عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر

عید و مسرت کا اسلامی طرز

دینِ اسلام کے آنے سے پہلے بھی لوگ خوشیاں یعنی عید منایا کرتے تھے لیکن ان کے تہوار اور اسلامی تہوار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جہاں اسلام کا ابتدائی ظہور ہوا، سرزمینِ عرب میں مختلف قسم کے تہوار منائے جاتے تھے، ان تہواروں کو رقص و سرور اور عریانی و بے حیائی سے آراستہ کیا جاتا تھا۔ جب دینِ فطرت اسلام کا ظہور ہوا تو اسلام نے ان سب بے ہودوہ محفلوں کو ختم کر کے اپنے ماننے والوں کو دو بہترین تحفے عطا کیے جن کو ہماری اصطلاح میں عیدین کہا جاتا ہے یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔

سرورِ دو عالم ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ لوگ دو دن کھیل کود میں گزارتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے دریافت کیا کہ یہ لوگ دو دن کیا کرتے ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں ان دو دنوں میں تہوار منایا کرتے تھے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں دنوں کے بجائے تم مسلمانوں کو ان سے بہتر دن عنایت فرمائے ہیں، ایک عید الفطر دوسرا عید الاضحیٰ۔ (ابوداؤد)

ایک روایت کے مطابق ’’ہر قوم کے لیے عید ہے اور یہ (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) ہمارے لیے عید ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)

پہلی امتیں مختلف دنوں میں عید منایا کرتی تھیں، حضرت آدمؑ کی امت اس دن عید منایا کرتی تھی جس دن حضرت آدمؑ کو دنیا میں اتارا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کی امت اس دن عید منایا کرتی تھی جس دن حضرت ابراہیمؑ کو نمرود نے آگ میں ڈالا اور ان کو اس آگ سے اللہ پاک نے بچا لیا۔ حضرت عیسٰیؑ کی امت اس دن عید منایا کرتی تھی جس دن اللہ پاک نے آسمان سے مائدہ نازل فرمایا تھا۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ عید الفطر کے دن اللہ پاک اپنے بندوں کے متعلق فرشتوں سے سوال کرتے ہیں اے میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ کیا ہے جو اپنی محنت کا پورا پورا حق ادا کر چکا ہو؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے رب! اس کا صلہ تو یہی ہے کہ اس کی محنت کا پورا پورا معاوضہ دیا جائے۔ فرشتوں کی اس بات پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے فرشتو! تمہیں گواہ بنا کر اعلان کرتا ہوں کہ میں نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے والوں اور تراویح میں قیام کرنے والوں کا ثواب اپنی رضا اور مغفرت کو قرار دیا ہے، انہوں نے میرا فرض ادا کیا (روزہ رکھا) اس کے بعد نماز عید کی شوق میں میری تعریف کرتے ہوئے عیدگاہ گئے، لہٰذا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم کہ ان کی خطاؤں سے درگزر کروں گا اور ان کے عیبوں کو چھپاؤں گا، جو دعا کریں گے اس کو شرفِ قبولیت بخشوں گا۔ اس کے بعد اللہ پاک اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر خطاب فرماتے ہیں: میرے بندو! واپس جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔‘‘

اے غلامانِ محمدِ مصطفٰیؐ! تم نے کبھی خیال کیا کہ پروردگارِ عالم اپنے بندوں پہ کتنا مہربان ہے؟ اے رسولِ پاکؐ کا کلمہ پڑھنے والو! پروردگارِ عالم نے تمہیں بخشنے کے لیے عید الفطر کو مقرر فرمایا ہے، عید کی رات جاگ کر خوب خدا سے مانگو، یہ رات پھر واپس نہیں آئے گی۔ ورنہ عید کے دن صبح سویرے جاگ کر خدا سے خوب مانگیں، سنت کے مطابق غسل کریں، اچھے کپڑے پہن کر تسبیح پڑھتے ہوئے عید گاہ کی جانب روانہ ہو جائیں۔ عید کی نماز ادا کرنے کے بعد اسی جگہ بیٹھیں۔ خطبہ عید کو خوب توجہ سے سنیں اور خوب دل لگا کر اپنے پروردگار سے دعا مانگیں۔ صبح کی نماز کے بعد نہ تو کوئی نفل نماز گھر میں ادا کریں اور نہ ہی عید گاہ میں، نہ ہی نمازِ عید سے پہلے اور نہ ہی نمازِ عید کے بعد۔

اس پر ہم خیر القرون کا واقعہ سناتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کا بہترین اور مبارک زمانہ تھا، عید کا دن تھا، لوگ جوق در جوق عید گاہ کی طرف جا رہے تھے، اتنے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی عیدگاہ میں داخل ہوئے، دیکھا کہ ایک آدمی عیدگاہ میں نفل نماز پڑھ رہا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ تو نے یہ حرکت کیوں کی کہ عیدگاہ میں سوائے عید کی نماز کے کوئی اور نمازا دا کی؟ اس نے کہا کہ میں نے نماز پڑھی ہے کوئی گناہ کا کام تو نہیں کیا، اس پہ اللہ تعالیٰ مجھے عذاب تو نہیں دے گا۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ہاں ضرور اللہ تجھ کو عذاب دے گا، اس لیے کہ جو نماز تو نے پڑھی ہے اس نماز کو رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ پھر وہ شخص بات کو سمجھ گیا۔ ہمیں بھی ہر حال، ہر صورت اور ہر وقت اس کام کو کرنا ہو گا جو نبی کریم ﷺ نے کیا اور کرنے کا حکم دیا۔

نمازِ عید واجب ہے۔ جو شرائط جمعہ کی نماز کے لیے ہیں وہی شرائط عید کی نماز کے لیے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نمازِ عید کے لیے نہ آذان ہے، نہ ہی اقامت ہے اور نہ ہی نمازِ عید سے پہلے خطبہ ہے، بلکہ نمازِ عید کے بعد خطبہ پڑھا جائے گا۔ خطبہ پڑھنا سنت ہے اور سننے والوں پہ سننا واجب ہے۔ نمازِ عید الفطر کو جانے سے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کر کے جائیں، کوئی میٹھی چیز کھا کر عیدگاہ کی طرف روانہ ہوں، (جبکہ عید الاضحیٰ کی نماز سے پہلے کی بجائے بعد میں کھانا سنت ہے)، راستہ میں آہستہ آہستہ یہ تکبیر پڑھتے ہوئے جائیں: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ ایک راستہ سے جائیں اور دوسرے راستہ سے واپس آئیں۔

نیتِ نمازِ عید اس طرح کریں: ’’نیت کی میں نے دو رکعت عید کی بمع چھ تکبیرات زائدہ کے پیچھے اس امام کے، منہ میرا خانہ کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر‘‘۔ تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے۔ عید کی نماز کا طریقہ عام نماز کی طرح ہی ہے صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی رکعت میں ثناء (سبحنک اللھم … الخ) پڑھ کر تین بار اللہ اکبر کہے اور ہر بار کانوں تک ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہتا ہوا لٹکا دے، البتہ تیسری بار نہ لٹکائے بلکہ باندھ لے۔ اور امام کو چاہیے کہ ہر دفعہ اللہ اکبر کہنے کے بعد کم از کم اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سبحان اللہ تین بار کہنے میں لگتی ہے۔ مجمع زیادہ ہونے کی صورت میں ضرورت ہو تو اس سے زیادہ بھی وقفہ کیا جا سکتا ہے۔ پہلی رکعت میں تین بار اللہ اکبر کہنے کے بعد ’’اعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھ کر امام حسبِ قاعدہ قراٗت کرے گا اور مقتدی خاموشی سے سنیں گے۔ دوسری رکعت میں قراٗت کے بعد رکوع سے پہلے اسی طرح تین بار اللہ اکبر کہے اور چوتھی تکبیر کہتا ہوا رکوع میں جائے، باقی عام نمازوں کی طرح نماز مکمل کر لے۔

نمازِ عید کے بعد دعاؤں میں تمام امتِ مسلمہ کو یاد کریں، اللہ پاک ہمارے حال پہ رحم فرمائیں۔ آمین۔


صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر

مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر شکوہ کو ترک کر دینا صبر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا مشکل کام ہے کیونکہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔ صبر کی اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ جب بندہ مصابرہ کے درجے پر پہنچتا ہے تو پھر صبر کرنے میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔ اس کی مثال حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صبر ہے۔ صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولوالعزم کی خصلت ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے تقویٰ کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے شہواتِ نفس پر قابو پا لیا۔

صبر کی اہمیت و افادیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے ہاں اس کا بے حساب اجر رکھا ہے۔ آج کا انسان دین سے دوری کی وجہ سے رب تعالیٰ کی حضوری، ایمان بالغیب یعنی مرنے کے بعد کی دنیا، قیامت، یومِ حساب اور جنت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خودبخود ہی حل ہو جائیں گے۔ کیونکہ انسان معاشرے یا خاندان میں جس بھی حیثیت یا عہدے پر ہے، ضروری نہیں کہ وہاں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہو جیسا وہ چاہتا ہے۔ جب کوئی کام انسان کی مرضی و منشا کے خلاف سرزد ہو تو یقیناً‌ انسان غصے میں آتا ہے اور بعض اوقات غصے سے مغلوب ہو کر اس سے کچھ ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو اس کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں۔

گویا گھر کے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے کے ایک اہم رکن تک اور کسی بھی ادارے کے ایک عام آفس بوائے سے لے کر اس ادارے کے سربراہ تک ہر شخص کو خلافِ طبع و خلافِ معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کامیاب اس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں سے دوسرے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ مشکلات کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے اور ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے لبریز ہو۔ دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والے سبھی شرکا تجربہ کار اور دوڑ کے اہل ہوتے ہیں، ہر ایک کو دوڑتے ہوئے کم یا زیادہ مگر تکلیف ضرور ہوتی ہے مگر جیتتا صرف وہی ہے جو آخر تک صبر سے کام لیتا ہے۔

امرء القیس کا صبر

دورِ جاہلیت کے مشہور شاعر اور قبیلے کے سردار امرء القیس سے کسی دوسرے قبیلے کے سردار نے پوچھا کہ آپ کا قبیلہ آپ کی بڑی عزت و قدر کرتا ہے جب کہ وہ سب کچھ میں بھی کرتا ہوں جو تم کرتے ہو تو پھر تم میں ایسی کون سی بات ہے جو مجھ میں نہیں؟ امرء القیس نے جواب دیا کہ میں مشکلات برداشت کرتا ہوں اور انہیں کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا جب کہ تم ایسا نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امرء القیس کا نام آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

صبر صرف مشکلات پر نہیں ہوتا بلکہ امورِ اطاعت و فرمانبرداری میں بھی صبر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب پر صبر کرنے سے اس کی اطاعت پر صبر کرنا زیادہ آسان ہے۔ لہٰذا آج صبر کی اس اہمیت اور اس کی صداقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس معاشرے کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا و آخرت بھی سنوار سکیں۔

صبر: قرآن پاک کی روشنی میں

صبر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت نے صبر سے مدد لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً‌ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔ (سورۃ البقرہ ، 2 / 153)

آزمائش پر صبر اللہ تعالیٰ کی بشارت کا ذریعہ ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر ان مشکلات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے برداشت کر لیا جائے تو ایسے صبر والوں کو اجر کی خوشخبری اللہ خود دیتا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے: اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم بھی اللہ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ (سورۃ البقر، 2 / 155-156)

سورہ رعد کی آیت نمبر 122 میں رب کی رضا جوئی کے لیے صبر کرنے والوں کو آخرت میں حسین گھر کی خوشخبری دی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بے شک وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہوں گے۔

صبر تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا خاصہ رہا ہے۔ سورہ الانبیا کی آیت نمبر 85 میں ارشاد فرمایا: اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی یاد فرمائیں، یہ سب صابر لوگ تھے۔

اللہ تعالیٰ نے سچے پرہیزگاروں اور شدائد و آفات میں صبر کرنے والوں پر صبر کی شرط لگائی اور صبر کے ذریعہ ہی ان کی صداقت و تقویٰ کو ثابت کیا۔

صبر: احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے متعدد ارشادات میں صبر کی اہمیت و فضیلت کو واضح فرمایا ہے۔

صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام کی، پھر درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کے مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام و مرتبہ (یعنی ایمانی حالت) کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین اور ایمان میں مضبوط ہو تو آزمائش سخت ہوتی ہے، اگر دین اور ایمان میں کمزور ہو تو آزمائش اس کی دینی اور ایمانی حالت کے مطابق ہلکی ہوتی ہے۔ بندے پر یہ آزمائشیں ہمیشہ آتی رہتی ہیں حتیٰ کہ (مصائب پر صبر کی وجہ سے اسے یوں پاک کر دیا جاتا ہے) وہ زمین پر اِس طرح چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہتا۔

دل کا پھل

اولاد بڑی نعمت ہے، اولاد کے ساتھ انسانی زندگی کی رونق بحال ہو جاتی ہے اور گویا جینے کا مقصد مل جاتا ہے مگر جب کسی وجہ سے اولاد چھن جائے تو انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ اس مشکل وقت میں صبر کرنے والے کے بارے میں مسند احمد اور سنن ترمذی کی یہ روایت پیش ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے نہایت پیارے بیٹے کی روح قبض کر لی؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے اس پر کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اور کہا بے شک ہم بھی اللہ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے لیے جنت میں ایک مکان بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف والا گھر) رکھ دو۔

کاش! کہ جلدیں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں

دنیا میں مشکلات پر صبر کرنے والوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جو بے حساب اجر و ثواب ملے گا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز جب مصیبت زدہ لوگوں کو (ان کے صبر کے بدلے بے حساب) اجر و ثواب دیا جائے گا تو اس وقت (دنیا میں) آرام و سکون (کی زندگی گزارنے) والے تمنا کریں گے: کاش! دنیا میں ان کی جلدیں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں (تو آج وہ بھی اِن عنایات کے حقدار ٹھہرتے)۔ (جامع ترمذی)

صبر کی اہمیت کے پیشِ نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کو نصف ایمان قرار دیا۔ (سنن بیہقی)

صبر کرنا دہکتے کوئلے کو مٹھی میں پکڑنے کے مترادف

صبر کہنے کو تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج کے دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا دہکتے کوئلے کو مٹھی میں پکڑنے کے مترادف ہے اور ایسے زمانے میں صبر کرنے والے کو اس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔ دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ پچاس اس کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ آپ کے زمانے کے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔

صبر کرنے والوں کی حضور ؐسے حوضِ کوثر پر ملاقات

غزوہ حنین کا مالِ غنیمت تقسیم کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا: عنقریب تم دیکھو گے کہ بہت سے معاملات میں لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی، تم اس پر صبر کرنا حتیٰ کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے جا ملو کیونکہ میں حوض پر ہوں گا۔ انصار نے کہا ہم عنقریب صبر کریں گے۔

آخر آپ ہیں کون؟

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت والے دن جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا تو پکارنے والا پکارے گا، صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ فرمایا: کچھ لوگ اٹھیں گے جو تعداد میں کم ہوں گے اور وہ جلدی جلدی جنت کی طرف جائیں گے۔ راستے میں انہیں فرشتے ملیں گے جو ان سے پوچھیں گے، ہم آپ لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ جنت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، آخر آپ ہیں کون؟ وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم اہلِ صبر ہیں۔ فرشتے پوچھیں گے کہ آپ نے کس بات پر صبر کیا؟ وہ جواب دیں گے ہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اور گناہوں سے بچنے پر صبر کیا۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جائیں، بے شک صبر کرنے والوں کا یہی اجر ہے۔ (علامہ ابن القیم، عدۃ الصابرین)

آپ کی جزا اور بدلہ جنت

حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت یاسر، عمار بن یاسر اور ام عمار کے پاس سے گزرے، جب انہیں اذیت دی جا رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو یاسر و اہلِ یاسر! صبر کرو، بے شک آپ کی جزا اور بدلہ جنت ہے۔ (مسند احمد)

رب کعبہ کی قسم! تم مومن ہو

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے پاس تشریف لائے تو پوچھا: کیا تم مومن ہو؟ وہ خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ انہوں نے عرض کیا: ہم آسانی میں شکر کرتے ہیں اور ابتلا میں صبر کرتے ہیں اور قضا پر راضی رہتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کعبہ کے رب کی قسم! تم مومن ہو۔

صحابہؓ و ائمہؒ کے اقوال کی روشنی میں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے اپنی زندگی کے بہترین اوقات حالتِ صبر میں پائے ہیں۔ (امام احمد، کتاب الزہد۔ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء)

امام قشیریؒ رسالہ قشیریہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ایمان میں صبر کا وہی مقام ہے جو بدن میں سر کا ہوتا ہے، بغیر سر کے جسم ہلاک ہو جاتا ہے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے بآوازِ بلند فرمایا کہ جس کا صبر نہیں اس کا ایمان نہیں۔ صبر ایسی سواری ہے جو کبھی نہیں بھٹکتی۔ (امام غزالی، احیاء علوم الدین)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: صبر کے چار ستون ہیں: شوق، شفقت، زہد، انتظار۔

چنانچہ جو آگ سے ڈرا وہ محرمات سے دور ہوگیا اور جو آدمی جنت کا مشتاق ہوا وہ شہوات سے سلامت رہا۔ جو آدمی دنیا میں زاہد ہوا اس پر مصائب آسان ہوگئیں اور جس نے موت کا انتظار کیا اس نے بھلائیوں کی طرف جلدی کی۔ چنانچہ انہوں نے ان مقامات کو صبر کے ارکان فرمایا، اس لیے کہ یہ صبر سے نکلتے ہیں اور ان تمام ارکان میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور زہد کو ان میں سے ایک رکن قرار دیا۔

امام سلمی طبقات الصوفیہ میں حضرت حارث المحاسبی کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہر شے کا جوہر ہوتا ہے، انسان کا جوہر عقل ہے اور عقل کا جوہر صبر ہے۔

امام قشیری رسالہ قشیریہ میں اور علامہ ابن القیم مدارج السالکین میں امام علی الخواص کا صبر کے متعلق قول نقل کرتے ہیں، فرمایا: کتاب و سنت کے احکام پر ثابت قدم رہنا صبر ہے۔

حضرت ابو علی الدقاق نے فرمایا: صابرین دونوں جہانوں میں عزت کے ساتھ کامیاب ہوئے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل کر لی۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (ابن القیم، مدارج السالکین)

حضرت ابو حامد بلخی نے فرمایا: جس نے صبر پر صبر کیا (یعنی صبر کر کے اسے ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ وہ مصائب پر صبر کر رہا ہے) وہی صابر ہے نہ کہ وہ شخص جس نے صبر کیا اور (صبر کا اظہار کر کے) شکوہ بھی کر دیا۔ (امام شعرانی، الطبقات الکبری)

فقیہ، صوفی اور عابد ابراہیم التیمی فرماتے ہیں: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اذیت، آفت اور مصیبت پر صبر عطا کیا گویا ایمان کے بعد اسے سب سے بڑی نعمت عطا کی۔

صبر کی شرائط میں سے ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کیسے صبر کریں گے، کس کے لیے صبر کریں گے اور صبر سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ صبر کے لیے ہمیں نیت کو درست کرنا اور اس میں اخلاص لانا ہوگا ورنہ ہمارے اور جانور کے صبر میں کوئی فرق نہیں ہو گا کیوں کہ اس پر جب مصیبت آ جاتی ہے تو وہ بھی برداشت کرتا ہے مگر اسے اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ اس پر مصیبت کیوں نازل ہوئی اور اس سے کیسے نمٹنا ہے اور اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter