اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۷)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۷۶)   ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا  کا ترجمہ:

قرآن مجید میں سورة المجادلة میں ایک جگہ ظہار کے بیان میں ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا آیا ہے، اور اسی سورت میں ایک دوسری جگہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُھُوا عَنْہُ  آیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ دونوں باتیں ایک ہی اسلوب کلام میں کہی گئی ہیں، اور اس کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی مانع نہ ہو تو دونوں کا ایک ہی طرح سے مفہوم سمجھا جائے۔

ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کا مفہوم متعین کرنے میں مفسرین میں بہت زیادہ اختلاف ہوا ہے، جب کہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُھُوْا عَنْہُ کا مفہوم متعین کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہوا ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ اول الذکر مقام کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نہ تو دوسرے مقام کا حوالہ دیتے ہیں، اور نہ ہی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُھُوْا عَنْہُ کا مطلب اگر یہ ہے کہ جس بات سے روکا گیا تھا وہی بات دوبارہ کریں، تو ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کا صاف مطلب ہے کہ جس بات کو وہ کہتے ہیں، یا کہتے رہے ہیں اسے دوبارہ کہیں۔

دور قدیم میں بعض لوگوں نے دوبارہ کہنے کا بالکل حرفی مفہوم اختیار کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اگر کسی نے ایک بار کہا تو اس پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا، اور یہ حکم ہمیشہ دوسری بار کہنے کی صورت میں ہی لاگو ہوگا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے، اور نہ اس طرح کی تعلیم کی کوئی اور نظیر قرآن مجید میں ہے کہ ایک بار کرنے پر کچھ نہیں اور دوبارہ کرنے پر سزا یا کفارہ۔

 دراصل اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اب تک اس حرکت کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، اب وہ اللہ کی طرف سے ممانعت سن کر باز آجائیں، اور اگر اس ممانعت کے بعد بھی انہوں نے ظہار کی وہ بات کہی جو اب تک کہتے رہے ہیں، تو پھر ان پر یہ حکم لاگو ہوگا۔ گویا اس آیت کے نزول کے بعد جو بھی ظہار کا مرتکب ہوگا، وہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا  کے دائرے میں آجائے گا، اور اس پر مذکورہ کفارہ واجب ہوجائے گا۔ خواہ یہ کہنا پہلی بار ہو یا دوسری بار۔

مفسرین ومترجمین نے زیر نظر جملے کا مفہوم دو طرح سے بیان کیا ہے، ایک یہ کہ ظہار کرنے کے بعد اپنے ظہار سے رجوع کریں، اور دوسرے یہ کہ ظہار کرنے کے بعد اس کام کی طرف پلٹیں جسے انہوں نے ظہار کے ذریعہ خود پر حرام کیا ہے، یعنی بیوی سے تعلق۔ دونوں کا مقصود ایک ہے اور وہ یہ کہ ظہار کا کفارہ اس وقت لازم آتا ہے جب وہ ظہار کرنے کے بعد ظہار سے رجوع کرکے اپنی بیوی سے تعلق بحال کرنا چاہیں۔

اس مشہور رائے میں ایک اشکال تو لفظی ہے اور وہ یہ کہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کی ظاہری عبارت سے یہ مفہوم نہیں نکلتا ہے ، اور اس کے لیے پرتکلف تاویلیں کرنی پڑتی ہیں۔ مثلا یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں فعل ارادہ فعل کے معنی میں ہے، یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ یہاں لام عن کے معنی میں ہے، یا یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں لِمَا قَالُوا کا مطلب لما حرموا ہے۔

 جب کہ اگر تاویل کا یہ بلا سبب تکلف نہ کیا جائے، تو مفہوم بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے، یعنی ظہار والی بات کو دوبارہ کہنا۔ ظہار ایک قول ہے، اور یہاں اسی قول کو دوبارہ کہنے کی بات ہے۔

مشہور رائے میں ایک دوسرا معنوی اشکال بھی ہے اور وہ یہ کہ کفارہ تو اصل ظہار والی حرکت پر ہونا چاہیے، نہ کہ ظہار سے رجوع کرنے پر۔ اللہ تعالی نے ظہار سے رجوع کرنے کی مذمت نہیں کی ہے، بلکہ ظہار کرنے ہی کو منکر اور زور قرار دیا ہے، اور اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔اس لیے سزا توہر اس شخص کو ملنی چاہیے جس نے اپنی ماں والے رشتے کی بے حرمتی کی ، نہ کہ صرف اسے سزا ملے جو اس حرکت کو کرنے کے بعد اس سے توبہ کرے اور رجوع کرے۔

اس تمہیدی وضاحت کے بعد ظہار سے متعلق دونوں آیتوں کا معروف ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

الَّذِينَ يُظَاھِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِھِم مَّا ھُنَّ أُمَّھَاتِھِمْ ، إِنْ أُمَّھَاتُھُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَھُمْ ، وَإِنَّھُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ، وَإِنَّ اللَّـہَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ۔ وَالَّذِينَ يُظَاھِرُونَ مِن نِّسَائِھِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا، ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِہ ، وَاللَّـہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (المجادلة: 2، 3)

