسْمِ اللہِ، اَللہُ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، وَ لِلہِ الْحَمْدُ، والصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ‘‘۔ تکبیر کہنے کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں، یہ حجرِ اسود کا استقبال ہو گیا۔
حجرِ اسود کا ’’استلام‘‘
اس کے بعد آپ حجرِ اسود کا ’’استلام‘‘ کریں۔ استلام یہ ہے کہ حجرِ اسود کو بوسہ دیں۔ دوسرا یہ کہ حجرِ اسود کو ہاتھ لگا کر ہاتھوں کو چوم لیں۔
لیکن آپ آج ان دونوں طریقوں سے استلام نہ کریں، اس لیے کہ اس وقت آپ حالت اِحرام میں ہیں اور حالت اِحرام میں خوشبو لگانا جائز نہیں، اور حجرِ اسود پر عام طور پر خوشبو لگی ہوتی ہے۔ اس لیے آج آپ حجرِ اسود کا استلام صرف اشارہ سے کریں اور یہ طریقہ بھی سنت ہے۔ حجرِ اسود کے سامنے جہاں کھڑے ہیں وہیں سے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے ایک بار حجرِ اسود کی طرف اس طرح اشارہ کریں جیسے آپ حجرِ اسود پر ہاتھ رکھ رہے ہوں۔ اشارہ کرتے وقت ’’بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ کہیں اور پھر ہتھیلیوں کو چوم لیں۔ یہ حجرِ اسود کا استلام ہو گیا۔
طواف میں ان باتوں کا خیال رکھیں
اس کے بعد آپ حجرِ اسود کے سامنے کھڑے کھڑے سیدھے ہاتھ کی طرف اپنے پاؤں کا رخ موڑ لیں اور دائیں طرف سے بیت اللہ کا طواف کرنا شروع کر دیں۔ طواف کے دوران ان باتوں کا خیال رکھیں:
(۱) ایک طواف میں سات چکر ہوتے ہیں، ہر چکر حجرِ اسود سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو گا۔ اس طرح سات چکر لگائے جائیں گے۔
(۲) شروع کے تین چکروں میں مرد ’’رمل‘‘ کریں گے۔ اس طواف میں رمل کرنا سنت ہے۔ رمل کا مطلب یہ ہے کہ سینہ نکال کر مونڈھے ہلاتے ہوئے اکڑ کر پہلوانوں کی طرح چلیں۔ بعد کے چار چکروں میں اطمینان سے چلیں۔ اگر کوئی شخص پہلے چکر میں رمل کرنا بھول جائے تو بعد کے صرف دو چکروں میں رمل کرے۔ خواتین رمل نہیں کریں گی۔
(۳) ہر چکر میں جب حجرِ اسود کے سامنے پہنچیں تو اسی طرح استلام کریں جس طرح طواف شروع کرتے وقت کیا تھا۔
(۴) حجرِ اسود والے کونے سے پہلے کونے کو ’’رکنِ یمانی‘‘ کہتے ہیں۔ بہت سے لوگ طواف کے دوران جب رکنِ یمانی پر پہنچتے ہیں تو اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں۔ یاد رکھیے! اس طرح ہاتھ سے اشارہ کرنا مکروہ اور بدعت ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر رکنِ یمانی کو ہاتھ لگا سکتے ہوں اور اس پر خوشبو لگی ہوئی نہ ہو تو اس صورت میں رکنِ یمانی کو دونوں ہاتھ لگائیں، یا صرف دایاں ہاتھ لگائیں۔ مگر صرف بایاں ہاتھ نہ لگائیں اور نہ سامنے کھڑے ہو کر اس کی طرف اشارہ کریں، اور نہ رکنِ یمانی کو بوسہ دیں۔
(۵) رکنِ یمانی سے حجرِ اسود تک ’’رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار‘‘ پڑھیں۔
(۶) طواف کے دوران حجرِ اسود اور رکنِ یمانی کے علاوہ بیت اللہ کے دوسرے حصوں کو ہاتھ لگانا مکروہ ہے۔
(۷) طواف کے دوران بیت اللہ کی طرف دیکھنا یا پشت کرنا بھی مکروہ ہے۔
(۸) جب سات چکر پورے ہو جائیں تو ساتویں چکر کے ختم پر حجرِ اسود کے سامنے کھڑے ہو کر آٹھویں مرتبہ حجرِ اسود کا استلام کریں۔ یاد رکھیے! پہلا استلام اور آٹھواں استلام سنتِ مؤکدہ ہے، اور درمیان کے استلام سنت یا مستحب ہیں۔ اب آپ کے عمرہ کا پہلا کام یعنی ’’طواف‘‘ مکمل ہو گیا۔
طواف کے بعد کے تین ضمنی کام
طواف سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو تین ضمنی کام کرنے ہیں۔ یہ تینوں کام ہر طواف کے بعد کرنے ہیں چاہے وہ عمرہ کا طواف ہو یا حج کا، یا نفلی طواف ہو۔
(۱) ’’ملتزم‘‘ پر حاضری اور دعا
