اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۶)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(248) ائتِیَا کا ترجمہ

ثُمَّ استَوَیٰ اِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَان فَقَالَ لَہَا وَلِلاَرضِ ائتِیَا طَوعًا اَو کَرہًا قَالَتَا اَتَینَا طَائِعِینَ۔ (فصلت:11)

”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا ”وجود میں آ جاو، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو“ دونوں نے کہا:ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح“۔ (سید مودودی، جب وجود ہی نہیں تھا تو حکم کیسے دیا جائے گا؟)

”پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ اس وقت دھوئیں کی شکل میں تھا، پس اس کو اور زمین کو حکم دیا کہ تم ہمارے احکام کی تعمیل کرو طوعا یا کرہا۔ وہ بولے کہ ہم رضامندانہ حاضر ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، ائتیا کا مطلب ’احکام کی تعمیل کرو‘ نہیں ہوگا)

اس آیت میں نہ تو وجود میں آنے کا حکم دیا ہے نہ احکام کی تعمیل کا، بلکہ حاضر ہونے کا حکم دیا ہے، درست ترجمہ یہ ہے:

”پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا جب کہ وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ دونوں آو (خواہ) خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(249)    فَقَضاہُنَّ سَبعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَومَینِ کا ترجمہ

فَقَضَاہُنَّ سَبعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَومَینِ۔ (فصلت :12)

”پس ان کے سات آسمان ہونے کا فیصلہ فرمایا دو دنوں میں“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں سوال یہ ہے کہ فیصلہ کرنے میں دو دن کیوں لگیں گے۔ درست ترجمہ ہے: ”پس ان کو سات آسمان بنادیا دو دن میں“۔

(248)    وَاُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُم کا ترجمہ

عدل کے معنی انصاف کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور صحیح و حق بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں۔ درج ذیل آیت میں عام طور سے انصاف کرنا ترجمہ کیا گیا ہے:

فَلِذَلِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَمَا اُمِرتَ وَلَا تَتَّبِع اَہوَاءہُم وَقُل آمَنتُ بِمَا اَنزَلَ اللَّہُ مِن کِتَابٍ وَاُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُمُ اللَّہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُم لَنَا اَعمَالُنَا وَلَکُم اَعمَالُکُم لَا حُجَّۃَ بَینَنَا وَبَینَکُمُ اللَّہُ یَجمَعُ بَینَنَا وَِالَیہِ المَصِیرُ۔ (الشوری :15)

”تو اسی لیے بلاو اور ثابت قدم رہو جیسا تمہیں حکم ہوا ہے اور ان کی خواہشوں پر نہ چلو اور کہو کہ میں ایمان لایا اس پر جو کوئی کتاب اللہ نے اتاری اور مجھے حکم ہے کہ میں تم میں انصاف کروں اللہ ہمارا اور تمہارا سب کا رب ہے، ہمارے لیے ہمارا عمل اور تمہارے لیے تمہارا، کیا کوئی حجت نہیں ہم میں اور تم میں، اللہ ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف پھرنا ہے“۔(احمد رضا خان)

”اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں“۔ (سید مودودی)

”اور مجھے یہ حکم ہے کہ میں تمہارے درمیان فیصلہ کردوں“۔ (امین احسن اصلاحی، عدل کا مطلب صرف فیصلہ کرنا تو نہیں ہوتا ہے۔)

وَاُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُمُ کا عام طور سے ترجمہ کیا گیا ’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں‘۔ یہ ترجمہ اس جملے کو سیاق کلام میں اجنبی سا بنا دیتا ہے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انصاف کرنے یا فیصلہ کرنے کا یہاں کیا محل ہے؟ خطاب تو مکہ میں وہاں کے مشرکین سے ہے جو رسالت کے منکر ہیں اور اپنی پوری قوت سے آپ کی مخالفت کررہے ہیں۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی اس جملے کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں:

”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے بیچ صحیح بات واضح کردوں“۔

یہ ترجمہ سیاق کلام کے ساتھ بالکل مطابق ہوجاتا ہے۔ اور وہ صحیح بات کیا ہے وہ اس جملے کے فورا بعد واضح بھی کردی گئی ہے۔

عدل کے معنی انصاف کرنے کے علاوہ صحیح بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں، قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا: وَِاذَا قُلتُم فَاعدِلُوا (انعام:152) ’اور جب بولو توسچ بات کہو‘اس کی تفسیر جلالین میں اس طرح ہے: وَاذا قُلتُم فِی حُکم او غَیرہ فاعدِلُوا بِالصِّدقِ۔

(249) اُستُجِیبَ لَہُ کا ترجمہ

استجاب لہ کا مطلب ہوتا ہے کسی کی بات مان لینا یا اس کی طلب قبول کرلینا۔

زمخشری کہتے ہیں: المراد بالاستجابۃ۔ الطاعۃ والامتثال۔ (الکشاف)

 ابن عاشور کہتے ہیں: الِاستِجابَۃ: الاجابَۃ، فالسِّینُ والتّاءُ فِیہا لِلتَّاکِیدِ، وقَد غَلَبَ استِعمالُ الِاستِجابَۃِ فی اجابَۃِ طَلَبٍ مُعَیَّنٍ او فی الاعَمِّ۔ (ابن عاشور)

قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف صیغوں سے کئی جگہ آیا ہے اور اسی مفہوم میں آیا ہے۔ البتہ درج ذیل آیت میں اُستُجِیبَ لَہُ کا ترجمہ بعض لوگوں نے ’اسے مان لیا گیا‘کیا ہے۔ یہ ترجمہ اس لفظ کے مطابق نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا:’اس کی بات مان لی گئی‘۔ تراجم ملاحظہ فرمائیں:

وَالَّذِینَ یُحَاجُّونَ فِی اللَّہِ مِن بَعدِ مَا استُجِیبَ لَہُ حُجَّتُہُم دَاحِضَۃ عِندَ رَبِّہِم وَعَلَیہِم غَضَب وَلَہُم عَذَاب شَدِید۔ (الشوری: 16)

”اور جو لوگ اللہ کے باب میں حجت کررہے ہیں بعد اس کے کہ اس کو مانا جاچکا ہے، ان کی حجت ان کے رب کے آگے بالکل پسپا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جو لوگ خدا (کے بارے) میں بعد اس کے کہ اسے (مومنوں نے) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں ان کے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں اس کے بعد کہ (مخلوق) اسے مان چکی ان کی کٹ حجتی اللہ کے نزدیک باطل ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اللہ کی دعوت پر لبیک کہے جانے کے بعد جو لوگ (لبیک کہنے والوں سے) اللہ کے دین کے معاملہ میں جھگڑے کرتے ہیں، اُن کی حجت بازی اُن کے رب کے نزدیک باطل ہے“۔ (سید مودودی)

”اور وہ جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ مسلمان اس کی دعوت قبول کرچکے ہیں ان کی دلیل محض بے ثبات ہے ان کے رب کے پاس“۔ (احمد رضا خان)

اول الذکر تینوں ترجموں میں وہ غلطی موجود ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

(250)  یَنظُرُونَ مِن طَرفٍ خَفِیٍّ کا ترجمہ

درج ذیل آیت کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَتَرَاہُم یُعرَضُونَ عَلَیہَا خَاشِعِینَ مِنَ الذُّلِّ یَنظُرُونَ مِن طَرفٍ خَفِیٍّ۔ (الشوری:45)

”اور تم انہیں دیکھو گے کہ آگ پر پیش کیے جاتے ہیں ذلت سے دبے لچے چھپی نگاہوں دیکھتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”اور تم ان کو دیکھو گے کہ دوزخ کے سامنے لائے جائیں گے ذلت سے عاجزی کرتے ہوئے چھپی (اور نیچی) نگاہ سے دیکھ رہے ہوں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تو انہیں دیکھے گا کہ وہ (جہنم کے) سامنے کھڑے کیے جائیں گے مارے ذلت کے جھکے جارہے ہوں گے اور کنکھیوں سے دیکھ رہے ہوں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور تم دیکھو گے کہ یہ جہنم کے سامنے جب لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور اُس کو نظر بچا بچا کر کن آنکھیوں سے دیکھیں گے“۔ (سید مودودی)

آخر الذکر ترجمے میں ایک محل نظر بات یہ ہے کہ یَنظُرُونَ کا ترجمہ’اس کو دیکھیں گے‘ کیا ہے،’اس کو‘کے لیے یہاں کوئی لفظ موجود نہیں ہے، یہا ں مطلق ’دیکھنے‘ کی بات ہے،’کسی خاص چیز کو دیکھنے‘ کی بات نہیں ہے۔ دوسری محل نظر بات یہ ہے کہ من طرف خفی کا ترجمہ’نظر بچا بچا کر کن آنکھیوں سے‘ کیا ہے۔ من طرف خفی کا مطلب’کن آنکھیوں سے‘ ہے۔ لیکن ’نظر بچا بچا کر‘کے لیے یہاں کوئی لفظ نہیں ہے۔

(251) مِن اَولِیَاء کا ترجمہ

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر من ولی (واحد کے صیغے میں) کہہ کر نفی کی گئی ہے۔ بعض مقامات پر مِن اَولِیَاء (جمع کے صیغے میں) کہہ کر نفی کی گئی ہے۔ دونوں اسلوبوں میں کچھ معنوی فرق ضرور ہے، اور ترجمے میں اس فرق کا اظہار ہونا چاہیے۔ درج ذیل تین مقامات میں سے پہلے دونوں مقامات پر ترجمہ کرتے ہوئے اس کی رعایت نہیں کی گئی ہے، جبکہ تیسرے مقام پر عام طور سے مترجمین نے اس کا لحاظ کرتے ہوئے ترجمہ کیا ہے، اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ تیسرے مقام پر آگے یَنصُرُونَہُم بھی آگیا ہے۔

(1) وَمَا کَانَ لَہُم مِّن دُونِ اللَّہِ مِن اَولِیَاء۔ (ہود:20)

”اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی ان کا حامی تھا“۔ (سید موددی)

”اور نہ ان کا کوئی حمایتی اللہ کے سوا ہوا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور نہ خدا کے سوا کوئی ان کا حمایتی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور نہ اللہ سے جدا ان کے کوئی حمایتی“۔ (احمد رضا خاں)

(2) وَمَا لَکُم مِّن دُونِ اللَّہِ مِن اَولِیَاء۔ (ہود:113)

”اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حامی نہیں“۔(امین احسن اصلاحی)

”اور خدا کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اللہ کے سوا اور تمہارا مددگار نہ کھڑا ہو سکے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی نہیں“۔ (احمد رضا خان)

”اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے“۔ (سید مودودی)

آخر الذکر ترجمے میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ غیر ضروری ہے اور اس عموم کو متاثر کررہا ہے جو اس جملے میں پایا جاتا ہے۔ اسلوب کلام تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے کسی بھی طرح کے اولیاءہوں گے ہی نہیں۔

درست ترجمہ:

”اور اللہ کے سوا تمہارے اولیاءنہیں ہوں گے“۔

(3) وَمَا کَانَ لَہُم مِّن اَولِیَاءَ یَنصُرُونَہُم مِّن دُونِ اللَّہِ۔ (الشوری: 46)

”اور ان کے کوئی حامی و سرپرست نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کو آئیں“۔ (سید مودودی)

”ان کے کوئی مددگار نہیں جو اللہ تعالیٰ سے الگ ان کی امداد کرسکیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور خدا کے سوا ان کے کوئی دوست نہ ہوں گے کہ خدا کے سوا ان کو مدد دے سکیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور وہاں ان کے اولیاءمیں سے کوئی بھی نہیں ہوگا جو خدا کے مقابل میں ان کی کوئی مدد کرسکے“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس آیت کا آخرالذکر ترجمہ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ان کے اولیاءمیں سے وہاں کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں موجود ہوگا، گویا ان کے اولیاءہونے کا اثبات ہے، مگر ان میں سے کسی کے وہاں موجود ہونے کی نفی ہے۔ حالاں کہ وَمَا کَانَ لَہُم مِّن اَولِیَاءَ (ما نافیہ اور اس کے بعد من برائے استغراق) کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے اولیاءہی نہیں ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں اولیاءہونے کی مکمل نفی کی گئی ہے۔

درست ترجمہ: ”اور وہاں ان کے اولیاءنہیں ہوں گے جو خدا کے مقابل میں ان کی کوئی مدد کرسکیں“۔

(252) ملجا اور نکیر کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں ملجا اور نکیر دونوں الفاظ کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

استَجِیبُوا لِرَبِّکُم مِّن قَبلِ اَن یَاتِیَ یَوم لَّا مَرَدَّ لَہُ مِنَ اللَّہِ مَا لَکُم مِّن مَّلجَاٍ یَومَئِذٍ وَمَا لَکُم مِّن نَّکِیرٍ۔ (الشوری:47)

”مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے اُس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا“۔ (سید مودودی)

”اس دن تمہارے لیے نہ کوئی پناہ ہوگی اور نہ تو کسی چیز کو رد کرسکو گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اس دن تمہیں کوئی پناہ نہ ہوگی اور نہ تمہیں انکار کرتے بنے“۔ (احمد رضا خان)

”اس دن تمہارے لیے نہ کوئی جائے پناہ ہوگی اور نہ تم سے گناہوں کا انکار ہی بن پڑے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی“۔ (محمد جوناگڑھی)

ملجا اسم ظرف ہے اور اس کا درست ترجمہ پناہ گاہ ہے نہ کہ صرف پناہ۔ جبکہ نکیر کا مطلب اظہار ناگواری ہے، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ اسی معنی میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس دن نہ تو بھاگ کر کہیں پناہ لے سکو گے، اور نہ اظہار ناگواری کے ساتھ سامنا کرسکو گے۔

زیر نظر جملے کا ترجمہ یوں ہوگا:

”اس دن تمہارے لیے نہ کوئی پناہ گاہ ہوگی اور نہ تمہارے لیے اظہار ناگواری کا موقعہ ہوگا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(253) وَلَولَا کَلِمَۃ سَبَقَت مِن رَّبِّکَ اِلَیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی کا ترجمہ

قرآن مجید میں چار مقامات پر وَلَولَا کَلِمَۃ سَبَقَت مِن رَّبِّکَ آیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ایک مقام پر اِلَیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی کا اضافہ ہے:

وَلَولَا کَلِمَۃ سَبَقَت مِن رَّبِّکَ اِلَی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَینَہُم۔ (الشوری :14)

اس جملے کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:

”اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات ایک معین مدت کے لیے طے نہ پاچکی ہوتی تو ان کے درمیان فورا فیصلہ کردیا جاتا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا“۔ (سید مودودی)

”اور اگر تمہارے رب کی ایک بات گزر نہ چکی ہوتی ایک مقرر میعاد تک تو کب کا ان میں فیصلہ کردیا ہوتا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک وقت مقرر تک کے لیے بات نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت مقرر تک کے لیے پہلے ہی سے قرار پا گئی ہوئی نہ ہوتی تو یقینا ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا“۔ (محمد جوناگڑھی)

دراصل اس جملے میں اِلَی اَجَلٍ مُّسَمًّی،کَلِمۃ سَبَقَت مِن رَّبِّک کی غایت نہیں ہے، بلکہ کَلِمَۃ کی وضاحت ہے۔ یعنی متعین مدت تک کے لیے کسی بات کاطے پانا مراد نہیں ہے، بلکہ متعین مدت ہی وہ طے شدہ بات ہے۔ ترجمہ ہوگا:

”اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک مدت معین کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو ان کا فیصلہ کردیا جاتا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

گویا جو بات باقی چار آیتوں میں کہی گئی ہے وہی بات یہاں بھی کہی گئی ہے، البتہ یہاں زیادہ وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہے۔

قرآن / علوم القرآن

(مئی ۲۰۲۱ء)

مئی ۲۰۲۱ء

جلد ۳۲ ۔ شمارہ ۵

عقل اور مذہب کی بحث: چند مزید معروضات
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

مطالعہ جامع ترمذی (۱)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

آئین، اسلام اور بنیادی حقوق
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

معاہدات: ذمہ داری یا ہتھیار؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قائد اعظم کا اسلام
خورشید احمد ندیم

مولانا وحید الدین خانؒ کا انتقال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

الشریعہ اکادمی کی تعلیمی سرگرمیاں
ادارہ

تلاش

Flag Counter