’’ میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے، جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اُس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اِس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔” (سید مودودی)

زیر بحث مقام کے مزید ترجمے ملاحظہ ہوں:

“اور جو ماں کہہ بیٹھیں اپنی عورتوں کو پھر وہی کام چاہیں جس کو کہا ہے۔” (شاہ عبدالقادر)

“اور وہ جو اپنی بیبیوں کو اپنی ماں کی جگہ کہیں پھر وہی کرنا چاہیں جس پر اتنی بری بات کہہ چکے ۔” (احمد رضا خان)

“اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں ۔” (فتح محمد جالندھری)

“جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں۔” (محمد جوناگڑھی)

“اور جو لوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کرتے ہیں پھر اپنی کہی ہوئی بات کی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔” (اشرف علی تھانوی)

جب کہ مولانا امانت اللہ اصلاحی اس جملے کا حسب ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

“جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے رہے ہیں، پھر وہی بات کہیں۔”

یہ ترجمہ ویسا ہی ہے جیسا ترجمہ درج ذیل آیت کا کیا گیا ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِينَ نُھُوا عَنِ النَّجْوَی ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُھُوا عَنْہُ۔ (المجادلة: 8)

“کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا وہ پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں۔” (محمد جوناگڑھی)

“کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہیں بری مشورت سے منع فرمایا گیا تھا پھر وہی کرتے ہیں جس کی ممانعت ہوئی تھی ۔” (احمد رضا خان)

“کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟” (سید مودودی)

اس آیت کے علاوہ دو مقامات اور ہیں جہاں عاد لام کے صلے کے ساتھ آیا ہے، اور ان دونوں مقامات پر بھی کسی کام کوپھر سے کرنے کا مفہوم ہے۔

وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُھُوا عَنْہُ  (الانعام: 28)

“اور اگر یہ لوٹائے جائیں گے تو وہی کریں گے جس سے روکے گئے۔” (امین احسن اصلاحی)

يَعِظُكُمُ اللَّـہُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِہ أَبَدًا (النور: 17)

“اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو ایسی بات تم سے پھر کبھی صادر نہ ہو۔” (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا حوالوں کے علاوہ مزید یہ بات بھی ہے کہ قرآن مجید میں فعل عاد کا استعمال مختلف صیغوں سے کئی مقامات پر ہوا ہے، اور کہیں بھی کسی کام سے رجوع کرنے کے مفہوم میں نہیں ہے۔

اس مفہوم کی رو سے ظہار کا کفارہ صرف ظہار کے بعد بیوی کی طرف پلٹنے سے واجب نہیں ہوتا ہے، بلکہ ظہار کرنے سے ہی کفارہ واجب ہوجاتا ہے، البتہ اس کی انجام دہی موخر نہیں کی جاسکتی ہے، اس کی انجام دہی جلد ضروری ہے، اس لیے شوہر اور بیوی کے باہمی تعلق سے پہلے اسے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ظہار کی وجہ سے شوہر اور بیوی علیحدہ نہیں ہوجاتے۔ یعنی اگر ظہار کے بعد شوہر مرگیا تو شوہر کے ترکے میں بیوی کا حصہ رہے گا۔

مزید برآں، اس مفہوم کی رو سے اگر ظہار کے بعد کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے، تو بھی ظہار کا کفارہ اس پر واجب رہے گا، اور وہ طلاق دے کر کفارے سے بری الذمہ نہیں ہوجائے گا۔

یہ وضاحت بھی مفید ہوگی کہ ظہار او ر ایلاءکا حکم اس معنی میں ایک ہے کہ ظہار کے بعد عورت ہمیشہ کے لیے معلق نہیں رہے گی، بلکہ اگر چار ماہ کے اندر شوہر نے رجوع نہیں کیا تو وہ اس سے از خود الگ ہوجائے گی۔

البتہ ظہار کی صورت میں شوہر پر وہ کفارہ لازم آئے گا، جو ایلاءکی صورت میں لازم نہیں آئے گا۔

ممکن ہے مفسرین نے یہ مفہوم اس لیے نہیں اختیار کیا ہو کہ کفارہ کے ساتھ من قبل ا#¿ن یتماسا کی شرط لگی ہوئی ہے،( جیسا کہ بعض مفسرین نے ذکر بھی کیا ہے) اور اس کا تعلق تو صرف رجوع کی صورت سے ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفارے کا وجوب تو ظہار ہی کی وجہ سے ہوجاتا ہے، مگر اس کی انجام دہی جلدی ہو، اور ایسا نہ ہو کہ کفارے کی انجام دہی کے بغیر ازدواجی زندگی معمول کے مطابق گزرنے لگے، اس کے لیے یہ شرط لگادی گئی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ کفارہ رجوع کو مشکل بنانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ ظہار کے غلط طریقے پر روک لگانے کے لیے ہے۔

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(ستمبر ۲۰۱۹ء)

تلاش

Flag Counter