کارگل کا ایک گاؤں: یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا
اینکر: بھارت اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول کی بلند ترین پہاڑیوں پر واقع ہندرمو گاؤں صدیوں کی تاریخ اور مختلف جنگوں کا گواہ ہے۔ دریائے دراس کے پہلو میں آباد ہندرمو کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ۱۹۷۱ء تک یہ گاؤں اور یہ تمام پہاڑ پاکستان کا حصہ تھے، اب ان پر بھارت کا قبضہ ہے، اور شمال میں یہ اس کا آخری گاؤں ہے۔ تاریخی شاہراہِ ریشم بھی اسی کے دامن سے گزرتی ہے اور مقامی راہنما اس راستے کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سجاد کرگلی (مقامی سیاسی رہنما): یہ گاؤں ہندرمو اور یہ جو بغل سے روڈ جا رہی ہے، یہ زمانہ قدیم کا سِلک روٹ ہے، شاہراہِ ریشم جسے کہتے ہیں۔ آج کل ہم لوگ کرگل سکردو روڈ بولتے ہیں، جس کے کھولنے کی ہم ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ اگر یہ روڈ کھلتا ہے، تو یہ روڈ جو ہے آپ کو سی پیک تک رسائی دے سکتا ہے۔ اور حکومتِ ہندوستان اگر اس میں کوئی مثبت پیشرفت لے تو پاکستان چائنہ کا جو سی پیک چل رہا ہے ’’چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ اس کا ہم حصہ بن سکتے ہیں، یہ علاقہ ترقی کر سکتا ہے، اور اس پورے جموں کشمیر، لداخ اور پھر پورے ہندوستان میں خوشحالی آ سکتی ہے۔
اینکر: یہاں کی خاموش فضائیں، پر خطر راستے اور اس کا سفر ایک خوشگوار اور شاندار تجربے سے کم نہیں۔ متعدد جنگوں کی مار جھیلنے والے اس علاقے پر ہر جانب سے اب بھی فوج کا پہرہ ہے۔
گزشتہ نصف صدی سے ہندرمو اپنے اس پڑوسی گاؤں برولمو سے جدا ہے جو پاکستان کا حصہ ہے۔ دونوں گاؤں میں آباد ایک دوسرے کے عزیز و اقارب اتنے قریب ہیں کہ وہ آوازیں تو سن سکتے ہیں، تاہم ملاقات سے محروم ہیں۔
سجاد کرگلی: پندرہ ہزار منقسم خاندان ہیں، ہمارے لداخ ریجن اور گلگت بلتستان کے اندر۔ ان تمام فیملیز کو ملنے کی ایک رسائی جو ہے وہ ہو سکتی ہے اس راستے کے ذریعے سے، نصف صدی سے جو لوگ ایک دوسرے سے مل نہیں پا رہے ہیں، جو رشتہ دار ہیں، عزیز و اقارب ہیں۔
اینکر: کارگل کے معروف عالم دین شیخ علی کا آستانہ گلگت بلتستان کے اس گاؤں برولمو میں ہے۔ ایک وقت تھا کہ اِس طرف کے لوگ چند منٹ پیدل چل کر اس کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ لیکن وہی سفر اب اتنا محال ہے کہ نصف صدی کا طویل عرصہ بھی اسے آسان بنانے میں ناکام رہا ہے۔
سجاد کرگلی: ہم چاہتے ہیں جس طرح کرتار پور کھلا، ہم چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کے مذہبی جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ہمارے لیے شیخ علی برولمو کا یہ آستانہ کھلے اور کم از کم ہم وہاں زیارت کے لیے جا سکیں۔ اور اگر گورنمنٹ آف پاکستان اور گورنمنٹ آف انڈیا اس سلسلہ میں تھوڑا مثبت سوچیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جتنا ہم وسائل خرچ کر رہے ہیں جنگوں میں، نفرتوں میں، خون خرابے میں، اس کا کوئی حل ہونے والا نہیں، کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ تو ہم چاہتے ہیں، یہ جو خونی لکیر ہے، جس نے رشتے داروں کو بانٹا ہوا ہے، جذبات کو ختم کیا ہوا ہے، یہ جو لکیر ہے یہ امن کی لکیر بننی چاہیے، اور یہ بارڈر ’’بارڈر آف پیس‘‘ بننا چاہیے۔ یہ ہمارا مطالبہ ہے۔
اینکر: ان خیرہ کن پہاڑی چوٹیوں سے آپ پاکستانی گاؤں کے مناظر کی بھی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ علاقے فوجی محاصروں کی بجائے مقامی لوگوں کی چہل پہل سے آباد تھے، لیکن اب یہاں کی خاموشی پر جنگ و جدل کے سائے منڈلا رہے ہیں۔
ناظرین، آپ نے دیکھا کہ ان پہاڑیوں کے بیچ میں ان دونوں گاؤں کی کیا اہمیت ہے، نصف صدی پہلے اِس گاؤں کے لوگ اور اُس گاؤں کے لوگ، جو رشتہ دار ہیں، ملتے رہے ہوں گے، لیکن تقریباً ستر برس سے دونوں ملکوں کے بیچ میں جو تلخیاں ہیں اس کی وجہ سے آج ان میں ایک فاصلہ اور دوری برقرار ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس کو بھی کھولنا چاہیے۔
صلاح الدین زین: صلاح الدین زین، ڈی ڈبلیو نیوز، کرگل۔
https://youtu.be/87i7T_jl8wA
طورتک: وہ گاؤں جو سن 1971ء میں اپنے ملک پاکستان سے جدا ہو گیا
صلاح الدین زین: خطہ لداخ کے شمال میں واقع حسین ترین وادئ نوبرا کا سفر بھی بہت ہی دلفریب اور دلکش ہے۔ اسی وادی کے تقریباً آٹھ سو مربع کلو میٹر کے رقبے پر اب بھارت کا کنٹرول ہے، جو ۱۹۷۱ء تک پاکستان کے پاس ہوا کرتا تھا۔ سن ۱۹۷۱ء کے دسمبر میں بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر مختصر سی جنگ کے بعد اس علاقے کے چار گاؤں پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ علاقہ اپنے تاریخی گاؤں طورتک کے لیے معروف ہے جو دریائے شیوک اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کی بلند چوٹیوں درمیان واقع ہے۔
پچاس برس گزر چکے ہیں تاہم طورتک کے باشندوں کو آج بھی سولہ دسمبر کی وہ رات اچھی طرح سے یاد ہے۔
کاچو محمد خان یبگو (یبگو شاہی خاندان کے وارث): ہاں، ۱۹۷۱ء میں جو لڑائی ہوئی یہاں پر، ہماری پاکستان میں رات گزری، دن انڈیا میں ہوا۔ ہم اسی میں تھے، گاؤں میں تھے، یہاں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اتنی لڑائی نہیں ہوئی، کیونکہ پاکستانی ملٹری بہت کم تھی، وہاں بارڈر پر کچھ لڑائی ہوئی، اس کے بعد وہ اس گاؤں کو چھوڑ کر چلے گئے، تو آرام سے انڈین آرمی یہاں پر پہنچ گئی۔
صلاح الدین زین: ۱۹۴۸ء میں کھپلو اور طورتک سمیت بلتستان کا پورا علاقہ پاکستان میں ضم ہو گیا تھا۔ لیکن ۱۹۷۱ء میں جب بنگلہ دیش میں جنگ جاری تھی، تو اسی دوران بھارتی فوج نے اس سرحدی علاقے کے چار گاؤں طورتک، تھنگ، ٹیاکشی اور چلونکھا پر قبضہ کر لیا تھا۔ پہلے یہ گاؤں سکردو کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ٹیاکشی اور طورتک کے درمیان اس راستے پر کبھی پاکستان کے پرچم لہراتے تھے، جہاں اس وقت آپ بھارتی پرچم دیکھ رہے ہیں، پورا علاقہ بھارتی فوج کی سخت نگرانی میں ہے۔
عبد الکریم کریم (طورتک مسجد کے مؤذن): جب ہندوستان کا آرمی اِدھر پہنچا، اس وقت ہمارے طورتک کے جتنے یہ غریب گھر والے ہیں، بچے ہیں، ان کو کسی نے اس نالے میں چھپایا، اور کچھ اپنی گائے بکریوں کے ساتھ نیچے ان کو چھپایا۔
عبد الحمید (طورتک کے مقامی رہائشی): پھر صبح ہو گیا تو ہندوستان کا فوج آیا ہوا تھا۔ پورا گاؤں کو کور کیا ہوا تھا۔ پھر ہم لوگ آ گیا۔ تو انہوں نے تلاشی ولاشی لے لی۔ تو وہ لوگ بول رہے تھے کہ ہاں اگر پاکستان کا فوجی ہے تو ہمیں بتا دینا، سویلین کو تو ہم نقصان نہیں پہنچائے گا۔
صلاح الدین زین: لے سے طورتک تک پہنچنا ناقابلِ یقین حد تک مشکل کام ہے۔ تاہم اس سرحدی جنگ کی قیادت، لے سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر، میجر جنرل چان رینچن کر رہے تھے جو اس علاقے سے اچھی طرح واقف تھے۔
اس خطے پر قبضے سے قبل تک یہ گاؤں بگدانگ بھارت کی سرحد ہوا کرتا تھا۔ اس شکست سے پاکستان کو ایک اور بڑا نقصان یہ پہنچا کہ اس سے بھارت کے لیے سیاچن گلیشیئر کے راستے ہموار ہو گئے، جو اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان دنیا کا بلند ترین محاذِ جنگ ہے۔
۱۹۷۱ء سے پہلے تک بھارت کا آخری گاؤں یہ ہوتا تھا جس کا نام ہے بگدانگ۔ ۱۹۷۱ء کے بعد جو جنگ ہو رہی تھی اس دوران بھارتی فوجیوں نے یہاں سے تقریباً پچیس کلو میٹر کا یعنی طورتک اور تھنگ تک کا علاقہ قبضہ کر لیا اور پاکستانی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں، تب سے پچاس برس سے یہ پورا علاقہ بھارت کے زیر انتظام ہے۔
ان دیہاتوں کا اچانک اپنے ملک سے جدا ہونا یہاں کے لوگوں کے لیے غیر معمولی بات تھی۔ یہاں کے سینکڑوں خاندانوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔
کاچو محمد خان یبگو: ایسے گھر نہیں ہوں گے اس طورتک کے جس کا رشتہ دار پاکستان میں نہ ہو۔ کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، کسی کا باپ، کسی کے بچے، کسی کی ماں، سب کا آدھی پریوار اس وقت پاکستان بلتستان میں رہتے ہیں۔
عبد الحمید: بہت یاد آتے ہیں، میرا بڑا بھائی پاکستان میں پھنس گیا تو ابھی اس سال اس کی وفات ہو گئی ہے۔
عبد الکریم کریم: سگا دو بھائی ہے، پاکستان میں لاہور میں ہے، ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران وہ لوگ وہاں پھنس گیا، اور ہم رہ گیا۔ یاد تو آتا ہے ہر وقت، صبح شام آتا رہتا ہے، اپنے سگے بھائی کی یاد نہیں آئے گی؟
صلاح الدین زین: یہ چھوٹی سی بستی شمالی بھارت میں وادئ نوبرا کے انتہائی آخری سرے پر واقع ہے، اور شمالی لداخ میں بھارت کی آخری چوکی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بسے آخری گاؤں تھنگ کے پاس ہی پاکستان کا گاؤں فرانو آباد ہے، پہلے اس علاقے میں آنا ممنوع تھا، تاہم اب سیاح لائن آف کنٹرول پر پاکستانی گاؤں اور ان کی پوسٹ کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔
ناظرین، اس وقت ہم جہاں پر کھڑے ہیں یہ بھارت اور پاکستان کی ایک اور لائن آف کنٹرول ہے، میرے دائیں طرف جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ تھنگ، بھارت کے شمال میں آخری گاؤں ہے۔ اور میرے بائیں طرف جو پہاڑیاں ہیں، یہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔
کیمرا مین رؤف فدا کے ساتھ صلاح الدین زین، ڈی ڈبلیو نیوز، تھنگ، طورتک۔
https://youtu.be/fwMTgVn0umU
دو ملکوں کے بیچ بٹا ایک گاؤں
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا کیرن گاؤں، سرسبز و شاداب جنگلات اور حسین وادیوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں گزشتہ چند برسوں سے سیاحوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ گاؤں فطرت سے محبت کرنے والوں اور ٹریکرز کی پسندیدہ منزل بن رہا ہے۔
منیر احمد (سیاح): اس جگہ کو اس لیے ایکسپلور کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ایک ہی گاؤں دو طرف بٹا ہوا ہے، ایک کنارے پر اس کا آدھا حصہ ہے، دوسرے کنارے پر ہماری سائیڈ پر دوسرا حصہ ہے۔ تو ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح سے اُدھر آپ دیکھ رہے ہو کتنی ڈیویلپمنٹ ہے اسی طرح یہاں پر بھی ڈیولیپمنٹ ہو، تاکہ ہم بھی ویسا ہی محسوس کریں جو یہاں پر آتے ہیں، اور ٹورازم کے لیے کافی اچھی جگہ ہے، اس کو ڈیویلپ کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمارے جموں کشمیر کے ٹورازم کے لیے ایک اچھا موقع آگے فراہم کرے گی۔
اینکر: گاؤں سے گزرنے والا کشن گنگا، یا دریائے نیلم، پاکستان اور بھارت کے مابین عملی سرحد کا کام کرتا ہے۔ بہت سے لوگ دریا کے پار بسنے والوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔
عمر (سیاح): اس جگہ کی ایک خاصیت ہے کہ اس جگہ پر کوئی فینسنگ (باڑ) نہیں ہے، یہاں پہ لوگ آتے ہیں، دیکھتے ہیں، گاڑیاں پاکستان کی، لوگ دیکھتے ہیں، گھر دیکھتے ہیں۔ یہ جگہ دیکھنے کے لیے بہت اچھی ہے، ہم سبھی آتے ہیں، ہمارے لڑکے آتے ہیں، سوپور سے، سری نگر سے، جو بھی لڑکے آتے ہیں وہ اس جگہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستان کہاں پہ ہے، ہمارا ایک سائیڈ کا آزاد کشمیر وہ کہاں پہ ہے، وہ یہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
اینکر: بھارت اور پاکستان دونوں ہی مکمل کشمیر پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں، اور دونوں ہی کے زیر انتظام اس کے کچھ حصے ہیں۔ یہی خطہ فریقین کے مابین تین میں سے دو جنگوں کا سبب بنا۔ شورش اور جنگ زدہ خطے کے لوگ دیرپا امن کی امید کر رہے ہیں۔
زاہد (سیاحتی گائیڈ): سر ہم چاہتے ہیں کہ یہاں پہ شانتی ہو، یہاں کا ماحول ایک طرح سے فٹ رہنا چاہیے، یہاں پر ہمارے پاس کوئی روزگار نہیں کوئی کچھ نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں اور گورنمنٹ سے یہی اپیل کرتے ہیں کہ جتنا ہو سکتا ہے، آرمی سے، جتنا ہو سکتا ہے یہاں پر ٹورازم کو بڑھاوا دیں اور لوگوں کو یہاں بھیجیں تاکہ یہاں پر جو بے روزگار لڑکے ہیں ان کا روزگار چلے سر۔
اینکر: بھارت اور پاکستان نے ۲۰۲۱ء میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس سے سیاحت کی صنعت کو فروغ ملا ہے۔ ۲۰۲۲ء میں سولہ ملین سے زیادہ سیاحوں نے وادئ کشمیر کا رخ کیا، جو ۱۹۴۷ء کے بعد سے اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
طفیل (ہوٹل کے کاروبار سے وابستہ کشمیری): پہلے یہاں پہ اتنا زیادہ سکوپ نہیں تھا، اب دو سال سے یہاں کا کراؤڈ اچھا چل رہا ہے، اس سال میں بہت زیادہ رش آ رہا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ آگے بھی ایسے ہی رہے، امن رہے، اور یہاں پہ ڈیویلپمنٹ ہو، ہر طرح کی فسیلیٹیز دی جائیں، تاکہ ہم لوگوں کو بھی اس چیز کا فائدہ ہو، اور ہمارا یہاں پر بزنس چلے۔