طواف کے بعد پہلا کام یہ ہے کہ آپ ملتزم شریف کے سامنے آجائیں۔ بیت اللہ کے دروازے اور حجرِ اسود والے کونے کے درمیان کے حصہ کو ’’ملتزم‘‘ کہتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر لوگ ملتزم پر بھی خوشبو لگا دیتے ہیں اور آپ اس وقت حالت اِحرام میں ہیں، اس لیے آپ اس وقت ملتزم کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ اس سے چمٹیں، بلکہ ملتزم کے سامنے جتنا قریب ممکن ہو کھڑے ہو کر خوب الحاح و زاری سے دعا کریں، یہ قبولیتِ دعا کا خاص مقام ہے۔
لوگ ملتزم سے چمٹنے کے لیے اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے لیے دھکم پیل کرتے ہیں۔ ایسا کرنا جائز نہیں، کسی مسلمان کو ایذاء پہنچا کر یہ کام کرنا خسارہ کا سودا ہے۔ اور بڑی شرم و غیرت کی بات یہ ہے کہ مردوں کے ہجوم میں خواتین بھی حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے لیے گھس جاتی ہیں اور ان کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ وہ نامحرم مردوں کے درمیان بھنچ رہی ہیں، نا محرموں کے جسم سے جسم لگانا بدترین گناہ ہے۔
(۲) طواف کا دوگانہ پڑھنا (واجب)
دوسرا ضمنی کام کہ طواف کا دوگانہ پڑھیں۔ یہ دو رکعتیں مقامِ ابراہیم کے قریب (جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ’’ نقشِ پا‘‘ شوکیس میں رکھا ہے) پڑھنا افضل ہے۔ اس کے قریب جگہ نہ ملے تو پیچھے ہٹ کر اس کی سیدھ میں پڑھ لیں۔ اور نیت یہ کریں کہ میں طواف کا دوگانہ پڑھتا ہوں۔ پہلی رکعت میں ’’قل یا ایہا الکافرون‘‘ اور دوسری رکعت میں ’’قل ھوا اللّٰہ احد‘‘ پڑھنا افضل ہے۔ ان کے علاوہ دوسری سورتیں بھی پڑھ سکتے ہیں۔
(۳) زم زم پینا اور دعا کرنا (سنت)
تیسرا کام یہ ہے کہ آپ زم زم پیئں اور دعا کریں۔ اگر یاد ہو تو یہ دعا پڑھیں: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا وَّاسِعًا وَّ عَمَلًا صَالِحًا وَّ شِفَآءً مِّنْ کُلِّ دَآءٍ‘‘۔
عمرہ کا دوسرا کام : صفا مروہ کی سعی (واجب)
سعی شروع کرنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر حجرِ اسود کا استلام کریں۔ یہ حجرِ اسود کا نواں استلام ہو گا۔ طواف کے دوران آٹھ مرتبہ آپ پہلے استلام کر چکے ہیں۔
استلام کرنے کے بعد صفا پہاڑی کی طرف آئیں اور یہ پڑھیں: ’’اَبْدَءُ بِمَا بَدَا اَللہُ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ‘‘۔ صفا پہاڑی پر اتنا چڑھیں کہ وہاں سے بیت اللہ شریف نظر آئے، بعض لوگ اوپر پیچھے دیوار تک چلے جاتے ہیں، یہ صحیح نہیں۔ آپ کو بعض محرابوں کے درمیان سے بیت اللہ شریف نظر آئے گا وہاں کھڑے ہو کر بیت اللہ شریف کو دیکھ کر تین بار ’’اللّٰہ اکبر‘‘ کہیں اور پھر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘ پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں اور دعا کریں۔ یہ قبولیتِ دعا کی خاص جگہ ہے۔
دعا کرنے کے بعد نیت کریں کہ میں اللہ کے لیے عمرہ کی صفا مروہ کی سعی کرتا ہوں۔ اور صفا سے مروہ کی طرف چلیں۔ درمیان میں دو ہرے رنگ کے ستون آئیں گے جن کو ’’مِیْلَیْنِ اَخْضَرَیْن‘‘ کہتے ہیں۔ ان پر ہرے رنگ کی لائٹیں لگی ہوئی ہیں۔ مرد حضرات ان دونوں ستونوں کے درمیان جھپٹ کر چلیں۔ اور خواتین ان ستونوں کے درمیان بھی اطمینان کے ساتھ چلیں۔ مروہ پہنچ کر آپ کا ایک چکر پورا ہو گیا۔ مروہ پر بھی بیت اللہ کی طرف منہ کر کے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں اور دعا کریں۔ مروہ سے بیت اللہ کی عمارت نظر نہیں آتی، لیکن اُدھر منہ کر کے دعا کریں۔
دعا کرنے کے بعد پھر صفا کی طرف آئیں، یہ آپ کا دوسرا چکر ہو گیا۔ پھر صفا پر دعا کرنے کے بعد مروہ کی طرف چلیں۔ یہ تیسرا چکر ہو گیا۔ اس طرح سات چکر لگائیں۔ ساتواں چکر مروہ پر پورا ہو گا۔ ہر چکر میں صفا پر بھی دعا کریں اور مروہ پر بھی۔ اور ہرے ستونوں کے درمیان مرد تیز چلیں۔
صفا اور مروہ کے درمیان کی ایک مختصر سی جامع دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے: ’’رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُ‘‘۔
صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے سات چکر پورے ہو جانے کے بعد شکرانہ کی دو رکعت پڑھ لیں۔ ان کے لیے مقامِ ابراہیم پر جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ عمرہ کا دوسرا کام ہو گیا۔
عمرہ کا تیسرا کام : سر کے بال منڈوانا یا کترانا (واجب)
صفا، مروہ کی سعی کے بعد عمرہ کا تیسرا کام سر کے بال منڈوانا یا کتروانا ہے۔
کتنے بالوں سے قصر کروانا (یا کتروانا) ضروری ہے؟ بال کتروانے میں لوگ بہت غلطی کرتے ہیں، اس لیے اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ پورے سر کے بالوں میں سے انگلی کے ایک پورے کے برابر کتروانا افضل ہے۔ لوگ ذرا ذرا سے بال ایک طرف سے کتروا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہمارا واجب ادا ہو گیا، حالانکہ اس طرح کٹوانے سے نہ تو چوتھائی سر کے بالوں میں سے بال کٹتے اور نہ ہی ایک پورے کے برابر کٹتے ہیں۔ یاد رکھیے! اس طرح بال کٹوانے سے واجب ادا نہیں ہوتا اور ایسے لوگوں پر دم واجب ہوتا ہے۔ اس میں احتیاط کیجیے۔
آپ سنت کے مطابق یا تو پورے سر کے بال منڈوا لیں، جس کو حلق کہتے ہیں۔ یا اگر بال لمبے ہیں یا پٹے ہیں اور اس میں سے ایک ایک پورے کے برابر بال کٹوائے جا سکتے ہیں تو پھر پورے سر کے بالوں میں سے ایک ایک پورے کے برابر بال کٹوائیں تاکہ سنت کے مطابق قصر ہو جائے۔
خواتین بھی بال کتروانے میں غلطی کرتی ہیں
خواتین کے لیے بھی کم از کم سر کے چوتھائی حصے کے بالوں میں سے ایک ایک پورے کے برابر بال کٹوانا واجب ہے۔ وہ بالوں کی ایک لٹ پکڑ کر اس میں سے ذرا سے بال کاٹ لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ہمارا واجب ادا ہو گیا۔ یاد رکھیے! ایک لٹ میں سے بال کاٹنے کی صورت میں چوتھائی سر کے بالوں میں سے نہیں کٹتے۔
اس لیے خواتین کے لیے بال کٹوانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ بال کھول کر لٹکائیں، اور تمام بالوں میں سے ایک ایک پورے کے برابر بال کٹوائیں، تاکہ سنت کے مطابق قصر ہو جائے۔ اور اپنے محرم سے کٹوائیں، یا خود کاٹ سکتی ہوں تو خود کاٹ لیں اور کسی نامحرم سے نہ کٹوائیں۔
یہ عمرہ کا تیسرا کام ہو گیا اور آپ کا عمرہ مکمل ہو گیا۔ اِحرام کی جو پابندیاں آپ پر لگی تھیں وہ بال کٹوانے کے بعد سب ختم ہو گئیں۔ اب آپ غسل کر کے سلے ہوئے کپڑے پہن لیں اور خوشبو وغیرہ لگا لیں۔
بعض حضرات جب بال کٹوانے کے لیے حجام کی دکان پر جاتے ہیں تو بال کٹوانے سے پہلے اپنے ناخن تراشنا شروع کر دیتے ہیں یا اپنی مونچھیں کترنے لگتے ہیں۔ یاد رکھیے! اگر کسی شخص نے سر کے بال کٹوانے سے پہلے ایک ہاتھ یا پاؤں کی پانچوں انگلیوں کے ناخن کاٹ لیے تو اس پر ایک دم واجب ہو گا۔
اب آپ مکہ مکرمہ میں آٹھ ذی الحجہ تک بغیر احرام کے رہیں گے۔ اس عرصہ میں نفلی طواف کریں، اس کے لیے اِحرام نہیں ہو گا، نہ رمل ہو گا، اور نہ اس کے بعد صفا مروہ کی سعی ہو گی۔ بس حجرِ اسود کا استقبال اور استلام کرنے کے بعد سات چکر لگائیں۔ ہر چکر میں استلام کریں، پھر وہی تین ضمنی کام کریں۔ یعنی ملتزم پر دعا، مقامِ ابراہیم پر طواف کا دوگانہ، اور زم زم پی کر دعا کرنا۔
حج کا تفصیلی طریقہ
اِحرامِ حج (فرض)
۸ ذی الحجہ کو بعد نمازِ فجر یہ ارادہ کیجیے کہ ’’اب میں حج کا اِحرام باندھ رہا ہوں‘‘۔ ’’نیت‘‘ دل کے ارادے کا نام ہے، البتہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بھی مستحب ہے: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَتَقَبَّلْہُ مِنِّیْ‘‘۔ اے اللہ! میں حج کا ارادہ کرتا ہوں، آپ اس کو میرے لیے آسان فرما دیجیے اور میری طرف سے قبول کر لیجیے۔
نیت کرنے کے بعد آپ تلبیہ پڑھیں: ’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ‘‘۔
احرام باندھتے وقت ایک مرتبہ تلبیہ پڑھنا ضروری ہے، اور تین مرتبہ تلبیہ پڑھنا سنت اور افضل ہے۔ مرد اونچی آواز سے پڑھیں اور خواتین آہستہ آواز سے پڑھیں۔ تلبیہ پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھیں اور یہ دعا پڑھیں: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّارِ‘‘۔
آپ کے حج کا اِحرام شروع ہو گیا اور آپ پر وہی پابندیاں لگ گئیں جو عمرہ کا اِحرام باندھتے وقت لگی تھیں۔ ہو سکے تو مسجد حرام میں جا کر اِحرام باندھنا افضل صورت ہے، لیکن اگر آپ وہاں نہ جا سکیں تو اپنی قیام گاہ پر اِحرام باندھ لیں۔ نفلی طواف کا موقع مل جائے تو طواف کر کے قیام گاہ پر آجائیں۔ او رنفلیں پڑھ کر اِحرام کی چادریں باندھ کر نیت کریں۔
اگر خواتین معذوری کی حالت میں ہوں تب بھی ان کے لیے ۸ ذی الحجہ کو حج کا اِحرام باندھنا ضروری ہے۔ البتہ ایسی خواتین نہ تو مسجد حرام میں جائیں اور نہ ہی نفلیں پڑھیں۔ بلکہ اپنی قیام گاہ پر قبلہ رخ بیٹھ کر حج کے اِحرام کی نیت کر کے تلبیہ پڑھ لیں۔ اِحرام باندھنے سے پہلے ان کے لیے غسل کرنا بہتر ہے، یہ غسل طہارت کے لیے نہیں بلکہ نظافت اور صفائی کے لیے ہے۔
حج کا پہلا دن : ۸ ذی الحج : یوم الترویہ
منیٰ میں پانچ نمازیں
۸ ذی الحجہ منیٰ میں آج پانچ نمازیں ادا کرنا سنت ہے۔ یعنی آٹھ ذی الحجہ کی ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور نویں تاریخ کی فجر۔ بعض اوقات ۸ تاریخ کی بجائے ۷ تاریخ کو ہی منیٰ لے جاتے ہیں، ایسی صورت میں ۷ تاریخ کو ہی منیٰ روانہ ہونے سے پہلے اِحرام باندھ لیں۔
حج کا دوسرا دن: ۹ ذی الحجہ : یومِ عرفہ (فرض)
نویں تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد سورج چڑھے منیٰ سے عرفات کے لیے روانہ ہوں گے۔ عرفات پہنچتے پہنچتے دوپہر ہو جائے گی۔ وقوفِ عرفات جو کہ فرض ہے اس کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ یاد رکھیے! نویں تاریخ کو عرفات کے میدان میں حاضری حج کا سب سے بڑا رکن ہے۔ میدانِ عرفات میں حاضر نہ ہوا تو اس کا حج نہیں ہو گا۔
وقوف کی نیت سے غسل کر لیں
اگر آسانی سے ممکن ہو تو وقوفِ عرفہ کی نیت سے آپ غسل کر لیں۔ غسل کرنا سنت ہے۔ اس میں بہت زیادہ وقت صَرف نہ کریں۔
عرفات میں ظہر اور عصر دونوں نمازیں اکٹھی پڑھیں
میدانِ عرفات میں جو مسجد نمرہ ہے اس کے امام صاحب آج نویں تاریخ کو ظہر اور عصر کی نمازیں ظہر ہی کے وقت میں ایک ساتھ پڑھائیں گے۔ جو حجاج کرام مسجد نمرہ میں امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھیں، ان کو یہ دونوں نمازیں اکٹھی ملا کر پڑھنی ہیں۔لیکن اگر کوئی شخص مسجد نمرہ کے امام صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا بلکہ وہ اپنی نماز اپنے خیمے میں اکیلا یا علیحدہ جماعت کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس صورت میں وہ دونوں نمازیں اکٹھی ملا کر نہیں پڑھے گا، بلکہ ظہر کو ظہر کے وقت میں اور عصر کو عصر کے وقت میں پڑھنا چاہیے۔
وقوفِ عرفہ کا وقت اور اعمال (فرض)
تیسری بات یہ ہے کہ وقوفِ عرفہ، جو فرض ہے، اس کا وقت نویں تاریخ کو زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ توبہ استغفار کریں، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں، دعائیں مانگیں، درود شریف اور تلبیہ پڑھیں، اور یہ عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ عصر کا وقت ہونے پر عصر کی نماز باجماعت پڑھیں اور پھر کھڑے ہو جائیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت عرفات کے میدان کا انتہائی قیمتی وقت ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمتیں موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہیں۔ الحاح و زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگیں، اگر زیادہ دیر کھڑے نہ ہو سکیں تو جتنی دیر کھڑا ہونا ممکن ہو، کھڑے ہو کر اور پھر بیٹھ کر دعائیں کریں۔ یہ عمل مسلسل مغرب تک جاری رہنا چاہیے۔
میدانِ عرفات سے نکلنے کا وقت
چوتھی بات یہ ہے کہ عرفات کے میدان میں غروبِ آفتاب تک ٹھہرنا ضروری ہے، کوئی شخص بھی عرفات کے میدان سے سورج غروب ہونے سے پہلے باہر نہ نکلے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کا اونٹ بھی گم ہو جائے تو وہ اس کی تلاش کے لیے بھی غروبِ آفتاب سے پہلے میدانِ عرفات سے باہر نہ جائے۔ اور اگر کوئی شخص باہر نکل گیا ہے اور غروبِ آفتاب سے پہلے اندر واپس نہیں آیا تو اس پر ایک دم (یعنی ایک جانور ذبح کرنا) واجب ہو گا۔
آج مغرب کی نماز کہاں پڑھیں گے؟
پانچویں بات یہ ہے کہ اگرچہ عرفات کے میدان میں سورج غروب ہو گیا اور مغرب کا وقت ہو گیا، لیکن آپ آج مغرب کی نماز عرفات میں نہیں پڑھیں گے۔ اللہ کا حکم یہ ہے کہ آج مغرب کی نماز مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے وقت میں عشاء کی نماز کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔
حدودِ عرفات کے اندر وقوف کرنا فرض ہے
چھٹی بات یہ ہے کہ عرفات کی حدود میں وقوف کرنا فرض ہے۔ یعنی حجاج جو انفرادی طور پر حج کرتے ہیں، اسی طرح بعض معلّم اپنی کسی ضرورت، مجبوری یا نادانی کی وجہ سے بعض حاجیوں کے خیمے حدودِ عرفات سے باہر لگا دیتے ہیں، حالانکہ عرفات کی حدود کے اندر وقوف کرنا فرض ہے۔ اگر کوئی حاجی بالکل بھی عرفات کے میدان کے اندر نہیں آیا تو اس کا حج نہیں ہوا۔
مزدلفہ کے لیے روانگی
غروبِ آفتاب کے بعد نمازِ مغرب پڑھے بغیر عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوں گے۔ وہاں پہنچ کر پہلا کام آپ کو یہ کرنا ہے کہ اگر عشاء کا وقت ہو گیا ہو تو مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ملا کر پڑھیں۔ چاہے تنہا نماز ادا کریں یا جماعت سے پڑھیں، یہاں بہرصورت ملا کر پڑھنا واجب ہے۔
مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا اور کا طریقہ (واجب)
پہلے اذان دیں، پھر تکبیر کہیں۔ اور پہلے مغرب کے فرض جماعت سے پڑھیں، پھر عشاء کے فرض جماعت سے پڑھیں، پھر مغرب کی سنتیں پڑھیں، اس کے بعد عشاء کی سنتیں پڑھیں، اور پھر وتر پڑھیں۔ صرف ایک اذان دیں اور ایک تکبیر کہیں۔
وقوفِ مزدلفہ (واجب)
نماز پڑھنے کے بعد اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر کچھ دیر آرام کریں، پھر آخری شب میں بیدار ہو جائیں۔ آج کی رات سونے کی رات نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور رونے کی رات ہے۔ جب صبح صادق ہو جائے اور یہ یقین ہو جائے کہ صبح صادق ہو چکی ہے تو اول وقت میں فجر کی اذان دیں اور جماعت سے فجر کی نماز ادا کریں۔
مزدلفہ میں قبولیتِ دعا کا وقت
فجر کی نماز کے بعد بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جائیں اور ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ استغفار کریں او ردعا مانگیں۔ درود شریف اور تلبیہ پڑھیں۔ یہ وقوفِ مزدلفہ کہلاتا ہے جو واجب ہے، اور اس کا وقت صبح صادق سے شروع ہو کر طلوعِ آفتاب تک رہتا ہے۔
مزدلفہ سے کنکریاں چننا
مزدلفہ میں ایک کام مستحب ہے، وہ یہ کہ مزدلفہ سے ستر کنکریاں چن لیں۔ کنکریاں چنے کے دانے کے برابر کھجور کی گٹھلی جیسی ہوں، زیادہ بڑی نہ ہوں۔
حج کا تیسرا دن : ۱۰ ذی الحجہ (دوبارہ منیٰ میں)
آج ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے، مزدلفہ میں فجر کے بعد سے لے کر طلوعِ آفتاب تک وقوف کے بعد منیٰ میں روانہ ہو جائیں گے۔
بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا (واجب)
دسویں تاریخ کو منیٰ میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ صرف بڑے شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ کنکریاں مارنے سے پہلے تلبیہ پڑھنا بند کر دیں۔ ایک ایک کر کے کنکری ماریں۔ کنکری داہنے ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑیں اور تکبیر پڑھ کر ماریں۔ تکبیر یہ ہے: ’’بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ، رَغْمًا لِلشَّیْطٰنِ وَ رِضًی لِلرَّحْمٰنِ‘‘۔ اگر پوری تکبیر یاد نہ ہو تو صرف ’’بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وِلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ کہہ کر کنکری ماریں۔
کنکریاں خود جا کر مارنا واجب ہے، خواہ مرد ہو یا عورت۔ کسی دوسرے شخص سے کنکریاں لگوائیں تو اس کی کنکری ادا نہیں ہو گی، اس کے ذمے واجب باقی رہے گا اور ایک دم دینا پڑے گا۔
اگر کمزور مردوں اور خواتین کو دن میں کنکریاں مارنا دشوار ہوں تو وہ رات کو مغرب یا عشاء کے بعد جا کر کنکریاں مار لیں، یا درمیان شب میں کنکریاں مار لیں۔ صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کنکریاں مار سکتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی مرد یا عورت ایسا بیمار یا کمزور ہو کہ وہ کھڑے ہو کر نماز بھی نہ پڑھ سکے، یا کوئی شخص اپاہج، ہاتھ پاؤں سے معذور ہو، یا اندھا نابینا ہو تو اس کی طرف سے دوسرا آدمی کنکری مار سکتا ہے۔
قربانی کرنا (واجب)
دسویں تاریخ کو دوسرا کام قربانی کرنا ہے، یہ حج کی قربانی اور دمِ شکر کہلاتی ہے، آپ اسی نیت سے یہ قربانی کریں۔
سر کے بال منڈوانا یا کٹانا (واجب)
دسویں تاریخ کا تیسرا کام سر کے بال منڈوانا یا کٹانا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ مردوں کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ سر کے بال منڈوا دیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے منڈوانے والوں کے لیے کئی بار دعا فرمائی ہے۔ لیکن اگر کسی کے بال لمبے اور پٹے ہیں تو ان میں سے ایک ایک پورے کے برابر بال کٹوائے جا سکتے ہیں۔
بہرحال، سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے کے بعد آپ پر سے وہ تمام پابندیاں ختم ہو گئیں جو اِحرام باندھتے وقت آپ پر لگی تھیں۔ صرف ایک پابندی ابھی باقی ہے، وہ یہ کہ اگر بیوی ساتھ ہے تو اس سے کوئی شہوت کی بات اور حقِ زوجیت ادا نہیں کر سکتے جب تک طوافِ زیارت نہ کر لیں۔ بال کٹوانے کے بعد آپ غسل کر لیں، سلے ہوئے کپڑے پہن لیں، خوشبو لگا لیں، اور طوافِ زیارت کے لیے مکہ مکرمہ آجائیں۔
ان تینوں کاموں میں ترتیب واجب ہے
دسویں تاریخ کو یہ تینوں کام ترتیب سے کرنے واجب ہیں:
(۱) بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا۔
(۲) قربانی کرنا۔
(۳) سر کے بال منڈوانا۔
اگر اس ترتیب کو کسی شخص نے بدل کر آگے پیچھے کر دیا تو اس پر ایک دم واجب ہو گا۔ جو بینک اور ادارے اجتماعی قربانی کا انتظام کرتے ہیں، اپنے مطابق اس ترتیب کو ضروری نہیں سمجھتے، اگر آپ نے سر پہلے منڈوالیا اور آپ کی قربانی بعد میں ہوئی تو دم واجب ہو گا۔
طوافِ زیارت کرنا (فرض)
