اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۶۹) سَحَر کا مطلب

سحر رات کے آخری پہر کو کہتے ہیں، امام لغت ازہری کہتا ہے: سحر رات کا ایک ٹکڑا ہے، والسَّحَرُ قِطْعَۃٌ مِنَ الْلَّیْلِ۔ تہذیب اللغۃ۔جوہری لکھتا ہے: سحر صبح سے کچھ پہلے کا وقت ہے، والسَّحَرُ: قُبَیْلَ الصُّبحِ۔الصحاح۔

لسان العرب میں ہے:صبح سے پہلے رات کا آخری حصہ، ایک اور قول ہے کہ رات کے آخری تہائی سے طلوع فجر تک کا وقت۔

والسَّحْرُ وَالسَّحَرُ: آخِرُ اللَّیْلِ قُبَیْلَ الصُّبْحِ، وَالْجَمْعُ أَسْحَارٌ۔۔۔ وَ قِیْلَ: ھُوَ مِنْ ثُلُثِ اللَّیْلِ الآخِرِ اِلیٰ طُلُوْعِ الْفَجْرِ۔

چونکہ سحر کا وقت طلوع فجر تک جاتا ہے، اس لئے کبھی کبھی طلوع فجر کے وقت کو بھی اس میں ضمناََ شامل کرلیا جاتا ہے، لیکن سحر کا اصل وقت طلوع فجر سے پہلے کا ہے۔

قرآن مجید میں یہ لفظ ایک جگہ واحد یعنی سحر، اور دو جگہ جمع یعنی اسحار آیا ہے۔ مترجمین کے یہاں اس لفظ کے مختلف ترجمے ملتے ہیں۔

(۱) إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ حَاصِباً إِلَّا آلَ لُوطٍ نَّجَّیْْنَاہُم بِسَحَرٍ۔ (سورۃ القمر:۳۴)

’’بھیجا ہم نے اوپر ان کے مینہ پتھروں کا مگر لوگ لوط کے، نجات دی ہم نے ان کو وقت سحر کے‘‘۔(شاہ رفیع الدین)

’’بھیجی ان پر باؤ پتھراؤ کی سوائے لوط کے گھر کے، ان کو بچادیا ہم نے پچھلی رات سے‘‘۔(شاہ عبدالقادر)

’’اور ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا اس پر بھیج دی صرف لوطؑ کے گھر والے اُس سے محفوظ رہے۔ اُن کو ہم نے اپنے فضل سے رات کے پچھلے پہر بچا کر نکال دیا‘‘۔(سید مودودی)

’’بیشک ہم نے ان پر پتھراؤ بھیجا سوائے لو ط کے گھر والوں کے، ہم نے انہیں پچھلے پہر بچالیا‘‘۔(احمد رضا خان)

Lo! We sent a storm of stones upon them (all) save the family of Lot, whom We rescued in the last watch of the night (Pickthall)

’’ہم نے ان پر سنگ ریزے برسانے والی ہوا مسلط کردی۔ صرف آل لوط (اس سے بچے)۔ ہم نے ان کو نجات دی سحر کے وقت‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

We sent against them a violent Tornado with showers of stones, (which destroyed them), except Lut's household: them We delivered by early Dawn,-(Yousuf Ali)

’’تو ہم نے ان پر کنکر بھری ہوا چلائی مگر لوط کے گھر والے کہ ہم نے ان کو پچھلی رات ہی سے بچا لیا‘‘۔(فتح محمد جالندھری)

(۲) وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالأَسْحَارِ۔ (سورۃ آل عمران:۱۷)

’’اور بخشش مانگنے والے بیچ پچھلی رات کے‘‘۔(شاہ رفیع الدین)

’’اور گناہ بخشوانے والے پچھلی رات کو‘‘۔(شاہ عبدالقادر)

’’اور اخیر شب میں اٹھ کر گناہوں کی معافی چاہنے والے‘‘۔(اشرف علی تھانوی)

’’اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)

those who pray for pardon in the watches of the night.(Pickthall)
and implore the forgiveness of Allah before daybreak.(Maududi)

’’اور اوقات سحر میں مغفرت چاہنے والے ہیں‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

’’ اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں‘‘۔(فتح محمد جالندھری)

and who pray for forgiveness in the early hours of the morning.(Yousuf Ali)
and the praying ones at early dawn for forgiveness.(Daryabadi)

(۳) وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُون۔ (سورۃ الذاریات:۱۸)

’’اور وقت صبح کے وہ استغفار کرتے تھے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)

’’اور صبح کے وقتوں میں معافی مانگتے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور آخر شب میں استغفار کیا کرتے تھے‘‘۔(اشرف علی تھانوی)

’’پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے‘‘۔(سید مودودی)

And ere the dawning of each day would seek forgiveness (Pickthall)
And in the hours before dawn, they were (found) asking (Allah) for forgiveness, (Hilali&Khan)

’’اور صبح کے وقتوں میں مغفرت مانگتے تھے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’اور پچھلی رات استغفار کرتے‘‘۔(احمد رضا خان)

’’اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا تینوں آیتوں کے ترجموں میں رات کا آخری پہر یا رات کی آخری گھڑی سحر کا درست ترجمہ ہے، اسی طرحbefore dawn, , ere the dawning, watches of the night, before daybreak بھی سحر کا صحیح مفہوم ہے۔

جن ترجموں میں صبح کا وقت یا at dawn, early hours of the morning ہے، وہ سحر یا اسحار کا درست ترجمہ نہیں ہے۔ کیونکہ سحر صبح کے وقت کو نہیں کہتے ہیں، بلکہ صبح سے پہلے کے وقت کو کہتے ہیں۔

اردو زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے سحر یا اسحار کا ترجمہ سحر کا وقت یا اوقات سحر کرنا اس لئے موزوں نہیں ہے کہ اردو میں سحر کا لفظ صبح کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، فرہنگ آصفیہ میں ہے: ’’صبح کے پہلے کا وقت، چار گھڑی کا تڑکا، بھور، تڑکا، نور کا تڑکا، صبح دم، تاروں کی چھاؤں، صبح، فجر، روز روشن۔‘‘ اس لئے لفظ سحر سے قاری کو تو اشتباہ ہوہی سکتا ہے، خود یہ بھی نہیں معلوم ہوپاتا ہے کہ مترجم کے ذہن میں کیا ہے، اسی لئے مذکورہ بالا ترجموں میں دیکھیں کہ صاحب تدبر نے اسحار کا ترجمہ ایک آیت میں سحر کے اوقات اور دوسری آیت میں صبح کے وقتوں کیا ہے۔ علامہ فراہی نے سحر کا مطلب بیان کیا ہے: السَّحَرُ قُبَیْلَ الِاسْفَارِ۔ (تفسیر سورۃ الذاریات) ممکن ہے کہ اس سے صاحب تدبر نے صبح کا وقت مراد لیا ہو۔

نَّجَّیْْنَاہُم بِسَحَرٍ میں سحر سے مراد رات کا وقت ہے، اس کی تائید سورہ ہود کی حسب ذیل آیت سے ہوتی ہے جس میں حضرت لوط کو رات کے حصے میں نکلنے کا حکم دیا گیا: 

فَأَسْرِ بِأَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْْلِ۔ (سورۃ ھود:۸۱)

’’اپنے گھر والوں کے ساتھ کچھ رات رہے نکل جاؤ‘‘۔

مذکورہ بالا بعض ترجموں میں سحر یا اسحار کا ترجمہ پچھلی رات بھی کیا گیا ہے،اردو لغات کے مطابق پچھلی رات سے رات کا دوسرا آخری حصہ مراد ہوتا ہے، اس لحاظ سے یہ ترجمہ درست ہے۔

مذکورہ بالا ترجموں میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض مترجمین جیسے شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے اسحار کا ترجمہ ایک آیت میں پچھلی رات کیا ہے، تو دوسری آیت میں صبح کے وقت کیا ہے۔

سید مودودی نے آخری آیت میں سحر کا ترجمہ رات کے پچھلے پہروں کیا ہے، جو درست ہے مگر ان کے ترجمے کا درج ذیل انگریزی ترجمہ درست نہیں ہوا۔

and would ask for forgiveness at dawn,(Maududi)

(۷۰) ضمیر کے مرجع کا تعین

وَمَا یَذْکُرُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّہُ ہُوَ أَہْلُ التَّقْوَی وَأَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ۔ (سورۃ المدثر: ۵۶)

اس آیت میں ھو کا مرجع اللہ تعالی کی ذات ہے، یہی رائے عام مفسرین اور مترجمین نے اختیار کی ہے، جیسے:

’’اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے وہ اس کا حق دار ہے کہ اُس سے تقویٰ کیا جائے اور وہ اس کا اہل ہے کہ (تقویٰ کرنے والوں کو) بخش دے‘‘۔(سید مودودی)

’’اور وہ کیا نصیحت مانیں مگر جب اللہ چاہے، وہی ہے ڈرنے کے لائق اور اسی کی شان ہے مغفرت فرمانا‘‘۔(احمد رضا خان)

زمخشری کے الفاظ ہیں: ھُوَ حَقِیْقٌ بِأَنْ یَتَّقِیْہ عِبَادُہُ وَ یَخَافُوْا عِقَابَہُ، فَیُؤمِنُوْا وَیُطِیْعُوْا، وَ حَقِیْقٌ بِأَنْ یَغْفِرَ لَھُمْ اِذَا آمَنُوْا وَأَطَاعُوْا۔

البتہ صاحب تدبر قرآن نے ایک اور رائے اختیار کی، اور ھو کا مرجع فَمَن شَاء ذَکَرَہُ میں لفظ مَن کو یعنی نصیحت اختیار کرنے والوں کو قرار دیا۔

’’اور وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے، مگر یہ کہ اللہ چاہے، وہی اہل تقوی اور وہی سزاوار مغفرت ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

لیکن یہ رائے سیاق کلام سے مطابقت نہیں رکھتی، کیونکہ آیت میں نصیحت اختیار کرنے والوں کا تذکرہ جمع کے صیغے سے آگیا ہے، اس کے بعد پھر انہی کے لئے واحد کی ضمیر لانے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں قرین قیاس یہی ہے کہ ھو کی ضمیر کا مرجع اس سے متصل لفظ اللہ کو بنایا جائے۔

علامہ فراہی نے بھی تعلیقات القرآن میں جمہور مفسرین کی رائے کے مطابق رائے ذکر کی ہے: أَناَ أَھْلٌ أنْ أُتَّقیٰ، فَمَنْ اتَّقاَنِی فَلَمْ یَجْعَلْ مَعِیَ اِلٰھاََ غََیْرِی، فَأَناَ أَھْلٌ أِنْ أَغْفِرَ لَہُ۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(نومبر ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter