ارتقا کے بارے میں عیسائی ردِعمل
تعارف
ارتقا کے نظریے کی تشکیل غالب طور پر عیسائی سیاق و سباق میں ہوئی ہے۔ چنانچہ جب چارلس ڈارون نے پہلی بار 1859 میں اپنی کتاب On the Origin of Species شائع کی، تو اس نظریے پر فوری ردعمل اور طویل مدتی علمی مکالمہ زیادہ تر عیسائی نقطہ نظر سے ہوا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک عیسائی مفکرین نے اس نظریے پر مختلف انداز میں ردعمل دیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک پیچیدہ مگر تاریخی تسلسل نے جنم لیا ، اور یہ تسلسل موجودہ دور میں مذہبی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے ایک غیر معمولی حد تک متنوع منظرنامے کا باعث بنا ہے (Livingstone 1984; Artigas et al. 2006; Numbers 2006; Bowler 2007; Livingstone 2008; Bowler 2009; McGrath 2011; Matthew 2013; Livingstone 2014; Rios 2014; Kaden 2019; Houck 2020; Huskinson 2020; Kemp 2020; Laats 2020; Matheison 2020)۔
بعض افراد نے ارتقا کو مکمل طور پر قبول کیا اور اسے الٰہیاتی لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں سمجھا، جبکہ بعض نے (اور اب بھی سمجھتے ہیں) اس میں کئی نظریاتی و دینی پیچیدگیاں محسوس کیں۔اس باب میں ان چار نمایاں اور معروف اقسام کے ردعمل کا اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے، جن کی ارتقا سے مختلف سطحوں پر اور مختلف انداز میں موافقت یا مخالفت پائی جاتی ہے۔ ان میں شامل ہیں: ینگ ارتھ کریئیشن ازم (Young-Earth Creationism - YEC)، اولڈ ارتھ کریئیشن ازم (Old-Earth Creationism - OEC)، انٹیلیجینٹ ڈیزائن (Intelligent Design - ID)، اور تھی اسٹک ایوولوشن (Theistic Evolution - TE)۔ واضح رہے کہ یہ ایک جامع تجزیہ نہیں بلکہ ایک خلاصہ ہے۔ ان مخصوص گروہوں (اور ان کے نمائندہ مفکرین) کا انتخاب ان کے واضح امتیازات کی بنیاد پر کیا گیا ہے تاکہ اس باب میں ان کے باہمی مذہبی اختلافات کو آسانی سے واضح کیا جا سکے، اور ساتھ ہی باب سوم و چہارم میں مسلم نقطۂ نظر سے موازنہ کرتے وقت بین الادیان مماثلتوں اور اختلافات کو اجاگر کیا جا سکے۔ ہر مؤقف کا جائزہ اس کی بنیادی فکری جہتوں کو بیان کرنے کی حد تک محدود رکھا گیا ہے۔ کسی مؤقف کی طاقت یا کمزوریوں پر بحث نہیں کی جائے گی۔ کبھی کبھار گروہوں کے درمیان تقابلی تجزیہ بھی پیش کیا جائے گا، مگر اس کا مقصد صرف مختلف مواقف کے درمیان امتیازات کو مزید واضح کرنا ہو گا۔ اس باب میں پیش کیے گئے خیالات کا زیادہ تر انحصار(مکمل طور پر نہیں) Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design نامی کتاب پر ہے۔ یہ کتاب ہر مکتبۂ فکر کے نمایاں علما کو ان کے مؤقف، ایک دوسرے پر تنقیدات، اور ان کے جوابات کے ساتھ پیش کرتی ہے، جس کے نتیجے میں ارتقا کے حوالے سے عیسائی زاویہ نظر کا ایک عمدہ اور جامع مطالعہ سامنے آتا ہے۔ اس باب کا بنیادی مقصد یہ سمجھنا ہے کہ بعض عیسائیوں کو ارتقا سے متعلق کن الٰہیاتی اور فلسفیانہ تحفظات کا سامنا ہوتا ہے، اور آیا کہ ان تحفظات کی کوئی مماثلت اسلامی فکر میں بھی پائی جاتی ہے یا نہیں، جیسا کہ ہم باب سوم اور چہارم میں دیکھیں گے۔
نظریہ تخلیق کائنات بر مبنائے کم عمر زمین Young-earth creationism (YEC)
ارتقائی نظریے کے سلسلے میں موجود نقطہ ہائے نظر میں سب سے زیادہ سخت مؤقف Young-Earth Creationism (YEC) کا ہے۔اس نظریے کے حامی افراد اصرار کرتے ہیں کہ بائبل کی کتاب پیدائش (Genesis) کے ابتدائی ابواب (1–11) کو لفظ بہ لفظ خدا کا کلام تسلیم کیا جائے، اور چونکہ نظریہ ارتقا اس موقف سے متصادم ہے، لہٰذا ،اُسے نہ صرف مذہبی طور پر، بلکہ سائنسی بنیادوں پر بھی رد کر دینا چاہیے (Nieminen et al. 2014)۔ اس فکر کی ابتدائی بنیادیں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں مسیحی فکریت پسندی (Christian fundamentalism) کے ابھرنے کے ساتھ پڑیں، لیکن اسے سنجیدہ پذیرائی اس وقت ملی جب 1961 میں جان وِٹ کمب (John Whitcomb) اور ہنری مورس (Henry Morris) نے The Genesis Flood شائع کی (Numbers 2006; Trollinger and Trollinger 2018; Huskinson 2020)۔ فی زمانہ YEC کا ایک نمایاں نمائندہ کین ہام (Ken Ham) ہے، جو ایک آسٹریلوی مبلغ ہے، جس نے امریکہ میں آ کر YEC کے فروغ کے لیے ایک بڑا ادارہ Answers in Genesis (AiG) قائم کیا۔ ذیل میں کین ہام کی پیش کردہ YEC کی تعبیر پیش کی جاتی ہے۔
شروع میں کین ہام ارتقا پر تنقید بائبل کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چار نکات خاص طور پر اہم ہیں:
- خدا نے کائنات کو چھ حقیقی (24 گھنٹوں پر مشتمل) دنوں میں تخلیق کیا، اور یہ عمل تقریباً 6,000 سے 10,000 سال قبل ہوا۔
- طوفان نوح ایک سال پر محیط عالمی آفت تھا۔
- خدا نے تمام جانداروں کی "اقسام" کو بلا کسی مشترک آبا و اجداد کے پیدا کیا۔
- ارتقا، حضرت آدم کے گناہ اورحضرت یسوع کے ذریعے نجات کے عقیدے کو مسئلہ بناتا ہے۔
پہلا نکتہ اس نظریے پر مبنی ہے کہ پیدائش (Genesis) کی کتاب ایک تاریخی بیان ہے کہ زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔ جیسا کہ کین ہام (2017a, 19) کہتا ہے "پیدائش 1–11 تاریخ ہے – نہ کہ شاعری، تمثیل، نبوی خواب، یا اساطیری بیان"۔ لیکن اس کی یہ تعبیر ارتقائی بیانیے سے واضح تضاد رکھتی ہے۔ جیسا کہ پہلے باب میں بیان ہوا، سائنسی علم ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات تقریباً 14.6 ارب سال پرانی ہے۔ زمین 4.6 ارب سال قبل بنی اور ابتدائی حیات 3.5 ارب سال پہلے وجود میں آئی (یہ تازہ ترین سائنسی معلومات کے مطابق ہے)۔ خود جدید انسان تقریباً 200,000 سال پہلے اس منظرنامے پر نمودار ہوئے۔ یہ YEC اور جدید سائنس کے مابین ایک بہت بڑا زمانی فرق ہے۔ ایک اور دلیل جو YEC کے مطابق کم عمر زمین کی حمایت کرتی ہے، وہ بائبل میں دی گئی نسل در نسل تفصیلات ہیں۔ پیدائش کی کتاب 5 اور 11 میں حضرت آدم سےحضرت ابراہیم تک کی نسلوں کا ذکرموجود ہے۔ نسب نامہ بذاتِ خود ایک حقیقی کرونالوجی (Chronology)کے طور پر لیا جاتا ہے جو کم عمر زمین کو ظاہر کرنے کے مزید ثبوت کے طور پر استعمال ہوتا ہے(Ham 2017a, 23–24)۔
طوفان نوح سائنس کے ساتھ متصادم ہے کیونکہ یہ ایک بڑے پیمانے پر جغرافیائی واقعے کا دعویٰ کرتا ہے جس کے واضح تجرباتی طور پر قابل تصدیق نتائج ہونے چاہیے تھے، جو کہ ہم نے اب تک مشاہدہ کیے ہیں۔ YEC کے مطابق، بائبل یہ اطلاع دیتی ہے کہ حضرت نوح کو آنے والے طوفان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ لہذا، انہیں ایک کشتی بنانے کی ہدایت کی گئی جو ہر قسم کے دو جانداروں کو سمو سکے۔ کشتی بننے کے بعد، ایک تباہ کن واقعہ پیش آیا جس میں کشتی نوح پر موجود جانداروں کے علاوہ تمام جاندار ہلاک ہو گئے۔ اس تباہ کن طوفان کو مدنظر رکھتے ہوئے کین ہام اس موقف کی حمایت سائنسی ڈیٹا کے ساتھ کرتے ہیں:
اب ہم اس طوفان سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟ جیسا کہ میں اکثر کہتا ہوں، اربوں مردہ جاندار جو پتھروں کی تہوں میں دفون ہیں اور پانی نے انہیں وہاں جمع کیا ہے، یہ سب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تمام براعظموں میں ایسی چٹان کی تہیں ہیں جن میں اربوں فاسلز مدفون ہیں، اور ہم اپنے بلند ترین پہاڑوں، جیسے ماؤنٹ ایورسٹ، پر بھی سمندری جانداروں کے فاسلز پاتے ہیں(2017a, 29)۔
یعنی، بائبل میں بیان کردہ طوفان کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ توقع کی جاتی ہے کہ زمین کے بلند ترین نقطہ ماؤنٹ ایورسٹ، پر بھی کئی فاسلز ملیں گے کیونکہ کبھی یہ پانی سے ڈوبا ہوا تھا۔ اس لیے فاسلز کا ریکارڈ، جو عموماً ارتقا کے ثبوت کے طور پر لیا جاتا ہے، YEC کے حمایتیوں کے لیے اپنے تخلیقی بیانیہ کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے (Scott 2009, 69; Nieminen et al. 2014)۔
تیسری تجویز جو YEC کے حمایتی پیش کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ نے تمام انواع، یعنی تمام جانوروں کی اصل شکلیں، بغیر کسی مشترکہ آباو اجداد(Common Ancestry) کے تخلیق کیں (Ham 2017a, 41)۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ نے یہ انواع ایسی صلاحیتوں کے ساتھ تخلیق کیں کہ ان میں حیاتیاتی تنوع کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ مثلاً، بلیوں کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں، لیکن یہ ارتقا کی طرح مشترکہ آبا واجداد کا ثبوت نہیں دیتی۔ YEC کے مطابق، ارتقائی نظریہ پیش کرنے والے مشترکہ آبا واجداد کو مفروضہ سمجھتے ہیں نہ کہ اسے ثابت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بائبل اور ارتقائی نظریہ میں ایک بنیادی تضاد پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ AiG کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے: "مثال کے طور پر، کتے بے پناہ تنوع دکھاتے ہیں۔ تاہم، مختلف نسلوں کے کتے آپس میں نسل بڑھا سکتے ہیں ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمام کتے ایک ہی نوع کے ہیں۔ تاہم، کتے بلیوں کے ساتھ نسلی تعلق نہیں بناتے کیونکہ وہ مختلف نوع کے ہیں" (Purdom 2010)۔ اس کے مطابق، YEC چھوٹے پیمانے پر ارتقا (مائیکرو ارتقا) مگر مگر بڑے پیمانے پر ارتقا (میکرو ارتقا) کو مسترد کرتا ہے۔
آخری مؤقف ہمیں عیسائی الٰہیات (Christian Theology) کے بنیادی عقائد پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ عیسائی فکر میں حضرت آدم کا گناہ اور ان کا زوال ایک نہایت اہم تصور ہے۔ یہ عقیدہ عام ہے کہ آدم کو "خدا کی صورت پر" (Imago Dei) پیدا کیا گیا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اخلاقی طور پر پاکیزہ، باوقار اور کمزوریوں اور جسمانی نقصانات مثلاً موت سے محفوظ تھے (McGrath 2016, 328–329)۔ اس بنا پر حضرت آدم خدا کے ساتھ کامل ہم آہنگی میں تھے اور خدا کے فضل سے بہرہ مند تھے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ دنیا آدم اور حوا کے درخت سے کھانے سے قبل ایک اچھی اور پاکیزہ جگہ تھی۔ یہ نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کہ چونکہ خدا نے دنیا کو خوبی کے ساتھ پیدا کیا، اس لیے برائی کا سرچشمہ اُسے قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جیسا کہ Harris (2013, 132) نے لکھا ہے:
اگر صرف ایک ہی خدا ہے اور وہ خدا بھلا ہے، تو پھر اس کی تخلیق بھی لازماً بھلی ہونی چاہیے، کیونکہ ایسا خدا برائی کا منبع نہیں ہو سکتا۔ اور تخلیق کی یہی بنیادی 'اچھائی' عقیدہ تخلیق (Doctrine of Creation) کے بنیادی اصولوں میں شامل رہی ہے۔
تاہم، گناہ کے بعد دو اہم تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اوّل، حضرت آدم اور حضرت حوا خدا کے فضل و کرم سے محروم ہو گئے۔ دوم، دنیا پر لعنت نازل ہوئی اور وہ دکھ، مشقت اور موت سے بھر گئی، جیسا کہ بائبل کی مختلف آیات سے ظاہر ہوتا ہے، مثلاً کھیتی باڑی محنت طلب بن گئی اور عورتوں کے لیے زچگی کا عمل مزید تکلیف دہ ہو گیا (Ham 2017a, 25)۔ حضرت آدم کی لغزش کے نتیجے میں پوری دنیا گمراہی اور مصائب کا شکار ہو ئی، اور انسانوں میں گناہ کی فطرت منتقل ہو گئی، جو آدم و حوا سے وراثت میں ملی۔ اسے "اصل گناہ" (Original Sin) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا کو نجات اور انسانی گناہوں کو مٹانے کی ضرورت پیش آئی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ مسیح ایک کلیدی شخصیت کے طور پر ابھرتے ہیں، کیونکہ عیسائی عقیدہ کے مطابق وہی دنیا سے برائی اور گناہ کو ختم کرنے کے لیے آئے، اور وہی یہ کام انجام دے سکتے تھے کیونکہ ان کی ذات میں خدائی اور انسانی دونوں پہلو موجود تھے (McGrath 2016, 246–269)۔ تاہم، اگرچہ حضرت عیسیٰ صلیب پر قربان ہوئے اور انسانوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھایا، مگر وہ اپنی مہم کو مکمل طور پر پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے، کیونکہ دنیا سے تمام برائی ختم نہ ہو سکی۔ یہی ادھورا پن "حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد" (Second Coming) کے تصور کو جنم دیتا ہے (McGrath 2016, 424–447)۔
مسیحی تصورِ آدم اور حضرت عیسیٰ کی زندگی میں ان کے کردار کا یہ مختصر جائزہ لینے کے بعد، اگر ارتقائی نظریہ کو درست مان لیا جائے تو مسیحی عقیدے کو دو نہایت بنیادی نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ارتقا درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انسانوں کی پیدائش سے پہلے ہی دنیا میں شر اور تکلیف موجود تھی۔ دوسرے الفاظ میں، "گناہِ آدم" سے قبل ہی تخلیق میں بگاڑ، تکلیف اور موت کا وجود تھا ۔ سائنسدانوں کے مطابق اب تک موجود تمام انواع میں سے 99 فیصد فنا ہو چکی ہیں۔ یہ حقیقت اس تصور کو چیلنج کرتی ہے کہ گناہ، تکلیف اور موت حضرت آدم اور حضرت حوا کے گناہ کے بعد دنیا میں آئے (Harris 2013, 131–132; Ham 2017a, 24–25)۔ دوسرا مسئلہ، جو دراصل پہلے مسئلے کا تسلسل ہے، یہ ہے کہ اگر حضرت آدم کے گناہ کا واقعہ ایک تاریخی حقیقت نہیں ہے، تو پھر حضرت عیسیٰ کے کردار اور دنیا کے لیے ان کی "نجات دہندگی" کا پورا بیانیہ مشکوک ہو جاتا ہے (Harris 2013, 132–133; Ham 2017a, 26)۔
