مولانا واضح رشید ندوی خاکسار کے محبوب استاد رہے۔ ان کے اوپر برادرم عثمان فاروق کا لکھا ایک مضمون پڑھ کر شدت سے ان کی یاد آئی اور طبیعت نے تقاضا کیا کہ ان کے اوپر چند لائنیں ضرور لکھی جائیں۔ جب یہ چند سطور لکھنے کے لیے بیٹھا ہوں تو ان کی وفات پر تقریباً آٹھ سال گزر چکے ہیں اور ان کی یادیں ذہن سے محو سی ہونے لگی ہیں۔
استاد گرامی حسنی خاندان کے شریف و نجیب چشم و چراغ تھے۔ ان کے سوانح پر کئی مضامین موجود ہیں۔ الرائد اور تعمیرِ حیات کے خاص نمبرات میں بھی غالباً ان کو یاد کیا گیا ہے۔ مگر ان کی بعض خاص ادائیں اور صفاتِ حمیدہ ایسی ہیں جن کا بار بار ذکر ہونا چاہیے جن سے، ایک مثالی استاد کیسا ہوتا ہے، یہ معلوم ہوتا ہے۔ ذہن کی اسکرین پر ان کی شبیہ تو موجود ہے مگر اب ان کی یاد دھندلانے لگی ہے اس لیے واجب ہے کہ اس کو تازہ کر لیا جائے تاکہ ’رفتید ولے نہ از دلے ما‘ کی مصداق بنے۔
استاد گرامی ندوۃ العلماء کی پہچان الرائد کے مدیر اعلیٰ اور البعث الاسلامی کے نائب مدیر تھے۔ جو طلبہ کسی موضوع پر کچھ لکھ کر الرائد میں چھاپنے کے لیے ان کو دیتے، وہ بڑی محنت سے اس کی نوک پلک درست کر کے اُسے شایع کر دیتے، اِس سے طلبہ کی بڑی حوصلہ افزائی ہوتی۔ استاد گرامی بڑے خوبصورت اور وجیہ آدمی تھے، طلبہ جلدی سے ان سے بے تکلف نہیں ہو پاتے تھے لیکن اگر کوئی ہمت کر کے ان کی خدمت میں پہنچ جاتا تو بڑی بشاشت سے گفتگو فرماتے اور ہر ممکن حوصلہ افزائی فرماتے۔ اگر کسی طالبِ علم میں شوق و ذوق اور صلاحیت کے جوہر دیکھ لیتے تو اُس کو ہر ممکن طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کرتے۔ طلبہ کو ان کے ذوق کے لحاظ سے مطالعہ کی نصیحت فرماتے اور کس ادیب کو پڑھا جائے اور کیوں پڑھا جائے اس کی بھی رہنمائی کرتے۔
میں ندوۃ العلماء میں کلیۃ الادب کا طالب علم تھا، جس کے طلبہ دوسرے سال میں المعہد العالی للدعوۃ کے بھی طالب علم ہو جاتے تھے اور ان کی کلاس المعہد العالی میں ہی ہوتی تھی۔ خالی گھنٹوں میں ہم لوگ اس کی ثروت مند لائبریری سے استفادہ کرتے جس میں ادب، تاریخِ ادب، تاریخ، ثقافت اور سیرت و سوانح ہر طرح کی کتابیں تھیں اور بہت سارے عربی رسائل آتے تھے۔ وہاں ایک صاحب بیٹھتے تھے جو ہر وقت تیوری چڑھائے رہتے اور بڑے رِزَرو (Reserve) رہتے تھے، وہ الرائد میں خوب چھپتے تھے، ساتھیوں نے بتایا کہ یہ حضرت، الرائد میں مولانا واضح رشید صاحب کے معاونِ خاص ہیں۔ میں نے کسی اردو مضمون کا عربی ترجمہ کر کے ان کی خدمت میں پیش کیا کہ حضرت مہربانی فرما کر اس کی تصیح کردیجئے، انہوں نے بڑی بے رخی و بے نیازی سے معذرت کر لی۔ ندوہ کے ہی ایک اور استاذ تھے اور وہ بھی الرائد میں بہت چھپتے تھے، ان سے گزارش کی، انہوں نے بھی ٹکا سا جواب دیا۔ یہ لکھنوی مزاج کا خاصہ ہے، یہاں کوئی کسی کے کام نہیں آتا بلکہ ؏ ’’جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے‘‘ پر عمل ہوتا ہے۔
شروع میں تو خاصا حیران پریشان ہوا کہ کوئی بھی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کچھ دن ایسے ہی گومگو میں گذرے۔ آخر ہمت کر کے ایک دن خود محنت سے ایک اردو مضمون کا عربی میں ترجمہ کیا، اُسے صاف کیا اور الرائد کے دفتر میں پہنچ گیا۔ مولانا واضح رشید صاحب کی ڈیسک تک جانے سے پہلے شروع ہی میں بیٹھنے والے ان کے معاون سے بات کرنی ہوتی تھی، اُن صاحب کو مضمون لے جا کر دیا کہ مولانا کو دکھانا ہے، انہوں نے بے دلی سے رکھ لیا کہ دے دوں گا۔ میں واپس ہونے لگا کہ اچانک مولانا اپنی میز سے اٹھ کر کسی کام سے باہر کی طرف نکلے، پاس سے گذرے تو میں نے سلام کیا، بشاشت سے سلام کا جواب دے کر پوچھا کیسے آئے؟ میں نے ڈرتے ڈرتے مدعا بیان کیا تو معاون کے ہاتھ سے مضمون لے لیا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔
اپنی عربی پر ندوۃ العلماء آنے سے پہلے کچھ ناز سا تھا اور جامعہ اسلامیہ سنابل (دہلی) اور جامعۃ الفلاح (اعظم گڑھ) دونوں جگہ مجھے عربی کا سب سے اچھا طالب ِعلم سمجھا جاتا تھا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ والد ماجد رحمہ اللہ نے ابتدائی عربی تعلیم خود دی تھی اور ایک سال میں ہی انہوں نے صرف و نحو، ادب و بلاغت اور منطق و فقہ و حدیث و تفسیر میں یوں تیار کر دیا تھا کہ بڑی خود اعتمادی آگئی تھی۔ استادوں کے سامنے عبارت کی خواندگی میں ہی کرتا تھا۔ مگر ندوۃ العلماء آنے کے بعد اپنے آپ کو بہت چھوٹا محسوس کرنے لگا تھا کیونکہ ایک طرف ندوۃ العلماء خاص لکھنوئی تہذیب و ثقافت میں ڈھلا ہوا تھا جہاں مشہور تھا کہ رکشہ والے بھی، اگر کوئی ان کے درمیان نزاع ہو جائے تو وہ، آپ اور جناب کہہ کر ہی لڑائی کرتے تھے۔ جبکہ میں جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ کے خاصے بدویانہ ماحول سے اٹھ کر آیا تھا۔ اس پر مستزاد کہ ندوہ میں تیز طرار عربی بولنے والوں اور عربی لکھنے والے لڑکوں کی کمی نہ تھی جو الرائد اور البعث الاسلامی میں چھپتے رہتے تھے۔
اس لیے الرائد کے مدیر اعلیٰ کو مضمون تو دے دیا تھا مگر کچھ زیادہ امید نہ تھی۔ مگر تین چار دن بعد میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ الرائد میں میرا مضمون آگیا ہے، استاد محترم نے اس کی نوک پلک درست کر کے اس کو شایع کر دیا تھا۔ پھر تو ہمت بندھ گئی اور ندوہ کے دوسرے سال میں الرائد میں راقم کے کئی مضامین اور ترجمات شایع ہوئے۔ یاد رہے کہ پہلا سال ہم نے لکھنؤ میں خوب آوارہ گردی میں ضایع کیا تھا، تاہم اس وقت اتنا شعور نہ تھا کہ ان مضامین کی کٹنگ یا زیراکس کرا کر رکھ لیتا۔ چنانچہ ان میں سے چند ہی مضامین کے تراشے میرے پاس محفوظ رہ سکے۔ بہرحال استاد گرامی کی شفقت اور حوصلہ افزائی نے بہت کچھ دیا۔ اور عربی زبان میں جو کچھ ٹوٹا پھوٹا لکھنا یا ترجمہ کرنا مجھے آتا ہے اس کا بڑا کریڈٹ انہیں کو جاتا ہے۔
مولانا واضح رشید صاحب نے دو سال ہمیں پڑھایا اور ادب و انشاء پڑھائی اور اس گھنٹے میں وہ نئے نئے موضوعات پر لکھواتے یا ترجمہ کرواتے تھے، آخر میں عربی کے مصادر ادب پر لیکچر دیے۔ ادب کے سلسلہ میں وہ خاصے لبرل واقع ہوئے تھے چنانچہ وہ ہم طلبہ کو طٰہٰ حسین کو پڑھنے پر ابھارتے خاص طور پر اس کی آپ بیتی الایام۔ جبکہ ندوہ میں طٰہٰ حسین کو بالعموم اس کی آزاد فکری کی وجہ سے پسند نہ کیا جاتا تھا۔ استاد گرامی سعید الرحمٰن الاعظمی طٰہٰ حسین کو اعمی البصر والبصیرۃ (طہ حسین نابینا تھے اس لیے اس تلمیح میں جو شدید ہجو ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں) کہا کرتے تھے اور طہ حسین پر علی طنطاوی اور سید قطب کو ترجیح دیتے۔ یاد رہے کہ سید قطب کی کتاب التصویر الفنی فی القرآن بھی ندوہ کے نصاب میں (بطور مطالعہ) شامل تھی، اسی طرح ادبی نظریات اور نقدِ ادب میں علی طنطاوی کی کتاب بھی نصاب میں تھی جس کو پڑھاتے بھی دکتور اعظمی ہی تھے۔
بعد میں ہم نے طہ حسین کی نہ صرف الایام پڑھی بلکہ حدیث الاربعاء، علی ہامش السیرۃ اور الفتنۃ الکبری (عثمان اور علی و بنوہ) سب پڑھیں۔ طہ حسین میں بے باکی، ذہانت اور تنقیدی صلاحیت تو ہے ہی، بات سے بات نکالنا، ایک جملہ کو کئی فقروں میں تقسیم کر کے اپنی بات کہنا اس کا خاصا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی میں عرب دنیا نے طہ حسین سے بڑا نثر نگار اور جادو نگار ادیب پیدا نہیں کیا۔
یہ ذکر کرنا یہاں بے محل نہ ہو گا کہ استاذ گرامی قدر مولانا سعید الرحمٰن الاعظمی مدظلہ العالی (مدیر اعلی البعث الاسلامی) کا التفات و توجہ بھی خاکسار کو تھوڑی بہت ملی۔ مولانا بہت بارعب اور پُرہیبت استاد تھے۔ کلاس میں سب لڑکے ان سے ڈرتے تھے۔ جب ان کا گھنٹا آتا تو شرارتی سے شرارتی طالب علم بھی مؤدب ہو کر بیٹھ جاتا اور کوئی ان کے آگے بولنے کی جرأت نہ کرتا۔ وہ کلاس میں سبھی ساتھیوں سے کتاب کی عبارت پڑھواتے اور جو ذرا سی بھی غلطی کرتا اُس پر کوئی بر محل جملہ چست کر دیتے۔ ہمارے ایک ساتھی مظاہر العلوم سہارنپور سے افتاء کر کے آئے تھے۔ عربی تو بس واجبی سی تھی، شاید ندوہ کی ڈگری کے شوق میں آگئے تھے۔ ان کا جب بھی نمبر آتا تو شدید غلطیاں کرتے۔ استاد گرامی پوچھتے کیا نام ہے؟ ایک بار غلطی سے ان کے منہ سے نکل گیا مفتی …… بس پھر کیا تھا استاد محترم نے یہی جملہ پکڑ لیا اور مزاح سے کہا: مفتی من الافتاء او مفتی من المفت؟ پھر یہ تو جملہ وہ بہت بار دہراتے۔ شروع شروع میں ان کی ہیبت بہت تھی، وہ مہتمم بھی تھے لہٰذا طلبہ پر ڈسپلن کے لیے بھی خوب سختی کرتے تھے۔ ایک بار میں بھی ان کے عتاب کا شکار ہوا کہ چھٹی میں گھر پر بیمار پڑ گیا اور ہفتہ بھر لیٹ ہو گیا۔ گرچہ ڈاکٹر نے میڈیکل رپورٹ لکھ کر دی تھی مگر کسی وجہ سے مہتمم صاحب نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور ہفتہ بھر راقم کا کھانا بند رکھا۔ ڈرتے ڈرتے ان کی خدمت میں حاضری دی اور تاخیر سے دارالعلوم پہنچنے پر معذرت کی جو انہوں نے بڑی مشکل سے قبول کی اور یوں یہ ٹرائل ختم ہوا۔
اصل میں طلبہ جو فضیلت تک پہنچ گئے ہوں اور عبارت تک صحیح نہ پڑھ پاتے ہوں ان کی نالائقی پر مولانا سعید الاعظمی کو بہت صدمہ ہوتا اور وہ بہت کڑھتے تھے۔ اس کا اظہار ان کے تیز و تند جملوں میں ہو جاتا۔ اسی طرح انتظامی امور میں وہ سہل انگاری یا تساہل برداشت نہیں کرتے تھے۔ قانون شکنی کی سزا ضرور دیتے۔ تاہم ان کی ظاہری سختی کے پیچھے طلبہ کے لیے ان کی گہری شفقت اور محبت چھپی ہوتی اور جب ان کو محسوس ہو جاتا کہ فلاں طالب علم مخلص اور پڑھنے میں واقعی محنتی ہے تو پھر اس کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ البعث کی ادارت کے علاوہ مولانا دکتور سعید الاعظمی کی برجستہ عربی خطابت کا بھی بہت شہرہ تھا۔ خاص طور پر ندوہ کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ وہی دیتے تھے۔
مولانا سعید الاعظمی الندوی ہماری کلاس میں عبد القاہر جرجانی کی کتابیں اسرار البلاغۃ اور دلائل الاعجاز پڑھاتے تھے۔ دلائل الاعجاز بہت دقیق کتاب ہے، اس میں راقم نے خاص محنت کی۔ کبھی کبھی استاذ محترم خاکسار کو پڑھتا دیکھ لیتے اور بھرپور حوصلہ افزائی فرماتے۔ ندوہ سے فراغت کے بعد انہوں نے خاکسار کے بہت سے مضامین البعث میں شایع کیے اور بغیر کسی سفارش کے محض میرٹ کی بنیاد پر کیے۔
بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا، اصل تذکرہ مولانا واضح رشید ندوی کا ہو رہا تھا، استاد محترم پڑھاتے وقت سارا فوکس اور ترکیز اپنے موضوع پر رکھتے، اِدھر اُدھر کی بات بالکل نہ کرتے۔ ہم لوگوں کی انشاء کی کاپیاں بڑی توجہ سے چیک کرتے اور مناسب مشورے دیتے۔ ان کو اسنوفیلیا تھا اس لیے سارا وقت ناک سے سوں سوں کی آواز نکالتے رہتے مگر وہ ذرا بھی خراب نہ معلوم ہوتی بلکہ ان کی پہچان سی بن گئی تھی۔ پورے دو سال میں کوئی ایک مثال بھی یاد نہیں جب انہوں نے کسی طالب علم سے درشت لہجے میں بات کی ہو یا خفگی کا اظہار کیا ہو ؏ ’’ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘۔ ان سے جن ندوی اہلِ ِعلم نے خاص استفادہ کیا ان میں سب سے بڑا نام تو مولانا ڈاکٹر اکرم ندوی صاحب کا ہے جو علمی دنیا میں خود اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ دوسرے مولانا وثیق ندوی ہیں جو اَب الرائد کے مدیر ہیں، اور بھی مستفیدین یقیناً ہوں گے مگر اب یاد نہیں آرہے ہیں۔
ندوۃ العلماء کی تعلیم کے بعد خاکسار نے لکھنؤ یونیورسٹی کے ایک کالج سے گریجویشن کی کوشش کی جو نامکمل رہ گئی۔ گریجویشن میں، میں نے پولیٹیکل سائنس پڑھی۔ پھر لکھنؤ یونیورسٹی سے ندوہ کی سند کی بنیاد پر عربی زبان میں ایم اے کیا اور پھر ایک پرائیویٹ جاب کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی بھی کی۔ جب پی ایچ ڈی کے لیے موضوع کے انتخاب کا مسئلہ درپیش ہوا تو راقم نے استاذِ گرامی مولانا واضح رشید صاحب سے مشاورت کے لیے ان کو خط لکھا۔ میرے ذہن میں جو موضوعات آئے تھے ان میں ایک مولانا عبد العزیز میمنی پر کام کرنے کا تھا جو برصغیر پاک و ہند میں عربی زبان کے ایک بے نظیر محقق و ادیب تھے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ، جن کو عرفِ عام میں مولانا علی میاں کہا جاتا ہے، نے ان کے اوپر ’پرانے چراغ‘ میں تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ لیکن ان کے اوپر مقالہ کے اشراف کے لیے کوئی تیار نہ ہوا، شعبہ عربی کے چیئرمین جناب ڈاکٹر شفیق احمد خان ندوی نے شکیب ارسلان کا نام تجویز کیا اور کہا کہ میمنی کے بجائے ان پر کام کرنا آسان رہے گا۔ بہرحال یہی موضوع منظور ہوا۔ کسی وجہ سے استاد محترم کا جواب نہیں آیا مگر اس کے کچھ دنوں بعد ندوہ جانا ہوا، ان سے سامناہوا تو فرمانے لگے: تمہارا خط آیا تھا کس عنوان کو منتخب کیا ہے؟ راقم نے ان کو بتایا تو خوش ہوئے۔ افسوس کہ دہلی آنے کے بعد ان سے ربط و تعلق ٹوٹ گیا۔
مولانا واضح رشید صاحب کے حوالہ سے ایک چیز اور اہم ہے اور وہ یہ کہ ندوی اہلِ قلم خاص کر مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ کی اردو و عربی دونوں میں شبلی و سلیمان کا اثر کم ہو گیا ہے۔ اب ندوی فضلاء عموماً مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کا تَتَبُّع کرتے ہیں، خاص کر عربی انہی کے اسلوب میں لکھتے ہیں۔ یہ اسلوب خطابی ہے، کثرتِ مترادفات اور لفاظی اس کی پہچان ہے، حالانکہ عالمِ عرب میں اب یہ اسلوب متروک ہو چکا ہے۔ خصوصاً عربی صحافت میں، جس نے انگریزی اور فرنچ کا اثر زیادہ قبول کیا ہے۔ مولانا سعید الاعظمی اور البعث الاسلامی ابھی تک اسلوبِ خطابی کا تتبع کر رہے ہیں۔ البتہ مولانا واضح رشید ندوی نے اپنی تحریروں اور ترجموں میں جدید عربی صحافت اور ندوی خطابی اسلوب دونوں کو یک رنگ کر کے ایک نیا اسلوب پیدا کر لیا تھا۔ چنانچہ طلبہ و اسکالروں میں ان کا کالم ’’صور و اوضاع‘‘ بڑی رغبت سے پڑھا جاتا تھا جو وہ البعث الاسلامی میں لکھا کرتے تھے۔ اس میں عالمی سیاست پر گہری نظر، مسلمانانِ عالم پر چست تبصرے اور جاندار و رواں عربی نثر سب کچھ ہی تو ہوتا تھا۔
استاد گرامی مولانا واضح رشید صاحب کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی بے لوثی، شخصی عظمت و تفاخر سے گریز اور انتہائی حد کو پہنچی ہوئی انکساری تھی۔ وہ مولانا علی میاں کے سگے اور لاڈلے بھانجے تھے اور مولانا علی میاں رحمہ اللہ اپنے زمانہ میں مسلمانانِ ہند کی سب سے قد آور شخصیت۔ بیرونی اسفار میں بھی مولانا واضح رشید کئی بار مولانا علی میاں کے رفیقِ سفر رہے۔ اور مولانا علی میاں کے بعد ان کے جانشین استاد محترم مولانا محمد رابع حسنی ندوی بھی مسلمانانِ ہند کے قائد بنے جو مولانا واضح رشید کے سگے بڑے بھائی بھی تھے اور روحانی مرشد بھی۔ چنانچہ دونوں بھائیوں کی یہ جوڑی مثالی تھی اور دونوں اکثر و بیشتر ساتھ ساتھ ہی سفر کرتے تھے۔ لیکن مولانا واضح رشید میں انکساری، بے لوثی اور اپنی شخصیت کو گویا بے حیثیت بنا دینے کا ایسا جذبہ تھا کہ کبھی ان کو قیادت کی دوڑ میں یا کسی ادارہ کی سربراہی کی ہوڑ میں نہیں دیکھا گیا۔ ندوہ میں جو علمی مجالس و مذاکرات اور علمی سیمینار ہوتے تھے اور جن کا سلسلہ چلتا ہی رہتا تھا ان میں وہ عام طور پر سامعین میں ہی بیٹھنے کی کوشش کرتے تھے۔ دوسرے علماء یا قائدین کی مجلس میں ہوتے تو بالکل انکسار اور سراپا عاجزی کا مجسمہ بنے رہتے۔ دہلی کے برادرم یوسف ندوی (جو حسنی خاندان سے قربت رکھتے ہیں) نے ایک بار بتایا کہ دہلی کی ایک مجلس میں، جس میں وہ خود حاضر تھے، انہوں نے دیکھا اور ان کو غصہ بھی آیا کہ حیدر آباد کے ایک بڑے مدرسہ کے مہتمم مولانا رضوان القاسمی مجلس میں ٹانگ پھیلا کر بیٹھے تھے، ان کے پاس ہی مولانا واضح رشید صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ قاسمی مرحوم نے تو ان کی شخصیت کے اکرام اور آداب مجلس کا ذرا خیال نہیں کیا مگر مولانا واضح رشید صاحب کے ماتھے پر شکن بھی نہیں دیکھی گئی۔
استاد محترم سے ایک ملاقات اور یاد ہے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے دوران خاکسار نے لکھنؤ میں معہد الفکر الاسلامی جوائن کر لیا تھا۔ یہ نوزائدہ ادارہ لکھنؤ کے مضافات میں دوبگہ میں کاکوری روڈ پر واقع تھا۔ اس کو مدارسِ اسلامیہ کے ذہین طلبہ کی مزید فکری تعلیم و تربیت کے لیے جمعیۃ مساعدۃ الطلاب (SEWS) نے قائم کیا تھا جس کے بانی مولانا ظہیر احمد صدیقی ندوی تھے۔ وہ باذوق آدمی ہیں، اخوانی فکر کے پروردہ۔ عربی مدارس کے طلبہ و فارغین کے لیے انہوں نے کئی قومی سطح کے تربیتی ورکشاپ کیے تھے جن میں سے کم از کم دو میں راقم شریک رہا اور پہلے ورکشاپ میں طلبۂ ندوہ کی چلت پھرت اور حرکیت و ادب سے متاثر ہو کر پھر میں نے ازخود ندوۃ العلماء میں داخلہ لینے کا سوچا ورنہ اس سے قبل میری عربی مدارس کی رسمی تعلیم مکمل ہو گئی تھی۔
بہرکیف ظہیر احمد صدیقی ندوی نے اس نوزائدہ ادارے کے لیے نصاب بنوایا اور اس کے سلسلہ میں استفادہ و مشاورت کے لیے خاکسار کو علی گڑھ کے دانشوران سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ پروفیسر نجات اللہ صدیقی سے بھی مشاورت کی۔ ایک منتخب لائبریری کا سامان کیا۔ اب تو وہاں ایک ہائی لیول کا یونانی اسپتال اور طبیہ کالج بھی انہوں نے قائم کر لیا ہے۔ بہرحال انہوں نے اس ادارہ کا نام تجویز کرنے اور لائحہ ٔعمل طے کرنے کے لیے ندوہ کے اساطین اور بڑے اساتذہ کرام مولانا عبد اللہ عباس ندوی، مولانا رابع حسنی ندوی اور مولانا واضح رشید ندوی کو ظہرانہ پر بلایا۔ یہ تینوں اساطین راقم کے بھی اور مولانا ظہیر احمد ندوی کے بھی استاد تھے۔ مولانا عبد اللہ عباس ندوی نے ندوہ و ام القری سے فیضیاب ہونے کے علاوہ یوروپ کی اڈنبرا یونیورسٹی سے بھی ڈگری لی تھی۔ انہوں نے ہمیں، جب ہم ادب میں فضیلت کر رہے تھے (جس کو تخصص کا درجہ بھی کہا جاتا ہے)، تورمانی کی النکت فی اعجاز القرآن پڑھائی تھی۔ اس مجلس میں انہوں نے مولانا ظہیر احمد صاحب کو یہ مشورہ دیا کہ المدرسہ یا مدرسہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر کے جمع بین القدیم و الجدید کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ یاد رہے کہ اُس وقت مدرسہ اور مدرسہ کے نظامِ تعلیم پر مغرب میں بہت لکھا جا رہا تھا اور ہند میں بھی اس کے خلاف میڈیا نے طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا تھا۔
اس نشست میں راقم بھی شریک تھا، مولانا ظہیر احمد ندوی صاحب کے اشارہ پر راقم نے اس اساتذہ کرام کی خدمت میں جناب اسرار عالم کی کتاب ’’عالمِ اسلام کی اخلاقی صورت حال‘‘ (جو اُن دنوں موضوعِ بحث بنی ہوئی تھی) کا ایک اقتباس پڑھ کر سنایا جس میں صاحبِ کتاب نے شیخ محمد بن عبد الوہاب، ان کی تحریک اور ان کی کتاب التوحید کے اور یوروپی مسیحی مصلح کالون (ـCalvin) کی کتاب ’’انسٹیٹیوٹ آف دی کرسچین ریلیجین‘‘ کے درمیان ایک مماثلت ڈھونڈ نکالی تھی۔ اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا تھا۔(ملاحظہ ہو کتاب مذکور کا صفحہ 234 قاضی پبلشرز و ڈسٹریبیوٹرز مئی 1996ء) ان اساتذۂ کرام نے اس پر کوئی تبصرہ تو نہیں کیا مگر استاد واضح رشید ندوی کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ نے بتا دیا کہ وہ مصنف سے اتفاق نہیں کرتے۔
مولانا واضح رشید ندوی علیگ بھی تھے چنانچہ انہوں نے ندوہ سے فضیلت کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا اور عملی دنیا کا آغاز آل انڈیا ریڈیو کی عربک سروس سے کیا جہاں وہ اگلے بیس سال تک رہے۔ یہاں ان کا کام انگریزی و اردو اخبارات سے عربی میں ترجمہ کر کے خبریں بنانا اور پڑھنا ہوتا تھا۔ یہیں سے ان کی معلومات بہت بڑھیں، ان کو عالمی میڈیا کو عملاً برتنے اور جاننے کا موقع ملا، عربی و اردو کے ساتھ ہی انگریزی پر بھی پوری طرح دسترس ہو گئی اور ان کی فکر کا کینوس وسیع ہوا۔ بعد میں مولانا علی میاں کے اشارے پر انہوں نے اس جاب کو خیر باد کہہ کر ندوۃ العلماء میں بحیثیت استاد عربی ادب و انشاء جوائن کر لیا۔ الرائد اور البعث الاسلامی کے مدیر بھی رہے اور المعہد العالی للدعوۃ الاسلامیۃ کے صدر بھی۔
افسوس کہ عربی میں پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود گھریلو مجبوریاں اور معاشی حالات کی وجہ سے راقم کو اردو اخبارات و رسائل کی خاک چھاننی پڑی۔ عربی زبان میں گاہے بگاہے ترجمہ کا کام تو کرتا رہا مگر عربی لکھنے لکھانے کا سلسلہ ایک طویل عرصہ تک چھوٹ گیا۔ تقریباً بیس سال بعد اب 2025ء میں اس جانب پھر توجہ ہوئی ہے اور جنوری 2025ء سے اشراق عربی کی ادارت سنبھالنے کے بعد سے یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔
سنہ 2018ء میں سولہ جنوری کو استاد محترم مولانا واضح رشید کا انتقال ہوا۔ الرائد اور تعمیرِ حیات میں ان کو خصوصی طور پر یاد کیا گیا۔ کچھ اور لوگوں کے مضامین بھی آئے۔ ان کی عربی و اردو میں متعدد کتابیں بھی ہیں اور کئی علمی کتابوں کے ترجمے بھی۔ ادب اہل القلوب، الدین والعلم حسن تعریب کی مثال ہے جو مولانا عبد الباری ندوی کی کتاب اسلام اور سائنس کی عربی تعریب و تلخیص ہے۔ اور ایک ادبی کتاب مصادر الادب العربی ہے جو اصلاً ان محاضرات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے ہم طلبۂ ادب کے سامنے پیش کیے تھے۔ یہ مقالات کتاب العمدہ لابن رشیق القیروانی، کتاب الکامل لابی العباس محمد بن یزید المبرد النحوی، کتاب الامالی لابی عمرو علی القالی البیان والتبیین للجاحظ اور العقد الفرید لابن عبدربہ کے تعارف پر مشتمل ہے اور ان کی خصوصیات و امتیازات پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے۔ خاکسار کو یہ شرف بھی حاصل رہا کہ ان سے جاحظ کی شہ کارکتاب کتاب البخلاء بھی درس میں پڑھی۔ یہ کتاب اپنے مزاحیہ اسلوب، جاحظ کی ذکاوت، انسانی نفسیات کے مطالعہ، وسعتِ معلومات اور عربی نثر کی فصاحت و بلاغت کا ایک شاہکار ہے۔ اس کا اردو ترجمہ و تشریح کرنا جوئے شیر لانا ہے مگر مولانا کا اس کتاب کا درس بھی ایسا ہوتا تھا کہ نہ صرف جاحظ کی وقعت و عظمت آشکارا ہوتی تھی بلکہ اس کے طنز و مزاح سے بھی بھرپور لطف ملتا تھا ؏
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را