دسویں تاریخ کا چوتھا کام طوافِ زیارت کرنا ہے۔ یہ طوافِ زیارت حج کا دوسرا بڑا رکن ہے۔ طوافِ زیارت کرنے کے لیے آپ اسی طرح طواف کریں جس کا بیان عمرے کے طواف کے بیان میں گزر چکا ہے۔ واضح رہے کہ طوافِ زیارت ادا کرنے کا وقت دس ذی الحجہ کے طلوعِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور ۱۲ ذی الحجہ کے غروب سے پہلے تک کر سکتے ہیں۔ لہٰذا جیسے سہولت ہو ویسے کیا جائے۔ لیکن تجربہ یہی ہے کہ دس یا گیارہ ذی الحجہ کے اندر کر لیں، بارہ کا رسک نہ لیں تو بہتر ہے۔
حج کی سعی (واجب)
طوافِ زیارت کے بعد آپ کو حج کی سعی کرنی ہے۔ اس کے اعمال بھی ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے عمرے کے بیان میں پڑھا ہے۔
منیٰ کی طرف واپسی
طوافِ زیارت اور حج کی سعی کرنے کے بعد آپ واپس منیٰ آجائیں، بلا ضرورت مکہ مکرمہ نہ ٹھہریں، البتہ اگر نماز کا وقت قریب ہو تو حرم شریف میں نماز پڑھنے کے بعد منیٰ روانہ ہو جائیں۔ منیٰ کی یہ راتیں ذکر اور اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی راتیں ہیں، توبہ اور استغفار کی راتیں ہیں، اس لیے ان راتوں کو غفلت میں نہ گزاریں۔
حج کا چوتھا دن: گیارہ ذی الحجہ
تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا (واجب)
گیارہویں ذی الحجہ کو آپ کو صرف ایک کام کرنا ہے، وہ یہ کہ آج تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہیں، البتہ کنکریاں مارنے کا وقت آج زوال کے بعد شروع ہو گا، لہٰذا اگر کسی شخص نے آج زوال سے پہلے کنکریاں مار لیں تو وہ کنکریاں ادا نہیں ہوں گی۔
پہلے چھوٹے شیطان کے سامنے آ کر پانچ چھ ہاتھ کے فاصلے پر کھڑے ہو جائیں او رکنکری کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان پکڑیں اور کنکری مارتے وقت تکبیر کہیں: ’’بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ، رَغْمًا لِلشَّیْطٰنِ وَ رِضًی لِلرَّحْمٰنِ‘‘۔ اور ایک ایک کر کے ستون (جو آج کل دیوار نما شکل میں ہے) کی جڑ میں کنکریاں ماریں۔ کنکریاں اس حوض کے اندر گرنی چاہئیں۔ اگر کوئی کنکری اس حوض کے باہر گر گئی تو وہ کنکری ادا نہیں ہوئی، اس کی جگہ دوسری کنکری ماریں۔
سات کنکریاں مارنے کے بعد ستون سے ذرا دور ایک طرف کھڑے ہو جائیں اور بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھا کر دعا کریں۔ دعا کرنے کے بعد درمیانے شیطان کی طرف چلیں، وہاں پہنچ کر اس کو بھی اس طرح تکبیر کہتے ہوئے سات کنکریاں ایک ایک کر کے ماریں۔
کنکریاں مارنے کے بعد ایک طرف ہٹ کر بیت اللہ کی طرف منہ کر کے دعا کریں۔ دعا کرنے کے بعد بڑے شیطان کی طرف آئیں اور اس کو بھی اس طرح تکبیر کہتے ہوئے سات کنکریاں ماریں۔ لیکن بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا نہیں کرنی ہے بلکہ کنکریاں مارنے کے بعد نکلتے چلے جائیں۔
تینوں شیطانوں کو ترتیب وار کنکریاں مارنا سنت ہے، پہلے چھوٹے کو، پھر درمیانے کو، پھر بڑے کو، اور بعض اس ترتیب کو واجب کہتے ہیں۔
رات کو منیٰ ہی میں قیام کریں، باجماعت نماز کا اہتمام کریں، تلاوت کریں، ذکر کریں، توبہ و استغفار کریں، دعائیں مانگیں، اگلے دن بارہویں تاریخ ہے۔
حج کا پانچواں اور آخری دن: ۱۲ ذی الحجہ
تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا (واجب)
بارہویں تاریخ کو تینوں شیطانوں کو زوال کے بعد کنکریاں مارنے کے بعد آپ کو اختیار ہے کہ چاہیں تو غروبِ آفتاب سے پہلے منیٰ سے نکل کر مکہ مکرمہ میں اپنی قیام گاہ پر آجائیں، جیسا کہ آج کل یہی معمول ہے کہ بارہویں تاریخ کی شام کو منیٰ سے لوگ مکہ مکرمہ آجاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص بارہویں تاریخ کو کنکریاں مارنے کے بعد منیٰ ہی میں ٹھہرا رہا اور صبح صادق اسے وہیں ہو گئی تو تیرہویں تاریخ کو کنکریاں مارنا بھی اس پر واجب ہے۔ جس کے لیے زوال کی شرط نہیں بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد بھی ماری جا سکتی ہیں۔
