(298) ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ
تذکیر کا مطلب یاد دلانا ہوتا ہے، یہ یاد دہانی سمع اور بصر دونوں راستوں سے ہوسکتی ہے، کتابِ وحی کی آیتوں کو سنا کر بھی اور کتابِ کائنات کی نشانیوں کو دکھا کر بھی۔
درج ذیل آیت میں تذکیر اپنے اسی وسیع مفہوم میں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے صُمًّا وَعُمْیَانًا آیا ہے۔ صم کا مطلب بہرے اور عمیان کا مطلب اندھے ہے۔ سنائی جانے والی تذکیر یعنی آیاتِ وحی کی تکذیب کرنے پر بہرے کہا گیا اور دکھائی جانے والی تذکیر یعنی کائنات کی نشانیوں کا انکار کرنے پر اندھا کہا گیا۔
بعض لوگوں نے تذکیر کا ترجمہ سنانا کیا ہے جو موزوں نہیں ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:
وَالَّذِینَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمًّا وَعُمْیَانًا۔ (الفرقان: 73)
”جنہیں اگر اُن کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے“۔ (سید مودودی)
”اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور وہ کہ جب کہ انہیں ان کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے“۔ (احمد رضا خان)
”اور وہ کہ جب ان کو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو اُن پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غور سے سنتے ہیں)“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو ان کے رب کی آیات کے ذریعہ سے یاددہانی کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرتے“۔ (امین احسن اصلاحی، البتہ تفسیر میں قرآن کے ذریعہ سے تعلیم وتذکیر لکھا ہے، جو درست نہیں ہے۔ مرئی اور مسموع دونوں طرح کی آیات یہاں مراد ہیں۔)
(299) مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا
وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ھُزُوًا أَہَٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللَّہُ رَسُولًا۔ إِن کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ آلِہَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْہَا وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا۔ (الفرقان: 41، 42)
”یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں (کہتے ہیں) ”کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اِس نے تو ہمیں گمراہ کر کے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کر دیا ہوتا اگر ہم اُن کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے“ اچھا، وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر اِنہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا تھا“۔ (سید مودودی)
یہاں مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا کا ترجمہ مختلف طرح سے کیا گیا ہے:
کچھ لوگوں نے تفضیل کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:
”کون زیادہ گمراہ تھا“۔ (طاہر القادری)
”زیادہ بہکا ہوا کون ہے“۔ (ذیشان جوادی)
”راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟“۔ (محمد حسین نجفی)
”سب سے زیادہ بے راہ کون ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
سیاق کلام کو دیکھیں تو تفضیل کا ترجمہ مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہاں مختلف گم راہوں کے درمیان موازنے کا محل نہیں ہے بلکہ رسول کا مذاق اڑانے والوں کے گم راہ ثابت ہونے کی بات ہے۔
درج ذیل ترجمے درست ہیں:
”سیدھے رستے سے کون بھٹکا ہوا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”کون شخص بہت گم راہ ہوا ہے راہ سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”کون بہت بچلا ہے راہ سے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟“۔ (محمد جوناگڑھی)
(300) وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا
ترتیل رتل سے ہے، جس کے معنی حسنِ ترکیب کے ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے: الرَّتَلُ: حُسْن تَناسُق الشَّیء، وثَغْرٌ رَتَلٌ ورَتِلٌ: حَسَن التَّنْضِیدِ مُستوی النباتِ، وَقِیلَ المُفَلَّج، وَقِیلَ بَیْنَ أَسنانہ فُروج لَا یَرْکَبُ بَعْضُہَا بَعْضًا۔
ترتیل کی نسبت اگر متکلم یا مصنف کی طرف کی جائے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلام کو عمدہ ترتیب وترکیب کے ساتھ پیش کیا اور اگر اس کی نسبت قاری کی طرف کی جائے تو مطلب ہوتا ہے کہ زبان سے کلام کو خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ لسان العرب میں ہے: ورَتَّلَ الکلامَ: أَحسن تأْلیفہ وأَبانَہ وتمَہَّلَ فِیہِ. والتَّرْتِیلُ فِی الْقِرَاءَ ۃِ: التَّرَسُّلُ فِیہَا وَالتَّبْیِینُ مِنْ غَیْرِ بَغْیٍ۔
وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا۔ (الفرقان: 32)
اس آیت کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
”منکرین کہتے ہیں ”اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا؟“ ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے“۔ (سید مودودی)
”اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا“۔(احمد رضا خان)
”اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ہم نے اس کو تدریج واہتمام کے ساتھ اتارا“۔ (امین احسن اصلاحی)
وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا کا عام طور سے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ہم نے ٹھہر ٹھہر کر یا تدریج کے ساتھ اتارا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے کیا نئی بات معلوم ہوئی؟ ٹھہر ٹھہر کر نازل ہونا تو ایک عیاں حقیقت تھی جس پر کافروں کو اعتراض تھا۔ اسی بات کو دوبارہ کہنے کا کیا فائدہ ہے۔
دراصل اس آیت میں مذکور کفار کا اعتراض ہی یہی تھا کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہونے کے بجائے ایک ہی بار میں کیوں نہ اتار دیا گیا۔ اس کے جواب میں دو باتیں کہی گئیں، ایک بات تو یہ کہ اس طرح نبیﷺ (اور آپ کے مومن ساتھیوں)کے دل کی تقویت کا مسلسل سامان ہوتا رہے گا۔ یہ گویا تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کی حکمت بیان کردی گئی۔ اس کے بعد دوسری بات یہ کہی گئی کہ تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کے باوجود یہ بہترین ترتیب میں ہے۔ اس کے حسنِ ترتیب میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ یہ گویا قرآن کی معجزاتی خوبی بیان کی گئی کہ طویل عرصے تک تھوڑا تھوڑا نازل ہونے والا کلام آخر کار کتنی عمدہ ترتیب میں ہے۔ اسے علامہ طاہر بن عاشور یوں بیان کرتے ہیں:
والترتیل یوصف به الکلام إذا کان حسن التألیف بین الدلالة. واتفقت أقوال أئمة اللغة علی أن هذا الترتیل مأخوذ من قولہم: ثغر مرتل، ورتل، إذا کانت أسنانه مفلجة تشبه نور الأقحوان. ولم یوردوا شاہدا علیه من کلام العرب. والترتیل یجوز أن یکون حالة لنزول القرآن، أی نزلناہ مفرقا منسقا فی ألفاظه ومعانیه غیر متراکم فہو مفرق فی الزمان فإذا کمل إنزال سورة جاءت آیاتہا مرتبة متناسبة کأنہا أنزلت جملة واحدة، ومفرق فی التألیف بأنه مفصل واضح. وفی هذا إشارة إلی أن ذلک من دلائل أنه من عند اللہ لأن شأن کلام الناس إذا فرق تألیفه علی أزمنة متباعدة أن یعتوره التفکک وعدم تشابه الجمل۔ (التحریر والتنویر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”اور ہم نے اسے بہترین ترتیب دی“۔
(301) لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ
مذکورہ بالا آیت (الفرقان: 32) میں لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ کا ترجمہ عام طور سے حسب ذیل کیا گیا ہے:
”تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
حسب ذیل ترجمہ عام ترجموں سے مختلف ہے:
”کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں“۔ (سید مودودی)
عبارت کے لحاظ سے یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ تو یہی ہے کہ ”تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں“ البتہ تفسیر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دل کو مضبوط کرنے سے مراد اسے یاد کرلینے اور سمجھ لینے کی مضبوطی ہے۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں ہے: لنقوی بتفریقہ فؤادک علی حفظہ وفہمہ۔ تاہم یہ تفسیر کم زور معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ قرآن تو دل پر نازل ہورہا تھا، ایک ساتھ نازل ہوتا تو وہ بھی محفوظ ہوجاتا۔ یہاں تو عمومی معنوں میں دل کا ثبات مراد لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔
(302) اتَّخَذُوا ہَٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا
درج ذیل آیت میں مَہْجُورًا کی تین طرح سے تفسیر کی گئی ہے، مارودی لکھتے ہیں: فیه ثلاثة أوجه: أحدها: أنہم ہجروه بإعراضہم عنه فصار مہجوراً، قاله ابن زید. الثانی: أنہم قالوا فیه هجراً أی قبیحا، قاله مجاهد. الثالث: أنہم جعلوہ هجراً من الکلام وہو ما لا نفع فیه من العبث والہذیان، قاله ابن قتیبة۔ (النکت والعیون) یعنی قرآن کو چھوڑ دینا، قرآن کے سلسلے میں بد کلامی کرنا اور قرآن کو بے سود کلام قرار دینا۔ اردو میں اس کا ترجمہ بھی تینوں طرح سے کیا گیا ہے:
وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا۔ (الفرقان: 30)
”اور کہا رسول نے اے رب میرے قوم میری نے ٹھہرایا ہے اس قرآن کو جھک جھک“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا“۔ (سید مودودی)
”اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرایا“۔(احمد رضا خان)
”اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا“۔ (امین احسن اصلاحی)
یہاں مھجورا کے ساتھ اتخذوا آیا ہے۔ لفظ اتخذ کا اصل مطلب پکڑنا ہے، لفظ میں وسعت کی وجہ سے بنانا، اختیار کرنا اور اپنے کسی عمل کا ہدف بنانا بھی اس کے وسیع مفہوم میں شامل ہوا۔ قرآن مجید میں اتخذ بہت زیادہ بار ذکر ہوا ہے، اور ہر جگہ اس کا یہی مفہوم ہے۔ اگر ہم مہجور کا مطلب چھوڑا ہوا لیں تو اتخذ کے ساتھ یہ لفظ بے میل معلوم ہوتا ہے۔ درج ذیل لفظی ترجمے میں یہ چیز ظاہر ہورہی ہے:
”قوم میری نے پکڑا ہے اس قرآن کو چھوڑا ہوا“۔ (شاہ رفیع الدین)
اوپر کی گفتگو کی روشنی میں پہلے دونوں ترجمے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ تجویز کرتے ہیں: ”میری قوم اس قرآن کے بارے میں بکواس کرتی رہی“ اس مفہوم کو دیگر کئی مقامات پر ھزوا سے بھی تعبیر کیا گیا، جیسے ”وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَمَا أُنْذِرُوا ہُزُوًا“۔(الکہف: 56)
(303) اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا
وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَیٰ یَدَیْهِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا۔ (الفرقان: 27)
”اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا“۔ (فتح محمد جالندھری، کھائے گا کہنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کہے گا)
”اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی راہ اختیار کی ہوتی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا،کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا“۔ (سید مودودی)
اس آخری ترجمہ میں تین باتیں قابل غور ہیں، ایک یہ کہ ویوم کا ترجمہ (اور اس دن) چھوٹ گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یدیہ مثنی ہے اس کا ترجمہ اپنا ہاتھ نہیں اپنے ہاتھ ہوگا۔ اور تیسری بات یہ کہ یہاں رسول کا ساتھ دینا مراد نہیں بلکہ رسول کے راستے پر چلنا مراد ہے۔ کیوں کہ لفظ سبیل آیا ہے۔ رسول کے اختیار کیے ہوئے راستے کو اختیار کرنے میں معیت کی معنویت بھی واضح ہوجاتی ہے۔
(304) أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ
لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاء نِی۔ (الفرقان: 29)
”اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”بیشک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے“۔ (احمد رضا خان)
”اس نے مجھے گم راہ کرکے اس یاددہانی سے برگشتہ کیا، بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آچکی تھی“۔ (امین احسن اصلاحی، یاد دہانی سے برگشتہ کرکے مجھے گم راہ کیا)
”اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی“۔ (سید مودودی، نصیحت نہ ماننے کی وجہ سے اس کے بہکاوے میں آیا)
مذکورہ بالا جملے میں لَّقَدْ أَضَلَّنِی کا ترجمہ تو بالکل واضح ہے کہ اس نے مجھے گم راہ کیا۔ گم راہ راستے سے کیا جاتا ہے یاد دہانی سے نہیں، اس لیے لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ کا ترجمہ یاددہانی یا نصیحت سے گم راہ کرنا موزوں نہیں معلوم ہوتا ہے۔ یہاں عن سے پہلے فعل محذوف ہے، جس کا مطلب ہے یاد دہانی سے غافل و برگشتہ کرکے۔
صحیح ترجمہ یوں ہے:
”اس نے مجھے گم راہ کردیا اس یاددہانی سے برگشتہ کرکے بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آچکی تھی“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(305) فَہِیَ تُمْلَیٰ عَلَیْہِ
وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَیٰ عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا۔ (سورۃ الفرقان: 5)
”اور کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کے فسانے ہیں جو اس نے لکھوائے ہیں تو وہ اس کو صبح شام لکھ کر تعلیم کیے جاتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”وہی لکھوائے جاتے ہیں اس پاس صبح اور شام“۔ (شاہ عبدالقادر)
ان دونوں ترجموں میں املاء کا ترجمہ لکھ کر تعلیم کرنا اور لکھوانا کیا گیا ہے۔ اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو وحی لکھی ہوئی شکل میں تو دی نہیں جاتی تھی اور نہ ہی آپ لکھی ہوئی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے۔ اصل میں لفظ املاء کا مطلب لازمی طور پر لکھوانا نہیں ہے، بلکہ القا کرنا ہے۔ جس پر القا کیا جارہا ہے وہ اسے لکھ بھی سکتا ہے اور سن کر ذہن میں محفوظ بھی کرسکتا ہے۔
تفسیر جلالین میں تملی کا ترجمہ تُقرَأ کیا گیا ہے، جو مناسب ہے۔
علامہ ابن عاشور املاء کا مفہوم بتاتے ہیں: والإملاء: ہو الإملال وہو إلقاء الکلام لمن یکتب ألفاظہ أو یرویہا أو یحفظہا۔ (التحریر والتنویر)
اس پہلو کو سامنے رکھیں تو درج ذیل دونوں ترجمے موزوں تر معلوم ہوتے ہیں:
”اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں“۔ (سید مودودی)
”پس وہ پڑھے جاتے ہیں اوپر اس کے صبح وشام“۔ (شاہ رفیع الدین)