اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷٠)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(219)    سورة الصافات کی قسموں کا ترجمہ

سورة الصافات کے شروع میں تین صفتوں کو مقسم بہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ان صفتوں کا موصوف ایک ہی ہے یا الگ الگ ہیں، اس سلسلے میں مختلف رائیں ہیں، تاہم مشہور رائے یہ ہے کہ موصوف ملائکہ یعنی فرشتے ہیں۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اسی سورہ کے آخر میں فرشتوں کے اوصاف کا تذکرہ کیا گیا جس میں انھی صفات کو ترتیب اور الفاظ بدل کر ذکر کیا گیا ہے۔ فرمایا: وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ۔ (الصافات: 164-166) اہم بات یہ بھی ہے کہ شروع کی تینوں آیتوں اور بعد کی ان تینوں آیتوں کو سامنے رکھنے سے دونوں مقامات پر الفاظ کے مفہوم متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا کے مقابل میں وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ہے۔

فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا کے مقابل میں وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ ہے

اور فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا کے مقابل میں وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ہے۔

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا کا ترجمہ تو سب نے صف باندھنے والے کیا ہے۔

فَالزَّاجِرَاتِ کا ترجمہ عام طور سے ڈانٹنے پھٹکارنے والے کیا گیا ہے، کس کو ڈانٹنے والے ہیں؟ اس کے جواب میں بعض لوگ شیاطین کو، بعض گناہ گاروں کو اور بعض بادلوں کو مراد لیتے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا کا مطلب ہے امور تکوینی کو جاری کرنے والے۔ سورة النازعات میں آیا ہے: فَإِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَۃ ۔ (النازعات: 13) یہاں زَجْرَۃسے مراد امر تکوینی ہے، کہ اللہ کی طرف سے بس ایک حکم صادر ہوگا۔ اگرچہ زَجْرَۃ کا ترجمہ عام طور سے ڈانٹ یا اس جیسے لفظ سے کیا گیا ہے:

”تو وہ نہیں مگر ایک جھڑکی“۔ (احمد رضا خان)

”حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی“۔ (سید مودودی)

لیکن یہاں ڈانٹنے اور جھڑکنے کا محل نہیں ہے، ابن عاشور لکھتے ہیں:

وعبر بھا ہنا عن امر اللہ بتکوین اجساد الناس الاموات۔ (التحریر والتنویر)

درست ترجمہ ہے:

”وہ تو بس ایک حکم ہوگا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

سورة الصافات میں بھی زجر کی تشریح علامہ طاہر بن عاشور نے بہت اچھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

والزجر الحث في نھي الأوامر بحيث لا يترك للمامور تباطؤ في الإتيان بالمطلوب والمراد بہ تسخير الملائكۃ المخلوقات التي أمرھم اللہ بتسخيرہا خلقا أو فعلا كتكوين العناصر وتصريف الرياح وإزجاء السحاب إلی الآفاق۔ (التحریر والتنویر)

فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا  کا یہ مفہوم وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس آیت میں لفظ مقام کا ترجمہ عام طور سے مقام یا جگہ کیا گیا ہے جیسے:

”ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقام مقرر ہے“۔ (سید مودودی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ یہاں مقام سے مراد ڈیوٹی اور ذمہ داری ہے، مقام قام یقوم سے ہے جس میں ٹھہرنے کے بجائے کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس طرح ترجمہ ہوگا:

”ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک معین ذمہ داری ہے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

اگر مقام معلوم سے مراد معین ذمہ داری ہے، تو فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی عملی تصویر ہے۔ یعنی فرشتے اللہ تعالی کے امور تکوینی نافذ کرنے والے ہیں۔

فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا کا مفہوم وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ سے متعین ہوجاتا ہے کہ یہاں اللہ کا ذکر وتسبیح مراد ہے، اس لیے یہاں نصیحت کرنے والے یا قرآن کی تلاوت کرنے والے یا وحی نازل کرنے والے ترجمہ کرنا درست نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تشریح کی روشنی میں تینوں آیتوں کے مختلف ترجمے ملاحظہ ہوں:

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا ۔ فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا ۔ فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا۔ (سورة الصافات ۱ تا ۳)

”شاہد ہیں صفیں باندھے، حاضر رہنے والے (فرشتے) پھر زجر کرنے والے (شیاطین کو) پھر ذکر کرنے والے (اپنے رب کا)“۔ (امین احسن اصلاحی)

”قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم، پھر اُن کی قسم جو ڈانٹنے پھٹکارنے والے ہیں، پھر اُن کی قسم جو کلام نصیحت سنانے والے ہیں“۔ (سید مودودی)

”قسم ہے صف باندھنے والوں کی پرا جما کر، پھر ڈانٹنے والوں کی جھڑک کر، پھر ذکر (یعنی قرآن) پڑھنے والوں کی (غور کرکر)“۔ (فتح محمد جالندھری)

”قسم ہے قطار در قطار صف باندھے رہنے والوں کی، امور تکوینی انجام دینے والے ہیں، ذکر پڑھنے والو ںکی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

بعض ترجموں سے یہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرشوں کے تین الگ الگ گروہوں کا تذکرہ ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ تمام فرشتوں کا تذکرہ ہے جو ان تینوں صفات سے متصف ہوتے ہیں۔

(220)    ذِكْرَى الدَّارِ کا ترجمہ

اس آیت کے مختلف ترجمے کیے گئے ہیں، عام طور سے مفہوم یہ لیا گیا ہے اللہ تعالی نے ان نبیوں کو ایک خاص بے آمیز صفت عطا کی، اور وہ آخرت کی یاد ہے۔ بعض لوگوں نے آخرت کی یاددہانی بھی ترجمہ کیا ہے۔ بعض لوگوں نے مفہوم یہ لیا ہے کہ انھیں آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کردیا گیاتھا اس طرح کہ انھیں دنیا کی یاد نہیں آتی تھی، اور بعض نے یہ مفہوم لیا کہ آخرت کی یاد کی بنا پر انھیں منتخب فرمایا۔ کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:

”ہم نے انہیں ایک خاص بات یعنی آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ہم نے اُن کو ایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا، اور وہ دار آخرت کی یاد تھی“۔ (سید مودودی)

”بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے“۔ (احمد رضا خان)

”ہم نے ان کو ایک (صفت) خاص (آخرت کے) گھر کی یاد سے ممتاز کیا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے ان کو ایک خاص مشن –آخرت کی یاددہانی- پر مامور کیا تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ذِكْرَى الدَّارِ سے مراد دنیا میں چرچا اور شہرت لیا ہے۔ أَخْلَصْنَاھُم بِخَالِصَۃ کا مطلب انھیں خصوصی چیز سے نوازا، اور وہ چیز ذکری الدار یعنی دنیا میں چرچا ہے۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں:

”ہم نے ان کو دنیا کی خاص شہرت سے نوازا“۔ مطلب یہ کہ انھیں دنیا میں ایسی شہرت اور نیک نامی عطا فرمائی جو صرف ان کے لیے خاص ہے، کوئی اور اس میں شریک نہیں ہے۔

اس خصوصی عطا کا تذکرہ دوسری جگہ مختلف الفاظ سے کیا ہے:

وَوَھَبْنَا لَھُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَھُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا۔ (مریم: 50)

”اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی ناموری عطا کی“۔ (سید مودودی)

خاص بات یہ ہے کہ سورہ مریم میں بھی یہ بات ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے تذکرے کے بعد ہے۔ اور سورة ص میں بھی۔ اس کے علاوہ اگر سیاق کلام پر غور کریں تو بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔

وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاھِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ ۔ إِنَّا أَخْلَصْنَاھُم بِخَالِصَۃٍ ذِكْرَى الدَّارِ ۔ وَإِنَّھُمْ عِندَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ  (ص: 45-47)

”اور ہمارے بندوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے۔ ہم نے ان کو دنیا کی خاص شہرت سے نوازا۔ اور یقینا ہمارے ہاں ان کا شمار چنے ہوئے نیک اشخاص میں ہے“‘۔

یہاں پہلی آیت میں ان نبیوں کا ذکر کرنے کی ترغیب دی، پھر بتایا کہ دنیا میں ہم نے ان کو خصوصی ذکر خیر عطا کیا ہے، اور پھر بتایا کہ ہمارے یہاں ان کا خصوصی مقام ہے۔

زمخشری نے اس قول کو ذکر کیا ہے:

وقیل: ذکری الدار، الثناءالجمیل فی الدنیا ولسان الصدق الذی لیس لغیرھم۔ (الکشاف)

آخرت کی یاد میں مشغول رہنا نبیوں کی بہت خاص صفت تھی، لیکن یہاں موقع اللہ کی طرف سے ان پر ہونے والے انعامات کے تذکرے کا ہے۔


قرآن / علوم القرآن

(نومبر ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter