(398) تنزیلا کا ترجمہ
قرآن مجید میں کتابیں نازل کرنے کے لیے باب تفعیل سے تنزیل اور باب افعال سے انزال، دونوں ہی تعبیریں آئی ہیں۔ کیا ان دونوں میں فرق ہے یا یہ مترادف اور ہم معنی ہیں؟ زمخشری نے ان دونوں کے درمیان فرق یہ کیا ہے کہ تنزیل تھوڑا تھوڑا کرکے قسطوں میں نازل کرنے کے لیے ہے جب کہ انزال یک بارگی نازل کرنے کے لیے ہے۔ درج ذیل دونوں آیتوں کے تحت وہ اس فرق پر زور دیتے ہیں:
نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِیلَ۔ (آل عمران: 3)
”اس نے (اے محمدﷺ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے تورات اور انجیل نازل کی“۔ (فتح محمد جالندھری)
زمخشری لکھتے ہیں کہ یہاں قرآن کے لیے نزّل اور تورات و انجیل کے لیے أنزل اس لیے آیا ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا اور تورات و انجیل کو یک بارگی اتارا گیا: فإن قلت: لم قیل (نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتابَ) (وَأَنْزَلَ التَّوْراةَ وَالْإِنْجِیلَ)؟ قلت: لأن القرآن نزل منجماً، ونزل الکتابان جملة۔ (الکشاف)
یہی بات زمخشری نے درج ذیل آیت میں بھی کہی ہے:
یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۔ (النساء: 136)
”مومنو! خدا پر اور اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنے پیغمبر (آخرالزماں) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)
زمخشری کہتے ہیں: فإن قلت: لم قیل (نَزَّلَ عَلی رَسُولِہِ) و (أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ)؟ قلت: لأن القرآن نزل مفرّقا منجما فی عشرین سنة، بخلاف الکتب قبلہ۔ (الکشاف)
بعض مفسرین جیسے ابوحیان نے زمخشری کی اس توجیہ کو سختی سے رد کیاہے۔ ابوحیان کا یہ کہنا ہے کہ باب تفعیل میں کثرت اور تکرار یا تنجیم (قسط واریت) کا مفہوم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی متعدی فعل ثلاثی مجرد سے باب تفعیل میں جائے، جیسے کسر، جرح، قطع وغیرہ، لیکن اگر کوئی فعل ثلاثی مجرد لازم ہو اور باب تفعیل میں آئے تو اس میں صرف تعدیہ کا مفہوم ہوتا ہے جیسے فرح اور فرّح۔
ابوحیان کی تنقید کے علاوہ بھی زمخشری کی اس توجیہ پرخود قرآنی استعمالات کی روشنی میں شدید اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ ایک اعتراض تو یہ ہے کہ اگلی ہی آیت میں اور اسی جملے کا حصہ بن کر وَأَنْزَلَ الْفُرْقَان آیا ہے، اگر قرآن اور دیگر کتابوں میں مذکورہ فرق ہے تو فرقان کے ساتھ نزّل آنا چاہیے تھا۔
زمخشری کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہ بات بھی کافی ہے کہ خود تورات کے لیے نزّل آیا ہے، درج ذیل آیت ملاحظہ کریں:
کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِہِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوہَا إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔ (آل عمران: 93)
”سب کھانے بنی اسرائیل کو حلال تھے مگر وہ جو یعقوبؑ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا توریت اترنے سے پہلے تم فرماؤ توریت لاکر پڑھو اگر سچے ہو“۔ (احمد رضا خان)
اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ چوں کہ تورات یک بارگی نازل ہوئی اس لیے اس کے ساتھ أنزل آیا ہے۔ خود یہ بات بھی ثابت نہیں ہے کہ تورات اور انجیل ایک بار میں نازل کی گئی تھیں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ خود قرآن نے صراحت کے ساتھ ایک بار اتارنے کے لیے نزّل کا استعمال کیا ہے، فرمایا:
وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَۃً۔ (الفرقان: 32)
”اور کافروں نے کہا کہ اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا“۔ (محمد جوناگڑھی)
دوسرے مقام پر کہا گیا:
وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ۔ (الانعام: 7)
”اور اگر ہم تم پر کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب نازل کرتے“۔ (فتح محمد جالندھری) یہاں بھی ایک کتاب کی صورت میں اتارنے کے لیے نزّل آیا ہے۔
ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں بعض جگہ نزّل اور أنزل ایک ہی چیز کے لیے آئے ہیں، فرمایا:
وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ۔ (النحل: 44)
”یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور وفکر کریں“۔ (محمد جوناگڑھی) یہاں قرآن کے لیے أنزل اور نزّل دونوں ایک ہی آیت میں آئے ہیں۔
دوسری جگہ فرمایا:
وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْکَمَةٌ وَذُکِرَ فِیہَا الْقِتَالُ رَأَیْتَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ یَنْظُرُونَ إِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَی لَہُمْ۔ (محمد: 20)
”اور جو لوگ ایمان لائے وہ کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو، پس بہت بہتر تھا ان کے لیے“۔ (محمد جوناگڑھی) یہاں ایک سورت کے لیے نزّل اور أنزل دونوں آیا ہے۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ قرآن میں کئی جگہ فرد واحد کے لیے نزّل آیا ہے، ظاہر ہے اس سے مراد قسط وار نازل کرنا نہیں لے سکتے، جیسے:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللَّہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ إِنَّکُمْ إِذًا مِثْلُہُمْ إِنَّ اللَّہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِینَ وَالْکَافِرِینَ فِی جَہَنَّمَ جَمِیعًا۔ (النساء: 140)
”اور خدا نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہورہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگیں۔ ان کے پاس مت بیٹھو۔ ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں اکھٹا کرنے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
نیز:
قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَائِکَةٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَسُولًا۔ (الإسراء: 95)
”کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے (کہ اس میں) چلتے پھرتے (اور) آرام کرتے (یعنی بستے) تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے“۔ (جالندھری) پہلی آیت میں ایک حکم نازل کرنے اور دوسری آیت میں ایک فرشتہ نازل کرنے کی بات ہے، لیکن لفظ نزّل استعمال ہوا ہے۔
غرض یہ کہ اگرچہ مفسر زمخشری اور ان کے بعد مفسر رازی نے نزّل کو بتدریج نازل کرنے کے معنی میں لیا ہے، لیکن یہ بات بہت کم زور ہے، قرآن کے استعمالات اس رائے کو مسترد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ دونوں مترادف ہیں اور لفظی تنوع کے لیے دونوں کا استعمال ہوا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن آیتوں میں زمخشری نے زور دے کر کہا ہے کہ یہاں نزّل تدریج کا مفہوم رکھتا ہے، جیسے مذکورہ بالا دونوں آیتیں ہیں، وہاں مترجمین نے ترجمے میں تدریج کا ذکر نہیں کیا، البتہ بعض دوسری آیتوں میں تدریج کا ذکر کیا ہے۔
اس تفصیل کے بعد ہم کچھ آیتوں کے ترجموں کو پیش کرتے ہیں:
(۱) وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیلًا۔ (الاسراء: 106)
”قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سناؤ، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اتارا ہے“۔ (سید مودودی)
”اور قرآن ہم نے جدا جدا کرکے اتارا کہ تم اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور ہم نے اسے بتدریج رہ رہ کر اتارا“۔ (احمد رضا خان)
”اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھ کر سناؤ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اُتارا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
آیت کے ترجمے میں تدریج کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ فرقناہ (ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا) تو پہلے کہہ ہی دیا گیا، پھر اس مضمون کوآخر کیوں دوہرایا جائے گا؟؟
درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:
”اور قرآن کو تو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے اتارا ہے کہ تم اس کو لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سناؤ، اور ہم نے اس کو نہایت اہتمام سے اتارا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
(۲) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ تَنْزِیلًا۔ (الانسان: 23)
”ہم نے اتارا تجھ پر قرآن سہج سہج اتارنا“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اے محمد (ﷺ) ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اے نبیؐ، ہم نے ہی تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے“۔ (سید مودودی)
”بیشک ہم نے تم پر قرآن بتدریج اتارا“۔ (احمد رضا خان)
”بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
یہاں تدریج کا ذکر کرنے کا کوئی محل بھی نہیں ہے۔ قرآن نازل کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔ درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:
”ہم ہی نے تم پر قرآن نہایت اہتمام سے اتارا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
(۳) قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ۔ (النحل: 102)
”اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے“۔ (سید مودودی)
”کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرئیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”کہہ دو کہ اس کو روح القدس تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں تاکہ یہ (قرآن) مومنوں کو ثابت قدم رکھے اور حکم ماننے والوں کے لیے تو (یہ) ہدایت اور بشارت ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
پہلی بات تو یہی ہے کہ ترجمے میں تدریج کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ قرآن نازل کرنے کا ایک مقصد یہ بتایا گیا اس سے اہل ایمان کو ثبات حاصل ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ھدی اور بشری کا عطف لیثبت پر کرنے سے بہتر ہے کہ دونوں کو حال مانا جائے۔ یعنی یہ کتاب سیدھی راہ بتاتی ہے اور اسلام والوں کو بشارت دیتی ہے۔ اس دوسرے پہلو کی آخر الذکر ترجمے میں رعایت کی گئی ہے۔
مذکورہ بالا تینوں آیتوں کے ترجمے کے حوالے سے ایک قابل غور بات یہ ہے کہ جو حضرات نزّل یا تنزیلا کا ترجمہ تدریج کے ساتھ نازل کرنا کرتے ہیں، وہ کچھ آیتوں ہی میں ایسا ترجمہ کرتے ہیں، بقیہ آیتوں میں وہ بھی صرف نازل کرنا ہی ترجمہ کرتے ہیں۔ قرآن میں کئی جگہ تنزیل (حالت رفع میں) کا لفظ آیا ہے، وہاں بھی سب لوگ نازل کرنا ترجمہ کرتے ہیں، تدریج کے ساتھ نازل کرنا نہیں کرتے ہیں۔ مناسب بات یہ ہے کہ سب جگہ نازل کرنا ترجمہ کرنا چاہیے، تدریج کا مفہوم اس لفظ کے اندر شامل ہونے کی کوئی دلیل یا بنیاد نہیں ہے۔
(399) وَعَلَی اللَّہِ قَصْدُ السَّبِیلِ
وَعَلَی اللَّہِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْہَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ۔ (النحل: 9)
”اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“۔ (سید مودودی)
”اور اللہ پر سیدھی راہ کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور ان میں کچھ راستے کج بھی ہوتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ (زبردستی) چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“۔ (محمد حسین نجفی)
”اور اللہ پر پہنچتی ہے سیدھی راہ اور کوئی راہ کج بھی ہے اور وہ چاہے تو راہ دے تم سب کو“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور سیدھا رستہ تو خدا تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں (وہ اس تک نہیں پہنچتے) اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے رستے پر چلا دیتا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے اور بعض راہیں کج ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر کردیتا“۔ (امین احسن اصلاحی)
قصد السبیل کا مطلب تو سیدھا راستہ ہے، یعنی الطریق القاصد۔ اختلاف اس میں ہے کہ علی اللہ کا کیا مفہوم ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا کہ اللہ کی ذمے داری ہے کہ وہ سیدھا راستہ بتائے۔ لیکن اس صورت میں دو اشکال ہیں، ایک یہ کہ جملے میں بیان کو محذوف ماننا پڑے گا۔ یعنی وعلی اللہ بیان قصد السبیل، دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس ترجمے میں ومنھا جائر (کچھ راستے ٹیڑے ہیں) کی پہلے جملے سے مطابقت نہیں ظاہر ہوتی۔ اس توجیہ کے ماننے والوں نے دونوں اشکالات کے جواب دیے ہیں، لیکن اس تکلف کی ضرورت نہیں رہتی ہے اگر جملے کا مطلب یہ لیا جائے کہ سیدھا راستہ اللہ تک پہنچاتا ہے۔ یہاں کوئی پوچھ سکتا ہے کہ پھر الی آنا چاہیے تھا علی کیوں آیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں علی الی کے مفہوم میں ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا:
قَالَ ہَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ۔ (الحجر: 41)
”ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)، گو کہ بعض مفسرین نے اس آیت کا بھی یہ مفہوم لیا ہے کہ سیدھے راستے کو دکھانا میری ذمے داری ہے، لیکن یہ اور بھی زیادہ پرتکلف توجیہ ہے۔ تکلف سے خالی مفہوم یہی ہے کہ یہ سیدھا راستہ مجھ تک پہنچتا ہے۔ یہ بات کہ سیدھا راستہ اللہ تک پہنچاتا ہے، درج ذیل آیت میں بھی کہی گئی ہے:
إِنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۔ (ہود: 56)
”بیشک میرا پروردگار سیدھے رستے پر ہے“۔(فتح محمد جالندھری)
زیر بحث آیت کا یہ دوسرا مفہوم آیت کے تینوں ٹکڑوں کو عمدہ طریقے سے جوڑتا ہے۔ آیت کا مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ ایک سیدھا راستہ ہے جو اللہ تک پہنچاتا ہے، اور کچھ ٹیڑھے راستے ہیں، بہت سے لوگ ٹیڑھے راستوں پر چل رہے ہیں، اگر اللہ چاہتا تو سب کو سیدھے راستے پر چلادیتا۔
(جاری)