منیٰ سے واپسی کے بعد مکہ مکرمہ کے قیام میں کیا اعمال کریں؟
مکہ مکرمہ واپس آنے کے بعد ادب و احترام کے ساتھ مکہ میں قیام کریں۔ مسجد حرام میں جماعت کی نماز کا اہتمام کریں اور پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کریں، زیادہ سے زیادہ نفلی طواف کریں، نفلی عمرے بھی کریں۔
نفلی عمرے کے لیے آپ کو حدودِ حرم سے باہر جا کر عمرہ کا اِحرام باندھنا ہو گا۔ اس کے لیے دو جگہیں مشہور ہیں: ایک مقامِ جعرانہ ہے جو مکہ مکرمہ سے تقریباً ۹ میل کے فاصلے پر ہے، وہاں جا کر عمرہ کے اِحرام کی نیت کر لیں۔ یا دوسری جگہ مقامِ تنعیم ہے جو مسجد عائشہ کے نام سے مشہو ر ہے۔
یا درکھیے! عمروں کی کثرت کے مقابلے میں طواف کی کثرت زیادہ افضل ہے۔
طوافِ وَداع (واجب)
جس دن آپ کو مکہ مکرمہ سے رخصت ہونا ہو، اس دن آپ ایک آخری طواف کر لیں۔ جو حضرات پہلے مدینہ طیبہ نہیں گئے وہ مدینہ طیبہ جائیں گے۔ اور جو حضرات پہلے مدینہ طیبہ جا چکے ہیں وہ اپنے وطن کے لیے روانہ ہوں گے۔
بہرحال، جس دن آپ کو مکہ مکرمہ چھوڑنا ہے، اس دن آپ آخری طواف کر لیں۔ اور یہ آخری طواف ’’طوافِ وَداع‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کو طوافِ رخصتی بھی کہتے ہیں۔ نہ اس میں اضطباع ہو گا، نہ اس طواف میں رمل ہو گا، اور نہ ہی اس طواف کے بعد صفا مروہ کی سعی ہو گی۔
بیت اللہ کے سات چکر لگائیں اور ہر چکر میں استلام کریں۔ سات چکر لگانے کے بعد آٹھواں استلام کریں اور اس کے بعد تین ضمنی کام کریں، یعنی:
(۱) ملتزم پر دعا کریں۔ آج موقع ملے تو ملتزم سے چمٹ کر الحاح و زاری سے دعا کریں۔
(۲) دو رکعت دوگانہ طواف مقامِ ابراہیم پر پڑھیں۔
(۳) اور اس کے بعد زم زم کا پانی پی کر دعا کریں۔
اور بیت اللہ پر آخری نظر ڈالتے ہوئے دل میں پھر حاضری کی تمنا و آرزو لیے یہ دعا کر کے کہ اے اللہ! یہ حاضری میری آخری حاضری نہ ہو۔
آپ کا حج مکمل ہو گیا، اللہ تعالیٰ آسان فرمائیں اور قبول فرمائیں، آمین۔
ضروری یادداشت
معذوری کے ایام میں طوافِ وَداع کا حکم
باہر سے جانے والوں کے لیے یہ طوافِ وَداع واجب ہے، لیکن اگر کسی خاتون کے معذوری کے ایام شروع ہو جائیں تو طوافِ وَداع اس خاتون سے معاف ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بیمار ہو گیا اور طوافِ وَداع کی طاقت نہیں ہے تو اس سے بھی یہ طواف ساقط ہو جاتا ہے۔
معذوری کے ایام میں طوافِ زیارت کا حکم
لیکن دسویں تاریخ کا جو طوافِ زیارت ہے، وہ کسی شخص سے کسی حالت میں معاف نہیں ہوتا۔ اگر کسی خاتون کو معذوری کے ایام شروع ہو جائیں او راس نے اب تک طوافِ زیارت نہ کیا ہو تو طوافِ زیارت کے لیے وہاں اس کو ٹھہرنا ضروری ہے۔ جب فارغ ہو جائے تو غسل کر کے پاک صاف کپڑے پہن کر طوافِ زیارت کرے۔ پھر صفا مروہ کی سعی کرے، اس کے بعد واپس آئے۔
اگر کوئی مرد یا عورت طوافِ زیات کیے بغیر وطن واپس آگیا تو جب تک وہ واپس جا کر طوافِ زیارت نہیں کر لے گا اس وقت تک شوہر بیوی کے لیے اور بیوی شوہر کے لیے حرام رہیں گے۔ اس لیے طوافِ زیارت کو کسی حال میں بھی چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ اگر واپسی کی تاریخ آجائے تو درخواست کر کے اپنی تاریخ آگے بڑھا لیں اور اپنا عذر بیان کر دیں، لیکن طوافِ زیارت کیے بغیر ہرگز واپس نہ آئیں۔
بہرحال، طوافِ زیارت کرنے کے بعد مکہ سے روانہ ہو جائیں۔ جو حضرات مدینہ طیبہ نہیں گئے وہ مدینہ طیبہ جائیں گے۔ اور جو حضرات مدینہ طیبہ پہلے جا چکے ہیں وہ اپنے وطن آئیں گے۔ حج آپ کا مکمل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عافیت اور سلامتی کے ساتھ ہم سب کو حجِ مبرور نصیب فرمائیں، آمین۔
(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ اگست ۲۰۱۳ء)