(۱۳۵) فھم یوزعون کا ترجمہ
یوزعون کا لفظ قرآن مجید میں تین مقامات پر آیا ہے، یہ فعل مضارع ہے، لفظی لحاظ سے اس کا ماضی وزع بھی ہوسکتا ہے اور أوزع بھی ہوسکتا ہے، گو کہ معنوی پہلو سے وزع ہی درست لگتا ہے جس کے معنی روکنے کے ہیں، اور لشکر کو قابو میں رکھنے کے بھی ہیں، جبکہ أوزع کے معنی ترغیب وتوفیق دینے کے ہیں ، اہل لغت کے مطابق ایزاع توزیع کے ہم معنی ہوکرتقسیم کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے،بہرحال یہ مفہوم اگر ہو بھی تو استعمال میں رائج نہیں ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں مقامات پر اس لفظ کے مختلف ترجمے کئے گئے ہیں:
(۱) وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُودُہُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُونَ۔ (النمل:۱۷)
’’سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے‘‘ (سید مودودی)
’’اور جمع کیے گئے سلیمان کے لیے اس کے لشکر جنوں اور آدمیوں اور پرندوں سے تو وہ روکے جاتے تھے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور سلیمان کے لیے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور قسم وار کیے جاتے تھے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کیے گئے (ہر ہر قسم کی) الگ الگ درجہ بندی کردی گئی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور سلیمان کے جائزے کے لیے ان کا سارا لشکر، جنوں انسانوں اور پرندوں میں سے، اکٹھا کیا گیا اور ان کی درجہ بندی کی جارہی تھی ‘‘(امین احسن اصلاحی، یہاں جائزے کے لیے نہیں بلکہ مہم پر نکلنے کے لیے مراد ہے، کیونکہ اس کے فورا بعد ایک مہم پر نکلنے کا تذکرہ ہے)
’’اور سلیمان کے لیے اکٹھا کردیے گئے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر، تو وہ پوری طرح منظم تھے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۲) وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِن کُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجاً مِّمَّن یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَہُمْ یُوزَعُون۔ (النمل:۸۳)
’’اور ذرا تصور کرو اُس دن کا جب ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج اُن لوگوں کی گھیر لائیں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے، پھر ان کو (ان کی اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ) مرتب کیا جائے گا‘‘(سید مودودی)
’’اور جس دن اٹھائیں گے ہم ہر گروہ میں سے ایک فوج جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتی ہے تو ان کے اگلے روکے جائیں گے کہ پچھلے ان سے آملیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور جس روز ہم ہر اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو اُن کی جماعت بندی کی جائے گی‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے گھیر گھار کرلائیں گے، پھر وہ سب کے سب الگ کر دیے جائیں گے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکٹھا کریں گے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے تھے، پس وہ پوری طرح منظم ہوں گے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳) وَیَوْمَ یُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللّٰہِ إِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوزَعُون۔ (فصلت: ۱۹)
’’اور ذرا اُس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے، اُن کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا‘‘(سید مودودی)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف ہانکے جائیں گے تو ان کے اگلوں کو روکیں گے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کرلیے جائیں گے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان (سب) کو جمع کر دیا جائے گا‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے، پس وہ پوری طرح منظم ہوں گے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
مذکورہ ترجموں پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ہی لفظ اور ایک ہی اسلوب (فھم یوزعون) کا بعض مترجم تینوں مقامات پر الگ الگ ترجمہ کرتے ہیں، مثال کے طور پر صاحب تفہیم نے پہلے مقام پر قابو میں رکھنا، دوسرے مقام پر اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ مرتب کرنا اور تیسرے مقام پر روکنا ترجمہ کیا ہے۔
موخر الذکر دونوں آیتوں کا بہت سے لوگوں نے روکنے کا ترجمہ کیا ہے، وزع کے معنی روکنا ہوتے ہیں مگر وہ روکنا چلتے ہوئے شخص کو روکنا نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی کام سے کسی کوباز رکھنا ہوتا ہے۔اسی کو قابو میں رکھنا کہتے ہیں۔
لشکر کے ساتھ جب یہ لفظ آتا ہے تو اس کا مفہوم لشکر کو منظم اور ڈسپلن میں رکھنا ہوتا ہے۔ اوریہی مفہوم مذکورہ بالا تینوں مقامات پر زیادہ بہتر طریقے سے فٹ ہوتا ہے۔
(۱۳۶) غنم کا ترجمہ
غنم کا لفظ قرآن مجید میں تین جگہ آیا ہے، اس لفظ کے اندر بھیڑ اور بکری دونوں شامل ہوتے ہیں، (الغنم) القطیع من المعز والضأن. المعجم الوسیط (۲؍۶۶۴)
صرف بھیڑ کے لیے ضأن اور صرف بکری کے لیے معز آتا ہے، قرآن مجید میں مذکورہ ذیل ایک مقام پر دونوں ایک ساتھ استعمال ہوئے:
ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْْنِ۔ (الانعام: ۱۴۳)
(یہ بڑے چھوٹے چارپائے) آٹھ قسم کے (ہیں) دو (دو) بھیڑوں میں سے اور دو (دو)بکریوں میں سے (یعنی ایک ایک نر اور اور ایک ایک مادہ)۔(فتح محمدجالندھری)
ہشت جفت آفریدہ است: از گوسفند دو جفت و از بز دو جفت. (خرمدل)
Eight pairs: Of the sheep twain, and of the goats twain. (Pickthall)
(Take) eight (head of cattle) in (four) pairs: of sheep a pair, and of goats a pair; (Yusuf Ali)
اس آیت کے ترجمے میں ایک غلطی عام طور سے ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ثمانیۃ أزواج کا ترجمہ آٹھ جوڑے یا آٹھ قسمیں کیا گیا ہے، حالانکہ قسمیں یا جوڑے چار ہیں، البتہ ان چار قسموں کے افراد یا چار جوڑوں کی جوڑیاں آٹھ ہیں۔ اس پہلو سے اوپر درج کئے گئے ترجمے تصحیح طلب معلوم ہوتے ہیں۔ آٹھ قسم، ہشت جفت، Eight pairsلفظ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے۔
اس آیت کے ترجموں کو یہاں ذکر کرنے سے سے یہ واضح کرنا بھی مقصود ہے کہ عربی کے ان دونوں الفاظ یعنی ضأن اور معز کے مختلف زبانوں میں متبادل الفاظ کیا ہیں۔ ان دونوں الفاظ کے مقابلے میں غنم کا لفظ چونکہ ضأن اور معز یعنی بھیڑ اور بکری دونوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ صرف بھیڑ یا صرف بکری کرنے سے لفظ غنم کا حق ادا نہیں ہوتا ہے۔
مندرجہ ذیل تینوں آیتوں کے ترجموں کا اس پہلو سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
(۱) وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْم۔ (الانعام: ۱۴۶)
’’اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گایوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کر دی تھی سوا اس کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا اوجھڑی میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’(این چیزھائی بود کہ بر شما حرام کردہ ایم) و بر یھودیان ھر (حیوان) ناخنداری (یعنی: درندگان کہ دارای پنجہ ھای قوی، و پرندگان شکاری کہ از چنگال نیرومند برخوردارند) حرام کردہ بودیم، و از گاو و گوسفند (تنھا) پیہ ھا و چربیھای آنھا را بر آنان حرام نمودہ بودیم، مگر پیہ ھا و چربیھائی کہ بر پشت اینھا یا در اندرونہ (و لابلای احشاء و امعاء) قرار دارد و یا پیہ ھا و چربیھائی کہ آمیزہ ی استخوان گردیدہ است‘‘(خرمدل)
Unto those who are Jews We forbade every animal with claws. And of the oxen and the sheep forbade We unto them the fat thereof save that upon the backs or the entrails, or that which is mixed with the bone. (Pickthall)
For those who followed the Jewish Law, We forbade every (animal) with undivided hoof, and We forbade them that fat of the ox and the sheep, except what adheres to their backs or their entrails, or is mixed up with a bone. (Yusuf Ali)
(۲) وَدَاوُدَ وَسُلَیْْمَانَ إِذْ یَحْکُمَانِ فِیْ الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَکُنَّا لِحُکْمِہِمْ شَاہِدِیْن۔ (الانبیاء:۷۸)
’’اور داؤد اور سلیمان (کا حال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصلہ کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چر گئی (اور اسے روند گئی) تھیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود تھے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’(و یاد کن) داود و سلیمان را، ھنگامی کہ دربارہ ی کشتزاری کہ گوسفندان مردمانی، شبانگاھان در آن چریدہ و تباھش کردہ بودند، داوری می کردند، و ما شاھد داوری آنان بودیم‘‘(خرمدل)
And remember David and Solomon, when they gave judgment in the matter of the field into which the sheep of certain people had strayed by night: We did witness their judgment. (Yusuf Ali)
And David and Solomon, when they gave judgment concerning the field, when people's sheep had strayed and browsed therein by night; and We were witnesses to their judgment.(Pickthall)
(۳) قَالَ ہِیَ عَصَایَ أَتَوَکَّأُ عَلَیْْہَا وَأَہُشُّ بِہَا عَلَی غَنَمِی۔ (طہ:۱۸)
’’انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں سہارا لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’پاسخ داد کہ این عصای من است و بر آن تکیہ می کنم و با آن گوسفندانم را می رانم و برای آنھا برگ می ریزم‘‘ (خرمدل)
He said: This is my staff whereon I lean, and wherewith I bear down branches for my sheep, (Pickthall)
He said, "It is my rod: on it I lean; with it I beat down fodder for my flocks;" (Yusuf Ali)
مذکورہ بالا ترجموں کو دیکھنے پر ایک بڑی اہم اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ تمام اردو مترجمین غنم کا ترجمہ بھیڑ نہیں کرکے بکری کرتے ہیں، اور تقریباً تمام انگریزی مترجمین اس کا ترجمہ Sheep کرتے ہیں جس کے معنی بھیڑ کے ہیں، اور تمام فارسی مترجمین اس کا ترجمہ گو اسفند کرتے ہیں، جو بھیڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہ دیکھ کر ذہن اس طرف جاتا ہے کہ ہندوستان میں بھیڑ کے مقابلے میں بکری کا رواج زیادہ ہے، اس لیے ترجمہ کرتے وقت اس کا اثر زیادہ رہا، جبکہ دوسرے علاقوں میں بھیڑ کا رواج ترجمہ پر اثر انداز رہا۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ مذکورہ تینوں مقامات پر غنم کا ترجمہ مویشی یا ریوڑ یا’’بھیڑ بکری‘‘ ہونا چاہیے، تاکہ لفظ میں موجود معنی کی وسعت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو۔غنم ترجمہ کرتے وقت بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر کرنے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قرآن مجید میں (جیسا کہ اوپر گزرا) ایک مقام پر صراحت کے ساتھ بھیڑ اور بکری دونوں کا خصوصیت کے ساتھ الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔
(۱۳۷) اولیاء کا ترجمہ
أولیاء کا لفظ ولی کی جمع ہے، جس کا اصل مطلب دوست ہے، فیروزآبادی لکھتے ہیں:
الوَلْیُ: القُرْبُ والدُّنُوُّ، المَطَرُ بَعْدَ المَطَرِ، وُلِیَتِ الأرضُ، بالضم۔ والوَلِیُّ: الاسمُ منہ، والمحبُّ، والصدیقُ والنصیرُ۔ القاموس المحیط
بعض مقامات پر اس کا ترجمہ لوگوں نے معبود اور کارساز وغیرہ بھی کیا ہے، لیکن کبھی محل کلام خود تقاضا کرتا ہے کہ اس لفظ کا ترجمہ دوست کیا جائے، کوئی اور ترجمہ وہاں مناسب نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ذیل کی آیتوں کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
(۱) وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہَؤُلَاءِ أَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ۔ قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاءَ وَلَکِن مَّتَّعْتَہُمْ وَآبَاءَ ہُمْ حَتَّی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْماً بُوراً۔ (الفرقان:۱۷،۱۸)
’’اور وہ وہی دن ہو گا جبکہ (تمہارا رب) اِن لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے اُن معبودوں کو بھی بُلا لے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں، پھر وہ اُن سے پوچھے گا ’’کیا تم نے میرے اِن بندوں کر گمراہ کیا تھا؟ یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟‘‘وہ عرض کریں گے ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولا بنائیں مگر آپ نے اِن کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے‘‘(سید مودودی)
قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاءَ
کے مزید ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’وہ کہیں گے کہ پاک ہے تیری ذات ہمیں یہ حق نہیں تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں‘‘ (محمد حسین نجفی)
’’وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو ہمیں سزاوار (حق) نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو مولیٰ بنائیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ کب لائق تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو کارساز بناتے‘‘ (احمد علی)
’’وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایان نہ تھی کہ تیرے سوا اوروں کو دوست بناتے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے‘‘(محمد جوناگڑھی)
(۲) وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ یَقُولُ لِلْمَلَائِکَۃِ أَہَؤُلَاءِ إِیَّاکُمْ کَانُوا یَعْبُدُونَ۔ قَالُوا سُبْحَانَکَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِہِم بَلْ کَانُوا یَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَکْثَرُہُم بِہِم مُّؤْمِنُون۔ (سبا: ۴۰، ۴۱)
’’اور جس دن وہ لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے کہے گا (پوچھے گا) کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے؟وہ کہیں گے پاک ہے تیری ذات! تو ہمارا آقا ہے نہ کہ وہ (ہمارا تعلق تجھ سے ہے نہ کہ ان سے) بلکہ یہ تو جنات کی عبادت کیا کرتے تھے ان کی اکثریت انہی پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھی‘‘(محمد حسین نجفی)
قَالُوا سُبْحَانَکَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِہِم کے مزید ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’تو وہ جواب دیں گے کہ ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ اِن لوگوں سے‘‘۔ (سید مودودی)
’’وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو تو ہمارا دوست ہے نہ وہ‘‘ (احمد رضا خان)
’’وہ کہیں گے تو پاک ہے تو ہی ہمارا دوست ہے۔ نہ یہ‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے ان کے بالمقابل تو ہمارا کارساز ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب سوال ان سے کیا جائے گا جن کو لوگ معبود مانتے تھے، تو وہ جواب میں یہ کیوں کہیں گے کہ ہم نے تیرے سوا کسی کو مولا یا سرپرست یا کارساز نہیں بنایا۔ مولی یا سرپرست یا کارساز تو انہیں معبود بنانے والوں نے بنایا تھا، اس سلسلے میں صفائی تو معبود بنانے والوں کو پیش کرنی ہوگی، یہاں تو جن کو معبود بنایا گیا انہوں نے اپنی طرف سے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ ہم نے ان سے کوئی دوستی نہیں کی جس کی وجہ سے ہم پر انہیں اس طرح کی کوئی شہ دینے کا کوئی الزام آئے۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اکثر حضرات نے دوسری آیت میں ولی کا ترجمہ دوست کیا ہے، لیکن انہیں لوگوں نے پہلی آیت میں اولیاء کا ترجمہ دوست کرنے کے بجائے مولی اور کارساز کیا۔
غرض لفظ کا تقاضا بھی یہی ہے، اور پورے کلام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دونوں مقامات پر دوست ترجمہ کیا جائے۔
(۱۳۸) کلمات کا ترجمہ
مذکورہ ذیل دونوں آیتوں میں کلمات کا لفظ آیا ہے، صاحب تدبر نے اس کا ترجمہ نشانیاں کیا ہے، بعض نے اس سے صفتیں مراد لیا ہے، بعض نے باتیں ترجمہ کیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ لفظ آلاء کی طرح کلمات کا ترجمہ’’ کرشمے ‘‘کرنا زیادہ مناسب ہے۔
(۲) وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَۃٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (لقمان: ۲۷)
’’روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہو جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور باحکمت ہے‘‘ (محمدجوناگڑھی، یہاں تمام سمندروں کے بجائے سمندر ہونا چاہئے)
’’اور اگر زمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں ہوجائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہو اس کے پیچھے سات سمندر اور تو اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی بیشک اللہ عزت و حکمت والا ہے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں اور سمندر (کا تمام پانی) سیاہی ہو (اور) اس کے بعد سات سمندر اور (سیاہی ہو جائیں) تو خدا کی باتیں (یعنی اس کی صفتیں) ختم نہ ہوں۔ بیشک خدا غالب حکمت والا ہے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات سمندروں کے ساتھ (روشنائی بن جائیں) جب بھی اللہ کی نشانیاں قلم بند نہیں ہوسکتیں۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
(۲) قُل لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَداً۔ (الکہف:۱۰۹)
’’کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے) لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور (سمندر) اس کی مدد کو لائیں‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ بھی میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا، گو ہم اسی جیسا اور بھی اس کی مدد میں لے آئیں‘‘ (محمدجوناگڑھی)
’’اے محمدؐ، کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے‘‘(سید مودودی)
’’کہہ دو اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے تو میرے رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائے گا اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
دوسری آیت میں (لو کان) آیا ہے ، اس کے لحاظ سے ترجمہ ماضی کا ہونا چاہئے ، نہ کہ مستقبل کا جیسا کہ عام طور سے مترجمین نے کیا ہے، درست ترجمہ یوں ہوگا:کہہ دو اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لیے سمندر روشنائی بن جاتا تو میرے رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتا اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملادیتے۔
(جاری)