اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۰)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۱) علقۃ اور مضغۃ کا ترجمہ

قرآن مجید میں علق کا لفظ ایک بار اور علقۃ کا لفظ متعدد بار آیا ہے، دونوں کا مطلب ایک ہے، اور وہ ہے جما ہوا خون، راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والعَلَقُ: الدّم الجامد ومنہ: العَلَقَۃُ التی یکون منھا الولد.المفردات۔ علقہ کی اردو تعبیر کے لیے مترجمین نے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں، جیسے، جنین، لوتھڑا، خون کا لوتھڑا، خون کی پھٹک، خون کی پھٹکی، خون کا تھکا۔ علقہ کے لیے جنین کا لفظ کسی طرح مناسب نہیں ہے، کیونکہ جنین کا عمومی اطلاق عربی میں بھی اور اردو میں بھی پیٹ کے بچے پر ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مرحلے میں ہو، جبکہ اردو میں وہ مضغہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، راغب اصفہانی کے الفاظ میں، ’’والجنین: الولد مادام فی بطن أمہ‘‘. المفردات. اردو کی مستند لغت فرہنگ آصفیہ میں ہے: ’’جنین: مضغہ ، لوتھڑا‘‘۔

علقہ کے لیے لوتھڑا بھی مناسب لفظ نہیں ہے، کیونکہ اردو میں لوتھڑا گوشت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جمے ہوئے خون کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں ہے: لوتھڑا: گوشت کا بڑا ٹکڑا جس میں ہڈی نہ ہو، مضغہ، گوشت پارہ، پارچہ، مچا۔ خون کا لوتھڑا بھی مناسب لفظ نہیں ہے، کیونکہ لوتھڑا گوشت کا ہوتا ہے، جمے ہوئے خون کو لوتھڑا نہیں کہتے۔ خون کی پھٹک یا پھٹکی سے علقہ کا مفہوم کسی قدر ادا ہوجاتا ہے، فرہنگ آصفیہ میں ہے: ’’پھٹکی: گٹھلی، گرہ، گانٹھ، کسی خشک چیز کے گھولنے سے جو گٹھلیاں پڑ جاتی ہیں‘‘۔

بعض مترجمین نے جما ہوا خون ترجمہ کیا ہے، یہ لفظی ترجمہ ہے۔

مضغۃ کا لفظ گوشت کی بوٹی کے لیے آتا ہے، زمخشری لکھتے ہیں: والمضغۃ: اللحمۃالصغیرۃ قدر مایمضغ۔ مضغۃ کا ترجمہ بعض لوگوں نے لوتھڑا کیا ہے اور بعض لوگوں نے بوٹی کیا ہے، لوتھڑا چونکہ گوشت کے بڑے ٹکڑے کو کہتے ہیں، اس لحاظ سے بوٹی کا لفظ زیادہ مناسب ہے۔غرض یہ کہ دونوں الفاظ کے لئے ایسے اردو متبادل کی جستجو ہونی چاہئے جو ان الفاظ کاواقعی مفہوم ادا کرتے ہوں۔ اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل ترجموں کا جائزہ مفید ہوگا :

(۱) یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَغَیْْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ۔ (الحج:۵)

’’لوگو اگر تم کو دھوکہ ہوا ہے جی اٹھنے میں تو ہم نے تم کو بنایا مٹی سے پھر بوند سے پھر پھٹکی سے پھر بوٹی سے نقشہ بنے اور بن نقشہ بنے، اس واسطے کہ تم کو کھول کر سنادیں‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ یہ ہم اس لیے بتارہے ہیں تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں‘‘ (سید مودودی)

’’اے لوگو، اگر تمہیں قیامت کے دن جینے میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے پھر گوشت کی بوٹی سے نقشہ بنی اور بے بنی، تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں‘‘(احمد رضا خان)

’’اے لوگو، اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو دیکھو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر منی کے ایک قطرے سے، پھر ایک جنین سے، پھر ایک لوتھڑے سے، کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص، ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر (اپنی قدرت وحکمت) اچھی طرح واضح کریں‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس میں علقہ کے لیے جنین کا لفظ مناسب نہیں) 

اس آیت میں لنبین لکم کا مفہوم عام طور سے یہ لیا گیا ہے کہ اللہ تعالی تخلیق کے ان مراحل سے یا ان کے تذکرے سے اپنی قدرت وحکمت کو واضح کرتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کے مطابق اس کا اصل مفہوم تو یہ ہے کہ جنین مخلقۃ اور غیر مخلقۃ اس لیے ہوتا ہے تاکہ انسانوں پر حقیقت واضح ہوجائے، یعنی غیر مخلقۃ جنین کے ساقط ہوجانے سے انسانوں پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ تخلیق کے کتنے مرحلوں سے جنین کا گزر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا تو اس وقت کے انسانوں کو ان مراحل کا علم بھی نہیں ہوتا۔البتہ اس کا ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے یہ واضح ہوجائے کہ ان سب مراحل میں اللہ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے، اس کے بغیر یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تھا، ہر مرحلہ میں اللہ کی مشیت کار فرما ہوتی ہے۔

اس آیت میں مترجمین نے عام طور سے (من ) کا ترجمہ ’’سے‘‘ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ ترجمہ اس طرح ہونا چاہئے: ’’پھروہ پھٹکی بنا، پھروہ بوٹی بنا‘‘ ۔

(۲) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْن۔ (المؤمنون: ۱۴)

’’پھر بنائی اس بوند سے پھٹکی پھر بنائی اس پھٹکی سے بوٹی پھر بنائی اس بوٹی سے ہڈیاں، پھر پہنایا ان ہڈیوں پر گوشت پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں۔ (شاہ عبدالقادر)

پھر ہم نے پانی کی بوند کو ایک جنین کی شکل دی، پھر جنین کو گوشت کا لوتھڑا بنایا، پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا، پھر اس کو ایک بالکل ہی مختلف مخلوق میں متشکل کردیا‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں علقہ کا ترجمہ جنین کیا گیا ہے، جو درست نہیں ہے، مزید یہ کہ فخلقنا المضغۃ عظاما کا ترجمہ کیا گیا پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ الفاظ کی رو سے بھی اور امر واقع کے لحاظ سے بھی ترجمہ ہوگا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا۔)

’’پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا‘‘ (محمد جوناگڑھی)

’’پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔(سید مودودی)

پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی‘‘ (احمد رضا خان)

’’پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا‘‘ (فتح محمد جالندھری)

(۳) ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ۔ (غافر: ۶۷)

’’وہی ہے جس نے بنایا تم کو خاک سے پھر پانی کی بوند سے پھر لہو کی پھٹکی سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا مٹی سے، پھر نطفے سے، پھر خون کی ایک پھٹکی سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے‘‘(سید مودودی)

’’وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے‘‘ (احمد رضا خان)

اس آیت میں مترجمین نے عام طور سے تینوں جگہ (من ) کا ترجمہ ’’سے‘‘ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ تیسرے من کا ترجمہ اس طرح ہونا چاہئے: ’’پھروہ پھٹکی بنا‘‘ ۔

(۴) ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً۔ (القیامۃ: ۳۸)

’’پھر تھا لہو کی پھٹکی‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’پھر وہ بنا خون کی ایک پھٹکی‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’پھر خون کی پھٹک ہوا‘‘ (احمد رضا خان)

’’پھر وہ ایک لوتھڑا بنا‘‘ (سید مودودی)

(۵) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ (العلق: ۲)

’’بنایا آدمی لہو کی پھٹکی سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

’’جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے تھکے سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)

’’جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا‘‘ (اشرف علی تھانوی)

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(مئی ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter