پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع

پاک چین اقتصادی راہداری افغانستان تک بڑھانے پر تینوں ملکوں میں اتفاق

کابل: ہفتہ کو پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی اجلاس میں علاقائی صف بندی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو افغانستان تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ اسٹریٹجک محاذ پر یہ بھی اتفاق کیا گیا کہ اگر یہ صف بندی مناسب طریقے سے کام کرتی ہے تو افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ سفارتی مشنز تک محدود رہے گا۔

ان فیصلوں کی تصدیق افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی، چین کے خصوصی ایلچی یو شیاویونگ اور پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے درمیان بند کمرہ اجلاس کے بعد کی گئی۔ ان فیصلوں سے علاقائی صف بندی کی جانب ایک جرأت مندانہ اقدام کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان نے 22 اپریل کے پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے حوالے سے اسلام آباد کے موقف کی خاموشی سے حمایت کی ہے اور وہ بھارتی کلب سے دوری اختیار رکھیں گے۔

جمعہ کی رات اور ہفتہ کو متعدد ملاقاتوں، جن میں ون آن ون ملاقاتیں بھی شامل تھیں، کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ افغان طالبان کابل میں چین اور پاکستان کے ساتھ سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات کے چھٹے دور کی میزبانی کریں گے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ طالبان کی قیادت میں ہونے والی یہ پہلی اعلیٰ سطحی بات چیت ہوگی۔

چین اور پاکستان نے جنوبی اور وسطی ایشیا میں مغربی اثر و رسوخ کو ایک طرف کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ گہرے سیاسی اور اقتصادی تعاون کی حمایت کی بھی منظوری دی۔

ذرائع نے بتایا کہ چین اسلامی امارت افغانستان کی سیاسی اور اقتصادی طور پر حمایت کرے گا جس کو سڑکوں کے ذریعے علاقائی ممالک سے بھی منسلک کیا جائے گا۔

جاری سہ فریقی روابط کے تحت، پاکستان کے خصوصی ایلچی نے افغان وزیر تجارت عزیزی کے ساتھ ایک ملاقات میں چینی خصوصی نمائندے کے ساتھ شرکت کی۔

خصوصی ایلچی نے ان ملاقاتوں کو تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے میں تعمیری اور مددگار قرار دیا۔ تینوں فریقین نے مئی 2023 میں اسلام آباد میں ہونے والی وزرائے خارجہ کی سطح کی سہ فریقی بات چیت کی افہام و تفہیم، خاص طور پر سی پیک کو افغانستان تک بڑھانے کے حوالے سے، کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ پاکستان کے خصوصی ایلچی کا یہ دورہ پاکستان بھارت تنازعہ، چینی اقدامات پر علاقائی رابطے اور افغان سرزمین سے دہشت گرد تنظیم داعش خراساں کو ختم کرنے کے حوالے سے ہمسایہ ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تھا۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں، سفیر صادق نے نوٹ کیا کہ پاکستان، چین اور افغانستان کے پہلے سہ فریقی اجلاس نے اقتصادی اور سلامتی کے تعاون کے ساتھ ساتھ علاقائی استحکام پر خیالات کے ہم آہنگی کا موقع فراہم کیا۔

www.tribune.com.pk

سی پیک کے فوائد کو افغانستان تک پہنچانا چاہتے ہیں: پاکستان

پاکستان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر کی رفتار تیز کرنے اور اربوں ڈالر کے اس منصوبے کو توسیع دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس میں علاقائی امن اور سلامتی کے لیے اس کے فوائد کو افغانستان تک پہنچانا بھی شامل ہے۔

نیویارک میں علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والے مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا تک رابطے کے منصوبوں پر عمل درآمد سے افغانستان اور خطے میں امن و سلامتی کو فروغ دینے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق منیر اکرم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک بڑی ہمسائے کی طرف سے علاقائی بالادستی کی خواہش نے سارک کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کے اصولوں کی پاسداری کے ذریعے علاقائی رابطوں کو بڑھانے پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اقوام متحدہ کے تعاون سے علاقائی اور بین علاقائی اقدامات امن، سلامتی اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں زیادہ تعاون اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے اہم ہیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان چین پر اپنا اعتماد بحال کر رہا ہے تاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے اگلے مرحلے پر کام آگے بڑھ سکے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے رواں سال مئی میں چین کے دورے سے واپسی پر اتوار کو ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا کہ ’چین کا اپنے اوپر اعتماد بحال کر رہے ہیں تاکہ سی پیک کا فیز ٹو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔‘

دوسرے مرحلے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ہم چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے کے پیرامیٹرز کی وضاحت کے لیے چینی ہم منصبوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جس میں تین شعبوں یعنی زراعت، صنعت اور ٹیکنالوجی میں کام کیا جائے گا۔‘

کیا سی پیک پر کام رک چکا ہے یا سست روی کا شکار ہے؟

سرکاری معلومات کے مطابق سی پیک کے تحت 840 کلومیٹر طویل موٹرویز ابھی تک مکمل ہو چکی ہیں۔

سی پیک کے 10 سالوں میں پانچ سڑکوں کے منصوبے مکمل ہوئے۔ 90 فیصد تک منصوبے مکمل ہیں جبکہ 820 کلومیٹر آپٹیکل فائبر مکمل ہو چکی ہے۔

2017 میں ایم ایل ون، معائدہ ہوا تھا جس کے تحت ریل وے کا روٹ خنجراب سے گوادر تک رکھا گیا تھا۔ ایم ایل ون کی لمبائی 1733کلومیٹر ہے۔

وزارت منصوبہ بندی حکام کے مطابق کرونا کی وجہ سے بھی منصوبوں میں سست روی ہوئی، ’گذشتہ دور حکومت میں بھی کام سست روی کا شکار ہوا تھا۔ کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ، سپیشل اکنامک زون، صنعتوں کی بحالی بھی فیزٹو کا حصہ ہے۔ 46 ارب ڈالرز سے اب تک 27.3 ارب ڈالرز سی پیک کے منصوبوں پر خرچ ہو چکے ہیں جبکہ 46 ارب ڈالرز سے اوپر کے 16 ارب ڈالرز کی تخمینہ رقم فیز ٹو کے منصوبوں کی ہے۔

سال 2013 میں ن لیگ کے دور حکومت میں شروع ہونے والے سی پیک میں متعدد منصوبے مکمل ہوئے جن میں سکی کناری ڈیم اور داسو ڈیم جیسے منصوبے تکمیل کے آخری مرحلے میں ہیں۔

حریک انصاف کے دور حکومت میں سی پیک سست روی کا شکار ہوا جس کے بعد اس وقت کے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بیان دیا تھا کہ ’سی پیک پر کام سست نہیں ہوا۔‘

تاہم اس دوران زیر تکمیل سکی کناری ڈیم اور داسو ڈیم جیسے منصوبے مقررہ مدت میں مکمل نہیں ہوئے۔

ماہر معاشی امور اور سینیئر صحافی شہباز رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سی پیک پہ مستعدی سے کام 2014 سے لے کر 2018 تک ہوا تھا اور 2018 کے بعد سے سی پیک پہ کام سست روی کا شکار ہے اور مزید اس میں فی الحال توسیع نہیں ہو رہی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سی پیک فیزٹو حکومت پاکستان کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن چین کی طرف سے فیز ٹو پر کچھ زیادہ سگنلز نہیں ہیں۔ چین کی طرف سے فیز ٹو پر بات کرنا اس لیے میچور نہیں ہے کیونکہ چائنیز کو پہلے سے سی پیک فیز ون پر مسائل آ رہے ہیں، پاکستان نے جو ان سے معائدے کیے تھے ان پر مکمل عمل درآمد نہیں رہا، جب تک سی پیک فیز ون کے معاملات حل نہیں ہوں گے تب تک فیز ٹو کو مستعدی سے آگے بڑھانا ممکن نہیں ہو گا۔‘

معاشی امور پر نظر رکھنے والے صحافی شکیل احمد نے بتایا کہ سی پیک سی پیک فیز ون میں روڈ نیٹ ورکس اور پلوں کی تعمیر پر تو کام ہوا لیکن ریلوے سے متعلق منصوبے سست روی کا شکار ہوئے۔ ’اس کی وجوہات کئی ہیں، سب بڑی وجہ سکیورٹی تخفظات ہیں کیونکہ چینی باشندوں پر بارہا حملے ہوئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام بھی سی پیک منصوبے میں سست روی کی ایک وجہ ہے۔ چین اب کھل کر پاکستان میں اس طرح سرمایہ کاری نہیں کر رہا جس طرح 2013-2017 کے درمیان چین نے کی تھی۔‘

چینی باشندوں پر حملے اور چین کے تخفظات

رواں برس سی پیک منصوبے داسو ڈیم سائٹ پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستان میں کام کرنے والے چینی ماہرین کو سکیورٹی خدشات لاحق ہوئے۔

رواں برس مارچ کے مہینے میں بشام میں پانچ چینی باشندے اور ایک پاکستانی ڈرائیور کی خودکش حملے میں موت ہوئی جس کے بعد اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے حکومت پاکستان سے واقعے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے زیر صدارت داسو ہائیڈل پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر بشام میں دہشت گرد حملے کے بعد اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں آرمی چیف نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پر آرمی چیف نے کہا تھا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کہ ہر غیر ملکی شہری خاص طور پر چینی شہری جو پاکستان کی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں پاکستان میں محفوظ رہیں، ہم پوری طاقت کے ساتھ دہشت گردی کا آخری دم تک مقابلہ کریں گے۔‘

www.independenturdu.com

چین، پاکستان اور افغانستان سہ فریقی مذاکرات کے دوران سی پیک کو وسعت دینے پر راضی

چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے ممالک کے درمیان گہرے تعاون پر تبادلہ خیال کے لیے ایک میٹنگ کی۔.

چین، پاکستان اور افغانستان نے بدھ کے روز بیجنگ میں ایک غیر رسمی سہ فریقی اجلاس کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری کو افغانستان تک پھیلانے پر اتفاق کیا، رائٹرز نے رپورٹ کیا۔

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے اپنے ممالک میں تجارت، انفراسٹرکچر اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے سفارتی مصروفیات اور اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔

ترقیاتی اقدامات کے لیے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے، ممالک نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) پر تعاون کو گہرا کرنے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو افغانستان تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔

X پر ایک پوسٹ میں، ملاقات کے بعد، اسحاق ڈار نے کہا، پاکستان، چین اور افغانستان علاقائی امن، استحکام اور ترقی کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔

اسحاق ڈار بیجنگ کے تین روزہ دورے پر ہیں، جو ہندوستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے بعد پہلی اعلیٰ سطحی کی بات چیت ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے اعلان کیا کہ 6ویں سہ فریقی وزرائے خارجہ کا اجلاس کابل میں ہو گا جس کے لیے باہمی طور پر کوئی متفقہ تاریخ طے کی جائے گی۔

وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ اس دورے سے ہماری مضبوط دوستی کی تصدیق ہوتی ہے اور اس نے بین الاقوامی اور علاقائی امن و ترقی کے لیے ہمارے مشترکہ وژن کو آگے بڑھایا ہے۔

CPEC پر بھارت کا اعتراض: بھارت نے کسی بھی تیسرے ملک میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی توسیع پر اعتراض کیا تھا۔ اے این آئی نے رپورٹ کیا کہ وزارت خارجہ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کے منصوبوں میں حصہ لینے والے ممالک جموں و کشمیر میں ہندوستان کی سرزمین کی خلاف ورزی کریں گے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری، جو چین کے بیلٹ اور روڈ انیشیٹو کا ایک حصہ ہے، کا مقصد جنوب مشرقی ایشیا کے ساحلی ممالک میں تجارتی راستوں کی تجدید کرنا ہے۔

(ہندوستان ٹائمز ۔ ۲۱ مئی ۲۰۲۵ء)


(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter