(۱۴۹) کن فیکون کا ترجمہ
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں کہیں ’’کن فکان‘‘ نہیں آیا ہے، جبکہ آٹھ مقامات پر کن فیکون کی تعبیر آئی ہے۔ یہ تعبیر ایک بار زمانہ ماضی کے سلسلے میں آئی ہے، ایک بار زمانہ مستقبل کے سلسلے میں اور باقی مقامات پر ہر زمانے پر محیط عام اصول بتانے کے لیے آئی ہے۔
عام طور سے کن فیکون کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے:’’ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے‘‘ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ کن فیکون کا مناسب ترجمہ نہیں ہے، بلکہ دراصل ’’کن فکان‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کن فیکون کا ترجمہ ہوگا ’’ہوجا تو وہ ہونے لگتی ہے یا ہورہی ہوتی ہے‘‘۔ترجمے کے باب میں یہ ان کا خاص تفرد معلوم ہوتا ہے، کیونکہ راقم السطور کو کسی اور کا ترجمہ اس طرح کا نہیں ملا۔
درحقیقت فکان کے مقابلے میں فیکون میں معنی کی بہت زیادہ وسعت ہے۔ کچھ امر ایسے ہیں جنہیں ایک بار ہوجانا نہیں بلکہ زمانہ دراز تک ہوتے رہنا ہے، جیسے سورج اور چاند کا گردش میں رہنا۔ کچھ امر ایسے ہیں جنہیں ایک متعین وقت کے بعد ہونا ہے، جیسے دعا کی قبولیت کا ایک عرصے کے بعد ظاہر ہونا۔ جب کہ کچھ امر ایسے ہیں جو حکم دیتے ہی وجود میں آجاتے ہیں۔ فیکون میں نفاذ امر کے ایسے تمام احوال کا احاطہ ہوجاتا ہے۔ یہ قرآنی اسلوب کی بلاغت ہے کہ ایسی تعبیر اختیار کی گئی جو تمام ابعاد پر دلالت کرے۔
ذیل میں ایسی آیتوں کے ترجمے پیش کیے جاتے ہیں۔
(۱) بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُون۔ (البقرۃ: ۱۱۷)
’’وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے‘‘(سید مودودی)
’’وہ زمین اور آسمانوں کا ابتداءً پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، بس وہ وہیں ہوجاتا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’بس یہ حکم دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہونے لگتی ہے، یا ہورہی ہوتی ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۲) قَالَ کَذَلِکِ اللّہُ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔ (آل عمران: ۴۷)
’’فرمایا اللہ یوں ہی پیدا کرتا ہے جو چاہے جب، کسی کام کا حکم فرمائے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’جواب ملا، ’’ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہونے لگتا ہے، یا ہورہا ہوتا ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳) إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْْءٍ إِذَا أَرَدْنَاہُ أَن نَّقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔ (النحل: ۴٠)
’’جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ہوجا وہ فوراً ہوجاتی ہے‘‘ (احمد رضا خان)
(رہا اس کا امکان تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں ’’ہو جا‘‘ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔ (سید مودودی)
’’تو وہ ہونے لگتی ہے، یا ہورہی ہوتی ہے‘‘(امانت اللہ اصلاحی)
(۴) مَا کَانَ لِلَّہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَہُ إِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُون۔ (مریم: ۳۵)
’’اللہ کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنا بچہ ٹھہرائے پاکی ہے اس کو جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو یونہی کہ اس سے فرماتا ہے ہوجاؤ وہ فوراً ہوجاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کا ہونا لائق نہیں، وہ تو بالکل پاک ذات ہے، وہ تو جب کسی کام کے سر انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتا ہے’’ (فتح محمد جالندھری)
’’تو وہ ہونے لگتا ہے، یا ہورہا ہوتا ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۵) إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْْئاً أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُون۔ (یس: ۸۲)
’’وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے فرمائے ہو جا وہ فوراً ہوجاتی ہے۔(احمد رضا خان)
’’وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے‘‘ (سید مودودی)
اس آخر الذکر ترجمہ میں ایک اور خامی ہے، وہ یہ انما أمرہ کا ترجمہ کیا ہے’’اس کا کام بس یہ ہے‘‘ یہ ترجمہ لفظ کے لحاظ سے بھی اور شان خداوندی کے لحاظ سے بھی مناسب نہیں ہے، اس کے بجائے ہونا چاہئے ’’اسے بس یہ حکم دینا ہوتا ہے‘‘
’’تو وہ ہونے لگتی ہے، یا ہورہی ہوتی ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۶) ہُوَ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ فَإِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔ (غافر: ۶۸)
’’وہی ہے کہ جِلاتا ہے اور مارتا ہے پھر جب کوئی حکم فرماتا ہے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہو جا جبھی وہ ہوجاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’وہی ہے جو جلاتا ہے اور مار ڈالتا ہے، پھر جب وہ کسی کام کا کرنا مقرر کرتا ہے تو اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’تو وہ ہونے لگتا ہے، یا ہورہا ہوتا ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۷) إِنَّ مَثَلَ عِیْسَی عِندَ اللّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔ (آل عمران: ۵۹)
’’عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال ہو بہو آدم (علیہ السلام) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا! پس وہ ہو گیا!‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ ماضی کی روداد ہے، اس کے پیش نظر پہلا ترجمہ اس لیے درست نہیں ہے کہ ماضی میں ہونے کا لحاظ نہیں کیا گیا اور جو ترجمہ ہر جگہ کیا وہی یہاں بھی کردیا۔ موخر الذکر دونوں ترجمے واضح طور سے فیکون کے بجائے فکان کے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی حسب ذیل ترجمہ کرتے ہیں:
’’پھر اس سے کہا ہوجا تو وہ ہونے لگا، یا ہورہا تھا‘‘
(۸) وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ وَیَوْمَ یَقُولُ کُن فَیَکُونُ۔ (الانعام: ۷۳)
’’اور وہی ہے جس نے آسمان و زمین ٹھیک بنائے اور جس دن فنا ہوئی ہر چیز کو کہے گا ہو جا وہ فوراً ہوجائے گی‘‘ (احمد رضا خان)
’’وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا‘‘۔(سید مودودی)
یہ آیت زمانہ مستقبل سے تعلق رکھتی ہے، اس کا ترجمہ مولانا امانت اللہ اصلاحی حسب ذیل کرتے ہیں:
’’اور جس دن وہ کہے گا ہوجا تو وہ ہونے لگے گا، یا ہورہا ہوگا‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
مفسرین کا عام طور سے خیال یہ ہے کہ کن فیکون کی تعبیر یہ بتانے کے لئے آئی ہے کہ اللہ جسے ہونے کا حکم دیتا ہے وہ فورا ہوجاتا ہے۔ جب کہ فیکون کا انتخاب یہ بتاتا ہے کہ اس تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے ہونے کے لئے اللہ کا حکم دینا کافی ہوتا ہے۔
(جاری)