(519) وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ کا مطلب
درج ذیل آیت میں تین باتیں غور طلب ہیں۔ ایک یہ کہ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ کا الوالدان پر عطف ہے یا وہاں سے نیا جملہ شروع ہوتا ہے جس کا وہ مبتدا ہے؟ دوسری بات یہ کہ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد کون لوگ ہیں جن کا شریعت میں حصہ ہے، جسے دینے کا اس آیت میں حکم ہے؟ تیسری بات یہ کہ فَآتُوہُمْ نَصِیبَہُمْ میں کن لوگوں کو ان کا حصہ دینے کی بات ہے؟ ھم ضمیر کا مرجع صرف وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ ہے یا آیت میں مذکور تینوں کے موالی یعنی وارثین ہیں؟
عام طور سے لوگوں نے وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ کو نئے جملے کا مبتدا مانا ہے اور ان سے مراد وہ لوگ لیے ہیں جن سے بھائی چارے کا معاہدہ ہو۔ پھر یہ بحث بھی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے یا باقی ہے۔ غرض وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ سے معاہداتی رشتہ اخوت مراد لینے سے کئی پیچیدہ سوالات سامنے آتے ہیں۔ بعض ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُونَ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَآتُوہُمْ نَصِیبَہُمْ (النساء: 33)
’’ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے مقرر کر دیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہدہ کیا ہے انہیں ان کا حصہ دو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور ہم نے والدین اور قرابت مندوں کے چھوڑے ہوئے میں ہر ایک کے لیے وارث ٹھہرا دیے ہیں اور جن سے تم نے کوئی پیمان باندھ رکھا ہو تو ان کو ان کا حصہ دو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور ہم نے سب کے لیے مال کے مستحق بنادیے ہیں جو کچھ چھوڑ جائیں ماں باپ اور قرابت والے اور وہ جن سے تمہارا حلف بندھ چکا انہیں ان کا حصہ دو‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو (حق داروں میں تقسیم کردو کہ) ہم نے ہر ایک کے حق دار مقرر کردیے ہیں اور جن لوگوں سے تم عہد کرچکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور ہم نے ہر شخص کے لیے وارث مقرر کر دیے ہیں، جو کچھ ماں، باپ اور قریب ترین رشتہ دار اور جن سے تم نے عہدوپیمان کر رکھا ہے، چھوڑ جائیں انہیں (وارثوں کو) ان کا حصہ دو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے یہاں قابل ذکر ہے۔ ان کے مطابق وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد عقد نکاح سے وجود میں آنے والے شوہر بیوی کے رشتے ہیں۔ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ کا عطف الوالدان پر ہے۔ آیت میں تینوں (الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُونَ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ) کے وارثین کو ان کا حصہ دینے کا حکم ہے۔ دراصل رشتے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک والدین جن سے انسان کا جنم ہوتا ہے۔ دوسرے خونی رشتے جنھیں اقربین کہا گیا ہے، جیسے اولاد اور بھائی بہن۔ ان دو کے علاوہ بس ایک رشتہ اور ہے جو عقد اور معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے اور وہ شوہر اور بیوی کا رشتہ ہے۔ قرآن میں مذکور وراثت کا نظام اصل میں انھی تینوں طرح کے وارثوں پر مشتمل ہے۔ اس آیت میں انھی تین طرح کے وارثوں کو ان کا حصہ جو اسی سورۃ النساء میں مذکور ہے، ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس توجیہ کی روشنی میں ترجمہ اس طرح ہوگا:
’’اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور رشتہ دار اور وہ (شوہر یا بیوی) چھوڑیں جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوئے ہیں، تو ان کا حصہ انھیں دو‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(520) مَا طَابَ لَکُمْ کا ترجمہ
طاب کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کا اپنے آپ میں مناسب اور سازگار ہونا۔ فیروزابادی لکھتے ہیں: طابَ: لَذَّ وَزَکَا (القاموس المحیط)۔ پسند آنے کے لیے عربی میں أعجب کا لفظ آتا ہے۔ جیسے قرآن میں ہے: وَلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ (الاحزاب: 52) (اگرچہ ان کا حسن تمھیں پسند آجائے) درج ذیل آیت میں پسند آنے کے بجائے سازگار ہونا بہتر ترجمہ ہے۔
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوا فِی الْیَتَامَی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ (النساء: 3)
’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے جائز ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کرلو اور اگر ڈر ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک پر بس کرو یا پھر کوئی لونڈی جو تمہاری ملک میں ہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، طاب کا مطلب جائز ہونا نہیں ہے۔)
’’اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں‘‘۔ (سید مودودی، اس ترجمے میں ایک غلطی یہ ہے: ’’یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں‘‘ یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنی لونڈیوں سے نکاح نہیں کیا جاتا، ان سے ملکیت کا رشتہ ہوتا ہے نہ کہ زوجیت کا رشتہ۔ زوجیت میں لانے کے لیے انھیں آزاد کرنا ہوگا۔ جب وہ آزاد ہوجائیں گی تو وہ عام عورتوں کے حکم میں ہوں گی، پھر الگ سے ان کے ذکر کی معنویت ختم ہوجائے گی۔ ’’بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو‘‘ کے بجائے ’’انصاف نہ کرپانے کا اندیشہ ہو‘‘ بہتر ترجمہ ہوگا۔)
’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، یتامی کا ترجمہ یتیم لڑکیوں کرنا درست نہیں ہے۔ یتامی میں تو لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔ پھر جملے میں نکاح کرنے کا ذکر بھی نہیں ہے۔ یہ باتیں تفسیر میں بیان کی جاسکتی ہیں لیکن ترجمہ تو لفظ کے مطابق ہونا چاہیے۔)
’’اور اگر ڈرو کہ انصاف نہ کرو گے یتیم لڑکیوں کے حق میں تو نکاح کرو جو تم کو خوش آویں عورتیں دو دو تین تین چار چار پھر اگر ڈرو کہ برابر نہ رکھو گے تو ایک ہے یا جو اپنے ہاتھ کا مال ہے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر، طاب کا ترجمہ مناسب ہے البتہ یتامی کا ترجمہ یتیم لڑکیاں مناسب نہیں ہے۔)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم سے یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ ہوسکے گا تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے سازگار ہوں دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کرلو اور اگر ڈر ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک پر بس کرو یا پھر کوئی لونڈی جو تمہاری ملک میں ہو‘‘۔
(521) مَا آتَیْتُمُوہُنَّ سے مراد
درج ذیل آیت کے ٹکڑے میں مَا آتَیْتُمُوہُنَّ سے مراد وہ سب کچھ ہے جو شوہر نے بیوی کو دیا ہو۔ مہر بھی اس میں شامل ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ متعین طور پر مہر کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے لفظ کی وسعت متأثر ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں عضل کا مطلب روکنا نہیں بلکہ تنگ کرنا ہے۔ عضل کے لغوی استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ضیق اور تنگی کا مفہوم ہے۔ ابن منظور لکھتے ہیں: وعَضَّلَ عَلَیْہِ فِی اَمرہ تَعْضِیلًا: ضَیَّق مِنْ ذَلِکَ وحالَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ مَا یُرِیدُ ظُلْمًا۔ وعَضَّلَ بِہِمُ المکانُ: ضَاق۔ وعَضَّلَتِ الاَرضُ باَہلہا اِذا ضَاقَتْ بِہِمْ لِکَثْرَتِہِمْ۔ (لسان العرب)
زیر نظر آیت میں تنگ کرنے کا ترجمہ کرنے سے بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ روکنا بھی اس کا ایک معنی ہے مگر وہ یہاں موزوں معلوم نہیں ہوتا۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَلَا تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ۔ (النساء: 19)
’’اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’انہیں اس لیے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے، اس میں سے کچھ لے لو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’ اور نہ یہ جائز ہے۔ کہ ان پر سختی کرو اور روکے رکھو تاکہ جو کچھ تم نے (جہیز وغیرہ) انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ لے اڑو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور نہ یہ بات جائز ہے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے ان کو تنگ کرو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(522) حَلَائِلُ کا ترجمہ
لفظ حلیلۃ کا اطلاق بیوی پر بھی ہوتا ہے، لیکن اس کے معنی میں وسعت ہے۔ بیوی کے ساتھ لونڈی بھی اس میں شامل ہے۔ ترجمہ میں اس وسعت کا اظہار کرنا زیادہ مناسب ہے، ترجمے دیکھیں:
وَحَلَائِلُ اَبْنَائِکُمُ الَّذِینَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ۔ (النساء: 23)
’’اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور تمہارے نسلی بیٹوں کی بیبییں ‘‘۔(احمد رضا خان)
’’اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور عورتیں تمہارے بیٹوں کی جو تمہاری پشت سے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور ان عورتوں سے جن سے تمہارے ان بیٹوں کا جو تمہارے صلب سے ہیں ازدواجی تعلق قائم ہوچکا ہے‘‘۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(523) وَأَنْ تَجْمَعُوا کا ترجمہ
درج ذیل آیت کے ٹکڑے کے بعض ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَاَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ۔ (النساء: 23)
’’اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور یہ بھی حرام قرار دیا گیا کہ دو بہنوں کو ایک نکاح میں اکھٹا کرو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اور دو بہنوں کو (ایک نکاح میں) اکٹھا کرنا حرام ہے‘‘۔ (احمد علی)
مذکورہ بالا ترجموں میں لفظ ’ایک نکاح‘ درست نہیں ہے۔’ ایک نکاح‘ کہنے سے یہ بات نکل سکتی ہے کہ دو نکاح کے ذریعے دو بہنوں کو جمع کرسکتے ہیں۔ صرف ’نکاح ‘ کہیں ، تب بھی یہ کم زوری پیدا ہوتی ہے کہ دو سگی بہنوں کو ملک یمین کی صورت میں جمع کرنا اس ممانعت میں شامل نہیں ہوگا، جب کہ وہ بھی شامل ہے۔
درج ذیل ترجمے درست ہیں:
’’اور دو بہنیں اکٹھی کرنا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور یہ کہ تم دو بہنوں کو بیک وقت جمع کرو‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے میں ’نہ‘ غلطی سے درج ہوگیا ہے۔ ممنوع باتیں ذکر ہورہی ہیں، تو ساتھ رکھنا منع ہے نہ کہ ساتھ نہ رکھنا۔
’’اور یہ کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نہ رکھو‘‘۔(اشرف علی تھانوی)
(524) نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ کا ترجمہ
درج ذیل آیت کے ٹکڑے میں سیئات کا لفظ آیا ہے۔ سیئات کا مطلب برائیاں ہیں وہ چھوٹی ہوں یا بڑی ہوں۔ سیئات صرف چھوٹی برائیوں کے لیے نہیں آتا ہے۔ قرآن میں متعدد بار یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ عمومی معنی میں آیا ہے۔ یہاں بھی سیئات کا ترجمہ برائیاں کرنا چاہیے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
اِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ۔ (النساء: 31)
’’اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’تم جن باتوں سے روکے جا رہے ہو اگر ان کے بڑے گناہوں سے تم بچتے رہے تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں جھاڑ دیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’تم جن باتوں سے روکے جا رہے ہو اگر ان کے بڑے گناہوں سے تم بچتے رہے‘‘ یہ غیر فصیح عبارت ہے۔ بڑے گناہوں سے روکے جانے اور انھی سے بچنے کی بات ہے۔ یہاں اضافت صفت کا مفہوم دے رہی ہے۔
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اگر بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن کی تمہیں ممانعت ہے تو تمہارے اور گناہ ہم بخش دیں گے‘‘۔ (احمد رضا خان)
(525) وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی کا ترجمہ
درج ذیل قرآنی عبارت میں دو طرح کے پڑوسیوں کا ذکر ہے:
وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ۔ (النساء: 36)
’’اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے‘‘۔ (سید مودودی)
اس ترجمے میں وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی کا ترجمہ درست نہیں ہے۔ اس میں رشتے دار کو موصوف بنادیا ہے اور پڑوسی کو صفت۔ حالاں کہ عبارت کی رو سے پڑوسی موصوف ہے۔ درج ذیل تینوں ترجمے درست ہیں:
’’اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’قرابت دار پڑوسی، بیگانہ پڑوسی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمہ بھی نادرست ہے۔ پاس اور دور کے پڑوسی کی بات نہیں ہے، بلکہ رشتے دار پڑوسی اور غیر رشتے دار پڑوسی کی بات ہے۔ ذی القربی کا مطلب رشتے دار پڑوسی چاہے وہ غیر رشتے دار پڑوسی سے کچھ زیادہ فاصلے پر کیوں نہ ہو۔
’’اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے‘‘۔ (احمد رضا خان)
(526) ہَؤُلَائِ أَہْدَی مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلًا کا ترجمہ
اسم تفضیل کبھی یہ بتانے کے لیے آتا ہے کہ مذکورہ صفت دونوں افراد میں ہے مگر ایک فرد میں زیادہ ہے اور کبھی یہ بتانے کے لیے بھی آتا ہے کہ ایک میں ہے اور دوسرے میں نہیں ہے۔ درج ذیل آیت میں اسم تفضیل ’اَہْدَی‘ اسی دوسرے مفہوم میں ہے۔ اہل کتاب یہ نہیں کہتے تھے کہ مومنین ہدایت پر ہیں اور کفار ان سے زیادہ ہدایت پر ہیں۔ وہ تو یہ کہتے تھے کہ کفار ہدایت پر ہیں اور یہ لوگ جو خود کو مومن کہتے ہیں گم راہ ہیں۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا ہَؤُلَائِ اَہْدَی مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلًا۔ (النساء: 51)
’’ اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
’’اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پر تو یہ ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمہ مفہوم کی صحیح ادائیگی کرتا ہے:
’’اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے رستے پر ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں کے مقابلے میں یہ ہدایت پر ہیں‘‘۔