’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر

ایک صدی قبل جب ’’اسرائیل‘‘ کے نام سے یہودی سلطنت کے قیام کے لیے ’’اعلان بالفور‘‘ ہوا تو فلسطین پر برطانیہ کے قبضہ، دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا کر آباد کرنے، اسرائیل کے نام سے نئی ریاست قائم کروانے اور اسے امریکہ اور یورپ کی طرف سے ہر طرح کا تحفظ اور قوت فراہم کر کے مسلمانوں، عربوں اور فلسطین کے خلاف ایک جارح اور قابض قوت کے طور پر آگے بڑھانے کے مختلف مراحل کے بعد اسے جواز فراہم کرنے اور عربوں اور مسلمانوں سے اسے تسلیم کرانے کے لیے ’’ابراہیمی‘‘ کی بحث چھیڑی گئی، تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ عقیدت و محبت کے شیلٹر تلے یہودیوں، مسلمانوں اور مسیحیوں کو اکٹھا بٹھا کر اب تک اس حوالے سے جو کچھ ہو چکا ہے اسے ’’قابلِ قبول‘‘ قرار دیا جائے۔ علمی حلقوں میں یہ بحث ایک عرصہ سے جاری تھی مگر اسے عملی منصوبہ اور مہم کی شکل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِ صدارت میں دی جس کا پہلا عملی اظہار ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ء کو وائٹ ہاؤس واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، بحرین کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عبد اللطیف راشد، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبد اللہ بن زید کے درمیان باقاعدہ معاہدہ طے پا کر اس کے اعلان سے ہوا، اس معاہدہ کی کچھ تفصیلات وائس آف امریکہ اردو کی ۱۷ ستمبر ۲۰۲۰ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہیں:

’’صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی صبح کی بنیاد رکھ رہے ہیں، یہ بات انہوں نے منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں اس وقت کہی جب متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کے وزیراعظم کے ساتھ مل کر ’’ابراہم اکارڈز‘‘ نامی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کا مقصد دو عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’اسرائیل کی پوری تاریخ میں اس سے پہلے صرف دو ایسے معاہدے ہوئے ہیں اور اب ہم نے ایک ہی مہینے میں ایسی دو کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ابھی بھی بہت کچھ باقی ہے‘‘۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ’’یہ معاہدہ یہودیت، اسلام اور مسیحیت میں یکساں طور پر معزز سمجھی جانے والی مذہبی شخصیت کے نام پر رکھا گیا ہے جنہیں تینوں عقائد کے ماننے والوں میں اتحاد کی نمائندگی کرنے والا مانا جاتا ہے‘‘۔ یہ معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے فلسطینیوں پر اَمن معاہدے کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی ایک وسیع تر سفارتی کوشش کا حصہ ہے۔‘‘

حالیہ دنوں ایک اہم واقعہ ہوا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا ہے اور اس سے صورتحال میں جو تبدیلی آ رہی ہے اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کر کے سعودی حکومت کے ساتھ تجارت و معیشت کے حوالہ سے معاملات طے کیے۔ اس موقع پر ان کی طرف سے دو باتیں سوشل میڈیا میں گردش کرتی رہیں جو بہرحال توجہ طلب ہیں۔  ایک یہ کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ہوا تو وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے اور دوسرا یہ کہ انہیں امید ہے کہ سعودی عرب ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ میں شامل ہو جائے گا۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے ہم اپنا موقف متعدد بار واضح کر چکے ہیں اور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کی بات بظاہر عرب اسرائیل سفارتی تعلقات کے حوالے سے کی جاتی ہے لیکن اس کا جو درپردہ پہلو ہے اس پر ہم کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک عرصہ سے عالمی سطح پر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مذاہب کو آپس میں ہم آہنگی بلکہ اتحادِ مذاہب کے عنوان سے باہمی ایڈجسٹمنٹ کی کوئی صورت نکالنی چاہیے جس کی وجہ ہمارے خیال میں یہ ہے کہ چونکہ مذہب کو معاشرتی کردار اور سیاسی و تہذیبی ماحول سے الگ کر کے صرف عقائد اور اخلاقیات کے دائرے میں محدود رکھنے کا فلسفہ عالمی قوتوں نے آپس میں طے کر لیا ہے اور اس کو قبول کرانے میں رکاوٹ صرف مسلم معاشرہ میں پیش آ رہی ہیں کہ حکمران طبقوں سے قطع نظر دینی و عوامی ماحول میں مسلم امت اور عوام مذہب کے معاشرتی و تہذیبی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت میں آمادہ نہیں ہیں اس لیے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ، ہم آہنگی اور یکجہتی کا ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس سے مسلم دنیا کو بھی مذہب کے بارے میں آج کے عالمی فلسفہ کے دائرے میں محصور کیا جا سکے۔

اس کا ایک دائرہ ’’ابراہیمی مذاہب‘‘ کو یکجا کرنے اور ایک میز پر بٹھانے کی یہ کوشش بھی ہے کہ چونکہ مسیحی، یہودی، مسلمانوں اور بعض دانشوروں کے نزدیک ہندو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے انہیں ایک چھت کے نیچے جمع کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے بین الاقوامی ماحول میں محنت کا ایک میدان گرم ہے اور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے، اور اس کے لیے ابوظہبی میں ’’خاندان ابراہیم ہاؤس‘‘ تعمیر بھی کیا جا چکا ہے۔ اس پر علمی حلقوں کے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اور ہم بھی اس سلسلہ میں کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مگر سرِدست ایک دو پرانی یادوں کو گفتگو کے آغاز کے طور پر قارئین کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔

نصف صدی قبل کی بات ہے، ۱۹۷۰ء میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس میں لیبیا کے حکمران جناب معمر قذافی نے اپنے صدارتی خطاب میں یہ بات کہہ دی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی چونکہ بیشتر آسمانی مذاہب کا مرکز و محور ہے اور انہوں نے ہی اپنے ماننے والوں کو ’’مسلم‘‘ ہونے کا خطاب دیا تھا ’’ملۃ ابیکم ابراہیم ہو سماکم المسلمین‘‘ (الحج ۷۸) اس لیے مسلمان کہلانے کے لیے یہ نسبت ہی کافی ہے اور انہیں اپنا مرکز و محور ماننے والوں کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کے عنوان سے الگ تشخص قائم کرنا ضروری نہیں ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ اس وقت مصر کے نائب صدر جناب حسین الشافعی بھی کانفرنس میں شریک تھے اور انہوں نے صدر قذافی کی اس بات کو موقع پر ہی ٹوک دیا تھا کہ ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور ’’مسلمان‘‘ کہلانے کے لیے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور انہیں آخری نبی کے طور پر اپنا پیشوا تسلیم کرنا بھی لازمی ہے، اس کے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہے اور نہ کسی کو مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہم ایک مشاہدہ بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو اسی تناظر یں شکاگو کے ایک سفر میں ہمارے سامنے آیا تھا۔ امریکہ کے ایک سفر میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ رفاقت تھی اور ہم دونوں شکاگو میں چنیوٹ کے ایک تاجر دوست ریاض وڑائچ صاحب مرحوم کے مہمان تھے۔ شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی کے پیروکار ’’بہائیوں‘‘ کا بہت بڑا مرکز ہے جسے دیکھنے اور وہاں کی شب و روز کی سرگرمیاں معلوم کرنے کا مجھے تجسس تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ چھوڑو وہاں کون ہمیں اندر جانے دے گا (کون وڑن دیسی؟)۔ میں نے اصرار کیا تو آمادہ ہوگئے اور ہم اپنے میزبان ریاض وڑائچ صاحب کے ہمراہ وہاں جا پہنچے۔ منتظمین نے ہمیں پہچان لیا اور بڑے احترام کے ساتھ اپنے مرکز کا وزٹ کرایا۔ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں موجود سب مذاہب برحق ہیں اور وہ سب کے جامع ہیں۔ اس کے اظہار کے لیے انہوں نے شکاگو کے اس مرکز کے مین ہال میں، جو بہت بڑا ہال ہے، ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کی عبادت گاہوں کا الگ الگ ماحول بنا رکھا ہے۔ ایک کونے میں مسجد ہے، دوسرے میں چرچ ہے، تیسرے میں مندر ہے اور چوتھے کونے میں یہودیوں کا سینی گاگ ہے جبکہ ہال کے وسط میں گوردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے اور ہر عبادت گاہ کو اس کا پورا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ مسجد اس کونے میں ہے جدھر مکہ مکرمہ ہے، اس میں صفیں بچھی ہوئی ہیں، محراب ہے اور اس میں منبر ہے۔ مسجد کے ایک کونے کی الماری میں قرآن کریم کے چند نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر مذہب والے کو اپنی عبادت گاہ میں آنے اور اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے اور بہت سے لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ایک چھت کے نیچے مسجد، مندر اور چرچ کو دیکھ کر آپ کو کیسا لگا؟ میں نے کہا کہ مسجد اور چرچ تو آپ نے ایک چھت کے نیچے اور ایک چار دیواری کے اندر بنا دیے ہیں لیکن ایک خدا اور تین خداؤں کو کیسے جمع کر لیا ہے؟ مسکرا کر بولے کہ چھوڑیں یہ فلسفہ کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ فلسفہ کی نہیں بلکہ یہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے۔

ہمارے خیال میں یہی تصور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کے پیچھے بھی کارفرما ہے جو اہلِ علم اور دینی قیادتوں کی فوری توجہ کا طالب ہے۔ اور ابھی ابوظہبی میں نیا ’’بيت العائلۃ الابراہيمیۃ‘‘ بنا ہے، خاندانِ ابراہیم کا گھر۔ اب اس کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ صاحب نے سعودیہ سے کہا ہے کہ تم بھی آؤ، مسجد کی امامت تم سنبھالو۔ سعودیہ ابھی تک اس طرف نہیں آ رہا اور سعودیہ کی علماء کونسل نے کہا ہے کہ یہ کفر ہے۔ ہم تو کافی عرصہ سے پڑھ رہے ہیں لیکن یہ بات اب منظر عام پر آ رہی ہے جسے ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کہتے ہیں اور اس پر امریکہ کا صدر سعودی عرب کو دعوت دے رہا ہے کہ تم بھی اس میں شامل ہو۔ یہ کیا ہے؟

قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تذکرے میں تفصیل سے یہ بات ذکر کی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کیونکہ بنی اسرائیل کے بھی باپ بھی ہیں، بنی اسماعیل کے باپ بھی ہیں، اللہ پاک نے ان کو یہ اعزاز بخشا تھا، قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے ’’واذ ابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمہن قال انی جاعلک للناس اماما‘‘ (البقرۃ ۱۲۴) ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو بہت سی آزمائشوں میں ڈالا، وہ پورے اترے، ہم نے ان سے کہا کہ ہم آپ کو نسلِ انسانی کی امامت عطا فرمائیں گے۔

یہ نسلِ انسانی کی امامت کیا ہے؟ تمام مذاہب کا سر چشمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات ہے۔ بیت اللہ بھی ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دعا ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے کی تھی کہ ’’ربنا وابعث فیہم رسولاً‌‘‘ (البقرۃ ۱۲۹) یا اللہ! ہماری اولاد میں ایک رسول پیدا کر۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں ’’انا دعوۃ ابی ابراہیم و بشریٰ عیسیٰ‘‘ میں اپنے دادا جی ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام، جن کا لقب اسرائیل ہے، وہ ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ ان سے بنی اسرائیل پھر آگے چلی، تورات، انجیل، زبور، موسیٰ علیہ السلام، داؤد علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، یہ سارے نبی انہی میں آئے ہیں۔ یہ دونوں خاندان جو دنیا کے بڑے مذہبی خاندان تھے ان دونوں کے دادا جی ابراہیم علیہ السلام تھے۔ ایک پہلو تو یہ ہے۔

اللہ رب العزت نے ابراہیم علیہ السلام کو جو عظمت عطا فرمائی ہے قربانیوں پر پورا اترنے کے نتیجے میں، اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں مبعوث ہوئے اور آپ کو نبوت ملی تو نبی کریمؐ کو اپنے پہلے دائرہ جزیرۃ العرب میں جن مذاہب سے سامنا تھا، وہ سارے خود کو ابراہیمی کہتے تھے ۔ سب سے پہلا سامنا مکہ کے مشرکین سے ہوا، وہ کہتے تھے ہمیں ابراہیمی ہیں۔ نجران میں عیسائی تھے، وہ کہتے تھے ہم ابراہیمی ہیں۔ مدینہ منورہ میں اور خیبر میں یہودی تھے، وہ کہتے تھے ہم ابراہیمی ہیں۔ اور کچھ صابئین بھی تھے، وہ بھی کہتے تھے کہ ہم ابراہیمی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تئیس سالہ نبوی زندگی میں جن قوموں کا سامنا کرنا پڑا وہ خود کو ابراہیمی کہتے تھے۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں دو ٹوک الفاظ میں تینوں کے دعوے کی تردید کی، فرمایا ’’ماکان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلماً‌ و ماکان من المشرکین‘‘ (اٰل عمران ۶۷) ابراہیم علیہ السلام یہودی بھی نہیں تھے، عیسائی بھی نہیں تھے، مشرک بھی نہیں تھے، موحد مسلمان تھے۔ قرآن مجید نے اس کی ایک واقعاتی ترتیب بھی بیان کی ہے تمہارے مذہب تو بعد میں آئے ہیں۔ یہودی مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تورات سے۔ عیسائی مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل سے۔ فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام تو دو ہزار سال پہلے گزرے ہیں، ان کو یہودی کیسے بنا دیا تم لوگوں نے؟ اور عیسائی تو اس سے بھی دو ہزار سال بعد میں آئے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ تم نے پہلے آنے والی شخصیت کو بعد والے مذاہب کے ساتھ کیسے نتھی کر دیا۔

اور ساتھ ہی اصل ابراہیمیوں کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ’’ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وہذا النبی والذین اٰمنوا‘‘ (اٰل عمران ۶۸) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اصل ساتھی وہ ہیں جو ان کے دور میں ان پر ایمان لائے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان پر ایمان لانے والے ہیں۔قرآن مجید نے صاف کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کے اپنے پیروکار اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ابراہیمی ہے۔ قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ آیا ہے اور اس میں کوئی ابہام کوئی اشکال نہیں ہے کہ کوئی تاویل کیا جا سکے۔

قرآن کریم کی بعض دیگر آیات میں اس کی بنیادی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بنیادی مشن اللہ تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ اور شرک کی تمام صورتوں کی نفی کے ساتھ بت شکنی کا عملی کردار تھا۔ جبکہ ان کی طرف نسبت کے ان دعویداروں میں سے کچھ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا، بعض نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’ابن اللہ‘‘ کا خطاب دیا، اور بعض نے بت پرستی کو فروغ دیا حتیٰ کہ خود ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے تعمیر کردہ حرمِ مکہ کو بتوں کی آماجگاہ بنا دیا۔ اس لیے یہ تینوں گروہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے مشن، عقیدہ اور دین سے ہٹ جانے کے باعث ’’ابراہیمی‘‘ کہلانے کے مستحق نہیں ہیں اور یہ اعزاز اب صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے پاس ہے۔

جو دعوت اب دی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں جو پیغمبر اور مذاہب ہیں وہ سب ٹھیک ہیں، سب ابراہیمی ہیں۔ یہ آواز تو کافی عرصے سے لگ رہی ہے، اب ذرا عالمی سطح پر بلند ہوئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھنے والے مذہب اکٹھے ہو جائیں، یہ بڑی پرانی آواز ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں جزیرۃ العرب میں جن مذاہب سے واسطہ تھا وہ سب ابراہیمی کہلاتے تھے۔ مشرکینِ مکہ اور مشرکینِ عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے، وہ بھی ابراہیمی کہلاتے تھے۔ یہودی بھی ابراہیمی کہلاتے تھے، عیسائی بھی ابراہیمی کہلاتے تھے، اور مسلمان تو ابراہیمی تھے ہی۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ’’ابراہیمیوں‘‘ کی طرف سے مختلف مواقع پر پیشکشیں ہوئی ہیں، وہی جو آج بھی کی جا رہی ہے۔ حضورؐ کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں جو پیشکشیں ہوئی ہیں ان میں سے تین چار کا ذکر کرنا چاہتا تھا ۔

ایک پیشکش یہ ہوئی کہ ’’ودوا لو تدہن فیدہنون‘‘ (القلم ۹) تھوڑی سی آپ اپنے عقیدے میں لچک پیدا کر لیں، تھوڑی سی لچک یہ پیدا کر لیں گے۔ سیرت میں کتابوں میں آتا ہے کہ جناب ابو طالب کی وفات سے کچھ دن پہلے قریش کے سرداروں نے یہ محسوس کیا کہ جناب ابو طالب کی موجودگی میں اگر کوئی آپس میں مصالحت ہو گئی تو ہو جائے گی، بعد میں نہیں ہوگی، تو وہ اکٹھے ہو کر جناب ابو طالب کے پاس آئے کہ اپنے بھتیجے سے ہماری بات کروائیں۔ انہوں نے حضورؐ کو بلا لیا۔ مذاکرات میں دو فارمولے تھے اور تین پیشکشیں تھیں۔

فارمولے یہ تھے کہ جناب آپ اپنی توحید کی بات کریں اور اللہ کی صفات بیان کریں لیکن ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیں، ان کی نفی نہ کریں کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور حرم میں کریں ہم نہیں روکتے، لیکن ہم اپنے بت خانوں میں جو کرتے ہیں وہ ہمیں کرنے دیں، کبھی ہم آپ کے پاس آ جایا کریں گے، کبھی آپ بھی ہمارے پاس آجایا کریں۔ یہ دو فارمولے تھے ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کے۔

جبکہ پیشکشیں تین تھیں کہ اگر یہ آپ کو فارمولا قبول کر لیں تین باتوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیں۔ (۱) بتائیں کتنے پیسے چاہئیں، ہم اکٹھے کر دیتے ہیں۔ (۲) نشاندہی کریں کہ عرب کی کون سی خاتون سے شادی کرنی ہے، ہم کروائیں گے ۔ (۳) آپ فرمائش کریں، ہم آپ کو علاقے کا سردار بنا دیتے ہیں۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا؟ وہ مشہور جواب اسی موقع کا ہے کہ میرے دائیں ہاتھ پہ سورج اور بائیں ہاتھ پہ چاند رکھ دو تب بھی میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ اور قرآن مجید نے بھی اس کا دو مقامات پر ذکر کیا ہے۔ ایک یہ کہ ’’ودوا لو تدہن فیدہنون، ولا تطع کل حلاف مہین‘‘ (القلم ۹، ۱۰) اور دوسرا ’’قل یا ایہا الکافرون، لا اعبد ما تعبدون‘‘ میں تمہارے بت خانے میں عبادت کے لیے نہیں آؤں گا، تم سے ایک اللہ کی عبادت نہیں ہو گی ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ تم اپنے گھر، میں اپنے گھر۔

یہ ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ تھی اور اس کی حضورؐ کو پیشکش ہوئی تھی۔ قرآن کریم نے مشرکینِ مکہ کی طرف سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک پیشکش کا اور ذکر کیا ہے۔ فرمایا ’’واذا تتلیٰ علیہم اٰیاتنا بینات قال الذین لا یرجون لقائنا ائت بقرآن غیر ہذا او بدلہ‘‘ آپ جو قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ٹھیک ہیں مان لیں گے لیکن یہ قرآن نہیں، یا تو متبادل لے کر آئیں یا اس میں ردوبدل کر لیں۔ اللہ پاک نے اس کا جواب بھی قرآن مجید میں دلوایا ’’ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاءِ نفسی ان اتبع الا ما یوحیٰ الی‘‘ (یونس ۱۵) آپ فرما دیجیے کہ مجھے قرآن میں ردوبدل کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے، میں تو وحی کا پابند ہوں۔

پھر ایک موقع آیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل کے پاس گئے۔ انہی مذاکرات کے نتیجے میں انصارِ مدینہ آئے تھے اور بیعت کی تھی۔ اس زمانے میں ایک بڑا قبیلہ تھا جس کا ایک سردار تھا عامر بن طفیل، عرب کے بڑے سرداروں میں سے تھا۔ اس نے حضور کے ساتھ مذاکرات کی فضا میں یہ پیشکش بھجوائی کہ ٹھیک ہے ہم آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، دو شرطوں میں سے ایک شرط مان لیں۔ (۱) یا تو تقسیم کر لیں کہ میدانی علاقے آپ کے، شہری علاقے ہمارے۔ (۲) یا پھر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ نامزد کر دیں۔ ورنہ تیار ہو جائیں میں بنو غطفان کے بندے اکٹھے کروں گا اور آپ سے لڑوں گا۔ اس کو تو اللہ پاک نے اسی سفر میں سنبھال لیا راستے میں ایک جگہ ٹھہرا، طاعون کا پھوڑا نکلا، وہیں ہلاک ہو گیا۔ بہرحال پیشکش یہ تھی کہ یا علاقہ تقسیم کر لو یا خلافت دے دو تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔

یہی پیشکش مسیلمہ کذاب نے کی تھی، بنو حنیفہ کا بہت بڑا اور جنگجو قبیلہ تھا۔ پہلا لشکر جو مسیلمہ کا مقابلے پر آیا تھا وہ اَسی ہزار کا بتایا جاتا تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خود آیا مدینہ منورہ میں حضور سے اس ملاقات ہوئی۔ پھر ایک دفعہ وفد اور خط بھیجا۔ اس کا کہنا بھی یہی تھا، اس کے خط کا مضمون بخاری شریف میں موجود ہے۔ ’’اشرکت معک فی الامر ولکن قریشاً‌ قوم یعتدون‘‘ کہ مجھے آپ کے ساتھ شراکت دار بنایا گیا ہے لیکن یہ قریشی مانتے نہیں ہیں۔ وہ مقابلے کا نبی نہیں بنا تھا، اس نے شراکت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس نے وہی عامر بن طفیل والی پیشکش کی کہ (۱) شہری نبی آپ، دیہاتی نبی میں، (۲) یا پھر اپنے بعد مجھے خلیفہ نامزد کر دیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ حضورؐ نے مسترد فرما دی۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ پیشکشیں حضورؐ کو بھی ہوئی تھیں، سیاسی بھی ہوئی تھیں، اعتقادی بھی ہوئی تھیں، احکام کی بھی ہوئی تھیں۔ ایک پیشکش کا اور ذکر کر دیتا ہوں۔ مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعد جب طائف کا محاصرہ کامیاب نہیں ہو سکا اور حضورؐ واپس آ گئے تو طائف کے بنو ثقیف وفد لے کر حضورؐ کے پاس آئے۔ کہا کہ ٹھیک ہے ہم کلمہ پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ہماری شرطیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں شراب حرام ہے، ہمارا علاقہ انگوروں کا ہے، شراب ہی بنتی ہے اس سے، ہم شراب نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کہتے ہیں سود حرام ہے، ہمارا سارا کاروبار سود پر ہے، یہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کہتے ہیں پانچ وقت کی نماز فرض ہے، ٹھیک ہے لیکن اوقات ہم خود طے کریں گے۔ آپ کہتے ہیں زنا حرام ہے، ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے، گزارا نہیں ہوتا اس لیے یہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور آپ ہمارا بت ’’لات‘‘ نہیں گرائیں گے۔ میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ یہ پانچ کام تو ہم نہیں کریں گے، اگر کلمے میں کچھ اور باقی رہ گیا ہو تو ہمیں پڑھا دیں۔ حضورؐ نے مسترد فرما دیں۔

تین دائروں کی پیشکشیں ہیں۔ سیاسی دائرے کی، جب مکے والوں نے سردار بنانے کی پیشکش کی تھی۔ عامر بن طفیل نے پورے صحرائی علاقوں کا حکمران ماننے کی پیشکش کی تھی۔ مسیلمہ کذاب نے شہری علاقوں کا حاکم ماننے کی پیشکش کی تھی۔ مکے والوں نے ایک دوسرے کے پاس آ جا کر عبادت میں شریک ہونے کی پیشکش کی تھی۔ اور بنو ثقیف نے احکام میں ردوبدل کرنے کی پیشکش کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کوئی پیشکش قبول نہیں فرمائی اور صاف اعلان فرما دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اعلان کروایا ’’قل یا ایہا الکافرون۔ لا اعبد ما تعبدون۔ ولا انتم عابدون ما اعبد۔ ولا انا عابد ما عبدتم۔ ولا انتم عابدون ما اعبد۔ لکم دینکم ولی دین‘‘۔ فرمایا کوئی سودے بازی نہیں، کوئی سمجھوتہ نہیں، کوئی اتحاد نہیں۔ میں نے یہ گزارش کی ہے کہ آج بھی ہمیں یہی پیشکش ہو رہی ہے جو عالمی سطح پر ہے اور امریکی صدر ٹرمپ صاحب کی طرف سے ہے۔ ہمارا جواب بھی وہی ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔

میں نے یہ عرض کیا ہے کہ یہ جو نیا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب مذہب سچے ہیں، ایک اللہ کی بات بھی سچی ہے، تین خداؤں کی بات بھی سچی ہے، نو کروڑ خداؤں کی بات بھی سچی ہے۔ نہیں بھئی، دھوکہ نہیں دو۔ ایک ایک ہوتا ہے، تین تین ہوتے ہیں۔ توحید توحید ہے، شرک شرک ہے۔ یہ بہت بڑے فتنے کا آغاز ہے جو پوری دنیا میں پھیلے گا، اور پھیلانے کے لیے قیادت جناب ٹرمپ فرما رہے ہیں جو خود جا کر جگہ جگہ دعوت دے رہے ہیں کہ ابراہیمی معاہدے میں شریک ہوں۔ ہم نے کبھی یہ معاہدہ تسلیم نہیں کیا، آج بھی نہیں تسلیم کرتے اور کبھی نہیں تسلیم کریں گے۔ ابھی ہمیں اس کی دعوت نہیں ملی ، ان شاء اللہ اس کی جرأت بھی نہیں کریں گے، وہ پاکستان کو جانتے ہیں۔ لیکن میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ یہ دعوت کہ سارے اکٹھے ہو جاؤ اور جھگڑے چھوڑ دو، یہ کفر ہے۔ ورنہ اسلام کو الگ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ پھر ابوبکرؓ اور ابوجہل میں فرق کیا رہ جائے گا؟ اس لیے جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے، قرآن مجید کے خلاف ہو رہا ہے، اور ہم ان شاء اللہ العزیز کبھی اس فلسفے کو قبول نہیں کریں گے، اور نہ ہی پاکستان کو قبول کرنے دیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔

(الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۶

’’ابراہام اکارڈز‘‘ کا وسیع تر تناظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ کامران حیدر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

خواتین کی شادی کی عمر کے تعین کے حوالے سے حکومت کی قانون سازی غیر اسلامی ہے
ڈاکٹر محمد امین

مسئلہ فلسطین: اہم جہات کی نشاندہی
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

آسان حج قدم بہ قدم
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

عید و مسرت کا اسلامی طرز اور صبر و تحمل کی اعلیٰ انسانی قدر
قاضی محمد اسرائیل گڑنگی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

تعمیرِ سیرت، اُسوۂ ابراہیمؑ کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۴)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۱)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

مولانا واضح رشید ندویؒ کی یاد میں
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۳)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ: علم کا منارہ، قرآن کا داعی
حافظ عزیز احمد

President Trump`s Interest in the Kashmir Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

احیائے امت کا سفر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر ذیشان احمد
اویس منگل والا

بین الاقوامی قانون میں اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
آصف محمود

فلسطین کا جہاد، افغانستان کی محرومی، بھارت کی دھمکیاں
مولانا فضل الرحمٰن

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ کے معاملے میں تاخیر
مڈل ایسٹ آئی

پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع
ٹربیون
انڈپینڈنٹ اردو

سنیٹر پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات
میڈیا

قومی وحدت، دستور کی بالادستی اور عملی نفاذِ شریعت کے لیے دینی قیادت سے رابطوں کا فیصلہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود‘‘
وزیر اعظم میاں شہباز شریف

پاک بھارت جنگی تصادم، فوجی نقطۂ نظر سے
جنرل احمد شریف
بکر عطیانی

بھارت کے جنگی جنون کا بالواسطہ چین کو فائدہ!
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

اللہ کے سامنے سربسجود ہونے کا وقت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ہم یہود و ہنود سے مرعوب ہونے والے نہیں!
مولانا فضل الرحمٰن

جنگ اور فتح کی اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات
مولانا طارق جمیل

مالک، یہ تیرے ہی کرم سے ممکن ہوا
مولانا رضا ثاقب مصطفائی

بھارت نے اپنا مقام کھو دیا ہے
حافظ نعیم الرحمٰن

دس مئی کی فجر ایک عجیب نظارہ لے کر آئی
علامہ ہشام الٰہی ظہیر

 قومی وحدت اور دفاع کے چند تاریخی دن
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنیانٌ مرصوص کے ماحول میں یومِ تکبیر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہلال خان ناصر

پاک بھارت کشیدگی کے پانچ اہم پہلو
جاوید چودھری
فرخ عباس

پاک بھارت تصادم کا تجزیہ: مسئلہ کشمیر، واقعہ پہلگام، آپریشن سِندور، بنیانٌ مرصوص، عالمی کردار
سہیل احمد خان
مورین اوکون

بھارت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن کمزوری دکھا کر رہ گیا
الجزیرہ

پاک بھارت کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مسئلہ کشمیر پر پہلی دو جنگیں
حامد میر
شایان احمد

مسئلہ کشمیر کا حل استصوابِ رائے ہے ظلم و ستم نہیں
بلاول بھٹو زرداری

پہلگام کا واقعہ اور مسئلہ کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مسئلہ کشمیر میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ کشمیر اب تک!
الجزیرہ

کشمیر کی بٹی ہوئی مسلم آبادی
ڈی ڈبلیو نیوز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter