(455) کفرہ اور کفر بہ میں فرق
قرآن مجید میں کفر بہ تو کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اکثر جگہوں پر انکار کے معنی میں اور کہیں کہیں ناشکری کے معنی میں۔ جب کہ کفرہ چند مقامات پر آیا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق کا ذکر ہمیں عام طور سے نہیں ملتا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کفرہ اور کفر بہ کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کفر کے بعد اگر باء نہ ہو تو کفر انکار کا معنی نہیں بلکہ ناشکری کا معنی دیتا ہے۔ حدیث میں لتکفرن العشیر ناشکری کے معنی میں آیا ہے۔ قرآن کی درج ذیل آیت میں عام طور سے کفر کا ترجمہ ناشکری کیا گیا ہے، کیوں کہ واضح طور پر شکر کے سیاق میں بات ہورہی ہے:
(۱) فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ۔ (البقرۃ: 152)
”سو تم مجھے یاد کرو۔ میں تمہیں یاد کیا کروں گا۔ اور میرے احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اس لیے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو“۔ (محمد جوناگڑھی)
”تو تم یاد رکھو مجھ کو میں یاد رکھوں تم کو اور احسان مانو میرا اور ناشکری مت کرو“۔(شاہ عبدالقادر)
البتہ ذیل کے ترجمے میں کفر کا ترجمہ کفر کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے:
”پس یاد کرو تم مجکو یاد کروں گا تم کو اور شکر کرو واسطے میرے اور کفر نہ کرو مجھ سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
(۲) وَمَا یَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُکْفَرُوہُ۔ (آل عمران: 115)
اس آیت میں کفر دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے۔ اس وجہ سے بعض نے اس کا ترجمہ محروم کرنا کیا ہے، کچھ لوگوں نے لفظ کفر کو دیکھ کر انکار کرنا کیا ہے۔ لیکن مناسب ترین ترجمہ ناقدری کرنا ہے۔ یہ دراصل فَأُولَءِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَشْکُورًا (الاسراء: 19) کے ہم معنی تعبیر ہے۔ ایک جگہ کہا گیا ہے کہ قدر کی جائے گی دوسری جگہ کہا گیا کہ ناقدری نہیں کی جائے گی۔ اب ذیل کے ترجمے ملاحظہ ہوں:
”اور جو بھی نیکی یہ کریں گے تو اس سے محروم نہیں کیے جائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور وہ جو بھلائی کریں ان کا حق نہ مارا جائے گا“۔ (احمد رضا خان)
”یہ جو بھی خیر کریں گے اس کا انکار نہ کیا جائے گا“۔ (ذیشان جوادی)
”اور یہ لوگ جو نیک کام کریں گے اس سے محروم نہ کیے جاویں گے“۔ (اشرف علی تھانوی)
”اور جو کریں گے نیک کام سو ناقبول نہ ہوگا“۔ (شاہ عبدالقادر)
”یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں ان کی ناقدری نہ کی جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)
آخری دونوں ترجمے مناسب اور واضح ہیں۔
البتہ درج ذیل دونوں آیتوں میں کفر کا ترجمہ عام طور سے کفر و انکار کیا گیا ہے، اگر کفرہ اور کفر بہ میں مذکورہ بالا فرق کا لحاظ کیا جائے تو دونوں جگہ ناشکری کرنا ترجمہ ہونا چاہیے۔
(۳) أَلَا إِنَّ عَادًا کَفَرُوا رَبَّہُمْ۔ (ہود: 60)
”دیکھو عاد نے اپنے پروردگار سے کفر کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”سنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا“۔ (سید مودودی)
”سن لو! بیشک عاد اپنے رب سے منکر ہوئے“۔ (احمد رضا خان)
”دیکھ لو قوم عاد نے اپنے رب سے کفر کیا“۔ (محمد جونا گڑھی)
”سنو عاد نے اپنے رب کی ناشکری کی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(۴) أَلَا إِنَّ ثَمُودَ کَفَرُوا رَبَّہُمْ۔ (ہود: 68)
”سنو! ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا“۔ (سید مودودی)
”سن لو! بیشک ثمود اپنے رب سے منکر ہوئے“۔ (احمد رضا خان)
”سن رکھو کہ ثمود نے اپنے پروردگار سے کفر کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”آگاہ رہو کہ قوم ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”سنو ثمود نے اپنے رب کی ناشکری کی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(456) مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ
درج ذیل آیت میں مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ کا تعلق سابقہ مذکور باتوں میں کس سے ہے؟
کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ۔ (ہود: 1)
اس بارے میں تین رائے ہوسکتی ہیں۔ صرف فصلت سے، یعنی آیتوں کی تفصیل اللہ کی طرف سے ہے۔ أُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ سے، یعنی آیات کا محکم اور مفصل ہونا اللہ کی طرف سے ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اسے خبر مانا جائے، اور کتاب کو مبتدا یا مبتدا محذوف کی خبر اوّل مانا جائے۔ یعنی یہ کتاب ہے جو حکیم و خبیر کی طرف سے ہے۔ دوسری صورت میں پہلی صورت بھی شامل ہوجاتی ہے اور تیسری صورت میں پہلی اور دوسری صورت بھی شامل ہوجاتی ہے۔ یعنی جب کتاب اللہ کی طرف سے ہے تو اس کا محکم و مفصل ہونا بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اس لحاظ سے تیسری صورت بہتر ہے۔
کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ۔
”یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے“۔ (احمد رضا خان)
”یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ہیں اور ایک صاحبِ علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں“۔ (ذیشان جوادی)
”یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی“۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا ترجموں میں من لدن حکیم خبیر کو صرف فصلت سے متعلق مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔
”فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے“۔ (سید مودودی، اس ترجمہ میں ثم کی رعایت بھی نہیں ہے۔ رعایت کی صورت میں ترجمہ ہوگا: ”جس کی آیتیں پختہ ہیں پھر ان کی تفصیل کی گئی ہے“۔) اس ترجمہ میں لگتا ہے کہ أحکمت اور فصلت دونوں سے متعلق مانا گیا ہے۔
”یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم اور مضبوط بنائی گئی ہیں اور پھر تفصیل کے ساتھ کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں یہ اس کی طرف سے ہے جو بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے“۔(محمد حسین نجفی)
یہ آخری ترجمہ بہتر ہے۔ اس ترجمہ میں من لدن حکیم خبیر کو خبر مانا گیا ہے۔
(457) بَادِیَ الرَّأْیِ کا ترجمہ
وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلَّا الَّذِینَ ہُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأْیِ۔ (ہود: 27)
”اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس اُن لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے“۔ (سید مودودی)
”اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری پیروی کسی نے کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے“۔ (احمد رضا خان)
”اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں)“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ہم (تمہاری پیروی کرنے والوں میں) انھی کو پاتے ہیں جو ہمارے اندر کے ذلیل لوگ بے سمجھے بوجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا ترجموں میں بادی الرّأی کا ترجمہ بے سوچے سمجھے کیا گیا ہے۔ عربی تفاسیر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہی مفہوم عام طور سے لیا گیا ہے۔ اگر بادئ ہوتا (ہمزہ کے ساتھ) تو یہ مفہوم لینا درست ہوتا۔ یعنی زیادہ سوچا نہیں جو رائے شروع میں بن گئی اسے پکڑلیا۔ لیکن یہاں بادی ہے بدا یبدو سے، جس کا مطلب ظاہر و واضح ہونا ہوتا ہے۔ بادی الرأی کی ترکیب دراصل موصوف صفت کی اضافت کی ہے۔ یعنی اصل میں وہ الرأی البادی ہے، یعنی واضح بات۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی بادی الرّأی کا ترجمہ کرتے ہیں: واضح طور سے۔
”اور ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے تمہاری پیروی اختیار کی ہے“۔
امام لغت الفراء نے یہ بات بخوبی واضح کی ہے:
(بادِیَ الرَّأْیِ) لا تَہمز (بادِیَ) لأن المعنی فیما یظہرُ لنا و یبدو. ولو قرأت (بادیء الرأی) فہمزت ترید أوّل الرأی لکان صوابًا. (معانی القرآن)
(458) وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ آیا ہے۔ جب کہ باقی تین باتوں کے ساتھ لا أقول آیا ہے۔ بعض لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا کہ جیسے أَعْلَمُ الْغَیْبَ کے ساتھ بھی لا أقول ہو۔
وَلَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَاءِنُ اللَّہِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّی مَلَکٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِینَ تَزْدَرِی أَعْیُنُکُمْ لَنْ یُؤْتِیَہُمُ اللَّہُ خَیْرًا۔ (ہود: 31)
”اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا“۔ (سید مودودی،لَنْ یُؤْتِیَہُمُ کا ترجمہ ماضی نہیں مستقبل کا ہوگا: اللہ انھیں ہرگز کوئی بھلائی نہ دے گا)
”اور میں تمہارے سامنے یہ دعوی نہیں کرتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا اور نہ یہ دعوی کرتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں اور نہ میں ان لوگوں کے بارے میں جن کو تمہاری نگاہیں حقیر دیکھتی ہیں، یہ کہہ سکتا کہ خدا ان کو کوئی خیر دے ہی نہیں سکتا“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں کہہ سکتا اور دے ہی نہیں سکتا کی تعبیریں موزوں نہیں ہیں، موزوں تعبیر ہے: یہ کہتا کہ خدا ان کو کوئی خیر نہیں دے گا۔ یہاں استطاعت کی بات نہیں ہے۔)
”اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جان جاتا ہوں“۔ (احمد رضا خان، اور ”نہ یہ کہ“ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی لا اقول ہے۔ درست ترجمہ ہے: اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔)
”میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری، درست ترجمہ: اور نہ میں غیب جانتا ہوں)
”اور میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس تمام خدائی خزانے موجود ہیں اور نہ ہر غیب کے جاننے کا دعوی کرتا ہوں“۔ (ذیشان جوادی، دعوی کرنے کی بات نہیں ہے۔)
مذکورہ بالا تمام ترجموں میں یہ تسامح ہوا ہے کہ انھوں نے لا أعلم الغیب میں بھی لا أقول کا مفہوم شامل کردیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمہ اس غلطی سے خالی ہے۔
”میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا“۔ (محمد جوناگڑھی)
یہ بات کہ اس لا أقول أعلم الغیب کیوں نہیں کہا گیا؟ غور طلب بات ہے۔ اس کی ضرور کوئی حکمت ہوگی۔ لیکن ترجمہ کرتے ہوئے قرآن نے جو فرق قائم کیا ہے اسے بہرحال ملحوظ رکھنا چاہیے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لا أعلم الغیب میں علم غیب کی نفی پر جو زور اور قطعیت ہے وہ لا أقول أعلم الغیب میں نہیں ہے۔
(459) وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ
وراء کا ترجمہ بعض لوگوں نے ’پیچھے‘کیا ہے بعض نے’بعد‘ کیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی دونوں میں ایک لطیف فرق بتاتے ہیں۔ ’پیچھے‘ میں یہ اشارہ ہے کہ یعقوب کی پیدائش جلد ہوگی اور حضرت ابراہیم اور ان کی بیوی اپنی زندگی میں ہی یعقوب کی پیدائش بھی دیکھ لیں گے۔’بعد‘ میں یہ اشارہ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے وراء کا ترجمہ’پیچھے‘ کرنا زیادہ مناسب ہے۔
وَامْرَأَتُہُ قَائِمَةٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ۔ (ہود: 71)
”اور اس کی بی بی کھڑی تھی وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی“۔ (احمد رضا خان)
”اس کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی، تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”ابراہیمؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی وہ یہ سن کر ہنس دی پھر ہم نے اس کو اسحاقؑ کی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی“۔ (سید مودودی)
”اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اس کی بیوی پاس کھڑی تھی۔ وہ ہنسی، پس ہم نے اس کو اسحاق کی خوش خبری دی اور اسحاق کے آگے یعقوب کی“۔ (امین احسن اصلاحی، ’آگے‘ تو غلط ترجمہ ہے، اس سے تو یہ مفہوم نکلے گا کہ یعقوب کی پیدائش پہلے ہوگی۔ یہ تسامح معلوم ہوتا ہے۔)
”پھر ہم نے خوش خبری دی اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی“۔ (شاہ عبدالقادر)
یہاں یہ بات سامنے رہے کہ ایک ہی بار میں دونوں خوش خبریاں دی گئیں، نہ یہ کہ پہلے ایک خوش خبری اور پھر دوسری خوش خبری جیسا کہ بعض لوگوں نے تفسیر میں لکھا ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی بیوی کو کس بات پر ہنسی آئی تھی؟ بعض نے لکھا کہ بیٹے کی بشارت پر، لیکن قرآن میں ہنسی کا ذکر بشارت سے پہلے ہے۔ بعض نے لکھا کہ قوم لوط کے عذاب کی خبر سن کر، لیکن وہ کوئی ہنسنے والی بات نہیں ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ انھیں ہنسی اس بات پر آئی کہ یہ تو فرشتے ہیں اور ہم ان کے سامنے اتنے اہتمام سے کھانا بناکر پیش کررہے ہیں۔ جیسے ہی انھوں نے یہ سنا کہ یہ میہمان جن کے لیے دسترخوان سجایا گیا ہے انسان نہیں فرشتے ہیں انھیں بے ساختہ ہنسی آگئی۔
(460) عَذَاب یَوْمٍ أَلِیمٍ کا ترجمہ
یہاں الیم، عذاب کی صفت نہیں بلکہ یوم کی صفت ہے۔ بعض لوگوں سے اس کا لحاظ کرنے میں تساہل ہوگیاہے۔
(۱) إِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ أَلِیمٍ۔ (ہود: 26)
”مجھے تمہاری نسبت عذاب الیم کا خوف ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”میں تم پر ایک دردناک عذاب کے دن کا اندیشہ رکھتا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
آخری ترجمہ درست ہے۔ مذکورہ بالا آیت کے پہلے دونوں ترجموں میں الیم کو عذاب کی صفت جن حضرات نے بنایا ہے، درج ذیل آیت میں انھی نے درست طور سے اسے یوم کی صفت بنایا ہے۔ حالاں کہ مذکورہ بالا آیت میں عذاب منصوب ہے اور اس غلطی کا امکان کم ہے جب کہ درج ذیل آیت میں عذاب مجرور ہے اور اس غلطی کا امکان زیادہ ہے۔
(۲) فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ أَلِیمٍ۔ (الزخرف: 65)
”پس ہلاکی ہو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے شرک کا ارتکاب کیا ایک دردناک دن کے عذاب کی“۔ (امین احسن اصلاحی)
”سو جو لوگ ظالم ہیں ان کی درد دینے والے دن کے عذاب سے خرابی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
(461) وَعَلَی أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ
حضرت نوح کے ساتھ گنتی کے کچھ لوگ تھے (وَمَا آمَنَ مَعَہُ إِلَّا قَلِیلٌ۔ ہود: 40) اقوام کا مجموعہ تو تھا نہیں کہ کہا جائے کہ سوار ہونے والی اقوام میں سے کچھ قومیں برکت کی مستحق ہوئیں اور کچھ قومیں عذاب کی۔ لیکن زیادہ تر ترجموں میں یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وَعَلَی أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ میں من کو بیانیہ مان لیا گیا ہے (وہ قومیں جو آپ کے ساتھ ہیں)۔ لیکن اگر من کو ابتدا کے لیے مانیں یعنی جو افراد آپ کے ساتھ ہیں ان سے وجود میں آنے والی قومیں، تو مذکورہ اشکال دور ہوجائے گا اور یہ مفہوم واضح ہوجائے گا کہ حضرت نوح کے ساتھ مجموعہ اقوام نہیں تھا بلکہ قلیل افراد تھے جن سے وجود میں آنے والی کچھ اقوام برکتوں کی مستحق ہوئیں اور کچھ عذاب کی۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
قِیلَ یَانُوحُ اہْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَکَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلَی أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمْ ثُمَّ یَمَسُّہُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِیمٌ۔ (ہود: 48)
”حکم ہوا،اے نوحؑ اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامان زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا“۔ (سید مودودی)
”فرمایا گیا اے نوح! کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کیساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر اور کچھ گروہ ہیں جنہیں ہم دنیا برتنے دیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا“۔ (احمد رضا خان)
”حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (جو) تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر (نازل کی گئی ہیں) اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہوں گی جن کو ہم (دنیا کے فوائد سے) محظوظ کریں گے پھر ان کو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”فرما دیا گیا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر، جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر اور بہت سی وہ امتیں ہوں گی جنہیں ہم فائدہ تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)
آخری کے دونوں ترجموں میں، وأمم سے مستقبل کی قومیں مراد لی گئی ہیں لیکن أمم ممن معک سے اس وقت کشتی میں ساتھ رہنے والی اقوام کو مراد لیا ہے۔
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
”ارشاد ہوا اے نوح اترو، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ، اپنے اوپر بھی اور ان امتوں پر بھی جو ان سے ظہور میں آئیں جو تمھارے ساتھ ہیں، اور ایسی امتیں بھی اٹھیں گی جن کو ہم بہرہ مند کریں گے، پھر ان کو ہماری طرف سے ایک عذابِ دردناک پکڑے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)
(462) أُشْہِدُ اللَّہَ کا ترجمہ
قَالَ إِنِّی أُشْہِدُ اللَّہ۔َ (ہود: 54)
”ہودؑ نے کہا،میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں“۔ (سید مودودی)
”اس نے کہا: میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)
دوسرا ترجمہ مناسب اور پہلا نامناسب ہے۔ أشھدہ کا مطلب کسی کو گواہ بنانا ہوتا ہے نہ کہ اس کی گواہی پیش کرنا۔
(463) سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ کا ترجمہ
منضود کا مطلب تہہ بہ تہہ ہوتا ہے۔ (وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ اور تہہ بہ تہہ کیلے۔ الواقعۃ: 29) درج ذیل آیت میں سجیل منضود کا مطلب کیا ہوگا؟ بعض لوگوں نے اس سے لگاتار، پے در پے اور تابڑ توڑ کا مفہوم لیا ہے، شاید اس لیے کہ تہہ بہ تہہ پتھر برسانے کا لفظی مطلب تصورمیں نہیں آتا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک منضود دراصل برسنے کے بعد کی حالت کو بیان کیا گیا ہے۔ یعنی اتنے زیادہ پتھر برسائے گئے کہ وہ برسنے کے بعد تہہ بہ تہہ جم گئے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ۔ (ہود: 82)
”اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے“۔ (سید مودودی)
”اور اس پر کنکر کے پتھر لگا تار برسائے“۔ (احمد رضا خان)
”اور ان پر پتھر کی تہہ بہ تہہ (یعنی پے درپے) کنکریاں برسائیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور برسائیں اس پر پتھریاں کھنگر کی تہ بہ تہ“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے جو تہہ بہ تہہ جم گئے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(463) وَلَا تَطْغَوْا کا ترجمہ
طغی کا ترجمہ کج ہونا نہیں ہے۔ حد سے تجاوز کرنا اس فعل کی شدت کو بیان نہیں کرتا۔ سرکشی کرنا اس لفظ کی صحیح اردو تعبیر ہے۔
وَلَا تَطْغَوْا۔ (ہود: 112)
”اور کج نہ ہونا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور حد سے تجاوز نہ کرنا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اے لوگو! سرکشی نہ کرو“۔ (احمد رضا خان)
(جاری)