مسیحی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ دنیا میں اس لیے آئے کہ وہ انسانوں کے گناہ کا کفارہ ادا کریں۔ لیکن اگر آدم کا گناہ ہی نہ ہوا ہو، یعنی اگر وہ محض ایک علامتی یا تمثیلی کہانی ہو، تو پھر نجات دہندہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اسی بنا پر ہی حام (Ham 2017a, 27) یہ تبصرہ کرتے ہیں:
تو اگر ہم یہ مان لیں کہ زمین پر لاکھوں سالوں سے جانور مرتے آ رہے ہیں، بیماریاں پھیلتی رہی ہیں، نسلیں ختم ہوتی رہی ہیں، زلزلے، طوفان، بگولے اور سونامی جیسے بڑے قدرتی سانحات ہوتے رہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم جان بوجھ کر یا لاشعوری طور پر بائبل کی اُس واضح تعلیم کو نظر انداز کر رہے ہیں جو یہ بتاتی ہے کہ:
1. دنیا کی ابتدا گناہ سے پہلے ایک "بہت اچھی" حالت میں ہوئی تھی؛
2. آدم و حوا کے گناہ نے پوری کائنات پر اثر ڈالا، صرف انسانوں پر نہیں؛
3. اور حضرت عیسیٰ کا نجات کا مشن صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری کائنات کی فلاح کے لیے تھا۔
چنانچہ کم عمر زمین (YEC) کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ارتقائی نظریہ محض بائبل کی تشریحات پر اثرانداز نہیں ہوتا بلکہ مسیحی عقیدے کے اس پورے فکری ڈھانچے کو بھی چیلنج کرتا ہے جو اس دین کی بنیاد ہے۔ اس پیچیدہ توازن کو، یعنی اصل گناہ، حضرت عیسیٰ کی نجات، اور ارتقا کے مابین ہم آہنگی کرنے کو Houck (2020, 5) نے نہایت خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے:
"اصل گناہ کا انکار نجات کی عالمگیر ضرورت کو دھندلا دیتا ہے۔ اصل گناہ اور زوال کا اثبات ارتقا کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ اور اگر زوال کے بغیر اصل گناہ کو مان لیا جائے تو تخلیق کی فطری خوبی مجروح ہو جاتی ہے۔"
YEC والے اپنے نظریے کو صرف بائبل تک محدود نہیں رکھتے بلکہ ارتقا کے خلاف غیر مذہبی دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ ان میں فلسفیانہ اعتراضات شامل ہیں، جیسے ارتقا کو دہریت اور فطرت پرستی (naturalism) کے مترادف قرار دینا (Ham 2017a, 33)، یا سائنسی اعتراضات مثلاً حیات کی زمانی ترتیب کے لیے استعمال ہونے والے سائنسی تاریخ نویسی کے طریقہ کار پر سوال اٹھانا (Ham 2017a, 42)۔
مجموعی طور پر، چونکہ ارتقا کے نظریے کے اثرات مسیحی عقیدے کے لیے گہرے اور تشویش ناک سمجھے جاتے ہیں، اس لیے YEC کے حامی بائبل کو لفظ بہ لفظ (literal) ماننے پر اصرار کرتے ہیں اور ارتقا کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں۔ خاص طور پرکین ہام (2017a, 44–45) کے لیے یہ معاملہ محض سائنسی بحث نہیں بلکہ اتھارٹی کا ہے،کیا حرفِ آخر خدا کا کلام ہے یا سائنس؟ اُن کے نزدیک سائنس بتدریج بائبل کے روایتی موقف کو کھوکھلا کر رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مسیحی رفتہ رفتہ ایمان سے دور ہوتے جا رہے ہیں (Huskinson 2020; Laats 2020)۔
اولڈ ارتھ کریئیشن ازم (Old-earth Creationism - OEC)
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اولڈ ارتھ کریئیشن ازم کے پیروکاروں کو زمین کے قدیم (اربوں سال پرانے) ہونے پر کوئی اعتراض نہیں، جو انہیں YEC (یعنی کم عمر زمین کے نظریہ) سے بالکل ممتاز بناتا ہے۔ تاہم، یہ ایک وسیع فکری مکتبہ فکر ہے، جس کے اندر مختلف تفصیلات اور فرق موجود ہیں۔ اس کے تحت تین نمایاں ذیلی نظریات کی شناخت کی جا سکتی ہے:
- گیپ کریئیشن ازم (Gap Creationism)، جسے بعض اوقات تباہی اور بحالی کی تخلیق (Ruin-Restoration Creationism) بھی کہا جاتا ہے؛
- ڈے-ایج کریئیشن ازم (Day-Age Creationism)؛ اور
- پروگریسو کریئیشن ازم (Progressive Creationism) (Numbers 2006)۔
یہ تینوں نظریات زمین کی قدامت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کے درمیان فرق اس بات میں ہے کہ یہ بائبل میں تخلیق کے طویل دورانیے کی کس طرح تعبیر کرتے ہیں (Trollinger and Trollinger 2018, 217–219)۔ آئیے ان میں سے ہر ایک کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
گیپ کریئیشن ازم، OEC میں وہ نظریہ ہے جو YEC کے سب سے قریب ہے۔ یہ نظریہ بھی تخلیق کے چھ دنوں کو لفظی معنوں میں 24 گھنٹے کے دن مانتا ہے، لیکن بائبل کے باب پیدائش (Genesis) کی پہلی دو آیات میں ایک مخصوص فرق کی بنیاد پر زمین کی قدامت کو ماننے کی گنجائش دیتا ہے۔ پیدائش کی پہلی دو آیات ترجمے کے مطابق یوں ہیں: "ابتدا میں خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا۔ زمین ویران اور سنسان تھی، اندھیرا گہرے پانیوں کے اوپر چھایا ہوا تھا، اور خدا کی روح پانیوں پر منڈلا رہی تھی۔"
YEC کے مطابق یہ دونوں آیات ایک ہی واقعہ کو بیان کرتی ہیں، لیکن گیپ کریئشن ازم کے پیروکار ان دو آیات کے درمیان ایک زمانی خلا کو ممکن سمجھتے ہیں، اسی لیے اسے گیپ کریئشن ازم کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ دو مختلف تخلیقی واقعات ہیں، اور ان کے درمیان کتنا وقت گزرا، اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ یہی گنجائش زمین کے قدیم ہونے کو ماننے کی بنیاد فراہم کرتی ہے (Scott 2009, 68)۔
ڈے-ایج کریئیشن ازم (Day-Age Creationism)
ڈے-ایج کریئیشن ازم کا نقطہ نظر گیپ کریئیشن ازم سے مختلف ہے۔ یہ نظریہ آیات کے درمیان وقت کا فاصلہ فرض کرنے کے بجائے بائبل میں استعمال ہونے والے "دن" (عبرانی لفظ یوم، yom) کی لغوی وسعت پر زور دیتا ہے۔ اس کے مطابق "دن" کو صرف 24 گھنٹوں پر محمول کرنا ضروری نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہزاروں یا لاکھوں سالوں کا کوئی بھی دورانیہ ہو سکتا ہے۔ یعنی ڈے-ایج کریئیشن ازم کے پیروکار 24 گھنٹے کے دن کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے، لیکن وہ یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ یہ واحد مفہوم نہیں ہے۔ لہٰذا، ان کے نزدیک کائنات یا زمین کی قدامت (بہت پرانی ہونا) کوئی مسئلہ نہیں ہے (Scott 2009, 68)۔
پروگریسو کریئیشن ازم (Progressive Creationism)
پروگریسو کریئیشن ازم اپنے موقف میں ڈے-ایج کریئیشن ازم کے بہت قریب ہے۔ یہ نظریہ چھ دنوں کے دوران وقت کے طویل دورانیوں کے لیے لغوی لچک پر زور دینے کے بجائے اس مسئلے کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ چھ دن صرف ایک تصویری بیان ہیں۔ یعنی تخلیق چھ حقیقی دنوں میں نہیں ہوئی، بلکہ یہ اس طرح دکھائی گئی ہے۔ اس کے مطابق، یہ نظریہ مانتا ہے کہ زندگی کا آغاز مختلف اوقات میں تدریجاً ہوا اور کئی مراحل میں مختلف قسم کے جانوروں اور پودوں کو متعارف کرایا گیا۔ ہر مرحلے میں نئے انواع متعارف کروائی گئیں۔ یہ نظریہ فوسل ریکارڈ کے ساتھ بخوبی ہم آہنگ ہے، جہاں زندگی کی ابتدا سادگی سے ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ پیچیدہ ہوئی (Scott 2009, 69)۔
OEC کے ہر ذیلی موقف کا جائزہ لینے کے بعد، یہ ضروری ہے کہ دوبارہ یہ ذکر کیا جائے کہ ان سب کا مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ بائبل کی روشنی میں زمین کی قدامت کو ممکن سمجھا جاتا ہے، جوYEC کے برخلاف ہے۔ یہ جتنا سائنسی نقطہ نظر کے مطابق ہے، اتنا ہی یہ جدید سائنس سے ہم آہنگ بھی ہے۔ تاہم YEC کی طرح، یہ نظریہ بھی مشترکہ نسب اور میکرو ایولوشن کو مسترد کرتا ہے۔
آج کل کے دور میں OEC کے ایک اہم حامی ہیو راس (Hugh Ross) ہیں۔ وہ ڈے-ایج کریئیشن ازم کا دفاع کرتے ہیں اور Reasons to Believe (RtB) کے بانی ہیں۔ ذیل میں ہیو راس کی جانب سے پیش کردہ OEC کا بیانیہ دیا جارہا ہے۔
OEC کو بہتر سمجھنے کے لے یہ یاد رکھیں کہ YEC درج ذیل خیالات پر یقین رکھتا ہے:
1. اللہ نے کائنات کو چھ حقیقی 24 گھنٹوں کے دنوں میں تقریباً 6,000–10,000 سال پہلے پیدا کیا؛
2. طوفان نوح ایک سال تک جاری رہنے والا عالمی واقعہ تھا؛
3. اللہ نے تمام قدرتی انواع کو بغیر کسی مشترکہ نسب کے پیدا کیا؛
4. ارتقا آدم کے گناہ اور عیسیٰ کے ذریعے نجات کے تصور کو مسئلہ بناتا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا، OEC اس بات پر YEC سے متفق ہوگا کہ خدا نے قدرتی اقسام کو براہ راست تخلیق کیا اور اس لیے تیسری تجویز سے اتفاق کرے گا۔ تاہم، دن کی عمر کی تخلیق کے نظریہ کو چھ دنوں کے معاملے پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ لفظ "یوم" کے معنی کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس سے مراد کئی دوسرے معانی بھی ہوسکتے ہیں (Ross 2017a, 73)۔ بائبل کی نسلوں کے حوالے سے مسئلہ بھی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ کئی نسلیں ایک ہی نام کے تحت چھپ سکتی ہیں، جیسے کہ دوربین جب اسے سادہ اکائی میں سمیٹ دیا جاتا ہے۔ RtB کی ویب سائٹ پر ایک آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
بائبل کی نسلوں کو سمجھنے کے لیے بائبل میں نسلوں کی نوعیت، انداز، اور مقصد کا منظم طریقے سے سمجھنا ضروری ہے۔ بائبل کی نسلوں کا سرسری مطالعہ کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل کی نسلیں اپنے جدید ہم منصبوں سے بہت مختلف ہیں۔ گہرائی سے دیکھنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ بائبل کی نسلیں اکثر اس طریقے سے مرتب کی جاتی ہیں کہ کم اہم نام چھوڑ دیے جاتے ہیں، اور یہ عموماً ناممکن ہوتا ہے کہ کسی نسل کی تکمیل کا اندازہ صرف اس پر نظر ڈال کر لگایا جا سکے۔
تو نسلوں کے حوالے سے زمین کی عمر پر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ جہاں تک نوح کے طوفان کا تعلق ہے، راس YEC کے عالمی طوفان کے نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، طوفان کا دنیا بھر پر پھیلنے کا ذکر جغرافیائی طور پر نہیں ہے، بلکہ یہ صرف ان لوگوں سے متعلق ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے اور وہی لوگ طوفان کا شکار ہوئے تھے (Ross 2017a, 85):
انسانیت ابھی تک پوری دنیا میں نہیں پھیلی تھی (پیدائش 10-11)۔ دوم پطرس 2:5 میں لکھا ہے کہ "بدکاروں کی دنیا" طوفان میں بہا دی گئی۔ دوم پطرس 3:6 میں بھی کہا گیا ہے کہ "اس وقت کی دنیا" طوفان سے غرق ہو گئی۔ یہاں زمین کی نہیں، بلکہ لوگوں کی بات ہو رہی ہے۔ طوفان کا پھیلاؤ اس بات پر منحصر تھا کہ لوگ کہاں تک پھیل چکے تھے۔ پیدائش 11 میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ طوفان کے بعد بھی انسان زمین پر پھیلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جب بائبل میں "دنیا" کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مرادپورا کرہ ارض نہیں بلکہ زیادہ تر لوگ ہوتے ہیں۔
لہٰذا، راس کو دوسرے خیال سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ راس YEC کے اس مفروضے سے اختلاف رکھتے ہیں کہ گناہ کے بعد ہی برائی پیدا ہوئی۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ کتاب مقدس صرف آدم کے گناہ کے بعد انسانوں کے لیے موت کی ابتدا کی بات کرتی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام جانداروں کے لیے موت آ گئی تھی، اور اس طرح یہ ممکنہ طور پر جانوروں کی موت کو آدم کے گناہ سے پہلے تسلیم کرنے کی گنجائش چھوڑتا ہے (Ross 2017a, 86–87)۔ اس کے علاوہ، وہ کائنات کی تخلیق اور یسوع کی نجات کو مثبت زاویے سے دیکھتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کائنات کے قوانین ثابت ہیں۔ اس لیے چیزوں کا زوال (وقت کے ساتھ کائنات میں بگاڑ پیدا ہونا) کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے۔ قدرتی قوانین کی اس ثابتیت اور انسانی تکلیف کے جو کہ آدم کے گناہ کے نتیجے میں آئی، کو مدنظر رکھتے ہوئے راس کا کہنا ہے کہ تکلیف اور موت کی مثبت تشریح کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ خدا کے منصوبے کا حصہ ہیں، جو ایک جنت کے قیام کی طرف لے جاتے ہیں (Ross 2003)۔ ذیل میں ان کے کلمات اس تشویش اور آخری امید کی امتزاجی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں (Ross 2017a, 86–87):
جسمانی موت، اگرچہ افسوسناک ہے، مگر اس کے بہت قیمتی فوائد بھی ہیں۔ غیر انسانوں کی موت نے انسانیت کو ایک قیمتی خزانہ عطا کیا ہے جس میں 77 کھرب ٹن سے زیادہ حیاتیاتی ذخائر (جیسے کہ کوئلہ، تیل، قدرتی گیس، چونا پتھر) شامل ہیں، جن سے عالمی تہذیب کی تعمیر کی جا سکتی ہے اور عظیم مشن کولاکھوں کی بجائے ہزاروں برسوں میں مکمل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مسیح کا مصلوبہ اور قیامت یہ ثابت کرتے ہیں کہ صرف موت کے ذریعے ہی ہم حقیقی طور پر اور ہمیشہ کے لیے جیتے ہیں۔ موت اور فساد کی عارضی ضرورت مستقبل کی تخلیق، نئے آسمان اور نئی زمین کے دن اورعمراس نظریہ سے ہم آہنگ ہے، جسے کتاب مقدس ہر لحاظ سے کامل بیان کرتی ہے۔ موجودہ تخلیق اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے کیونکہ یہ خدا کے لیے بہترین ممکنہ جگہ ہے جہاں وہ برائی اور تکلیف پر مؤثر طریقے سے مستقل طور پر قابو پاتے ہوئے آزاد مرضی رکھنے والے انسانوں کو اپنے نجاتی عمل اور منصوبے میں شامل ہونے کا موقع دیتے ہیں۔
اس تشریح کے مطابق، راس کو تخلیق کی پرانی عمر کے باوجودحضرت آدم کے گناہ اورحضرت عیسیٰ مسیح کے ذریعے نجات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ذہین تخلیق (Intelligent Design - ID)
یہ نظریہ حالیہ دور کا ایک نیا رجحان ہے۔ ID کا مقصد بائبل کی کوئی مخصوص تشریح پیش کرنا یا ارتقا کے مقابلے میں کوئی مذہبی مؤقف دینا نہیں، بلکہ یہ خود کو ارتقا کے مقابلے میں ایک سائنسی متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ID کے حامیوں کا ماننا ہے کہ ارتقا سائنسی لحاظ سے ناکافی ہے، کیونکہ تخلیق کی کچھ پیچیدہ صورتیں ایسی ہیں جنہیں صرف قدرتی انتخاب (natural selection) اور اتفاقی تغیر (random mutation) کے ذریعے نہیں سمجھایا جا سکتا۔ ان کے نزدیک ایسی پیچیدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب کسی ذہین ہستی کے منصوبے کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا، وہ تمام مخلوقات یا چیزیں جن میں اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی نظر آتی ہے، ان کے بارے میں ID کے حامی کہتے ہیں کہ وہ کسی ذہین تخلیق کار (intelligent designer) کی تخلیق ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ڈیزائن کے دلائل کوئی نئی چیز نہیں ہیں (Jantzen 2014)۔ یہ خیالات اُس وقت سے موجود ہیں جب ID کی تحریک وجود میں نہیں آئی تھی۔ سب سے مشہور مثال ولیم پَیلی (William Paley) کی ہے، جس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں"گھڑی اور دنیا" کی مثال دی۔ جو چیز ID کو خاص بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ اب حیاتیات اور طبیعیات جیسے سائنسی شعبوں کی ترقی نے ان دلائل کو نئے انداز سے پیش کرنے کا موقع دیا ہے (Kojonen 2016, 33–72; Ratzsch and Koperski 2020)۔ دوسری بات یہ کہ ID کے ماننے والے لوگ بہت مختلف خیالات رکھتے ہیں (Numbers 2006, 373–398; Avise 2010, 25; Kojonen 2016, 18–21)۔ کچھ مسیحی اسکالرز جیسے فلپ جانسن (Phillip Johnson)، ولیم ڈیمبسکی (William Dembski)اور اسٹیفن میئر (Stephen Meyer) اس تحریک کے بانیوں میں شامل ہیں۔ ان میں رومن کیتھولک کے مائیکل بیہی (Michael Behe) اورچرچ آف یونٹی کے جوناتھن ویلز (Jonathon Wells) بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، کچھ مشہور لاادری (یعنی جو کسی خاص عقیدے کو نہیں مانتے) افراد جیسے مائیکل ڈینٹن (Michael Denton) اور ڈیوڈ برلنسکی (David Berlinski) بھی اس تحریک کے حمایتی ہیں۔ حتیٰ کہ پال نیلسن، جو YEC کے حامی ہیں، وہ بھی ID کی حمایت کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تحریک ارتقا کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ مثال کے طور پر،اسٹیفن میئر مشترکہ آبا و اجداد (common ancestry) کے بارے میں مشکوک ہیں، لیکن مائیکل بیہی کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں (Behe 2007, 64–83; Meyer 2017b, 113–119)۔ پھر بھی، یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ارتقائی عمل (یعنی قدرتی چناؤ اور اتفاقی تبدیلیاں) سائنسی طور پر ناکافی ہیں، اور ذہین تخلیق اس کا بہتر متبادل ہے۔
ID کے حامی یہ واضح نہیں کرتے کہ وہ ذہین تخلیق کار (intelligent designer) کون ہے (Kojonen 2016, 19) ۔ مثلاً، بیہی (2003, 277) کہتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ، کوئی پراسرار قوت، خلائی مخلوق، وقت کا مسافر، یا کوئی اور ذہین ہستی ہو سکتی ہے۔ یعنی تخلیق کار کو جیسا بھی چاہیں، تصور کیا جا سکتا ہے۔ البتہ، زیادہ تر مسیحی اسکالرز (سوائے ڈینٹن اور برلنسکی کے) کا ماننا ہے کہ یہ نشانیاں دراصل مسیحی خدا کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ لیکن خالص سائنسی نقطہ نظر سے صرف اتنا ماننا کافی ہے کہ کسی ذہین ہستی نے تخلیق کی ہے (Avise 2010, 25)۔
اسی وجہ سے، ہمیں ID کے دو پہلوؤں میں فرق کرنا چاہیے: ایک تو ID بطور ایک غیر جانبدار سائنسی نظریہ، جو ہر قسم کے عقائد (توحید، لاادریت، حتیٰ کہ دہریت) کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے، اور دوسرا خود ID کے حمایتیوں کے ذاتی عقائد۔ اس لحاظ سے، ID بذاتِ خود کوئی مسیحی نظریہ نہیں بلکہ اُسے ایک مسیحی عقیدے کے مطابق بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ ہم ساتویں باب میں Intelligent Design کی تحریک کو تفصیل سے پڑھیں گے، یہاں صرف ایک خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے، جو اس تحریک کے اہم رہنما اسٹیفن میئر کے نقطۂ نظرپر مشتمل ہے۔ وہ ڈسکوری انسٹیٹیوٹ (Discovery Institute) کے "سائنس اینڈ کلچر سینٹر" کے پروگرام ڈائریکٹر ہیں، جو کہ ID تحریک کا مرکزی ادارہ ہے۔
ابتدائی طور پر، درج ذیل پیراگراف یہ واضح کرتا ہے کہ Intelligent Design (I.D) کو ارتقائی نظریے (evolution) کے مقابلے میں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے (Meyer 2017a, 180):
ذہین تخلیق (Intelligent Design) کا نظریہ یہ کہتا ہے کہ جانداروں کے نظام اور کائنات میں کچھ ایسی خاص نشانیاں موجود ہیں۔مثلاً ڈی این اے کے اندر موجود ڈیجیٹل کوڈ، خلیے کے اندر باریک مشینوں جیسے ڈھانچے، اور طبیعیاتی قوانین کا نہایت درست تناسب۔جنہیں محض اندھے اور بے مقصد مادی عمل کی بجائے کسی باشعور ہستی کی تخلیق سمجھنا زیادہ بہتر وضاحت ہے۔یہ نظریہ ارتقا کے اس مفہوم کو نہیں جھٹلاتا کہ وقت کے ساتھ مخلوقات میں تبدیلی آتی ہے یا یہ کہ تمام جاندار کسی مشترکہ جد سے نکلے ہیں۔ البتہ یہ ڈارون کے اس تصور کو مسترد کرتا ہے کہ حیاتیاتی تبدیلیاں محض اندھے اور بے سمت عمل کا نتیجہ ہیں۔اس سوچ کے مطابق، زندگی یا تو کسی اندھے مادی عمل سے پیدا ہوئی ہے، یا پھر کسی ذہین ہستی نے اسے تخلیق کیا ہے۔ ذہین تخلیق کے حامی دوسری بات کو درست سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جاندار ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے کسی نے انہیں باقاعدہ ڈیزائن کیا ہو، کیونکہ وہ حقیقت میں ڈیزائن کیے گئے تھے۔
یہ پیراگراف ذہین تخلیق (ID) کے نیو ڈارونین ارتقا (جسے اسٹیفن میئر نے اوپر ڈارونین ارتقا کہا ہے) سے متعلق دو اہم مسائل کو اجاگر کرتا ہے، یعنی یہ کہ کیسے بے ترتیب(random) اور مادی عمل (material)تخلیق کو مکمل طور پر وضاحت نہیں دے سکتے۔ تخلیق کے کچھ پہلو بہت پیچیدہ ہیں، اور یہ کہنا مشکل لگتا ہے کہ یہ صرف ارتقا کے عمل کا نتیجہ ہیں۔ اسٹیفن میئر اس بات پر زور نہیں دیتے کہ یہ حقیقت ہے، بلکہ وہ ذہین تخلیق (ID) کو ایک متبادل نظریہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جسے موجودہ شواہد کی بنیاد پر پرکھا جانا چاہیے۔ اس لیے، وہ اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے قیاس (abduction) کا سہارا لیتے ہیں۔
اسٹیفن میئر اپنے ذہین تخلیق (ID) کے دلائل کو احتمالات کے ذریعے پیش کرتے ہیں (Meyer 2009; Meyer 2013; Meyer 2017a, 185–197)۔ ان کا کہنا ہے کہ نیو ڈارونین ارتقاجس بے ترتیب عمل پر انحصار کرتا ہے، وہ اتنا غیر متعین ہے کہ پیچیدہ حیاتیاتی خصوصیات کے وجود کا امکان انتہائی کم ہے۔ سائنسی اصطلاحات کو آسان بنانے کے لیے، ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ فرض کریں کہ دو افراد ہیں، ایک کا نام سارہ اور دوسرے کا آدم ہے، اور دونوں کے پاس اسکریبل (Scrabble )کھیلنے کا سامان ہے۔ آدم سارہ سے کہتا ہے کہ وہ آنکھوں پر پٹی باندھ لے۔ جب سارہ ایسا کر لیتی ہے، آدم اسکریبل کے حروف کی تھیلی کو الٹ دیتا ہے، تاکہ تمام حروف تھیلی سے باہر گر جائیں، جس کی آواز سارہ کو آتی ہے۔ پھر آدم سارہ سے کہتا ہے کہ پٹی ہٹا لے۔ سارہ نیچے گرے ہوئے حروف دیکھتی ہے اور ان میں سے تین حروف سے لفظ "CAT" پہچان لیتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ یہ محض اتفاق ہے یا پھر آدم نے حروف کو اس طرح ترتیب دیا ہے۔ وہ قائل ہو جاتی ہے کہ یہ شاید ایک وقتی اتفاق تھا۔ یہی منظر دوبارہ پیش آتا ہے لیکن اس بار وہ لفظ "WATCH" دیکھتی ہے۔ اب وہ اس بات پر زیادہ شک کرتی ہے کہ یہ اتفاقی طور پر ہوا ہوگا۔ شاید آدم نے ایسا کیا ہو؟ یہ منظر ایک اور بار دہرایا جاتا ہے اور اس بار سارہ لفظ "CATASTROPHE" دیکھتی ہے۔ اب وہ یقین سے کہتی ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا، اور آدم ہی حروف کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ وہ یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حروف کے جس ترتیب سے وہ زمین پر پڑے ہیں، اس کا اتفاقی طور پر ہونا مشکل ہے۔ جیسے جیسے لفظ کا حجم بڑھتا جاتا ہے، یہ اتفاقی ہونے کا امکان کم ہوتا جاتا ہے۔ ذہین تخلیق کے حامی اسی استدلال کو استعمال کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ حیاتیاتی ڈھانچے جیسے امینو ایسڈز(amino acids)، پروٹینز(proteins)، سیلولر اسمبلیز (cellular assemblies) اور جانداروں کی تشکیل اتنی درست اور پیچیدہ ہوتی ہے کہ یہ نیو ڈارونین ارتقا کے ذریعے ممکن نہیں، جہاں بے شمار امکانات ہوتے ہیں جو ان کے افعال اور پیچیدگی کو پیدا نہیں کر پاتے۔ اس لیے ان کا خیال ہے کہ یہ تمام تخلیقات اتفاقی عمل کا نتیجہ نہیں ہو سکتیں، اور اس لیے ایک ذہین تخلیق کار کی ضرورت ہے جو ان انتہائی غیر ممکنہ منظرناموں کو ترتیب دے رہا ہو۔
اسٹیفن میئر اپنے دلائل کو دیگر سائنسی میدانوں کی مثالوں سے مضبوط کرتے ہیں۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگرچہ زندگی کے آغاز کا مسئلہ براہ راست ارتقا سے متعلق نہیں ہے ، لیکن تمام ابتدائی پروٹینز کا زندگی کے آغاز میں جمع ہونے کے لیے جو ہم آہنگی درکار ہے، وہ بھی بے ترتیب اور مادی اسباب سے اتنی ہی غیر ممکن ہے۔ اس لیے یہ زیادہ منطقی ہے کہ ہم نہ صرف انواع کے آغاز (ارتقا) کے لیے، بلکہ زندگی کے آغاز کے لیے بھی ایک ذہین تخلیق کار کو تسلیم کریں۔ اسٹیفن ایسے تحقیقی شعبوں کی مثالیں دیتے ہیں جیسے آثار قدیمہ اور غیر اراضی ذہانت کی تلاش (SETI)، جو تخلیق میں پیچیدہ نمونوں کو ذہین اسباب کے حق میں استعمال کرتے ہیں (Meyer 2017a, 203)۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ حقیقتاً تحقیقی شعبے ہیں، تو ذہین تخلیق (ID) کو سائنس کے لیے کوئی خطرہ نہیں سمجھا جانا چاہیے، اور اسے ارتقا کے متبادل کے طور پر ایک جائز سائنسی آپشن کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔
اس سب سے معلوم ہوتا ہے کہ ذہین تخلیق (ID) کی تحریک کی نوعیت YEC اور OEC سے بالکل مختلف ہے۔ ID میں بائبل کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس میں تخلیق کرنے والے کو عیسائی خدا کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، جس کی وجہ سے YEC اور OEC کے حمایتی ID کو کسی حد تک مشکل سمجھتے ہیں (Nieminen et al. 2014; Ham 2017b; Ross 2017b)۔ تاہم، ID کے حمایتی اس بات کی واضح طور پر تصدیق کرتے ہیں کیونکہ ID کو ایک سائنسی نظریہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نہ کہ ایک مذہبی نقطہ نظر کے طور پر، اور وہ یہ فیصلہ فرد پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ID کو اپنے ذاتی عقائد کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کرتے ہیں (Meyer 2017a, 179):
ذہین تخلیق کا نظریہ کتابِ پیدائش کی تشریح نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بائبل میں بیان کردہ تخلیق کے دنوں کی مدت یا زمین کی عمر کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے۔ اس لیے ذہین تخلیق کے حامی مختلف رائے رکھ سکتے ہیں یا اس بارے میں کوئی رائے نہ بھی رکھتے ہوں۔
پھر یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی کئی آوازیں ایک ہی جھنڈے تلے آ سکتی ہیں، کیونکہ ID کے حامی اپنے نقطہ نظر کو واضح طور پر سائنسی نقطہ نظر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
خدا کے تصور کے ساتھ ارتقائی عمل (Theistic Evolution – TE)
Theistic Evolution – TE پر یہ مختصر جائزہ ڈیبوراہ ہارسما (Deborah Haarsma) کے خیالات پر مبنی ہے، جو بایو لاگوس (Bio Logos) کی صدر ہیں۔ یہ ادارہ امریکہ کے ان بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے جو عیسائیت اور جدید سائنس کے درمیان مفاہمت کو فروغ دیتا ہے۔ ڈیبوراہ اس مؤقف کو "ایوولوشنری کریئیشن ازم" (evolutionary creationism) کا نام دیتی ہیں۔ اگرچہ بعض افرادان دونوں میں کچھ فرق کرتے ہیں (Scott 2009, 69–71)، مگر ہم یہاں دونوں اصطلاحات کو مترادف سمجھتے ہوئے استعمال کریں گے۔
اوپر ذکر کیے گئے تینوں نقطہ ہائے نظر کے مقابلے میں Theistic Evolution (خدا کے تصور کے ساتھ ارتقائی عمل ) کو سمجھنا نسبتاً آسان ہے۔ اس موقف میں ارتقا کے تمام سائنسی نکات کو قبول کیا جاتا ہے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ خدا ہی اس سارے عمل کو منظم کرتا ہے۔ یعنی سائنس دان ارتقا کے بارے میں جو بھی دریافتیں کرتے ہیں، انہیں حقیقت کے طور پر مانا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پریہ موقف یعنیTheistic Evolution ، Intelligent Design (ID) سے سائنسی محاذ پر اختلاف رکھتا ہے۔ ڈیبوراہ ہارسما، جو Bio Logos کی صدر ہیں، ID کے اس دو ٹوک نظریے کو نہیں مانتیں۔ ان کے نزدیک سب کچھ غیر ہدایت یافتہ مادی عمل ہے، یا پھر سب کچھ ذہین تخلیق کا نتیجہ ہے (Haarsma 2017, 221)۔ ان کے نزدیک یہ دونوں وضاحتیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں بلکہ ساتھ چل سکتی ہیں (Haarsma 2017, 222):
ہم فطرت میں تخلیق کا شعور اس وقت بھی رکھ سکتے ہیں جب سائنس دان کسی مظہر کی مکمل قدرتی وضاحت پیش کر دیں۔ ارتقا کو خدا کی تخلیق کا ذریعہ ماننے والے افراد قدرتی طریقوں کو خوشی سے خدا کے مسلسل اور باقاعدہ عمل کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگر خدا کی مسلسل کارفرمائی نہ ہو، تو نہ صرف قدرتی قوانین بلکہ مادہ بھی خود بخود ختم ہو جائے گا۔ خدا بعض اوقات غیر معمولی (یعنی معجزاتی) طریقوں سے بھی کام کرتا ہے، جیسے مسیح کا تجسّد (incarnation) اور قیامت (resurrection)۔ تاہم، کسی مظہر کی مکمل قدرتی وضاحت کبھی بھی خدا کو تخلیق کرنے والے (designer) کے طور پر مسترد نہیں کرتی۔
دوسرے الفاظ میں، قدرتی قوانین خدا کی طرف سے قائم ہیں، اور سائنس دان صرف ان کو دریافت کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ معجزات کے بارے میں، جو کہ معمولات کی خلاف ورزی یا تبدیلی سمجھے جاتے ہیں، ان کی قدرتی وضاحت بھی خدا کو خالق یا مصمم (designer) کے طور پر نظرانداز نہیں کرتی۔ اس طرح سے، ذہین تخلیق (ID) کو ایک غلط تقسیم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ تقریباً خدا کے خالی جگہوں میں مداخلت کے نظریے کے قریب آ جاتا ہے (Haarsma 2017, 223):
اگر سائنس دان کسی ایسے مظہر کے لیے جو تخلیق کے طور پر سمجھا گیا ہو، قدرتی وضاحت دریافت کرتے ہیں، تو ذہین تخلیق کا استدلال ناکام ہو جاتا ہے۔ بائبل کا خدا دونوں قسم کے مظاہر کا حاکم اور تخلیق کار ہے، چاہے وہ، وہ مظاہر ہوں جن کی سائنس وضاحت کر سکتی ہے یا وہ جن کی سائنس وضاحت نہیں کر سکتی۔
اگر ہماری جسمانی بناوٹ میں کچھ ایسے پیچیدہ نظام اور ڈھانچے موجود ہیں جن کی وضاحت سادہ قدرتی اصولوں سے ممکن ہے، تو پھر ID کا یہ کہنا کہ یہ سب کسی عقلمند خالق نے ہی بنایا ہو گا، کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس لیے ID کا نظریہ اس وقت کے علم اور معلومات پر مبنی ہوتا ہے، جو کہ مکمل نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے آج ہمیں کچھ باتیں سمجھ نہ آ رہی ہوں، لیکن مستقبل میں سائنسی ترقی ان سوالوں کے جواب دے دے۔ اسی لیے TE کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک سائنس مکمل طور پر کوئی امکان رد نہیں کر دیتی، ID کا جلدی نتیجہ اخذ کرنا اور اپنی دلیل قائم کرنا سائنسی لحاظ سے درست طریقہ نہیں۔
Theistic Evolution کو بائبل اور عیسائی سوچ کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ کیا جاتا ہے، اس پر ڈیبوراہ ہاسما مختلف مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں:
- آدم/حوا کی نوعیت؛
- گناہ سے پہلے موت؛
- برائی کی نوعیت؛
- اتفاقی عناصر۔
ان مسائل پر ڈیبوراہ ہارسما کا مجموعی نقطہ نظر تجاویز پر مشتمل ہے، کیونکہ وہ یہ بتائے بغیر کہ ان میں سے کون سا نقطہ نظر ان کے اپنے خیالات کے قریب ہے، مختلف آپشنز پیش کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدم اور حوّا کے ساتھ دوسرے انسان بھی موجود تھے، اس لیے وہ واحد آبا نہیں تھے، یا پھر پیدائش کی کہانی کو بائبل کے تاریخی سیاق و سباق اور زبان کی روشنی میں ایک تمثیلی (metaphorical) کہانی کے طور پر سمجھنا۔ ان میں سے کسی بھی منظرنامے سے بائبل کے مرکزی پیغام کو نقصان نہیں پہنچتا (Haarsma 2017, 149-150)۔ دوسرے معاملے میں، ڈیبوراہ دو تجاویز پیش کرتی ہیں۔ ایک وہی ہے جو OEC (Old Earth Creationism) کی سوچ ہے، جو کہتی ہے کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے صرف انسانوں کی موت ہوئی اور جانوروں کی نہیں۔ اس کے مطابق، آدم کے گناہ سے پہلے مختلف نوعوں کی لاکھوں سالوں تک موت ایک مسئلہ نہیں ہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ موت کو جسمانی کے بجائے روحانی سمجھا جائے، اس صورت میں ارتقا کوئی مسئلہ نہیں بنے گا (Haarsma 2017, 150)۔ وہ تیسرے معاملے کو نیا نہیں سمجھتیں۔ وہ درست طور پر یہ نشاندہی کرتی ہیں کہ چاہے ارتقا سچ ہو یا نہ ہو، مسیحیوں کو برائی کے مسئلے سے نمٹنا پڑے گا۔ اس کے لیے ارتقا کے ذکر سے پہلے کئی تجاویز تیار کی جاچکی ہیں جن میں سے لوگ آزادانہ طور پر انتخاب کر سکتے ہیں (Haarsma 2017, 151)۔ بے ترتیبی کے مسئلے پر، وہ واضح طور پر یہ بیان کرتی ہیں کہ سائنس میں بے ترتیبی (randomness) کا مطلب کچھ غیر متوقع ہونا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غیر معنی خیز بھی ہو۔ خدا باآسانی اپنے تخلیقی عمل کو بے ترتیب افعال کے ذریعے ایک مقصد کے ساتھ انجام دے سکتا ہے۔ اس لیے ان کی سوچ میں بے ترتیبی کوئی مسئلہ نہیں ہے (Haarsma 2017, 152)۔
ظاہر ہے کہ ڈیبوراہ ایک بہت لچکدار نقطہ نظر پیش کرتی ہیں جس میں متعدد حل پیش کیے جا سکتے ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ارتقا بائبل اور مسیحی سوچ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، لیکن وہ یقین رکھتی ہیں کہ اس کے لیے کئی آپشنز پر غور کیا جا سکتا ہے تاکہ معقول ہم آہنگی تک پہنچا جا سکے۔ تاہم، YEC اور OEC اس نقطہ نظر کی سائنس کو زیادہ اہمیت دینے اور بائبل کی اہمیت کو کم کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں (Ham 2017c; Ross 2017c)۔
حوالہ جات
1. Artigas, Mariano, Thomas F. Glick, and Rafael A. Martinez. 2006. Negotiating Darwin: The Vatican Confronts Evolution: 1877–1902. Baltimore, MD: The Johns Hopkins University Press.
2. Avise, John C. 2010. Inside the Human Genome: A Case for Non-Intelligent Design. Oxford: Oxford University Press.
3. Behe, Michael. 2003. “The Modern Intelligent Design Hypothesis: Breaking Rules.” In Neil Manson, ed. God and Design: The Teleological Argument and Modern Science. London: Routledge, 276–290.
4. Behe, Michael. 2007. The Edge of Evolution: The Search for the Limits of Darwinism. New York, NY: Free Press.
5. Bowler, Peter J. 2007. Monkey Trials and Gorilla Sermons: Evolution and Christianity from Darwin to Intelligent Design. Cambridge, MA: Harvard University Press.
6. Bowler, Peter J. 2009. Evolution: The History of an Idea. Berkeley, CA: University of California Press.
7. Cunningham, Conor. 2010. Darwin’s Pious Idea: Why the Ultra-Darwinist and Creationists Both Get It Wrong. Grand Rapids, MI: William B. Eerdmans Publishing Company.
8. Haarsma, Deborah B., and Loren D. Haarsma. 2011. Origins: Christian Perspectives on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Faith Alive Christian Resources.
9. Haarsma, Deborah B. 2017. “Evolutionary Creation” In J. B Stump, ed. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan, 124–153.
10. Ham, Ken. 2017a. “Young Earth Creationism” In J. B Stump, ed. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan, 17–48.
11. Ham, Ken. 2017b. “Response from Young Earth Creationism” In J. B Stump, ed. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan, 101–106.
12. Ham, Ken. 2017c. “Response from Young Earth Creationism” In J. B Stump, ed. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan, 154–160.
13. Harris, Mark. 2013. The Nature of Creation: Examining the Bible and Science. Croydon: Acumen.
14. Haught, John F. 2008. God After Darwin: A Theology of Evolution. Boulder, CO: Westview Press.
15. Hodge, Bodie. 2019. “Chapter 4: How Old Is the Earth?” Answers in Genesis. Accessed 28th of June 2020. https://answersingenesis.org/age-of-the-earth/howold-is-the-earth/
16. Houck, Daniel W. 2020. Aquinas, Original Sin, and the Challenge of Evolution. Cambridge: Cambridge University Press.
17. Huskinson, Benjamin L. 2020. American Creationism, Creation Science, and Intelligent Design in the Evangelical Market. Cham: Palgrave Macmillan.
18. Jantzen, Benjamin C. 2014. An Introduction to Design Arguments. Cambridge: Cambridge University Press.
19. Kaden, Tom. 2019. Creationism and Anti-Creationism in the United States. Cham: Springer.
20. Kemp, Kenneth W. 2020. The War That Never Was: Evolution and Christian Theology. Eugene: Cascade Books.
21. Kojonen, Erkki Vesa Rope. 2016. The Intelligent Design Debate and the Temptation of Scientism. Abingdon: Routledge.
22. Laats, Adam. 2020. Creationism USA: Bridging the Impasse on Teaching Evolution. Oxford: Oxford University Press.
23. Livingstone, David N. 1984. Darwin’s Forgotten Defenders: The Encounter between Evangelical Theology and Evolutionary Thought. Baltimore, MD: The John Hopkins University Press.
24. Livingstone, David N. 2008. Adam’s Ancestors: Race, Religion and the Politics of Human Origins. Baltimore, MD: The John Hopkins University Press.
25. Livingstone, David N. 2014. Dealing with Darwin: Place, Politics, and Rhetoric in Religious Engagements with Evolution. Baltimore, MD: The John Hopkins University Press.
26. Matheison, Stuart. 2020. Evangelicals and the Philosophy of Science: The Victoria Institute, 1865–1939. Abingdon: Routledge.
27. Matthew, Barrett, ed. 2013. Four Views on the Historical Adam. Grand Rapids, MI: Zondervan.
28. McGrath, Alister E. 2011. Darwinism and the Divine: Evolutionary Thought and Natural Theology. West Sussex: Wiley-Blackwell.
29. McGrath, Alister E. 2016. Christian Theology: An Introduction. West Sussex: Wiley-Blackwell.
30. Meyer, Stephen C. 2009. Signature in the Cell: DNA and the Evidence for Intelligent Design. New York, NY: HarperOne.
31. Meyer, Stephen C. 2013. Darwin’s Doubt: The Explosive Origin of Animal Life and the Case for Intelligent Design. New York, NY: HarperOne.
32. Meyer, Stephen C. 2017a. “Intelligent Design.” In J. B Stump, ed. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan, 177–208.
33. Meyer, Stephen C. 2017b. “Response from Intelligent Design” In J. B Stump, ed. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan, 113–119.
34. Millam, John. 2003. “The Genesis Genealogies.” Reasons to Believe. Accessed 29th of June 2020. Available at: https://reasons.org/explore/publications/tnrtb/read/tnrtb/2003/01/01/the-genesis-genealogies
35. Moore, Randy, and Mark D. Decker. 2009. More Than Darwin: The People and Places of the Evolution-Creationism Controversy. Berkley, CA: University of California Press.
36. Nevi, Norman C, ed. 2009. Should Christians Embrace Evolution? Biblical and Scientific Responses. Phillipsburg, NJ: P&R Publishing.
37. Nieminen, Petteri, Anne-Mari Mustonen, and Esko Ryökäs. 2014. “Theological Implications of Young Earth Creationism and Intelligent Design: Emerging Tendencies of Scientism and Agnosticism” Theology and Science, 12(3): 260–284.
38. Numbers, Ronald. 2006. The Creationists: From Scientific Creationism to Intelligent Design. Cambridge, MA: Harvard University Press.
39. Patterson, Roger. 2007. “Chapter 2: Classifying Life.” Answers in Genesis. Accessed 28th of June 2020. Available at: https://answersingenesis.org/creation-science/baraminology/classifying-life/
40. Peters, Ted, and Martinez Hewlett. 2003. Evolution from Creation to New Creation: Conflict, Conversation, and Convergence. Nashville, TN: Abingdon Press.
41. Pierce, Larry, and Ken Ham. 2010. “Chapter 5: Are There Gaps in the Genesis Genealogies?” Answers in Genesis. Accessed 28th of June 2020. Available at: https://answersingenesis.org/bible-timeline/genealogy/gaps-in-the-genesis-genealogies/
42. Plantinga, Alvin. 2011. Where the Conflict Really Lies: Science, Religion, and Naturalism. Oxford: Oxford University Press.
43. Pope, Stephen J. 2007. Human Evolution and Christian Ethics. Cambridge: Cambridge University Press.
44. Purdom, Georgia. 2010. “Variety Within Created Kinds.” Answers in Genesis. Accessed 28th of June 2020. Available at: https://answersingenesis.org/creation-science/baraminology/variety-within-created-kinds/
45. Ratzsch, Del, and Jeffrey Koperski. 2020. “Teleological Arguments for God’s Existence.” The Stanford Encyclopedia of Philosophy. Accessed 1st of July. Available at: https://plato.stanford.edu/archives/sum2020/entries/teleologicalarguments/
46. Rios, Christopher M. 2014. After the Monkey Trial: Evangelical Scientists and a New Creationism. New York, NY: Fordham University Press.
47. Ross, Hugh. 2003. “The Physics of Sin.” Reasons to Believe. Accessed 29th of June 2020. Available at: https://reasons.org/explore/publications/facts-for-faith/read/facts-for-faith/2002/01/01/the-physics-of-sin
48. Ross, Hugh. 2017a. “Old Earth Creationism” In J. B Stump, ed. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan, 71–100.
49. Ross, Hugh. 2017b. “Response from Old Earth Creationism” In J. B Stump, ed. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan, 106–112.
50. Sapp, Jan. 2009. Evolution by Association: A History of Symbiosis. Oxford: Oxford University Press.
51. Scott, Eugenie C. 2009. Evolution vs. Creationism: An Introduction. Berkeley, CA: University of California Press.
52. Snoke, David. 2003. The Science of Evolution. Chicago, IL: University of Chicago Press.
53. Stump, J. B. 2017. Four Views on Creation, Evolution, and Intelligent Design. Grand Rapids, MI: Zondervan.
54. Wood, Daniel. 2010. God and Evolution: A Reader. Oxford: Oxford University Press.
(جاری)